جہالت
تیرہ سال کی عمر تک بچوں کا کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ ایک استاد کی کلاس میں سولہ سے زیادہ طالبعلم نہیں ہوتے۔...
لوگوں کا ہجوم قوم میں کیسے بدل جاتا ہے! اور قوم کب تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر کر محض افراد میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس رمز کو جاننے اور ذہن نشین کرنے کے لیے بہت گہرے مراقبہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر حقیقت کتاب کے صفحہ کی مانند سامنے کھلی ہوئی ہے۔ مگر کتاب کے اس کھلے ورق کو پڑھنے کے لیے اخلاص کی عینک کی سخت ضرورت ہے۔ میرے عظیم ملک میں اس نایاب شے کا وجود تقریباً عدم وجود کے برابر ہے۔ خلوص اور دلیل کا نایاب پرندہ تو کب سے اس جنگل سے اڑ چکا ہے۔
یہ جذبہ اب عنقا ہے! صاحبان! عنقا! جو اسم اعظم قوموں کو اصل شعور بخشتا ہے وہ صرف ایک ہے، تعلیم، تعلیم اور صرف تعلیم۔ یہ وہ بادل ہے کہ اگر لوگوں پر برس جائے تو ان کے ذہن، ادراک، وجدان اور دل بدل جاتے ہیں۔ مگر دہائیوں سے ہمارے ملک میں علم کی خشک سالی ہے۔ہاں، دوسری طرف غور کریں، تو جہالت عروج پر ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر جاہل مطلق اور کورا شخص مسند نشین ہے۔ اگر آج کے دربار کو دیکھیے تو درباریوں میں ایک رمز یکساں نظر آئیگی۔ سب نے جہالت کی خلعت، بہت خوبصورت رنگ کروا کر زیب تن کر رکھی ہے۔
یہ خلعت دور سے بہت دیدہ زیب نظر آتی ہے مگر اصل میں جہالت کا لباس ہمارا سب سے بھیانک مسئلہ ہے۔ ہماری قوم تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے۔ کبھی فرقہ کے نام پر، تو کبھی دولت کی چوکھٹ پر۔ تعلیم کے کم یاب ہونے کا جتنا نقصان پاکستان کو پہنچا ہے، شائد ہی کسی اور ملک کو پہنچا ہو۔ مرد ِصحرا، ارشد بٹ کے مطابق ہم"علم دشمن" قوم ہیں۔ میں کافی حد تک اس ناخوشگوار حقیقت کو سچ سمجھتا ہوں۔ اس تمام مشکل صورت حال کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے مگر کسی رہنما کا دھیان اس جانب نہیں جاتا۔
راج نگری میں تعلیم کے متعلق محض تقریریں کیجاتی ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے مناسب وسائل کبھی بھی مہیا نہیں کیے گئے۔ یہ قومی المیہ ہے اور ہم سب برابر کے شریک۔ مگر زیادہ وہ، جو تخت نشین ہیں۔ رعایا کو تو ویسے ہی ہم نے انسان اور جانور کے درمیان کا درجہ دے رکھا ہے۔آپ ملاحظہ فرمائیے، کہ ہم نے اپنے تعلیمی شعبہ کو صرف نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کی حد تک بے توقیر بھی کر ڈالا ہے۔ استاد یعنی ٹیچر کی معاشرہ میں ہم نے کیا "عزت" برقرار رکھی ہے۔ سب کے علم میں ہے۔
گزرا ہے نظر سے ایک عالم
یہ چشم نہیں ہے، نقش پا ہے
(میر درد)
غور فرمائیے، ہمارے صوبائی یا قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم کیا ہے۔ دو فیصد یا تین فیصد۔ کیا اٹھارہ کروڑ عوام کو اتنے قلیل وسائل میں حقیقت میں ہم تعلیم دے سکتے ہیں؟ صاحب! صرف اور صرف لفاظی ہے۔ وہ بھی تخلیق قوت سے عاری۔ زمینی حقائق اور بھی تکلیف دہ ہیں۔ اسکولوں کی دگرگوں حالت، اساتذہ کی قلیل تنخواہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے ہمہ وقت سیاستدانوں اور بابوئوں کے دفتروں کے چکر۔ بخدا یہ سب کچھ بے توقیری سے بھی بڑھ کر ہے۔ صورت حال کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی لفظ نہیں!
