مجدد مودودی کی یاد میں
روٹی کپڑے کی پروا نہ تھی زندگی میں رہنمائی اور سرپرستی کی ضرورت تھی جو مجھے صرف مولانا کی ۔۔۔
میں اُن دنوں ایک ہفتہ وار اخبار افریشیا شایع کرتا تھا۔ ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی معلوم تھا کہ مولانا اپنے بیٹے کے پاس علاج کے لیے امریکا چلے گئے ہیں۔ مولانا ابھی شاید مزید زندہ رہنا چاہتے تھے کئی علمی اور سیاسی کام ابھی باقی تھے جو انھیں نپٹانے تھے لیکن قدرت کو اپنے اس نمایندہ بندے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی اور ان کو واپس بلا لیا گیا۔
جنت الفردوس میں قیام کے لیے اور ان کی خدمات کے اجر کے لیے۔ ایک روایت ہے کہ مولانا کسی کو خواب میں ملے اور اس سے اپنی بیگم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ دیکھو یہاں کتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے تم بھی آ جاؤ۔ میں ایک ناقابل بیان حد تک گنہ گار انسان دعویٰ کرتا ہے کہ مولانا جنت میں تو ہیں ہی اس کے کس مقام پر ہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ میں عنفوان شباب میں اپنے مرحوم بھائی صوفی رب نواز کے توسط سے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر عمر کے ساتھ ساتھ نیاز مندی بھی بڑھتی گئی۔ صحافت اختیار کی اور اس پیشے کے لیے غیر جانبداری کی شرط اول کی پابندی میں جماعت کی رکنیت سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن مولانا سے تعلق ان کی جماعت کی وجہ سے نہیں تھا یہ تو ایک بے مہار نوجوان اور اس کے رہنما کا تعلق تھا جب مولانا کے انتقال کی خبر ملی تو میں خوفزدہ ہو کر دل میں ہی پکار اٹھا کہ اب زندگی کیسے گزرے گی۔
روٹی کپڑے کی پروا نہ تھی زندگی میں رہنمائی اور سرپرستی کی ضرورت تھی جو مجھے صرف مولانا کی کرمفرمائی سے ہی مل سکتی تھی کیونکہ دنیا میں میرے لیے اور کوئی نہ تھا جس پر میں اندھا اعتماد کرتا اور جسے میں اپنا دینی اور دنیاوی رہنما سمجھتا۔ میں بالکل تنہا رہ گیا لیکن قدرت کی طرف سے مجھے یہ حوصلہ ملا کہ مودودی تو ایک مجدد وقت تھا اور مجدد کی رہنمائی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی عمر بھر ساتھ دیتی ہے۔ اس کا لٹریچر ایک ابدی رہنمائی ہے اور اس کی زندگی تو ایک حیران کن زندگی تھی۔ جیل میں جب سزائے موت کے لیے ان کو لے جایا گیا اور خاص کپڑے پہنا دیے گئے تو مولانا کے ساتھی امام امین احسن اصلاحی مولانا کے کپڑوں کو سینے سے لگا کر رونے پیٹنے لگے کہ مودودی تو اتنا بڑا آدمی تھا اور قدرت نے تیرے لیے اپنا سب سے بڑا اعزاز یعنی شہادت مخصوص کر دیا تھا۔
مولانا نے اس موقع پر فرمایا کہ اگر خدا نے میری موت لکھ دی ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اگر زندگی لکھی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مجھ سے چھین نہیں سکتی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا قرآن پاک کی تعلیمات پر یقین ہمارے جیسے عام مسلمانوں کے لیے ناقابل یقین تھا۔ قرآن پاک کے اس مفسر نے آج کے انسانوں کے لیے قرآن پاکستان کو آسان لیکن اپنی ذات کے لیے اتنا ہی مشکل کر دیا۔ امریکا میں بیماری کے دوران نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی بروقت نماز ترک نہ کی۔ فرشتوں نے تیمم کرایا اور اللہ اکبر کہلوایا۔ جب قدرت نے فیصلہ کر لیا کہ اب اپنے اس بندے کو واپس بلا لینا ہے تو پھر اس کے دن رات کو بھی سنبھال لیا اور ہوش یا بے ہوشی کو برابر کر دیا۔
