بات کچھ اِدھر اُدھر کی سیاستدان اور لیڈر میں فرق

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدان تو بہت میسر آئے لیکن لیڈریا رہنما جتنے ملے وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدان تو بہت میسر آئے مگر لیڈرکچھ ہی ملے۔ عوام ان سیاستدانوں کو نہیں سراہیں گی جنہوں نے اس ملک کے غریب طبقے کو جمہوریت کے لالی پاپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں نام نہاد لیڈرکثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان خود کفیل ہے۔ اس کے لیے ہمیں بیرونی ممالک کی امداد کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ پھر بھی کبھی سہارے کی نوبت آ جائے تو ہمارے نام نہاد خیرخواہ ہمیں کسی نہ کسی عزیز سے نواز دیتے ہیں۔ یعنی ہماری ضروریات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے یا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خیر خواہ اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔

وطن عزیز میں لیڈر اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس کا دامن پکڑ کر مشکلات کا دریاعبور کریں۔ اور یہ تمام لیڈران بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ازلی خصلت کے ماتحت عوام کو کبھی پار نہیں لگاتے ۔کیوں کہ اگر وہ ایسا کر دیں تو ان کو پھرلیڈر بننے کا موقع میسر نہیں ہو گا۔ اور اسی خیال میں حفظ ماتقدم کے طور پر وہ ہمیشہ عوام کوبیچ منجھدار پر چھوڑنا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ اور اسی میں ان کی بقاء ہوتی ہے۔

یہ وافر مقدار میں پائی جانے والی لیڈر کی قسم دراصل لیڈر نہیں ہوتے انہیں عام زبان میں سیاستدان کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر صرف اپنی دانست میں ہوتے ہیں اور خود کو ان داتا تصور کر لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ان کی ایک آواز پہ کروڑوں لوگ لبیک کہنے کو تیار ہوتے ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدان تو بہت سے میسر آئے لیکن لیڈر یا رہنما جتنے ملے وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جو سیاستدانوں کی فوج ہے اسے دیکھ کے بے ساختہ ٹڈی دل کی اصطلاح ذہن کا طواف کرنے لگتی ہے اور شاید ملک میں سیاستدانوں کی تعداد اس اصطلاح سے بھی زیادہ ہو گی ۔ کیوں کہ یہاں ہر وہ شخص سیاستدان ہے جس کے پاس چند لاکھ روپے اور چند بے ہنگم حلیے کے ساتھی موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمیں لیڈر بہت کم میسر آئے۔ جس کی وجہ سے ہی ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہم اقوام عالم میں تباہی کے دہانے پر کھڑی ریاست شمار کیے جاتے ہیں۔

جب کسی شخص میں رہنما یا لیڈر کے جراثیم ہوتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ پھر اُسے یہ غرض نہیں رہتی کہ سیلاب کے پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں بنوائے یا پھر ہیلی کاپٹر سے راشن کا تھیلا پھینکتے ہوئے کیمرے کا فلیش اس کے چہرے پر پڑے ۔ بلکہ جب اس میں راہنما جیسے اوصاف پیدا ہو جائیں تو وہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے لوگوں کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔