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس، جی گھبرا گیا
(میر دردؔ)
خدا کی آخری کتاب میں جابجا علم کے متعلق انمٹ احکامات ہیں۔
کہا خدا مجھے اپنی پناہ میں رکھے کہ میں جاہل بنوں۔ (البقرہ)
وہ جن کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جسکو حکمت ملی اسکو بڑی نعمت ملی اور نصیحت بھی وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (البقرہ)
کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ نصیحت وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (القرآن)
یقین فرمائیے! خدا کی آخری کتاب میں علم کے متعلق اتنی وضاحت سے بیانات ہیں کہ جہالت سے خوف آنے لگتا ہے۔ مگر ہم اجتماعی سطح پر غور تدبر کرنے سے مکمل محروم ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے دنیا کے مختلف ممالک میں تعلیم اور نظام تعلیم پر سنجیدہ تحقیق کرتے ہیں۔ یونیسکو U.N.E.S.C.O نے اس سلسلے میں تعلیم کے تقابلی جائزے کے لیے ایک پیمانہ مرتب کر رکھا ہے اس کا نظام (E.D.I) Educational Development Index ہے۔ اس میں دنیا کے وہ تمام ممالک جنکا نظام تعلیم بہتر یا بہترین ہے، بحث کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ مگر اس کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تمام ممالک جو غیر معیاری تعلیمی نظام کے تحت اپنی رعایا کو تعلیم دینے کا تکلف کر رہے ہیں، وہ بھی مکمل تصدیق کے ساتھ ان کی تجزئیاتی رپورٹس کا حصہ رہتے ہیں۔
دنیا کے وہ دس ممالک جن میں تعلیمی پسماندگی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ایک فہرست کی صورت میںE.D.I کے تناسب سے موجود ہیں۔ اس فہرست میں شامل ہونا کسی بھی ملک کے لیے باعث شرم بھی ہے اور مقام فکر بھی! دنیا کے آخری دس ممالک میں ایک کے علاوہ تمام افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں ہے۔ یہ شرف صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ وہ E.D.I میں 0.656 نمبر حاصل کر کے، اس افسوسناک لسٹ میں شامل ہے۔یہ نائجر، بورکینا فاسو، مالی، سینٹرل افریقن ری پبلک، ایتھوپیا اور ایریٹیریا سے اوپر ہے۔ دنیا کے تعلیمی اعتبار سے پست ترین دس ممالک میں پاکستان کا ہونا ایک انتہائی تکلیف دہ اَمر ہے۔
دعوے دیکھیے، گمان ہوتا ہے کہ ہماری مختلف ادوار کی حکومتوں نے تعلیم کی ترقی کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ عملی طور پر ہم دنیا کے لیے مذاق بن چکے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جسے ہمارے نظام تعلیم کی خرابیاں معلوم نہیں ہیں؟ کسی بھی صاحب نظر سے سرکاری سطح پر اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا حال چھپا ہوا نہیں ہے۔ مگر ہمارے صاحب اختیار لوگوں نے قسم کھار کھی ہے کہ اس اہم ترین شعبے کو نظر انداز کرنے کا مسلسل ریکارڈ قائم رکھنا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ایک نظر نہ آنے والی قومی تعلیمی پالیسی بنا لی ہے جسکا مقصد لوگوں کو جہالت کے سمندر میں ڈبوئے رکھنا ہے۔ باقی صرف اور صرف اخباری بیانات اور لفاظی!
