شہر قائد میں رواں برس 30 ڈاکٹر علما پروفیسر اور وکلا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے
ٹارگٹ کلرز نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ عام شہریوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا
شہر میں قتل و غارت گری کے واقعات میں جہاں ایک جانب کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا وہیں ان میں 30 ماہر ڈاکٹر، علما، پروفیسر اور وکلا بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں ، رواں برس اب تک کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب 30 ماہر ڈاکٹر ، علمائے دین، لیکچررز ، پروفیسرز اور وکلا شامل ہیں، 16 جنوری کو بفرزون میں ڈاکٹر آصف حسین زیدی کو نشانہ بنایا گیا، 17 جنوری کو شارع فیصل پر مفتی عثمان یار خان کو ٹارگٹ کیا گیا، 31 جنوری کو عائشہ منزل کے قریب پروفیسر اظہر زیدی کو گولیوں سے بھون دیا گیا، 17 فروری کو نارتھ ناظم آباد میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے سامنے پروفیسر ڈاکٹر جاوید قاضی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
20 فروری کو اورنگی ٹائون ایم پی آر کالونی میں ڈاکٹر اسرار دہشت گردی کا شکار ہوئے ، 27 فروری کا دن شہر میں گویا گولیوں کی برسات لایا ، میٹرک بورڈ آفس کے قریب پروفیسر تقی ہادی ، سچل میں اسپارکو روڈ پر عالم دین قاری علی حسن بروہی، ان کا بیٹا منظور حسین بروہی جبکہ ڈی سلوا ٹاؤن میں قاری محمد جابر دہشت گردوں کا نشانہ بنے، 8 اپریل کو واٹر پمپ کے قریب ڈاکٹر قاسم عباس کی زندگی کا چراغ گُل کیا گیا، 9 اپریل کو گلشن اقبال میں ڈاکٹر حیدر رضا کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا، 10 اپریل کو ایڈووکیٹ وقار الحسن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے جوکہ دہشت گردی سے متعلق اہم مقدمات میں پیروی کرچکے تھے، اسی روز ایڈووکیٹ غلام کشمیری کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
11 اپریل کو مارٹن کوارٹرز میں ایڈووکیٹ سید غلام حیدر جبکہ 12 اپریل کو لیکچرار منتظر مہدی اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، 21 اپریل کا سورج پروفیسر سیف الدین کی زندگی تاریک کرگیا ، 3 مئی کو اورنگی ٹاؤن میں ایڈووکیٹ چوہدری ادریس کو دہشت گردوں نے موت کی نیند سلادیا ، 13 مئی کو جناح اسپتال کے میڈیکو لیگل افسر ڈاکٹر منظور میمن کی گاڑی پر دہلی کالونی میں فائرنگ کی گئی جس سے وہ ہلاک ہوگئے، 29 مئی کو فیڈرل بی ایریا میں ڈاکٹر حسن کو ٹارگٹ کیا گیا، 23 جولائی کو علامہ طالب جوہری کے داماد ایڈووکیٹ مبارک کاظمی کو گولیوں کا نشانہ بنایا جبکہ 30 مئی کو ناظم آباد گول مارکیٹ میں اسکول کے پرنسپل سید فرحان شاہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
11 اگست کو لانڈھی میں کلینک پر فائرنگ سے ڈاکٹر عامر مہدی جبکہ 27 اگست کو کورنگی میں ڈاکٹر نسیم عون جعفری ہلاک ہوئے ، 6 ستمبر کو علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے علامہ علی اکبر کمیلی کو عزیز آباد میں جبکہ 10 ستمبر کو جامعہ بنوریہ سائٹ کے مہتمم مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ کو حیدری میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ، 18 ستمبر کو گلشن اقبال کے علاقے میں جامعہ کراچی کے اسلامک اسٹڈیز کے ڈین فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو چلتی گاڑی میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
شکیل اوج کے قتل کی تفتیش میں پیش رفت نہ ہوسکی
پروفیسر شکیل اوج کے قتل کو 4 روز گزر گئے لیکن تحقیقاتی کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر شکیل کو کسی قسم کی دھمکی کا سامنا نہیں تھا ، تفصیلات کے مطابق جمعرات کی صبح گلشن اقبال میں سرسید یونیورسٹی کے سامنے قائم فلائی اوور پر موٹر سائیکل سوار ملزمان نے چلتی کار پر فائرنگ کردی تھی جس سے جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک لرننگ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج شہید ہوگئے تھے۔
واقعے کو 4 روز گزر چکے ہیں لیکن تحقیقات کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے ، حسب روایت ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی لیکن تحقیقاتی کمیٹی کی تفتیش میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، مقدمے کے تفتیشی افسر قربان عباسی نے بتایا کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود نہیں ہے ، پروفیسر شکیل کیساتھ کار میں سوار دیگر افراد نے ملزمان کو نہیں دیکھا جس کے باعث خاکے نہیں بن سکے ، انھوں نے مزید بتایا کہ اہل خانہ سے بھی بات چیت کی گئی لیکن حالیہ دنوں میں شکیل اوج کو کسی قسم کی دھمکی بھی نہیں ملی تھی جلد پیش رفت ہوگی ۔
تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں ، رواں برس اب تک کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب 30 ماہر ڈاکٹر ، علمائے دین، لیکچررز ، پروفیسرز اور وکلا شامل ہیں، 16 جنوری کو بفرزون میں ڈاکٹر آصف حسین زیدی کو نشانہ بنایا گیا، 17 جنوری کو شارع فیصل پر مفتی عثمان یار خان کو ٹارگٹ کیا گیا، 31 جنوری کو عائشہ منزل کے قریب پروفیسر اظہر زیدی کو گولیوں سے بھون دیا گیا، 17 فروری کو نارتھ ناظم آباد میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے سامنے پروفیسر ڈاکٹر جاوید قاضی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
20 فروری کو اورنگی ٹائون ایم پی آر کالونی میں ڈاکٹر اسرار دہشت گردی کا شکار ہوئے ، 27 فروری کا دن شہر میں گویا گولیوں کی برسات لایا ، میٹرک بورڈ آفس کے قریب پروفیسر تقی ہادی ، سچل میں اسپارکو روڈ پر عالم دین قاری علی حسن بروہی، ان کا بیٹا منظور حسین بروہی جبکہ ڈی سلوا ٹاؤن میں قاری محمد جابر دہشت گردوں کا نشانہ بنے، 8 اپریل کو واٹر پمپ کے قریب ڈاکٹر قاسم عباس کی زندگی کا چراغ گُل کیا گیا، 9 اپریل کو گلشن اقبال میں ڈاکٹر حیدر رضا کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا، 10 اپریل کو ایڈووکیٹ وقار الحسن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے جوکہ دہشت گردی سے متعلق اہم مقدمات میں پیروی کرچکے تھے، اسی روز ایڈووکیٹ غلام کشمیری کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
11 اپریل کو مارٹن کوارٹرز میں ایڈووکیٹ سید غلام حیدر جبکہ 12 اپریل کو لیکچرار منتظر مہدی اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، 21 اپریل کا سورج پروفیسر سیف الدین کی زندگی تاریک کرگیا ، 3 مئی کو اورنگی ٹاؤن میں ایڈووکیٹ چوہدری ادریس کو دہشت گردوں نے موت کی نیند سلادیا ، 13 مئی کو جناح اسپتال کے میڈیکو لیگل افسر ڈاکٹر منظور میمن کی گاڑی پر دہلی کالونی میں فائرنگ کی گئی جس سے وہ ہلاک ہوگئے، 29 مئی کو فیڈرل بی ایریا میں ڈاکٹر حسن کو ٹارگٹ کیا گیا، 23 جولائی کو علامہ طالب جوہری کے داماد ایڈووکیٹ مبارک کاظمی کو گولیوں کا نشانہ بنایا جبکہ 30 مئی کو ناظم آباد گول مارکیٹ میں اسکول کے پرنسپل سید فرحان شاہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
11 اگست کو لانڈھی میں کلینک پر فائرنگ سے ڈاکٹر عامر مہدی جبکہ 27 اگست کو کورنگی میں ڈاکٹر نسیم عون جعفری ہلاک ہوئے ، 6 ستمبر کو علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے علامہ علی اکبر کمیلی کو عزیز آباد میں جبکہ 10 ستمبر کو جامعہ بنوریہ سائٹ کے مہتمم مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ کو حیدری میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ، 18 ستمبر کو گلشن اقبال کے علاقے میں جامعہ کراچی کے اسلامک اسٹڈیز کے ڈین فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو چلتی گاڑی میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
شکیل اوج کے قتل کی تفتیش میں پیش رفت نہ ہوسکی
پروفیسر شکیل اوج کے قتل کو 4 روز گزر گئے لیکن تحقیقاتی کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر شکیل کو کسی قسم کی دھمکی کا سامنا نہیں تھا ، تفصیلات کے مطابق جمعرات کی صبح گلشن اقبال میں سرسید یونیورسٹی کے سامنے قائم فلائی اوور پر موٹر سائیکل سوار ملزمان نے چلتی کار پر فائرنگ کردی تھی جس سے جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک لرننگ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج شہید ہوگئے تھے۔
واقعے کو 4 روز گزر چکے ہیں لیکن تحقیقات کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے ، حسب روایت ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی لیکن تحقیقاتی کمیٹی کی تفتیش میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، مقدمے کے تفتیشی افسر قربان عباسی نے بتایا کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود نہیں ہے ، پروفیسر شکیل کیساتھ کار میں سوار دیگر افراد نے ملزمان کو نہیں دیکھا جس کے باعث خاکے نہیں بن سکے ، انھوں نے مزید بتایا کہ اہل خانہ سے بھی بات چیت کی گئی لیکن حالیہ دنوں میں شکیل اوج کو کسی قسم کی دھمکی بھی نہیں ملی تھی جلد پیش رفت ہوگی ۔