کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
لاہور میں پیش آنے والا ایسا سانحہ جس کے نتیجے میں مسجدکی پہلی صف میں کھڑے 24نمازیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی
ہم نے سلیمان کی ماںکو گریۂ اورگھرکے مردوں سے جگرگوشے کو واپس لانے کا مطالبہ کرتے دیکھا۔غم اورفرسٹریشن کے عالم میں امام مسجد کی بیوی سے فرطِ جذبات میں یہ کہتے سنا کہ میرا بیٹاآپ کی مسجد میں نمازپڑھنے گیاتھا، اس لیے میں آپ سے لوں گی۔
سلیمان کے بارے میں اہل محلہ کی رائے ہے کہ وہ نہایت شریف النفس،پڑھائی میں تیزاوربیبا لڑکا تھا۔اپنے کام سے مطلب رکھنے والاجس کو روش عام کے مطابق زمانے کی ہوانہ لگی تھی۔ سلیمان کے ہمسائے خلیل احمد نے بتایاکہ جب رات میں بجلی چلی جاتی اوروہ چھت پرموم بتی کی روشنی میں پڑھتا نظرآتا تو وہ اپنے بچوں سے کہتا کہ دیکھو!پڑھنے والے بچے ایسے ہوتے ہیں۔شوق اسے انجینئربننے کا تھا۔ اگر موت اسے مہلت دے دیتی تو وہ اپنے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرلیتا۔
ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لینے کے تین دن بعد ایف ایس سی کا رزلٹ آیاتو 898نمبراس کے آئے جومجموعی نمبروں کا 81.63 فیصد بنتے ہیںمگر اب یہ نمبرکسی کام کے نہیںکہ اجل نے اسے اس جگہ آلیاجسے ماں کی گود کے بعد سب سے محفوظ جگہ تصورکیاجاتاہے۔عام حالات میں امتحان میں کامیابی کی خوشی منائی جاتی،دوست رشتہ دارمبارکباد دیتے لیکن معاملہ اس کے الٹ رہا اوراب کی بار نتیجے نے اہل خانہ کے زخم ہرے کردیے۔
سلیمان کے گھرسے ایک جنازہ اس کے دادا کا بھی تواٹھا ہے، جس کا نام خوشی تھا لیکن سب کو غم دے کروہ تہہ خاک جاسویا۔خوش مزاجی اس کی فطرت کا حصہ تھی،جس کو اس موقع پررہ رہ کریاد کیا گیا ۔خوشی محمد کی اہلیہ اورسلیمان کی دادی سلیمہ بی بی کی آنکھیں تواس قیامت کے گزرنے سے پہلے بھی پرنم ہی رہتیںکہ کچھ عرصہ قبل بیٹی کی موت کا چرکا اسے لگا،اب اس بیمار خاتون پرغم کا یہ کوہ گراں ٹوٹ پڑا۔سلیمان کا والد محمد ریاض بھی مسجد میں موجود تھا۔ ملبے تلے وہ اس بری طرح سے دھنس گیا کہ ذہنی طورپر موت کوگلے لگانے کے لیے تیارتھا مگرپھرقسمت نے یاوری کی اوروہ سلامت رہا۔
محمد عرفان جیسا نیک نفس بھی جاں سے گزرا، جو ایسے لوگوں میں شمارکئے جانے کے لائق تھا جوعمربھرکسی سے الجھتے نہیں اورسرجھکا کرزندگی بتا دیتے ہیں۔شادی کو دس برس گزرنے پربھی اولاد نہ ہونے پر وہ افسردہ رہتا۔ روزگارکے لیے اس نے بڑے کشٹ اٹھائے۔باہرگیابھی توسیٹ نہ ہوسکا۔اب اپنی گاڑی خرید کرکسی فیکٹری میں لگارکھی تھی، جس سے ہونے والے آمدن سے گھرکا چولہا جلتا۔عام طورسے وہ شام ڈھلے گھرلوٹتا لیکن 9 ستمبر کو قضااسے کھینچ کردوپہرہی کو داروغہ والا لے آئی۔ گھر جانے سے قبل ہی وہ مسجد پہنچا تاکہ باجماعت نمازادا کرسکے۔
اس کی والدہ قیامت گزرنے کے بعد آس پاس کے گھروں میں جاکران لوگوں سے ہمدردی ظاہرکرتی رہی جن کے پیاروں کی نعشیںملبے تلے دبی تھیں، ان میں مگر اپنے لخت جگرکی بھی نعش ہے، یہ بات اس کے حاشیہ خیال میں نہیں تھی۔عرفان جب معمول کے وقت پرگھر نہ پہنچا تو گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ موبائل فون ملایا اورجب وہ بند ملا توتشویش بڑھی۔فیکٹری سے پتا کیا تو بتایا گیا کہ وہ توآج دوپہرکو ادھرسے چلا آیا تھا۔ اور پھر ہسپتال سے تصدیق ہوگئی کہ وہاں آنے والی نعشوں میں ایک نعش محمد عرفان کی بھی ہے۔اس کی ایک رشتہ دارخاتون شاہین نے بتایاکہ چہرہ اس کا نیلاپڑچکا تھااوریقین نہ آتاکہ یہ عرفان ہے۔
عشرت علی پابندصوم وصلوٰۃ ہیں۔ان کابیٹا حماس بھی چھوٹی سی عمرمیں پنج وقتہ نمازی بن گیا۔اس دن اسکول سے آتے پہلی فرصت میں نمازپڑھنے چلا گیا اور پھر چوتھی جماعت کے اس طالب علم کو جیتے جاگتے گھر پلٹنا نصیب نہ ہوا۔محمد علی سلیم آٹھویں جماعت میں پڑھتاتھااوراس نے بھی اسکول سے آکرفوراً مسجد کا رخ کیا۔اس کے غم میںسب سوگوارہیں مگرچھوٹی بہن کے لیے صبرکرنا اوروں سے دشوارہے، اور وہ بھائی کے بستے اورکتابوں کو چوم چوم کراسے یاد کرتی ہے۔