ساؤتھ کوریا اور فن لینڈ وہ خوش قسمت ممالک ہیں جن میں نظام تعلیم بہترین اور اعلیٰ درجہ کا ہے۔ ان ممالک میں استاد کی بے انتہا عزت ہے۔ جہاں بھی استاد کا ذکر آتا ہے، سب لوگوں کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑے کاروباری اور امیر اشخاص کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی نہ کوئی فرد شعبہ تعلیم میں ٹیچر کی حیثیت سے کام ضرور کرے۔ ان کے معاشرہ میں استاد کو سب سے زیادہ قدر و منزلت حاصل ہے۔ آپ جنوبی کوریا اور فن لینڈ کے نظام پر نظر ڈالیے۔ اسکول میں داخلے کی عمر سات سال ہے۔
یعنی سات سال سے چھوٹا بچہ اسکول میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ان معاشروں کے مطابق یہ وہ پہلے اہم ترین سال ہیں جس میں بچوں کو اپنی والدہ اور والد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے کردار کی شروعات ان کے گھر سے ہوتی ہے۔ اسکول کے بچوں کو کوئی ہوم ورک نہیں دیا جاتا۔ ان کے مطابق اگر اسکول کے اساتذہ احسن طریقے سے اپنے طالبعلموں کو تعلیم دے رہے ہیں تو "ہوم ورک" کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آگے چلیے۔
تیرہ سال کی عمر تک بچوں کا کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ ایک استاد کی کلاس میں سولہ سے زیادہ طالبعلم نہیں ہوتے۔ یہ نمبر بھی اوپر والی سطح کا ہے۔ اصل تعداد بارہ تیرہ سے اوپر نہیں جاتی۔ سب سے اہم جزو، اساتذہ کی ہر سطح پر مکمل تربیت کا حکومتی قدم ہے۔ اساتذہ کی ٹریننگ پر ان دونوں ممالک کا غیر معمولی فوکس ہے اور یہ اب اور بڑھتا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں نوجوان لوگوں کا خواب ہوتا ہے کہ یہ تعلیم کے باعزت شعبے سے منسلک ہوں۔
آپ دنیا کے کسی مستند تجزیہ کو اٹھا لیجیے۔ آپ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ سے باہر نکل کر کسی بھی غیر حکومتی ادارے کی رپورٹ پڑھ لیجیے۔ آپ ان کی ایمانداری سے حیران ہو جائینگے۔ آپ Pearson پیئرسن رپورٹ کو دیکھیے۔ وہ تو امریکا کے نظام تعلیم کو بھی مثالی نہیں سمجھتے۔ آپکے لیے شائد یہ اَمر باعث حیرت ہو گا کہ امریکا تعلیمی اعتبار سے دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل نہیں ہے۔ وہ چودھویں14 ویں پوزیشن پر ہے۔ اگر غیر جانبدار تجزیہ کے مطابق امریکی نظام تعلیم بھی بہت زیادہ معیاری نہیں ہے تو اندازہ کیجیے کہ ہم لوگ کہاں کھڑے ہوئے ہیں!
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے استاد کو وہ قدر و منزلت نہیں ملتی، جسکا وہ حقدار ہے! نا ہی اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ وہ فکر معاش کی تنگ گلی سے باہر نکل کر صرف تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے! نہ استاد کے لیے کسی قسم کی کوئی بھی امتیازی سہولت ہے جس سے اس کی زندگی آسان ہو جائے! نہ اس کے پاس سرکاری رہائش ہے! غرضیکہ ہمارا پورا نظام تعلیم ہی ناقدری کا مسلسل شکار ہو چکا ہے! یہ طرز عمل آج بھی ظلم کی حد تک جاری ہے! دراصل ہمیں سچائی سے کام لیتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے عظیم ملک کی اصل حکمران صرف اور صرف جہالت ہے!
یہ جذبہ اب عنقا ہے! صاحبان! عنقا! جو اسم اعظم قوموں کو اصل شعور بخشتا ہے وہ صرف ایک ہے، تعلیم، تعلیم اور صرف تعلیم۔ یہ وہ بادل ہے کہ اگر لوگوں پر برس جائے تو ان کے ذہن، ادراک، وجدان اور دل بدل جاتے ہیں۔ مگر دہائیوں سے ہمارے ملک میں علم کی خشک سالی ہے۔ہاں، دوسری طرف غور کریں، تو جہالت عروج پر ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر جاہل مطلق اور کورا شخص مسند نشین ہے۔ اگر آج کے دربار کو دیکھیے تو درباریوں میں ایک رمز یکساں نظر آئیگی۔ سب نے جہالت کی خلعت، بہت خوبصورت رنگ کروا کر زیب تن کر رکھی ہے۔
یہ خلعت دور سے بہت دیدہ زیب نظر آتی ہے مگر اصل میں جہالت کا لباس ہمارا سب سے بھیانک مسئلہ ہے۔ ہماری قوم تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے۔ کبھی فرقہ کے نام پر، تو کبھی دولت کی چوکھٹ پر۔ تعلیم کے کم یاب ہونے کا جتنا نقصان پاکستان کو پہنچا ہے، شائد ہی کسی اور ملک کو پہنچا ہو۔ مرد ِصحرا، ارشد بٹ کے مطابق ہم"علم دشمن" قوم ہیں۔ میں کافی حد تک اس ناخوشگوار حقیقت کو سچ سمجھتا ہوں۔ اس تمام مشکل صورت حال کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے مگر کسی رہنما کا دھیان اس جانب نہیں جاتا۔
