مڈل کلاس کا راگ ملہار
جمہوریت کے ثمرات سے جھولیاں بھرنے والوں کو اس حقیقت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے ...
عمران خان اور طاہر القادری کی تحریک کے خلاف ہماری سیاسی اشرافیہ نے جو ہتھیار استعمال کیا وہ ہے ''جمہوریت''۔ دھرنوں کے شرکا کی تعداد اور ان کے جوش و خروش میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا رہا سیاسی اشرافیہ کے ''جمہوریت بچاؤ'' نعروں میں اسی شدت سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جعلی ووٹوں، دھاندلی، بددیانتی اور دولت کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کی پہلی ترجیح انتخابی مہم پر کی گئی سرمایہ کاری کی مع سود واپسی ہوتی ہے۔
چونکہ حکمران طبقے کو یہ احساس رہتا ہے کہ اراکین اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لیے الیکشن پر کی گئی سرمایہ کاری کی مع سود واپسی ضروری ہے سو وہ ان اراکین کو لوٹ مار کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ خود لوٹ مار کے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ ان مواقعوں میں سے ایک انتہائی جائز موقع بلدیاتی بجٹ کا وہ فنڈ ہوتا ہے جو کروڑوں روپوں کی شکل میں اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی کام کروانے کے نام پر دیا جاتا ہے۔ اس فنڈ کو معزز اراکین کس طرح استعمال کرتے ہیں، یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس سے ملک کے 20 کروڑ عوام واقف ہیں۔
جمہوریت کے ثمرات سے جھولیاں بھرنے والوں کو اس حقیقت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے جمہوریت کا جاری رہنا ضروری ہے، سو دھرنوں کی طاقت نے انھیں جمہوریت کے چھن جانے کے ایسے خوف میں مبتلا کر دیا کہ یہ سارے عاشقان جمہوریت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہو گئے اور ایک ہی لے، ایک ہی سر میں جمہوریت بچاؤ کا واویلاکر رہے ہیں۔
جمہوریت کو لاحق خطرات سے بچنے کے لیے وہ مثالی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ اجلاس اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جمہوریت خطرے میں رہے گی۔ اس تاریخی اجلاس میں جن تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا گیا اس کا واحد موضوع اور ہدف ''دھرنے'' تھا، ہر مقرر کی کوشش یہی رہتی کہ عمران خان، قادری اور دھرنوں کے خلاف جتنی بدزبانی ہو سکے کریں اور اس حوالے سے جو مقرر جتنی زیادہ بہادری دکھاتا اتنی ہی زیادہ داد پاتا رہا۔
ہماری سیاسی اشرافیہ کی نفسیات پر ہر وقت دو تلواریں لٹکتی رہتی ہیں ایک عوام کی طاقت کی تلوار اور دوسری فوجی مداخلت کی تلوار۔ موجودہ بحران کے دوران دھرنوں کی قیادت کی کمزور منصوبہ بندی کی وجہ سے عوام کی اجتماعی طاقت کا ہماری سیاسی اشرافیہ کو سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن 25-20 ہزار مظاہرین سے بھی ہماری سیاسی اشرافیہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ سوائے نواز شریف کے استعفے کے باقی تمام مطالبات ماننے کی نوید میڈیا کے ذریعے عوام کو دے رہی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے سب سے بڑے مورچے میں سب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ مڈل کلاس کے ان ارکان نے کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انقلابی جدوجہد میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بعض مڈل کلاس اکابرین کے جوش خطابت کا تو عالم یہ تھا کہ وہ جمہوریت دشمنوں کو پارلیمنٹ میں دفن کرنے کا اعلان کر رہے تھے، اس مشترکہ اجلاس کا دوسرا اور بڑا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا تھا کہ جمہوریت پسند سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم ہیں، اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کی طرف نظر ڈالنے کی ہمت نہ کرے۔
اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہو رہا تھا کہ دھرنوں میں ذرا سی شدت آتی تو سیاسی دیوتا دوڑے دوڑے آرمی چیف کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گڑگڑا کر درخواست کرتے کہ حضور ڈی چوک کے باغیوں سے بچانے میں ہماری مدد کریں، خواہ وہ مدد ثالثی کے ذریعے ہو یا اخلاقی امداد کے ذریعے۔ مدد کی یہ درخواست ایک موقع پر اس قدر متنازعہ بن گئی کہ خود اتحادی ناراض ہو گئے۔ لیکن چونکہ مسئلہ مشترکہ مفادات اور جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کا تھا اس لیے ناراض ساتھیوں کو غصہ تھوکنا یا نگلنا پڑ گیا۔
ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کو سیاسی اشرافیہ اور اس کی لاٹھی جمہوریت کے مظالم سے بچانے کی ذمے داری ادا کرنے والی مڈل کلاس اس جنگ میں سیاسی اشرافیہ کا ہر اول بنی ہوئی ہے۔ مڈل کلاس کے اس حصے سے کسی قسم کی شکایت بیکار ہے جس کا ''پیشہ آبا سپہ گری'' ہے۔ لیکن حیرت مڈل کلاس کے اس حصے پر ہے جو جمہوریت کے ہمارے ملک میں کردار کو سمجھے بغیر آنکھ بند کر کے اس کی حمایت کر رہا ہے اور اس کی بقا کو کبھی ملک کی بقا سے جوڑ رہا ہے، کبھی اخلاقی نظام کی سلامتی سے جوڑ رہا ہے، کبھی ترقی سے جوڑ رہا ہے، کبھی اس جمہوری بارات کے دلہا کو مدبر اعظم کا خطاب عطا کر رہا ہے، کبھی ملک و قوم کی ترقی کی علامت قرار دے رہا ہے تو کبھی تاریخ اور ادب کو جمہوری اشرافیہ کی سلامتی کے لیے استعمال کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
عمران خان اور قادری سے ہماری کبھی خواب میں بھی ملاقات نہیں ہوئی، نہ ہم نے انھیں کبھی انقلابی ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا لیکن اشرافیائی جمہوریت کے مظالم کے خلاف جب یہ حضرات لاہور سے ہزاروں انسانوں کے ہجوم کے ساتھ نکلے تو ہم نے اپنی اخلاقی نظریاتی اور طبقاتی ذمے داری سمجھ کر ان کی حمایت کی اور کر رہے ہیں کہ جمہوریت کے ظلم کی اس سیاہ رات میں روشنی کی کوئی کرن تو پھوٹے، اشرافیائی مظالم کے خلاف کوئی تو سڑکوں پر آئے۔
ہماری مڈل کلاس کی بینائی اور دانائی کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ انصاف کے سب سے اونچے محل کے سب سے اونچے منصف پر کھلے عام الزام لگایا جا رہا ہے کہ 2013کے الیکشن میں ہونے والی منظم دھاندلی ان ہی بزرگ کی سربراہی میں ہوئی، الیکشن کمیشن کا ایک مرکزی افسر الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے عوام کو بتا رہا ہے۔ لیکن مڈل کلاس کا کوئی عوام دوست یہ مطالبہ کرتا دکھائی نہیں دیتا کہ اس الزام کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہونا چاہیے۔ بس ہر طرف سے جمہوریت کے راگ ملہار کی آوازیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔
ایک زیرعتاب فوجی آمر کے دور میں عوام کو آٹا 16 روپے کلو، چاول 50 روپے کلو، دالیں 50-60 روپے کلو، گھی تیل 60-65 روپے کلو، سبزیاں 10-15 روپے کلو، گوشت 200 روپے کلو، پھل 50-60 روپے کلو، دودھ 50 روپے کلو دستیاب تھے اور آج کے ملکوتی جمہوری دور میں آٹا 50 روپے کلو، چاول 180 روپے کلو، دالیں 140 روپے کلو، تیل گھی 160-170 روپے کلو، سبزیاں 100-150 روپے کلو گائے کا گوشت 450 روپے کلو پھل 200 روپے کلو ''آسانی سے'' مل رہے ہیں اور جمہوریت کی ان نوازشوں کے خلاف جمہوریت کی حامی مڈل کلاس کی زبان پر کوئی حرف شکایت نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی فرد یا افراد اس ''عوام دوست'' جمہوریت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں تو ان کی مذمت کرنی چاہیے۔
