ٹی وی اینکرز کا مسئلہ

نئی صدی میں یہی کیمرہ پاکستانی ناظرین کے لیے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کرنے لگا ...

03332257239@hotmail.com

LONDON:
عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کے سبب اینکرز دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ جب پورا ملک ادل بدل اور حسب حال میں تقسیم ہے تو ٹی وی کے میزبان کیوں نہ بٹے ہوئے ہوں، کالم نگار ہوں یا صحافی، ڈاکٹر ہوں یا وکیل، اکائونٹنٹ ہوں یا بینکار، ہر کوئی عمران و قادری کے حامی یا مخالف طبقے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے، کئی ہفتوں پر محیط اس دھرنے نے تجزیہ نگاروں اور ٹی وی اینکرز کو اپنی رائے ایک ہی جانب دینے پر مجبور کردیا۔

اسلام آباد کا ڈی چوک پہلے خواص اور اشرافیہ کی آمد و رفت کی اطلاع فراہم کرتا تھا اب دارالخلافہ کے اس حصے کا آسمان غرور کو جھٹک کر زمین سے گلے ملنے پر مجبور ہے۔ زمین و آسمان کے اس ملاپ کو آفاق کہتے ہیں۔ رکشہ چلانے والے ہوں یا ٹھیلہ بان، نائب قاصد ہوں یا خاکروب، چوکیدار ہوں یا گھریلو ملازمین، ہر کوئی دھرنوں کے ذریعے تبدیلی کا حامی ہے یا مخالف، جب تقسیم اتنی گہری ہوچکی ہو تو اس کا اثر ٹی وی کے میزبانوں اور کالم نگاروں پر کیوں نہ ہو۔ پھر بک جانے کا الزام کیوں؟ بے خودی کا کوئی سبب ہے؟

تقسیم ہند سے پہلے بھی مسلمانوں میں تقسیم تھی کہ نیا ملک بننا چاہیے یا نہیں۔ ایوب کے حامی اور مخالف بھی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ پیرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی تقسیم اس ملک نے تین چار عشروں تک دیکھی ہے، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں نے اس کی شدت میں اضافہ کردیا تھا۔ صدی کا آخری عشرہ اس کشمکش میں گزرا۔ یہ سلسلہ بلاول و حمزہ اور مریم و آصفہ تک چلتا لیکن ایک شخص کی ایوان صدر میں آمد نے اس گرماہٹ کو کم کردیا۔ آصف زرداری کی مصالحت کی پالیسی نے باریوں کے دورانیے مقرر کردیے۔ دو ڈھائی برسوں کی دو دو باریاں لینے کے بجائے پانچ پانچ برس کی باری۔

اس مصالحت نے بھٹو کے حامی یا مخالف کی تقسیم کو تقریباً ختم کردیا۔ جب خلا پیدا ہوا تو نئی تقسیم نے جنم لیا۔ حالات کو جوں کا توں رکھنے کے علم بردار ایک جانب دکھائی دیے تو تبدیلی کا نعرہ لگانے والے دوسری طرف نظر آئے۔ تاریخ نے انھیں اسلام آباد میں بہت قریب سے دیکھا۔ ایوان سے تقریر کرتے ہوئے ''اسٹیٹس کو'' کے طرف دار شمال میں، تو کنٹینر سے خطاب کرتے ہوئے چینج کے علم بردار جنوب میں۔ جب دو نظریے آمنے سامنے آگئے اور پورا ملک سوچ کے لحاظ سے دو حصوں میں بٹ گیا تو یہی صورت حال اینکر پرسنز کے ساتھ ہوگئی، تو کیا انہونی ہوگئی؟ پھر لفافے کا الزام کیوں؟ پردہ داری کچھ ہے کیا؟

ٹی وی اینکرز کا موجودہ المیہ سمجھنے کے لیے ہمیں صحافت کی تاریخ کنگھالنی ہوگی، پاکستان میں قلم وکیمرے کے شب و روز جاننے ہوں گے۔ صحافیوں بالخصوص ٹی وی میزبانوں کی نفسیات کا کھوج لگانا ہوگا۔ یہ سب کچھ جانے بغیر ہم نہیں سمجھ سکیں گے کہ کچھ اینکرز کیوں تبدیلی کے مخالف ہیں؟ اس کے پیچھے ان کا کیا خوف ہے؟ اگر یہ رائے خود بخود بن جاتی تو شاید کہیں سے الزام کی گرد نہ اٹھتی۔ چلیں ہم اسے ذاتی فائدے اور قومی مفاد کے درمیان کشمکش کا نام دیتے ہیں۔ تبدیلی کے حامی سیاست دان سے تبدیلی کے مخالف ٹی وی میزبانوں پر الزام کا سبب کیا ہے؟

ایک مثال دے کر ہم صورت حال واضح کریں گے اور پھر ٹی وی میزبانوں کے المیے اور ان کی نفسیات پر گفتگو کی جانب آئیںگے، یوں سمجھیں کہ کسی شخص کو ایک قومی ادارے میں نوکری مل جاتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ زیادہ لوگوں کو بھرتی کرلیا گیا ہے۔ اگر ملازمین کو نکال کر ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بات ہو تو؟ ممکن ہے ادارے کو فائدہ ہو لیکن اس ملازم کے قدموں تلے زمین نکل جائے گی۔