نماز عصر کے بعد مولانا کی رہائش گاہ سبزہ زار میں مولانا کی نشست اور اس میں ان کا انداز کسی بھی غیر معمولی انسان کی غمازی نہیں کرتا تھا۔ ایک بے تکلف خوبصورت لطیفہ سناؤ اور گپ شپ والے ایک بزرگ جن کے ساتھ آپ کوئی بھی بات کر سکتے ہیں اور کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں۔ ان کی جماعت کے ایک صاحب مضافات سے ملنے آئے اور عرض کیا کہ میرا فلاں عدالت میں مقدمہ تھا لیکن جج نے مجھے بے عزت کیا میں خاموش رہا پھر بھی وہ مجھے انتہائی سخت الفاظ میں ڈانٹتا رہا۔
مولانا میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میں بے گنہ تھا اور مقدمہ بھی بالآخر میرے حق میں جائے گا۔ مولانا یہ سنتے رہے اور اندرونی غصے سے کھولتے رہے اور پھر ذرا توقف کے ساتھ گویا غصے پر قابو پانے کے بعد کہا کہ اب اگر ایسی صورت ہو تو تم اس جج کو اس کی زبان میں سبق سکھاؤ اور بات بڑے تو ہاتھ بھی چلاؤ۔ علم و فضل کا یہ مرقع اور شائستگی کی یہ زندہ علامت زیادتی برداشت کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئی۔ مولانا کی علمی زندگی کے معاون ملک غلام علی میرے عزیز تھے وہ کہتے تھے کہ کبھی مولانا کی ذاتی شخصیت پر بات ہوئی تو میں عرض کرتا کہ مولانا آپ تو مجھے کبھی ہمارے وادی سون کے اعوان لگتے ہیں تب وہ اپنی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کہتے کہ تم لوگ حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد ہو اور حضرت علیؓ کے خون کے وارث ہو۔ یہ ہمارا رشتہ ہے۔
مولانا کے علم و فضل کے بارے میں کچھ عرض کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ ایک دفعہ جیل میں وہ سید سبط حسن کے ساتھ تھے اور دونوں کی خوب گپ شپ رہتی تھی۔ سبط صاحب کا علم و فضل اور وسعت مطالعہ ایک مثال تھی۔ انھی دنوں ملک غلام علی بھی ان کے ساتھ جیل میں تھے وہ بتاتے تھے کہ ان دو علماء کی گفتگو سن کر حیرت ہوتی تھی کہ ان میں سے بڑا عالم کون البتہ بعض جدید علوم میں سبط صاحب کی بالادستی مولانا بھی تسلیم کرتے تھے کہ کمیونسٹ بھی اتنے بڑے عالم ہو سکتے ہیں یہ بات مولانا سبط صاحب سے بے تکلفی میں کہہ دیتے تھے۔
لگتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے مولانا سے جو کام لینا تھا اس کے لیے انھیں علم کی وافر دولت سے بھی سرفراز کرنا تھا جو مولانا کو مل گئی تھی۔ مولانا اسلامی علوم کا سمندر تھے اور چونکہ ایک نقطہ نظر بھی رکھتے تھے اس لیے اسلامی علوم و فنون کو ایک خاص تعبیر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان کی کوئی کتاب یا تحریر ایسی نہیں ملے گی جو محض کسی غیر علمی مقصد کے لیے لکھی گئی ہو۔ بے معنی تحریر وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ انھیں امت کی رہنمائی کرنی تھی حضور پاکﷺ کی امت کی۔