چونکہ حکمران طبقے کو یہ احساس رہتا ہے کہ اراکین اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لیے الیکشن پر کی گئی سرمایہ کاری کی مع سود واپسی ضروری ہے سو وہ ان اراکین کو لوٹ مار کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ خود لوٹ مار کے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ ان مواقعوں میں سے ایک انتہائی جائز موقع بلدیاتی بجٹ کا وہ فنڈ ہوتا ہے جو کروڑوں روپوں کی شکل میں اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی کام کروانے کے نام پر دیا جاتا ہے۔ اس فنڈ کو معزز اراکین کس طرح استعمال کرتے ہیں، یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس سے ملک کے 20 کروڑ عوام واقف ہیں۔
جمہوریت کے ثمرات سے جھولیاں بھرنے والوں کو اس حقیقت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے جمہوریت کا جاری رہنا ضروری ہے، سو دھرنوں کی طاقت نے انھیں جمہوریت کے چھن جانے کے ایسے خوف میں مبتلا کر دیا کہ یہ سارے عاشقان جمہوریت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہو گئے اور ایک ہی لے، ایک ہی سر میں جمہوریت بچاؤ کا واویلاکر رہے ہیں۔
جمہوریت کو لاحق خطرات سے بچنے کے لیے وہ مثالی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ اجلاس اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جمہوریت خطرے میں رہے گی۔ اس تاریخی اجلاس میں جن تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا گیا اس کا واحد موضوع اور ہدف ''دھرنے'' تھا، ہر مقرر کی کوشش یہی رہتی کہ عمران خان، قادری اور دھرنوں کے خلاف جتنی بدزبانی ہو سکے کریں اور اس حوالے سے جو مقرر جتنی زیادہ بہادری دکھاتا اتنی ہی زیادہ داد پاتا رہا۔
ہماری سیاسی اشرافیہ کی نفسیات پر ہر وقت دو تلواریں لٹکتی رہتی ہیں ایک عوام کی طاقت کی تلوار اور دوسری فوجی مداخلت کی تلوار۔ موجودہ بحران کے دوران دھرنوں کی قیادت کی کمزور منصوبہ بندی کی وجہ سے عوام کی اجتماعی طاقت کا ہماری سیاسی اشرافیہ کو سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن 25-20 ہزار مظاہرین سے بھی ہماری سیاسی اشرافیہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ سوائے نواز شریف کے استعفے کے باقی تمام مطالبات ماننے کی نوید میڈیا کے ذریعے عوام کو دے رہی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے سب سے بڑے مورچے میں سب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ مڈل کلاس کے ان ارکان نے کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انقلابی جدوجہد میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بعض مڈل کلاس اکابرین کے جوش خطابت کا تو عالم یہ تھا کہ وہ جمہوریت دشمنوں کو پارلیمنٹ میں دفن کرنے کا اعلان کر رہے تھے، اس مشترکہ اجلاس کا دوسرا اور بڑا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا تھا کہ جمہوریت پسند سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم ہیں، اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کی طرف نظر ڈالنے کی ہمت نہ کرے۔
اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہو رہا تھا کہ دھرنوں میں ذرا سی شدت آتی تو سیاسی دیوتا دوڑے دوڑے آرمی چیف کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گڑگڑا کر درخواست کرتے کہ حضور ڈی چوک کے باغیوں سے بچانے میں ہماری مدد کریں، خواہ وہ مدد ثالثی کے ذریعے ہو یا اخلاقی امداد کے ذریعے۔ مدد کی یہ درخواست ایک موقع پر اس قدر متنازعہ بن گئی کہ خود اتحادی ناراض ہو گئے۔ لیکن چونکہ مسئلہ مشترکہ مفادات اور جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کا تھا اس لیے ناراض ساتھیوں کو غصہ تھوکنا یا نگلنا پڑ گیا۔
ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کو سیاسی اشرافیہ اور اس کی لاٹھی جمہوریت کے مظالم سے بچانے کی ذمے داری ادا کرنے والی مڈل کلاس اس جنگ میں سیاسی اشرافیہ کا ہر اول بنی ہوئی ہے۔ مڈل کلاس کے اس حصے سے کسی قسم کی شکایت بیکار ہے جس کا ''پیشہ آبا سپہ گری'' ہے۔ لیکن حیرت مڈل کلاس کے اس حصے پر ہے جو جمہوریت کے ہمارے ملک میں کردار کو سمجھے بغیر آنکھ بند کر کے اس کی حمایت کر رہا ہے اور اس کی بقا کو کبھی ملک کی بقا سے جوڑ رہا ہے، کبھی اخلاقی نظام کی سلامتی سے جوڑ رہا ہے، کبھی ترقی سے جوڑ رہا ہے، کبھی اس جمہوری بارات کے دلہا کو مدبر اعظم کا خطاب عطا کر رہا ہے، کبھی ملک و قوم کی ترقی کی علامت قرار دے رہا ہے تو کبھی تاریخ اور ادب کو جمہوری اشرافیہ کی سلامتی کے لیے استعمال کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
عمران خان اور قادری سے ہماری کبھی خواب میں بھی ملاقات نہیں ہوئی، نہ ہم نے انھیں کبھی انقلابی ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا لیکن اشرافیائی جمہوریت کے مظالم کے خلاف جب یہ حضرات لاہور سے ہزاروں انسانوں کے ہجوم کے ساتھ نکلے تو ہم نے اپنی اخلاقی نظریاتی اور طبقاتی ذمے داری سمجھ کر ان کی حمایت کی اور کر رہے ہیں کہ جمہوریت کے ظلم کی اس سیاہ رات میں روشنی کی کوئی کرن تو پھوٹے، اشرافیائی مظالم کے خلاف کوئی تو سڑکوں پر آئے۔
ہماری مڈل کلاس کی بینائی اور دانائی کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ انصاف کے سب سے اونچے محل کے سب سے اونچے منصف پر کھلے عام الزام لگایا جا رہا ہے کہ 2013کے الیکشن میں ہونے والی منظم دھاندلی ان ہی بزرگ کی سربراہی میں ہوئی، الیکشن کمیشن کا ایک مرکزی افسر الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے عوام کو بتا رہا ہے۔ لیکن مڈل کلاس کا کوئی عوام دوست یہ مطالبہ کرتا دکھائی نہیں دیتا کہ اس الزام کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہونا چاہیے۔ بس ہر طرف سے جمہوریت کے راگ ملہار کی آوازیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔
ایک زیرعتاب فوجی آمر کے دور میں عوام کو آٹا 16 روپے کلو، چاول 50 روپے کلو، دالیں 50-60 روپے کلو، گھی تیل 60-65 روپے کلو، سبزیاں 10-15 روپے کلو، گوشت 200 روپے کلو، پھل 50-60 روپے کلو، دودھ 50 روپے کلو دستیاب تھے اور آج کے ملکوتی جمہوری دور میں آٹا 50 روپے کلو، چاول 180 روپے کلو، دالیں 140 روپے کلو، تیل گھی 160-170 روپے کلو، سبزیاں 100-150 روپے کلو گائے کا گوشت 450 روپے کلو پھل 200 روپے کلو ''آسانی سے'' مل رہے ہیں اور جمہوریت کی ان نوازشوں کے خلاف جمہوریت کی حامی مڈل کلاس کی زبان پر کوئی حرف شکایت نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی فرد یا افراد اس ''عوام دوست'' جمہوریت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں تو ان کی مذمت کرنی چاہیے۔