چھوٹا بھیا، مسجد کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ بھائی! ادھرنمازپڑھنے گیاتھا مگرواپس نہیں آیا۔علی کا چھوٹا بھائی بھی اس حادثے میں زخمی ہوا جبکہ ایک بھائی ابھی نمازکے لیے جانے کی تیاری کررہا تھا کہ حادثہ ہوگیا۔ ملک مظفرخاں کے بیٹے نوازش کو جب حادثے کی خبرملی توبھاگم بھاگ مسجد پہنچا اوردیوانہ وارملبہ ہٹانے لگا، مقدور بھر کوشش اس نے کی مگرمعاملہ اس کے بس سے باہرکا تھا،اس کے والد کی نعش کا ملبے سے برآمد ہونا واقعہ گزرنے کے تقریباً دس گھنٹے بعد ہی ممکن ہوسکا۔
نوازش نے بتایاکہ اس کا بیٹا طیب جو ابھی پہلی جماعت میں ہے،دادا کے ساتھ فجر کے سوا چاروں نمازوں کے لیے ساتھ جاتا،اس دن اسکول سے آتے ہی مسجد جانے کو تیارہوگیالیکن ماں نے کہاکہ یونیفارم بدل کر، نہا دھوکرجانا ،بچے نے ماں کا کہا مان لیا ،اس اثنا میں ناگہانی ہوگئی اوریوں یہ بچہ مامون ومحفوظ رہا۔الیکٹریشن محمد خالد،جس کی شادی کوابھی ڈھائی تین ماہ ہوئے تھے،قریبی فیکٹری میں ملازم اپنے دوست فرید اور ساتھی الیکٹریشن محمد اصغر کے ساتھ نمازپڑھنے گیا۔ زندگانی کے سفرمیں تو یہ تینوں ساتھ ساتھ تھے ہی مگرکون جانتاتھا سفرِآخرت پربھی اکٹھے روانہ ہوں گے۔حمزہ میٹرک کا طالب علم تھا۔
جمعہ کے روز اس نے مسجد کے خطیب محمد عثمان سیالوی کو مولانا الیاس قادری کی ''وسائل بخشش'' تحفتہً دی تھی، اوراب اس کی اپنی بخشش کا وسیلہ یہ حادثہ بن گیا۔محمد عثمان سیالوی جو پیش امام کے بڑے بیٹے ہیں،ان کے بقول'' ظہر کی نمازکے لیے وقت نکالنا باقی نمازوں کی بہ نسبت تھوڑا زیادہ دقت طلب ہے،طلباء پڑھائی سے فارغ ہوکرتھکے ہارے گھرپہنچتے ہیں،کسی کو کام کاج کے دوران جو تھوڑا وقت میسرآتا ہے وہ اسے کھانا کھانے یا کمرسیدھی کرنے کا بہانہ جانتا ہے،اورلوگ بھی اپنے کام میں منہمک ہوتے ہیں،ہمارے ہاںسال بھرمیں زیادہ ترگرمی رہتی ہے جو ظہرکے وقت عروج پرہوتی ہے، ان سب باتوں کے پیش نظرمیرے خیال میں ظہرکی نماززیادہ قربانی مانگتی ہے اوراس میں زیادہ ترپکے نمازی ہی شریک ہوتے ہیں۔''
حافظ محمدادریس جس کی دی گئی اذان پرہی سب نمازی آن جمع ہوئے تھے،وہ بھی لقمۂ اجل بن گیا۔یہ نوجوان بچوں کو مسجد میں اورگھروں میں جاکرقرآن مجید پڑھاتا۔ظہرکے بعد اس نے جن کو پڑھانے جانا تھا وہ بچے انتظارکرتے رہ گئے اوران کا استاد وہاں چلا گیا جہاں سے لوٹ کرکبھی کوئی نہیں آیا۔ادریس کے بڑے بھائی نے بتایاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کاارادہ باندھ رہا تھااوراس نے کتابیں خریدنے کے لیے اس سے پیسے بھی مانگے تھے۔محمد ادریس کی نعش دیکھنے والے احتشام جامی نے بتایا کہ اس کا چہرہ سوجا ہوا تھااوراس کے دائیں اوربائیں کھڑے ہوکرتواس کی صورت بھی پہچانی نہ جاتی، صرف سامنے سے دیکھنے میں ہی وہ پہچان میں آتا۔
اس قافلۂ شہیداں میں اعجازدرزی بھی شامل ہے جس کے استادعاصم نے بتایا کہ وہ دس گیارہ برس سے اس کے ہاں کام کررہا تھااور اپنے کام میں پورا اورقابل بھروسہ لڑکا تھا۔منگنی اس کی ہوئی تھی اورشادی کی منصوبہ بندی وہ کررہا تھا۔اس نیک اطوارکی بہن کو ہم نے خاک کے ڈھیر پر زار زار روتے دیکھا۔سانحہ داروغہ والا میں جان کی بازی ہارجانے والوں میںسے ایک شخص کا چہرہ پہچان میں نہ آتا تھا،جس سے یہ لگا کہ شاید ہسپتال والے غلطی سے ان صاحب کو سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں میں شمارکررہے ہیں لیکن یہ عقدہ بھی حل ہوگیا اور معلوم ہوا کہ نارووال کا یہ باسی محمد یوسف مقامی بینک میں سکیورٹی گارڈ تھا۔