وہ چاہے گا کہ ڈائون سائزنگ نہ ہو۔ وہ شخص ادارے اور ملک و قوم کی بہتری چاہے گا لیکن اس کی خواہش ہوگی کہ اس کی ملازمت برقرار رہے۔ قومی مفاد اور ذاتی فائدے کی وضاحت کے بعد ہم تاریخ صحافت کی روشنی میں پاکستانی اخبار نویسوں کی کہانی اور آج کے ٹی وی اینکر پرسنز کا المیہ بیان کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی صحافت پچھلی صدی تک غربت کی گود میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ ایوب و بھٹو کے دور میں شباب اور ضیا، بے نظیر نواز و مشرف کے دور تک ادھیڑ عمری، فاقہ کشی میں ہی گزری ہے۔ سچے اور نظریاتی لوگ ہی اس میدان کے مرد شہسوار رہے ہیں۔

عثمانی، سلہری اور چھاپڑا جیسے لوگ پہلے دن سے جانتے تھے کہ اس میدان میں دانش تو ہے لیکن دولت نہیں، پچھلی صدی تک اخبارات کے علاوہ اکلوتا پی ٹی وی تھا اس دور میں صحافیوں کی تنخواہیں سیکڑوں سے ہزاروں تک پہنچی تھیں، بڑے سے بڑے صحافی وکالم نگار نے بڑے سے بڑے ادارے میں لاکھ کے مزے کو نہیں چھوا تھا، جب کہ ٹاپ کلاس وکیل، ڈاکٹر، بینکار اس دور میں لاکھوں میں کماتے تھے، ایسے میں نئی صدی شروع ہوئی، سائیکل و اسکوٹر سے محروم لوگوں کے پاس گاڑیاں آگئیں، چار دوستوں کو چائے نہ پلاسکنے والوں نے دنیا کے چاروں کونے چار برسوں میں دیکھ لیے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ صرف ایک چیز اور اس کا نام ہے کیمرہ۔

کیمرہ جب فلم میں کام کرنے والے ہیرو پر گیا تو دلیپ کمار لاکھوں، امیتابھ کروڑوں اور شاہ رخ اربوں میں کھیلنے لگے، یہی کیمرہ جب کرکٹ کے میدان میں نہ تھا تو حنیف محمد اور فضل محمود جیسے بڑے کھلاڑی پندرہ بیس سال کھیلنے کے باوجود کچھ زیادہ نہ کماسکے۔ جب کیمرہ کرکٹ کے میدانوں میں آیا تو عمران و میانداد جیسے کھلاڑی کروڑوں اور ٹنڈولکر اور ڈریوڈ اربوں کماکر رخصت ہوئے۔

نئی صدی میں یہی کیمرہ پاکستانی ناظرین کے لیے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کرنے لگا تو درجن بھر ٹی وی میزبان مہینے کے لاکھوں نہیں بلکہ ملینز میں تنخواہ لینے لگے، خوب صورت گھر، شاندار گاڑی، بڑھتا ہوا بینک بیلنس اور دنیا بھر کے دورے ان کے مقدر میں آگئے، ایسے میں ہفتے میں تین چار مرتبہ ناظرین سے رابطہ، ایسے مزے تو نہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ملے اور نہ فلموں کے ہیروز کو۔ اب ایسے میں جب تبدیلی کی بات ہو تو پانچ دس سال سے خوش حالی کے مزے لینے والے چند لوگوں کے ماتھے پر بل کیوں نہ پڑیں؟ وہ کیوں نہ خوف زدہ ہوں کہ یہ سب کچھ ان سے کہیں چھن نہ جائے۔ اگر سال بھر کے لیے بھی سیاسی مباحثوں پر پابندی لگی تو ناظرین کھیل، فلم اور ڈراموں کے چینلز کی جانب لپکیں گے۔

خوف، ڈراؤنا خوف اس لیے بن جاتا ہے کہ واپسی پر نہ جانے وہ اپنی جگہ پر برقرار رہ سکیں گے یا نہیں؟ المیہ یہ ہے کہ کیمرے کی تاریخ بڑی تلخ ہے، یہ کسی ہیرو کو پندرہ سولہ برس سے زیادہ عروج نہیں دیکھنے دیتا۔ کھلاڑی ہو یا فنکار، ہیرو ہو یا ولن، کیمرہ اپنی لگام اکثر مقررہ وقت پر کھینچ لیتا ہے۔ عمران اور امیتابھ کو چھوڑ کر برصغیر میں کیمرے نے کسی کو دو عشرے تک بھی عوام کے دلوں پر راج نہیں کرنے دیا۔ انسان جلد بور ہوجاتا ہے اور وہ تبدیلی مانگتا ہے۔ اسکرین کے سامنے بیٹھے شخص کی اکتاہٹ بھری طبیعت اچھے اچھوں کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیتی ہے۔

جوانی میں غربت کے صحرا میں سیاحی کا ارادہ لے کر داخل ہونے والے ادھیڑ عمری تک اپنی محنت و قسمت سے خوش حالی کے جزیرے پر اتر گئے ہیں، اب وہ خوف زدہ ہیں کہ یہ سب کچھ چھن نہ جائے، ہوسکتا ہے کہ انقلاب و آزادی کے دھرنوں کی مخالفت کی وجہ کوئی اور ہو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مخالفت کا سبب سہولتیں چھن جانے کا نفسیاتی خوف ہو اور یہی ہے آج کے چند ٹی وی اینکرز کا المیہ۔
Load Next Story