راج نگری میں تعلیم کے متعلق محض تقریریں کیجاتی ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے مناسب وسائل کبھی بھی مہیا نہیں کیے گئے۔ یہ قومی المیہ ہے اور ہم سب برابر کے شریک۔ مگر زیادہ وہ، جو تخت نشین ہیں۔ رعایا کو تو ویسے ہی ہم نے انسان اور جانور کے درمیان کا درجہ دے رکھا ہے۔آپ ملاحظہ فرمائیے، کہ ہم نے اپنے تعلیمی شعبہ کو صرف نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کی حد تک بے توقیر بھی کر ڈالا ہے۔ استاد یعنی ٹیچر کی معاشرہ میں ہم نے کیا "عزت" برقرار رکھی ہے۔ سب کے علم میں ہے۔
گزرا ہے نظر سے ایک عالم
یہ چشم نہیں ہے، نقش پا ہے
(میر درد)
غور فرمائیے، ہمارے صوبائی یا قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم کیا ہے۔ دو فیصد یا تین فیصد۔ کیا اٹھارہ کروڑ عوام کو اتنے قلیل وسائل میں حقیقت میں ہم تعلیم دے سکتے ہیں؟ صاحب! صرف اور صرف لفاظی ہے۔ وہ بھی تخلیق قوت سے عاری۔ زمینی حقائق اور بھی تکلیف دہ ہیں۔ اسکولوں کی دگرگوں حالت، اساتذہ کی قلیل تنخواہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے ہمہ وقت سیاستدانوں اور بابوئوں کے دفتروں کے چکر۔ بخدا یہ سب کچھ بے توقیری سے بھی بڑھ کر ہے۔ صورت حال کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی لفظ نہیں!
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس، جی گھبرا گیا
(میر دردؔ)
خدا کی آخری کتاب میں جابجا علم کے متعلق انمٹ احکامات ہیں۔
کہا خدا مجھے اپنی پناہ میں رکھے کہ میں جاہل بنوں۔ (البقرہ)
وہ جن کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جسکو حکمت ملی اسکو بڑی نعمت ملی اور نصیحت بھی وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (البقرہ)
کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ نصیحت وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (القرآن)
یقین فرمائیے! خدا کی آخری کتاب میں علم کے متعلق اتنی وضاحت سے بیانات ہیں کہ جہالت سے خوف آنے لگتا ہے۔ مگر ہم اجتماعی سطح پر غور تدبر کرنے سے مکمل محروم ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے دنیا کے مختلف ممالک میں تعلیم اور نظام تعلیم پر سنجیدہ تحقیق کرتے ہیں۔ یونیسکو U.N.E.S.C.O نے اس سلسلے میں تعلیم کے تقابلی جائزے کے لیے ایک پیمانہ مرتب کر رکھا ہے اس کا نظام (E.D.I) Educational Development Index ہے۔ اس میں دنیا کے وہ تمام ممالک جنکا نظام تعلیم بہتر یا بہترین ہے، بحث کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ مگر اس کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تمام ممالک جو غیر معیاری تعلیمی نظام کے تحت اپنی رعایا کو تعلیم دینے کا تکلف کر رہے ہیں، وہ بھی مکمل تصدیق کے ساتھ ان کی تجزئیاتی رپورٹس کا حصہ رہتے ہیں۔
دنیا کے وہ دس ممالک جن میں تعلیمی پسماندگی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ایک فہرست کی صورت میںE.D.I کے تناسب سے موجود ہیں۔ اس فہرست میں شامل ہونا کسی بھی ملک کے لیے باعث شرم بھی ہے اور مقام فکر بھی! دنیا کے آخری دس ممالک میں ایک کے علاوہ تمام افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں ہے۔ یہ شرف صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ وہ E.D.I میں 0.656 نمبر حاصل کر کے، اس افسوسناک لسٹ میں شامل ہے۔یہ نائجر، بورکینا فاسو، مالی، سینٹرل افریقن ری پبلک، ایتھوپیا اور ایریٹیریا سے اوپر ہے۔ دنیا کے تعلیمی اعتبار سے پست ترین دس ممالک میں پاکستان کا ہونا ایک انتہائی تکلیف دہ اَمر ہے۔
دعوے دیکھیے، گمان ہوتا ہے کہ ہماری مختلف ادوار کی حکومتوں نے تعلیم کی ترقی کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ عملی طور پر ہم دنیا کے لیے مذاق بن چکے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جسے ہمارے نظام تعلیم کی خرابیاں معلوم نہیں ہیں؟ کسی بھی صاحب نظر سے سرکاری سطح پر اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا حال چھپا ہوا نہیں ہے۔ مگر ہمارے صاحب اختیار لوگوں نے قسم کھار کھی ہے کہ اس اہم ترین شعبے کو نظر انداز کرنے کا مسلسل ریکارڈ قائم رکھنا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ایک نظر نہ آنے والی قومی تعلیمی پالیسی بنا لی ہے جسکا مقصد لوگوں کو جہالت کے سمندر میں ڈبوئے رکھنا ہے۔ باقی صرف اور صرف اخباری بیانات اور لفاظی!