ماسٹر حمید کے جانے کا غم ان کے اہلخانہ کے ساتھ شاگردوں کوبھی رہا۔محلے داروں کوان کا لہک لہک کرشعرسنانا تادیریاد رہے گا۔ ضیاء الحق نقشبندی ٹیلی فون کے محکمے میں رہے۔علامہ طاہرالقادری کے ارادت مند تھے۔اہل محلہ میں ان کی پہچان کا خاص حوالہ یہ رہاکہ وہ میلاد کی بزم آراستہ کرتے، اب جبکہ وہ بزم جہاں سے ہی چلے گئے تو ان کے احباب کی ذمہ داری ہے کہ اس خوبصورت روایت کو زندہ رکھیں۔ حدیث میں بہترین مسلمان اس شخص کو قراردیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے محفوظ رہیں تو مختار احمد بھی ایسی ہی ہستی تھے،جن کا جانا سب کو اداس کرگیا۔
یہ شہادت کا درجہ پانے والوں میں سے 16 افراد کا جستہ جستہ ذکر ہے۔ باقیوں کے بارے میں بھی ایسے ہی دلخراش اورپرسوزتاثرات سننے کوملے۔ آخرمیں ذکرمسجد کے پیش امام قاری غلام نبی سیالوی کا جو شہید ہونے والے مقتدیوں کی امامت کررہے تھے۔ وہ معجزانہ طورپراس حادثے میں بال بال بچے۔پل بھرمیں یہ جو سب ہوگیا،ان کاآنکھوں دیکھا ہے۔مضبوط اعصاب کے مالک ہیں'اس لیے اوسان خطانہ ہوئے۔مسجد کے ساتھ ان کا ملحقہ مکان بری طرح متاثر ہوااوراس بھرے پرے گھرکے مکینوں کوہنگامی حالت میں ادھرسے نکلنا پڑااوروہ اپنے محلے میں ہی مہاجرین ہوکررہ گئے۔
چارعشروں سے جامعہ مسجد حنفیہ سے وابستہ قاری غلام نبی سیالوی کے گیارہ بچے اس عام سی وضع کے مکان میں پروان چڑھے۔ قاری صاحب کی اپنے عقیدے سے گہری وابستگی ضرورہے ،پر دنیاوی تعلیم سے انھیں نفور نہیں،یہی وجہ ہے کہ محدود وسائل کے باوجود انھوں نے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر اٹھانہیںرکھی۔ صرف دوبچوں کی تعلیمی میدان میں تگ وتازکا بتادیتے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کو ان کے گھرانے میں کس قدراہمیت حاصل ہے۔ ان کاایک بیٹا ہمایوں بلال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی کے بعدجرمنی میں تعلیم حاصل کررہا ہے توبڑی بیٹی طاہرہ سلطانہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کیاہے۔باقی بچے بھی اسی راہ پرگامزن ہیں۔
جامع مسجد حنفیہ نشتر ٹائون میں 9 ستمبرکو ظہر کی نمازکے لیے پیش امام قاری غلام نبی سیالوی نے تکبیرتحریمہ پڑھی اور مقتدیوں نے ابھی ہاتھ باندھے ہی تھے کہ چھت سے آوازآئی، جو پہلی چھت کے دوسری پرگرنے کی تھی، کچھ توقف کے بعد نیچے کی چھت اس کا بوجھ سہارنہ سکنے پرنمازیوں پرآگری۔ لینٹر کی زد میں امام کے دائیں جانب کے نمازی آئے اور سب کے سب شہید ہوگئے جبکہ بائیں طرف والے مقتدی زخمی ہوئے۔ چھت گری تواس کی آواز نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ گردوغبار اس قدر اٹھا کہ کچھ سجھائی نہ دیتا۔
مسجد کے اندر سے چیخ پکار کی آواز سن کر لوگ دوڑے دوڑے مدد کو پہنچے اور ان کے لئے اطلاعات کے مطابق گیارہ افراد کو ملبے سے نکالنا ممکن ہو سکا۔باقی نمازی ملبے میں پس کررہ گئے تھے۔ انھیں امدادی ٹیموں کی مدد کے بغیربرآمد کرنا ممکن نہ تھا،لیکن جب تک وہ آنہ گئیں ادھرموجود لوگ اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہے۔ کہرام کے مچنے کا سنا ضرور تھامگراس کی عملی صورت گری اس دن دیکھی۔
جائے حادثہ کے قرب وجوار میں خلقت اس قدرتھی کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔دب جانے والوں کے زندہ بچنے کا امکان خاصا معدوم تھا مگرساتھ میں یہ آس بھی تھی، شاید کوئی معجزہ ہوجائے اورکچھ لوگ زندہ سلامت نکل ہی آئیں لیکن شاید وہ دن معجزوں کا تھا ہی نہیں، اس لیے ملبے کے ڈھیرسے جو کوئی بھی نکلا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
ایمبولینس جب ہوٹربچاتی میت کو ہسپتال لیجانے کے لیے روانہ ہوتی توسینوں پرآراسا چل جاتا۔مسجدکے اردگرد کے مکانات کی چھتوںپرلوگ چڑھ کرامدادی کارروائیاں دیکھ رہے تھے۔میڈیاکے نمائندے اپنے کام میں مگن تھے۔رات تین بجے کہیں جاکر سب نعشوں کا نکالاجانا ممکن ہوا۔فضاسوگواراوراداس تھی۔