ہمارے مولوی صاحبان مولانا کے مخالف تھے کہ یہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں اور پھر بھی عالم بنے پھرتے ہیں لیکن مولانا کا علم ان کے علم پر حاوی تھا تو اس میں مولانا کا کیا قصور لیکن انھوں نے کبھی اپنے خلاف کسی تحریر کا جواب نہیں دیا اور کہا کرتے کہ میں نے ان لوگوں کے لیے ان کی امید اور توقع کے خلاف جواب نہ دینے کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔ میں انھیں قطعاً کوئی جواب نہیںدیتا درحقیقت میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا۔ مولانا سے اگر کوئی مسئلہ پوچھا جاتا جو لوگ عموماً مولوی صاحبان سے پوچھتے ہیں مثلاً نماز روزہ کے مسئلے تو مولانا جواب دیتے غالباً یوں ہے لیکن ایسے مسائل آپ مساجد کے علماء سے پوچھیں ہمیں یہ مسئلے نہیں آتے۔
کیا کیا عرض کروں مولانا انتہائی صاف ستھری زندگی بسر کرتے تھے لباس ایسا کہ ایک بار کراچی میں کسی تقریب میں جانا تھا اور جو اچکن پہنی اس پر ایک ذرہ برابر داغ تھا وہ اتار دی اور جب تک دوسری نہ آئی وہ بیٹھے رہے ساتھی اصرار کرتے رہے کہ لیٹ ہو رہے ہیں لیکن مولانا نئی صاف اچکن پہن کر ہی اس تقریب میں روانہ ہوئے۔
مولانا اپنی سیاسی زندگی پر خوش نہ تھے اور اس میں ان کے ساتھی ان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ بات یہ تھی کہ یہ لوگ غیر سیاسی تھے اور غیر سیاسی طبقات سے نکل کر آئے تھے۔ لوگ صرف خاص طبقے کے لوگوں کو ہی ووٹ دیتے تھے۔ ایک الیکشن میں جب امرائے ضلع کے اندازوں کے برعکس نتیجے نکلے تو مولانا نے سب کو بلایا اور ان کی خوش فہمی پر برہمی کا اظہار کیا۔ مولانا نے اپنے انداز میں ہر کوشش کی مگر پاکستانی عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا جب کہ عدالتوں میں کسی رکن جماعت کی گواہی کو حتمی سمجھا جاتا تھا کہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ صالحین کی جماعت تو تیار ہو گئی مگر صالحین عوام تیار نہ ہو سکے۔ اس عالم کے پاس اتنا وقت نہ تھا سیاست تو چلتی ہی رہتی ہے وہ سیاست میں زیادہ وقت دیتے تو یہ علمی ذخیرے کیسے جمع ہوتے۔
مولانا کو خراج عقیدت کون کیا پیش کرے ان کا علمی کام اور ان کی شخصیت یہ کام خود کرتی رہے گی۔ ہم تو ان کے جوتوں کی خاک بھی نہیں۔
جنت الفردوس میں قیام کے لیے اور ان کی خدمات کے اجر کے لیے۔ ایک روایت ہے کہ مولانا کسی کو خواب میں ملے اور اس سے اپنی بیگم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ دیکھو یہاں کتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے تم بھی آ جاؤ۔ میں ایک ناقابل بیان حد تک گنہ گار انسان دعویٰ کرتا ہے کہ مولانا جنت میں تو ہیں ہی اس کے کس مقام پر ہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ میں عنفوان شباب میں اپنے مرحوم بھائی صوفی رب نواز کے توسط سے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر عمر کے ساتھ ساتھ نیاز مندی بھی بڑھتی گئی۔ صحافت اختیار کی اور اس پیشے کے لیے غیر جانبداری کی شرط اول کی پابندی میں جماعت کی رکنیت سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن مولانا سے تعلق ان کی جماعت کی وجہ سے نہیں تھا یہ تو ایک بے مہار نوجوان اور اس کے رہنما کا تعلق تھا جب مولانا کے انتقال کی خبر ملی تو میں خوفزدہ ہو کر دل میں ہی پکار اٹھا کہ اب زندگی کیسے گزرے گی۔