سیاستدان اور لیڈر میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک سیاستدان لعن طعن سن کر بھی منافقانہ مسکراہٹ کی لالی چہرے پہ سجائے رکھتا ہے۔ لیکن ایک لیڈر ملک کو پانی کے سب سے بڑے ذخائر کا تحفہ دینے کے باوجود چند الفاظ سن کر ہی کرسی چھوڑ دیتا ہے۔ اور بعد میں لوگ اس کویاد کرتے ہیں۔ (بے شک اس کا اپنا کردار کیسا ہی ہو۔ یا اس نے اس ملک کے ایک سرمائے کو رسوا کیا ہو لیکن وہ ملک کو پھر بھی کچھ دے کر گیا) ۔ جب لفظ صفحات کی زینت بنتے ہیں تو ہو سکتا ہے لکھنے والا اقوام عالم کے سامنے کاغذوں کے ٹکڑے کرنے والے سے ہزار اختلافات رکھتا ہو لیکن پھر بھی شاید وہ ان سیاستدانوں سے بہر حال بہتر تصور کیا جا سکتا ہے جو ہاتھ باندھ کر جی حضوری کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ جمہوریت کا یقیناًکوئی نعم البدل نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے ممالک نے ترقی کی منازل طے کیں ان میں سے کم و بیش تمام ہی ممالک نے جمہوریت کو اپنایا۔ لیکن اس سیاسی جمہوریت سے وہ آمرانہ لیڈر شپ پھر بھی بہتر ہے جو کم از کم ملک کو مستحکم کرنے کا سبب بنی ہو۔

عظیم جناح نے اس وقت دولت دیکھی جب برصغیر کے لوگ غلامی میں تھے۔ لہذا ان کے لیے روپے پیسے سے بڑھ کر کچھ مقصد تھااور اسی مقصدیت نے ان کو ایک عظیم رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔وہ ایک سیاستدان تھے لیکن ان کے خمیر میں خصوصیات ایک رہنما کی تھیں۔ اسی لیے تو لوگ آج تک اپنے دل میں ان کے لیے عزت رکھتے ہیں۔ جب سیاستدان اپنی زمینیں ، جاگیریں و ملیں بچانے کے لیے پانی کا رخ موڑیں گے۔ اپنا سرمایہ دنیا کے معاشی اداروں میں رکھیں گے تو پھر وہ اگر پورا دن بھی پانی میں ڈوبے رہیں پھر بھی عوام کے دل میں گھر نہیں کر سکتے۔ عوام کا لیڈر تو اس شخص کو ہونا چاہیے جس کے پاس پیسہ کمانے کا موقع بھی ہو پھر بھی وہ وطن کا سوچے جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دے صرف اس قوم کی بہتری کے لیے۔لیکن بد قسمتی اس قوم کی کہ اس کے کرتا دھرتا 300ملین ڈالر کے مالک اور عوام سڑکوں پہ خوار۔ شاعر نے شاید وطن عزیز کے سیاسی حالات کے متعلق ہی کہا تھا کہ ۔۔۔
یہاں تہذیب بکتی ہے، یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو ، یہاں ایمان بکتے ہیں

ہماری آنے والی نسلیں یقیناًجب تاریخ کا مطالعہ کریں گی تو وہ بھیڑ چال میں فیصلہ نہیں کریں گی۔ بلکہ وہ حالات و واقعات کا مشاہدہ عقلی دلائل سے کریں گے۔ وہ ان سیاستدانوں کو نہیں سراہیں گی جنہوں نے اپنا سرمایہ تک اس وطن میں رکھنا گوارا نہ کیا۔ جنہوں نے اس ملک کے غریب طبقے کو جمہوریت کے لالی پاپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ بلکہ ان کی نظر میں وہی سیاستدان لیڈر کا رتبہ پائے گا جو دولت کے انبار میں سے خود کو نکال کر اس دیس میں لایا۔ جس کے اس دعوے میں حقیقت ہو گی کہ اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ اور لیڈر یا رہنما تو کہا ہی اسے جا سکتا ہے جو چند دن کے مفاد کے بجائے آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہنے کی جہدو جہد کرے۔ اس جہدو جہد میں ضروری نہیں کہ عارضی ناکامی اسے ناکام رہنما بنا دے بلکہ اس کی عارضی ناکامی شاید مستقبل کی نسلوں کو اپنا راستہ خود بنانے کا فن سکھا دے ۔ اور اگر مستقبل کی نسلیں اس کی جہدو جہد سے یہ فن سیکھ گئیں تو اس رہنما کو اس کی جہدو جہد کا صلہ مل جائے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story