ابھی تو یہ نعشوں کے ہسپتال جانے پرتھا اورجب ان کی واپسی ہوئی تورقت کے مناظردوسرے تھے اوراس قصۂ غم کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جب گھروں سے جنازے اٹھے، اس موقع پرخواتین کی آہ وبکا بڑے بڑے پتھر دلوں کو موم کر دینے والی تھی ۔وہ بازار جس میں یہ مسجد تھی، وہاں ہر دوسری گلی سے جنازہ اٹھا اور جوں جوں جنازے آگے بڑھتے گئے انھیں کندھا دینے کے لیے لوگ امڈتے آئے، اوراب صورت یہ تھی کہ کندھا دینے والے اس سے بے خبرتھے کہ کس کی میت کو وہ کندھادے رہے ہیں۔
جی ٹی روڈ پرجب اجتماعی نمازجنازہ ہوئی تو تاحد نگاہ سرہی سرنظرآتے تھے۔مومن پورہ قبرستان میں سب سے دردناک منظرہمیں وہ لگاجب ایک ہی رو میں کئی قبروں میں میتوں کواترتے دیکھا۔تدفین کے بعد سب اداس دلوں اوربوجھل قدموں کے ساتھ جانے والوں کویاد کرتے گھروں کولوٹے تومحلے کی فضا میں ابھی تک گہری اداسی چھائی تھی۔
مسجد کی چھت گرنے سے جو لوگ اس دنیا میں نہیں رہے ان کے شہید ہونے کے بارے میں کلام نہیں۔وہ توبخشی روحیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ناقص تعمیراتی میٹریل، مسجد کی تعمیروتوسیع کے ضمن میں غلط منصوبہ بندی،کسی ماہرتعمیرات سے مشورہ نہ کرنے سمیت جو عوامل حادثے کا باعث بنے ، ان پربات نہ ہو اورذمہ داروں کا تعین نہ کیا جائے۔کیا مساجد پرطالبان کے خود کش حملوں کی ہم سب مذمت نہیں کرتے رہے جبکہ ان کے عمل کے نتیجے بھی میںجاں سے گزرنے والے شہید ہی ہوتے تھے۔بے گناہ مرنے والے تو شہید ہیں لیکن اس سارے کے پیچھے جو عمل ہے اس کو تو معرض بحث میں لایا جاسکتا ہے۔
اس سے ہٹ کرمثال لے لیں۔نشے میں دھت ٹرک ڈرائیور، جس کے پاس لائسنس نہیں ،ہیڈلائٹس اس کی خراب ہیں،ون وے کی وہ خلاف ورزی کررہا ہے ، اوروہ چارپانچ راہ گیروں کو کچل دیتاہے تووہ بیچارے تو واصل بحق ہوں گے لیکن اس ڈرائیورکی تادیب بھی کسی قاعدے قانون کے تحت ہوگی یا نہیں؟حادثے کے بعد حکومتی اداروں نے بڑی جاں فشانی سے کام کیا۔سیاستدان بھی بھاگتے پھرتے نظرآئے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے دورہ کیا۔امدادی رقم کا اعلان کیا۔یہ سب لائق تحسین سہی مگربات یہ ہے حکومت کا کام کسی حادثے کے بعد محض پھرتیاں دکھانا نہیں بلکہ اسے روکنے کی ہرممکن تدبیر اور دیرپا منصوبہ بندی کرنا ہوتا ہے۔
قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔مثلاً جب کسی خاتون سے ریپ ہوتاہے تو وزیراعلیٰ اس سے ہمدردی کے لیے پہنچتے ہیں،لیکن ایسے واقعات میں کمی پھربھی نہیں آتی ۔اس سب کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کا ظالمانہ نظام بدستورموجود رہتا ہے، تھانہ بکتارہتا ہے،جب تک نظام نہیں بدلیں گے' خالی دوروں اور تصویر کشی سے کچھ نہیں ہوگا۔گذشتہ دورکے اختتام پر شہبازشریف نے تھانہ کلچرتبدیل نہ ہونے پرمعذرت کرلی تھی، آثار بتاتے ہیں انھیں اپنے اس دور حکومت کے خاتمے پربھی اپنا پرانا بیان ہی دہرانا پڑے گا۔زیربحث معاملہ کو ہی لیجیے۔
عمارتیں پہلے بھی زمیں بوس ہوئی ہیں، لیکن کیا اس سلسلے میں جامع پالیسی بنائی گئی اوراگربنائی گئی تو کیا اس پرعمل درآمد ہوسکا۔جامعہ مسجد حنفیہ کی تعمیر اگرماہرین تعمیرات کی آرا کی روشنی میں اور بلڈنگ لازکو ملحوظ رکھ کر ہوتی تواس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔مگراس وقت کسی نے پروا نہیں کی اوراب اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اصول یہ ہے کہ کسی ملک میں تعمیرات کا کام ریاستی قوانین کے تابع رہ کرہوتا ہے' خواہ کسی کا ذاتی مکان ہی کیوں نہ ہولیکن ایسی تعمیرات میں حکومت اورمتعلقہ اداروں کی ذمہ داری اوربڑھ جاتی ہے،جنھیں کمیونٹی کے لوگوںنے مشترکہ طورپراستعمال میں لانا ہو ۔ہمارے ملک میں انسانی جان کی قدروقیمت اس لیے نہیں کہ یہاں پربڑی سے بڑی غفلت، بدعنوانی اورذاتی مفادات کے لیے اجتماعی مفادات پرسمجھوتہ پرسزا کا کوئی تصورموجودنہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آیندہ مساجد کی تعمیروتوسیع کے ضمن میں قانون کی پاسداری کویقینی بنائے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔
سلیمان کے بارے میں اہل محلہ کی رائے ہے کہ وہ نہایت شریف النفس،پڑھائی میں تیزاوربیبا لڑکا تھا۔اپنے کام سے مطلب رکھنے والاجس کو روش عام کے مطابق زمانے کی ہوانہ لگی تھی۔ سلیمان کے ہمسائے خلیل احمد نے بتایاکہ جب رات میں بجلی چلی جاتی اوروہ چھت پرموم بتی کی روشنی میں پڑھتا نظرآتا تو وہ اپنے بچوں سے کہتا کہ دیکھو!پڑھنے والے بچے ایسے ہوتے ہیں۔شوق اسے انجینئربننے کا تھا۔ اگر موت اسے مہلت دے دیتی تو وہ اپنے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرلیتا۔
ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لینے کے تین دن بعد ایف ایس سی کا رزلٹ آیاتو 898نمبراس کے آئے جومجموعی نمبروں کا 81.63 فیصد بنتے ہیںمگر اب یہ نمبرکسی کام کے نہیںکہ اجل نے اسے اس جگہ آلیاجسے ماں کی گود کے بعد سب سے محفوظ جگہ تصورکیاجاتاہے۔عام حالات میں امتحان میں کامیابی کی خوشی منائی جاتی،دوست رشتہ دارمبارکباد دیتے لیکن معاملہ اس کے الٹ رہا اوراب کی بار نتیجے نے اہل خانہ کے زخم ہرے کردیے۔
سلیمان کے گھرسے ایک جنازہ اس کے دادا کا بھی تواٹھا ہے، جس کا نام خوشی تھا لیکن سب کو غم دے کروہ تہہ خاک جاسویا۔خوش مزاجی اس کی فطرت کا حصہ تھی،جس کو اس موقع پررہ رہ کریاد کیا گیا ۔خوشی محمد کی اہلیہ اورسلیمان کی دادی سلیمہ بی بی کی آنکھیں تواس قیامت کے گزرنے سے پہلے بھی پرنم ہی رہتیںکہ کچھ عرصہ قبل بیٹی کی موت کا چرکا اسے لگا،اب اس بیمار خاتون پرغم کا یہ کوہ گراں ٹوٹ پڑا۔سلیمان کا والد محمد ریاض بھی مسجد میں موجود تھا۔ ملبے تلے وہ اس بری طرح سے دھنس گیا کہ ذہنی طورپر موت کوگلے لگانے کے لیے تیارتھا مگرپھرقسمت نے یاوری کی اوروہ سلامت رہا۔
محمد عرفان جیسا نیک نفس بھی جاں سے گزرا، جو ایسے لوگوں میں شمارکئے جانے کے لائق تھا جوعمربھرکسی سے الجھتے نہیں اورسرجھکا کرزندگی بتا دیتے ہیں۔شادی کو دس برس گزرنے پربھی اولاد نہ ہونے پر وہ افسردہ رہتا۔ روزگارکے لیے اس نے بڑے کشٹ اٹھائے۔باہرگیابھی توسیٹ نہ ہوسکا۔اب اپنی گاڑی خرید کرکسی فیکٹری میں لگارکھی تھی، جس سے ہونے والے آمدن سے گھرکا چولہا جلتا۔عام طورسے وہ شام ڈھلے گھرلوٹتا لیکن 9 ستمبر کو قضااسے کھینچ کردوپہرہی کو داروغہ والا لے آئی۔ گھر جانے سے قبل ہی وہ مسجد پہنچا تاکہ باجماعت نمازادا کرسکے۔
اس کی والدہ قیامت گزرنے کے بعد آس پاس کے گھروں میں جاکران لوگوں سے ہمدردی ظاہرکرتی رہی جن کے پیاروں کی نعشیںملبے تلے دبی تھیں، ان میں مگر اپنے لخت جگرکی بھی نعش ہے، یہ بات اس کے حاشیہ خیال میں نہیں تھی۔عرفان جب معمول کے وقت پرگھر نہ پہنچا تو گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ موبائل فون ملایا اورجب وہ بند ملا توتشویش بڑھی۔فیکٹری سے پتا کیا تو بتایا گیا کہ وہ توآج دوپہرکو ادھرسے چلا آیا تھا۔ اور پھر ہسپتال سے تصدیق ہوگئی کہ وہاں آنے والی نعشوں میں ایک نعش محمد عرفان کی بھی ہے۔اس کی ایک رشتہ دارخاتون شاہین نے بتایاکہ چہرہ اس کا نیلاپڑچکا تھااوریقین نہ آتاکہ یہ عرفان ہے۔
عشرت علی پابندصوم وصلوٰۃ ہیں۔ان کابیٹا حماس بھی چھوٹی سی عمرمیں پنج وقتہ نمازی بن گیا۔اس دن اسکول سے آتے پہلی فرصت میں نمازپڑھنے چلا گیا اور پھر چوتھی جماعت کے اس طالب علم کو جیتے جاگتے گھر پلٹنا نصیب نہ ہوا۔محمد علی سلیم آٹھویں جماعت میں پڑھتاتھااوراس نے بھی اسکول سے آکرفوراً مسجد کا رخ کیا۔اس کے غم میںسب سوگوارہیں مگرچھوٹی بہن کے لیے صبرکرنا اوروں سے دشوارہے، اور وہ بھائی کے بستے اورکتابوں کو چوم چوم کراسے یاد کرتی ہے۔