ساؤتھ کوریا اور فن لینڈ وہ خوش قسمت ممالک ہیں جن میں نظام تعلیم بہترین اور اعلیٰ درجہ کا ہے۔ ان ممالک میں استاد کی بے انتہا عزت ہے۔ جہاں بھی استاد کا ذکر آتا ہے، سب لوگوں کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑے کاروباری اور امیر اشخاص کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی نہ کوئی فرد شعبہ تعلیم میں ٹیچر کی حیثیت سے کام ضرور کرے۔ ان کے معاشرہ میں استاد کو سب سے زیادہ قدر و منزلت حاصل ہے۔ آپ جنوبی کوریا اور فن لینڈ کے نظام پر نظر ڈالیے۔ اسکول میں داخلے کی عمر سات سال ہے۔
یعنی سات سال سے چھوٹا بچہ اسکول میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ان معاشروں کے مطابق یہ وہ پہلے اہم ترین سال ہیں جس میں بچوں کو اپنی والدہ اور والد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے کردار کی شروعات ان کے گھر سے ہوتی ہے۔ اسکول کے بچوں کو کوئی ہوم ورک نہیں دیا جاتا۔ ان کے مطابق اگر اسکول کے اساتذہ احسن طریقے سے اپنے طالبعلموں کو تعلیم دے رہے ہیں تو "ہوم ورک" کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آگے چلیے۔
تیرہ سال کی عمر تک بچوں کا کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ ایک استاد کی کلاس میں سولہ سے زیادہ طالبعلم نہیں ہوتے۔ یہ نمبر بھی اوپر والی سطح کا ہے۔ اصل تعداد بارہ تیرہ سے اوپر نہیں جاتی۔ سب سے اہم جزو، اساتذہ کی ہر سطح پر مکمل تربیت کا حکومتی قدم ہے۔ اساتذہ کی ٹریننگ پر ان دونوں ممالک کا غیر معمولی فوکس ہے اور یہ اب اور بڑھتا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں نوجوان لوگوں کا خواب ہوتا ہے کہ یہ تعلیم کے باعزت شعبے سے منسلک ہوں۔
آپ دنیا کے کسی مستند تجزیہ کو اٹھا لیجیے۔ آپ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ سے باہر نکل کر کسی بھی غیر حکومتی ادارے کی رپورٹ پڑھ لیجیے۔ آپ ان کی ایمانداری سے حیران ہو جائینگے۔ آپ Pearson پیئرسن رپورٹ کو دیکھیے۔ وہ تو امریکا کے نظام تعلیم کو بھی مثالی نہیں سمجھتے۔ آپکے لیے شائد یہ اَمر باعث حیرت ہو گا کہ امریکا تعلیمی اعتبار سے دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل نہیں ہے۔ وہ چودھویں14 ویں پوزیشن پر ہے۔ اگر غیر جانبدار تجزیہ کے مطابق امریکی نظام تعلیم بھی بہت زیادہ معیاری نہیں ہے تو اندازہ کیجیے کہ ہم لوگ کہاں کھڑے ہوئے ہیں!
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے استاد کو وہ قدر و منزلت نہیں ملتی، جسکا وہ حقدار ہے! نا ہی اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ وہ فکر معاش کی تنگ گلی سے باہر نکل کر صرف تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے! نہ استاد کے لیے کسی قسم کی کوئی بھی امتیازی سہولت ہے جس سے اس کی زندگی آسان ہو جائے! نہ اس کے پاس سرکاری رہائش ہے! غرضیکہ ہمارا پورا نظام تعلیم ہی ناقدری کا مسلسل شکار ہو چکا ہے! یہ طرز عمل آج بھی ظلم کی حد تک جاری ہے! دراصل ہمیں سچائی سے کام لیتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے عظیم ملک کی اصل حکمران صرف اور صرف جہالت ہے!