روٹی کپڑے کی پروا نہ تھی زندگی میں رہنمائی اور سرپرستی کی ضرورت تھی جو مجھے صرف مولانا کی کرمفرمائی سے ہی مل سکتی تھی کیونکہ دنیا میں میرے لیے اور کوئی نہ تھا جس پر میں اندھا اعتماد کرتا اور جسے میں اپنا دینی اور دنیاوی رہنما سمجھتا۔ میں بالکل تنہا رہ گیا لیکن قدرت کی طرف سے مجھے یہ حوصلہ ملا کہ مودودی تو ایک مجدد وقت تھا اور مجدد کی رہنمائی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی عمر بھر ساتھ دیتی ہے۔ اس کا لٹریچر ایک ابدی رہنمائی ہے اور اس کی زندگی تو ایک حیران کن زندگی تھی۔ جیل میں جب سزائے موت کے لیے ان کو لے جایا گیا اور خاص کپڑے پہنا دیے گئے تو مولانا کے ساتھی امام امین احسن اصلاحی مولانا کے کپڑوں کو سینے سے لگا کر رونے پیٹنے لگے کہ مودودی تو اتنا بڑا آدمی تھا اور قدرت نے تیرے لیے اپنا سب سے بڑا اعزاز یعنی شہادت مخصوص کر دیا تھا۔
مولانا نے اس موقع پر فرمایا کہ اگر خدا نے میری موت لکھ دی ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اگر زندگی لکھی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مجھ سے چھین نہیں سکتی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا قرآن پاک کی تعلیمات پر یقین ہمارے جیسے عام مسلمانوں کے لیے ناقابل یقین تھا۔ قرآن پاک کے اس مفسر نے آج کے انسانوں کے لیے قرآن پاکستان کو آسان لیکن اپنی ذات کے لیے اتنا ہی مشکل کر دیا۔ امریکا میں بیماری کے دوران نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی بروقت نماز ترک نہ کی۔ فرشتوں نے تیمم کرایا اور اللہ اکبر کہلوایا۔ جب قدرت نے فیصلہ کر لیا کہ اب اپنے اس بندے کو واپس بلا لینا ہے تو پھر اس کے دن رات کو بھی سنبھال لیا اور ہوش یا بے ہوشی کو برابر کر دیا۔
نماز عصر کے بعد مولانا کی رہائش گاہ سبزہ زار میں مولانا کی نشست اور اس میں ان کا انداز کسی بھی غیر معمولی انسان کی غمازی نہیں کرتا تھا۔ ایک بے تکلف خوبصورت لطیفہ سناؤ اور گپ شپ والے ایک بزرگ جن کے ساتھ آپ کوئی بھی بات کر سکتے ہیں اور کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں۔ ان کی جماعت کے ایک صاحب مضافات سے ملنے آئے اور عرض کیا کہ میرا فلاں عدالت میں مقدمہ تھا لیکن جج نے مجھے بے عزت کیا میں خاموش رہا پھر بھی وہ مجھے انتہائی سخت الفاظ میں ڈانٹتا رہا۔
مولانا میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میں بے گنہ تھا اور مقدمہ بھی بالآخر میرے حق میں جائے گا۔ مولانا یہ سنتے رہے اور اندرونی غصے سے کھولتے رہے اور پھر ذرا توقف کے ساتھ گویا غصے پر قابو پانے کے بعد کہا کہ اب اگر ایسی صورت ہو تو تم اس جج کو اس کی زبان میں سبق سکھاؤ اور بات بڑے تو ہاتھ بھی چلاؤ۔ علم و فضل کا یہ مرقع اور شائستگی کی یہ زندہ علامت زیادتی برداشت کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئی۔ مولانا کی علمی زندگی کے معاون ملک غلام علی میرے عزیز تھے وہ کہتے تھے کہ کبھی مولانا کی ذاتی شخصیت پر بات ہوئی تو میں عرض کرتا کہ مولانا آپ تو مجھے کبھی ہمارے وادی سون کے اعوان لگتے ہیں تب وہ اپنی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کہتے کہ تم لوگ حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد ہو اور حضرت علیؓ کے خون کے وارث ہو۔ یہ ہمارا رشتہ ہے۔