چھوٹا بھیا، مسجد کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ بھائی! ادھرنمازپڑھنے گیاتھا مگرواپس نہیں آیا۔علی کا چھوٹا بھائی بھی اس حادثے میں زخمی ہوا جبکہ ایک بھائی ابھی نمازکے لیے جانے کی تیاری کررہا تھا کہ حادثہ ہوگیا۔ ملک مظفرخاں کے بیٹے نوازش کو جب حادثے کی خبرملی توبھاگم بھاگ مسجد پہنچا اوردیوانہ وارملبہ ہٹانے لگا، مقدور بھر کوشش اس نے کی مگرمعاملہ اس کے بس سے باہرکا تھا،اس کے والد کی نعش کا ملبے سے برآمد ہونا واقعہ گزرنے کے تقریباً دس گھنٹے بعد ہی ممکن ہوسکا۔
نوازش نے بتایاکہ اس کا بیٹا طیب جو ابھی پہلی جماعت میں ہے،دادا کے ساتھ فجر کے سوا چاروں نمازوں کے لیے ساتھ جاتا،اس دن اسکول سے آتے ہی مسجد جانے کو تیارہوگیالیکن ماں نے کہاکہ یونیفارم بدل کر، نہا دھوکرجانا ،بچے نے ماں کا کہا مان لیا ،اس اثنا میں ناگہانی ہوگئی اوریوں یہ بچہ مامون ومحفوظ رہا۔الیکٹریشن محمد خالد،جس کی شادی کوابھی ڈھائی تین ماہ ہوئے تھے،قریبی فیکٹری میں ملازم اپنے دوست فرید اور ساتھی الیکٹریشن محمد اصغر کے ساتھ نمازپڑھنے گیا۔ زندگانی کے سفرمیں تو یہ تینوں ساتھ ساتھ تھے ہی مگرکون جانتاتھا سفرِآخرت پربھی اکٹھے روانہ ہوں گے۔حمزہ میٹرک کا طالب علم تھا۔
جمعہ کے روز اس نے مسجد کے خطیب محمد عثمان سیالوی کو مولانا الیاس قادری کی ''وسائل بخشش'' تحفتہً دی تھی، اوراب اس کی اپنی بخشش کا وسیلہ یہ حادثہ بن گیا۔محمد عثمان سیالوی جو پیش امام کے بڑے بیٹے ہیں،ان کے بقول'' ظہر کی نمازکے لیے وقت نکالنا باقی نمازوں کی بہ نسبت تھوڑا زیادہ دقت طلب ہے،طلباء پڑھائی سے فارغ ہوکرتھکے ہارے گھرپہنچتے ہیں،کسی کو کام کاج کے دوران جو تھوڑا وقت میسرآتا ہے وہ اسے کھانا کھانے یا کمرسیدھی کرنے کا بہانہ جانتا ہے،اورلوگ بھی اپنے کام میں منہمک ہوتے ہیں،ہمارے ہاںسال بھرمیں زیادہ ترگرمی رہتی ہے جو ظہرکے وقت عروج پرہوتی ہے، ان سب باتوں کے پیش نظرمیرے خیال میں ظہرکی نماززیادہ قربانی مانگتی ہے اوراس میں زیادہ ترپکے نمازی ہی شریک ہوتے ہیں۔''
حافظ محمدادریس جس کی دی گئی اذان پرہی سب نمازی آن جمع ہوئے تھے،وہ بھی لقمۂ اجل بن گیا۔یہ نوجوان بچوں کو مسجد میں اورگھروں میں جاکرقرآن مجید پڑھاتا۔ظہرکے بعد اس نے جن کو پڑھانے جانا تھا وہ بچے انتظارکرتے رہ گئے اوران کا استاد وہاں چلا گیا جہاں سے لوٹ کرکبھی کوئی نہیں آیا۔ادریس کے بڑے بھائی نے بتایاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کاارادہ باندھ رہا تھااوراس نے کتابیں خریدنے کے لیے اس سے پیسے بھی مانگے تھے۔محمد ادریس کی نعش دیکھنے والے احتشام جامی نے بتایا کہ اس کا چہرہ سوجا ہوا تھااوراس کے دائیں اوربائیں کھڑے ہوکرتواس کی صورت بھی پہچانی نہ جاتی، صرف سامنے سے دیکھنے میں ہی وہ پہچان میں آتا۔
اس قافلۂ شہیداں میں اعجازدرزی بھی شامل ہے جس کے استادعاصم نے بتایا کہ وہ دس گیارہ برس سے اس کے ہاں کام کررہا تھااور اپنے کام میں پورا اورقابل بھروسہ لڑکا تھا۔منگنی اس کی ہوئی تھی اورشادی کی منصوبہ بندی وہ کررہا تھا۔اس نیک اطوارکی بہن کو ہم نے خاک کے ڈھیر پر زار زار روتے دیکھا۔سانحہ داروغہ والا میں جان کی بازی ہارجانے والوں میںسے ایک شخص کا چہرہ پہچان میں نہ آتا تھا،جس سے یہ لگا کہ شاید ہسپتال والے غلطی سے ان صاحب کو سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں میں شمارکررہے ہیں لیکن یہ عقدہ بھی حل ہوگیا اور معلوم ہوا کہ نارووال کا یہ باسی محمد یوسف مقامی بینک میں سکیورٹی گارڈ تھا۔
ماسٹر حمید کے جانے کا غم ان کے اہلخانہ کے ساتھ شاگردوں کوبھی رہا۔محلے داروں کوان کا لہک لہک کرشعرسنانا تادیریاد رہے گا۔ ضیاء الحق نقشبندی ٹیلی فون کے محکمے میں رہے۔علامہ طاہرالقادری کے ارادت مند تھے۔اہل محلہ میں ان کی پہچان کا خاص حوالہ یہ رہاکہ وہ میلاد کی بزم آراستہ کرتے، اب جبکہ وہ بزم جہاں سے ہی چلے گئے تو ان کے احباب کی ذمہ داری ہے کہ اس خوبصورت روایت کو زندہ رکھیں۔ حدیث میں بہترین مسلمان اس شخص کو قراردیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے محفوظ رہیں تو مختار احمد بھی ایسی ہی ہستی تھے،جن کا جانا سب کو اداس کرگیا۔
یہ شہادت کا درجہ پانے والوں میں سے 16 افراد کا جستہ جستہ ذکر ہے۔ باقیوں کے بارے میں بھی ایسے ہی دلخراش اورپرسوزتاثرات سننے کوملے۔ آخرمیں ذکرمسجد کے پیش امام قاری غلام نبی سیالوی کا جو شہید ہونے والے مقتدیوں کی امامت کررہے تھے۔ وہ معجزانہ طورپراس حادثے میں بال بال بچے۔پل بھرمیں یہ جو سب ہوگیا،ان کاآنکھوں دیکھا ہے۔مضبوط اعصاب کے مالک ہیں'اس لیے اوسان خطانہ ہوئے۔مسجد کے ساتھ ان کا ملحقہ مکان بری طرح متاثر ہوااوراس بھرے پرے گھرکے مکینوں کوہنگامی حالت میں ادھرسے نکلنا پڑااوروہ اپنے محلے میں ہی مہاجرین ہوکررہ گئے۔
چارعشروں سے جامعہ مسجد حنفیہ سے وابستہ قاری غلام نبی سیالوی کے گیارہ بچے اس عام سی وضع کے مکان میں پروان چڑھے۔ قاری صاحب کی اپنے عقیدے سے گہری وابستگی ضرورہے ،پر دنیاوی تعلیم سے انھیں نفور نہیں،یہی وجہ ہے کہ محدود وسائل کے باوجود انھوں نے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر اٹھانہیںرکھی۔ صرف دوبچوں کی تعلیمی میدان میں تگ وتازکا بتادیتے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کو ان کے گھرانے میں کس قدراہمیت حاصل ہے۔ ان کاایک بیٹا ہمایوں بلال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی کے بعدجرمنی میں تعلیم حاصل کررہا ہے توبڑی بیٹی طاہرہ سلطانہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کیاہے۔باقی بچے بھی اسی راہ پرگامزن ہیں۔
جنازے کو کندھا دینے والے اکثرحضرات اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ جنازہ کس کا ہے
جامع مسجد حنفیہ نشتر ٹائون میں 9 ستمبرکو ظہر کی نمازکے لیے پیش امام قاری غلام نبی سیالوی نے تکبیرتحریمہ پڑھی اور مقتدیوں نے ابھی ہاتھ باندھے ہی تھے کہ چھت سے آوازآئی، جو پہلی چھت کے دوسری پرگرنے کی تھی، کچھ توقف کے بعد نیچے کی چھت اس کا بوجھ سہارنہ سکنے پرنمازیوں پرآگری۔ لینٹر کی زد میں امام کے دائیں جانب کے نمازی آئے اور سب کے سب شہید ہوگئے جبکہ بائیں طرف والے مقتدی زخمی ہوئے۔ چھت گری تواس کی آواز نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ گردوغبار اس قدر اٹھا کہ کچھ سجھائی نہ دیتا۔
مسجد کے اندر سے چیخ پکار کی آواز سن کر لوگ دوڑے دوڑے مدد کو پہنچے اور ان کے لئے اطلاعات کے مطابق گیارہ افراد کو ملبے سے نکالنا ممکن ہو سکا۔باقی نمازی ملبے میں پس کررہ گئے تھے۔ انھیں امدادی ٹیموں کی مدد کے بغیربرآمد کرنا ممکن نہ تھا،لیکن جب تک وہ آنہ گئیں ادھرموجود لوگ اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہے۔ کہرام کے مچنے کا سنا ضرور تھامگراس کی عملی صورت گری اس دن دیکھی۔
جائے حادثہ کے قرب وجوار میں خلقت اس قدرتھی کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔دب جانے والوں کے زندہ بچنے کا امکان خاصا معدوم تھا مگرساتھ میں یہ آس بھی تھی، شاید کوئی معجزہ ہوجائے اورکچھ لوگ زندہ سلامت نکل ہی آئیں لیکن شاید وہ دن معجزوں کا تھا ہی نہیں، اس لیے ملبے کے ڈھیرسے جو کوئی بھی نکلا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
ایمبولینس جب ہوٹربچاتی میت کو ہسپتال لیجانے کے لیے روانہ ہوتی توسینوں پرآراسا چل جاتا۔مسجدکے اردگرد کے مکانات کی چھتوںپرلوگ چڑھ کرامدادی کارروائیاں دیکھ رہے تھے۔میڈیاکے نمائندے اپنے کام میں مگن تھے۔رات تین بجے کہیں جاکر سب نعشوں کا نکالاجانا ممکن ہوا۔فضاسوگواراوراداس تھی۔
ابھی تو یہ نعشوں کے ہسپتال جانے پرتھا اورجب ان کی واپسی ہوئی تورقت کے مناظردوسرے تھے اوراس قصۂ غم کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جب گھروں سے جنازے اٹھے، اس موقع پرخواتین کی آہ وبکا بڑے بڑے پتھر دلوں کو موم کر دینے والی تھی ۔وہ بازار جس میں یہ مسجد تھی، وہاں ہر دوسری گلی سے جنازہ اٹھا اور جوں جوں جنازے آگے بڑھتے گئے انھیں کندھا دینے کے لیے لوگ امڈتے آئے، اوراب صورت یہ تھی کہ کندھا دینے والے اس سے بے خبرتھے کہ کس کی میت کو وہ کندھادے رہے ہیں۔