مولانا کے علم و فضل کے بارے میں کچھ عرض کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ ایک دفعہ جیل میں وہ سید سبط حسن کے ساتھ تھے اور دونوں کی خوب گپ شپ رہتی تھی۔ سبط صاحب کا علم و فضل اور وسعت مطالعہ ایک مثال تھی۔ انھی دنوں ملک غلام علی بھی ان کے ساتھ جیل میں تھے وہ بتاتے تھے کہ ان دو علماء کی گفتگو سن کر حیرت ہوتی تھی کہ ان میں سے بڑا عالم کون البتہ بعض جدید علوم میں سبط صاحب کی بالادستی مولانا بھی تسلیم کرتے تھے کہ کمیونسٹ بھی اتنے بڑے عالم ہو سکتے ہیں یہ بات مولانا سبط صاحب سے بے تکلفی میں کہہ دیتے تھے۔
لگتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے مولانا سے جو کام لینا تھا اس کے لیے انھیں علم کی وافر دولت سے بھی سرفراز کرنا تھا جو مولانا کو مل گئی تھی۔ مولانا اسلامی علوم کا سمندر تھے اور چونکہ ایک نقطہ نظر بھی رکھتے تھے اس لیے اسلامی علوم و فنون کو ایک خاص تعبیر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان کی کوئی کتاب یا تحریر ایسی نہیں ملے گی جو محض کسی غیر علمی مقصد کے لیے لکھی گئی ہو۔ بے معنی تحریر وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ انھیں امت کی رہنمائی کرنی تھی حضور پاکﷺ کی امت کی۔
ہمارے مولوی صاحبان مولانا کے مخالف تھے کہ یہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں اور پھر بھی عالم بنے پھرتے ہیں لیکن مولانا کا علم ان کے علم پر حاوی تھا تو اس میں مولانا کا کیا قصور لیکن انھوں نے کبھی اپنے خلاف کسی تحریر کا جواب نہیں دیا اور کہا کرتے کہ میں نے ان لوگوں کے لیے ان کی امید اور توقع کے خلاف جواب نہ دینے کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔ میں انھیں قطعاً کوئی جواب نہیںدیتا درحقیقت میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا۔ مولانا سے اگر کوئی مسئلہ پوچھا جاتا جو لوگ عموماً مولوی صاحبان سے پوچھتے ہیں مثلاً نماز روزہ کے مسئلے تو مولانا جواب دیتے غالباً یوں ہے لیکن ایسے مسائل آپ مساجد کے علماء سے پوچھیں ہمیں یہ مسئلے نہیں آتے۔
کیا کیا عرض کروں مولانا انتہائی صاف ستھری زندگی بسر کرتے تھے لباس ایسا کہ ایک بار کراچی میں کسی تقریب میں جانا تھا اور جو اچکن پہنی اس پر ایک ذرہ برابر داغ تھا وہ اتار دی اور جب تک دوسری نہ آئی وہ بیٹھے رہے ساتھی اصرار کرتے رہے کہ لیٹ ہو رہے ہیں لیکن مولانا نئی صاف اچکن پہن کر ہی اس تقریب میں روانہ ہوئے۔
مولانا اپنی سیاسی زندگی پر خوش نہ تھے اور اس میں ان کے ساتھی ان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ بات یہ تھی کہ یہ لوگ غیر سیاسی تھے اور غیر سیاسی طبقات سے نکل کر آئے تھے۔ لوگ صرف خاص طبقے کے لوگوں کو ہی ووٹ دیتے تھے۔ ایک الیکشن میں جب امرائے ضلع کے اندازوں کے برعکس نتیجے نکلے تو مولانا نے سب کو بلایا اور ان کی خوش فہمی پر برہمی کا اظہار کیا۔ مولانا نے اپنے انداز میں ہر کوشش کی مگر پاکستانی عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا جب کہ عدالتوں میں کسی رکن جماعت کی گواہی کو حتمی سمجھا جاتا تھا کہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ صالحین کی جماعت تو تیار ہو گئی مگر صالحین عوام تیار نہ ہو سکے۔ اس عالم کے پاس اتنا وقت نہ تھا سیاست تو چلتی ہی رہتی ہے وہ سیاست میں زیادہ وقت دیتے تو یہ علمی ذخیرے کیسے جمع ہوتے۔
مولانا کو خراج عقیدت کون کیا پیش کرے ان کا علمی کام اور ان کی شخصیت یہ کام خود کرتی رہے گی۔ ہم تو ان کے جوتوں کی خاک بھی نہیں۔