جی ٹی روڈ پرجب اجتماعی نمازجنازہ ہوئی تو تاحد نگاہ سرہی سرنظرآتے تھے۔مومن پورہ قبرستان میں سب سے دردناک منظرہمیں وہ لگاجب ایک ہی رو میں کئی قبروں میں میتوں کواترتے دیکھا۔تدفین کے بعد سب اداس دلوں اوربوجھل قدموں کے ساتھ جانے والوں کویاد کرتے گھروں کولوٹے تومحلے کی فضا میں ابھی تک گہری اداسی چھائی تھی۔
کوئی بھی واقعہ کبھی تنہا نہیں ہوا۔۔۔ ہرسانحہ اک الجھی ہوئی واردات ہے (مجید امجد)
مسجد کی چھت گرنے سے جو لوگ اس دنیا میں نہیں رہے ان کے شہید ہونے کے بارے میں کلام نہیں۔وہ توبخشی روحیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ناقص تعمیراتی میٹریل، مسجد کی تعمیروتوسیع کے ضمن میں غلط منصوبہ بندی،کسی ماہرتعمیرات سے مشورہ نہ کرنے سمیت جو عوامل حادثے کا باعث بنے ، ان پربات نہ ہو اورذمہ داروں کا تعین نہ کیا جائے۔کیا مساجد پرطالبان کے خود کش حملوں کی ہم سب مذمت نہیں کرتے رہے جبکہ ان کے عمل کے نتیجے بھی میںجاں سے گزرنے والے شہید ہی ہوتے تھے۔بے گناہ مرنے والے تو شہید ہیں لیکن اس سارے کے پیچھے جو عمل ہے اس کو تو معرض بحث میں لایا جاسکتا ہے۔
اس سے ہٹ کرمثال لے لیں۔نشے میں دھت ٹرک ڈرائیور، جس کے پاس لائسنس نہیں ،ہیڈلائٹس اس کی خراب ہیں،ون وے کی وہ خلاف ورزی کررہا ہے ، اوروہ چارپانچ راہ گیروں کو کچل دیتاہے تووہ بیچارے تو واصل بحق ہوں گے لیکن اس ڈرائیورکی تادیب بھی کسی قاعدے قانون کے تحت ہوگی یا نہیں؟حادثے کے بعد حکومتی اداروں نے بڑی جاں فشانی سے کام کیا۔سیاستدان بھی بھاگتے پھرتے نظرآئے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے دورہ کیا۔امدادی رقم کا اعلان کیا۔یہ سب لائق تحسین سہی مگربات یہ ہے حکومت کا کام کسی حادثے کے بعد محض پھرتیاں دکھانا نہیں بلکہ اسے روکنے کی ہرممکن تدبیر اور دیرپا منصوبہ بندی کرنا ہوتا ہے۔
قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔مثلاً جب کسی خاتون سے ریپ ہوتاہے تو وزیراعلیٰ اس سے ہمدردی کے لیے پہنچتے ہیں،لیکن ایسے واقعات میں کمی پھربھی نہیں آتی ۔اس سب کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کا ظالمانہ نظام بدستورموجود رہتا ہے، تھانہ بکتارہتا ہے،جب تک نظام نہیں بدلیں گے' خالی دوروں اور تصویر کشی سے کچھ نہیں ہوگا۔گذشتہ دورکے اختتام پر شہبازشریف نے تھانہ کلچرتبدیل نہ ہونے پرمعذرت کرلی تھی، آثار بتاتے ہیں انھیں اپنے اس دور حکومت کے خاتمے پربھی اپنا پرانا بیان ہی دہرانا پڑے گا۔زیربحث معاملہ کو ہی لیجیے۔
عمارتیں پہلے بھی زمیں بوس ہوئی ہیں، لیکن کیا اس سلسلے میں جامع پالیسی بنائی گئی اوراگربنائی گئی تو کیا اس پرعمل درآمد ہوسکا۔جامعہ مسجد حنفیہ کی تعمیر اگرماہرین تعمیرات کی آرا کی روشنی میں اور بلڈنگ لازکو ملحوظ رکھ کر ہوتی تواس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔مگراس وقت کسی نے پروا نہیں کی اوراب اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اصول یہ ہے کہ کسی ملک میں تعمیرات کا کام ریاستی قوانین کے تابع رہ کرہوتا ہے' خواہ کسی کا ذاتی مکان ہی کیوں نہ ہولیکن ایسی تعمیرات میں حکومت اورمتعلقہ اداروں کی ذمہ داری اوربڑھ جاتی ہے،جنھیں کمیونٹی کے لوگوںنے مشترکہ طورپراستعمال میں لانا ہو ۔ہمارے ملک میں انسانی جان کی قدروقیمت اس لیے نہیں کہ یہاں پربڑی سے بڑی غفلت، بدعنوانی اورذاتی مفادات کے لیے اجتماعی مفادات پرسمجھوتہ پرسزا کا کوئی تصورموجودنہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آیندہ مساجد کی تعمیروتوسیع کے ضمن میں قانون کی پاسداری کویقینی بنائے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