سیاسی مڈل کلاس

ہماری اشرافیہ کے خلاف عدلیہ اور نیب میں کرپشن کے بہت سارے کیس عشروں سے زیر سماعت زیر تحقیق ہیں ۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہمارے سیاسی المیوں میں ایک بہت بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی مڈل کلاس اشرافیائی اور خاندانی سیاسی جماعتوں میں زرخرید غلاموں جیسا کردار ادا کر رہی ہے۔ جمہوری سیاست میں صف دوم سے صف اول میں آنے کے لیے خدمات سینیارٹی، صلاحیت، تجربے، خلوص، تعلیم وغیرہ کو سیڑھی بنایا جاتا ہے۔

اسی بنیاد پر پارٹیوں کی سربراہی کا تعین کیا جاتا ہے اور الیکشن جیتنے والی سیاسی جماعتیں اسی اہلیت اور معیار کو سامنے رکھ کر ملک کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار نامزد کرتی ہیں لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ان پارٹیوں میں خدمت انجام دیتے ہوئے اپنے بال سفید کرنے والی مڈل کلاس کی سیاسی قیادت خدمات صلاحیت خلوص اور سینیارٹی کو پس پشت ڈال کر محض خاندانی سیاست مالی استعداد کی بنیاد پر نہ صرف سیاسی قیادت کا انتخاب کرتی ہے بلکہ ان ہی کرپٹ خاندانی اوتاروں کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کرتی ہے اور ان کے سایہ عاطفت میں غلامی کا کردار ادا کرنے کو باعث افتخار سمجھتی ہے۔

اس حوالے سے اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ پارٹی کی خدمت کرتے ہوئے اپنے بال سفید کرنے والی سیاسی مڈل کلاس خاندان دولت اور خونی رشتوں کی ٹہنیوں سے لٹک کر پارٹیوں پر چھلانگ لگانے والے ناتجربہ کار نااہل نوعمر ولی عہدوں کے سامنے سربسجود ہونے پر مجبور ہوتی ہے جس کا مشاہدہ ہم وڈیرہ شاہی سیاست کے مسلط کردہ ولی عہدوں کی شکل میں کر رہے ہیں۔ اہل نظر سیاسی مڈل کلاس کی اس غلامی کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور سر دھن رہے ہیں کہ الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے یہ کیسا سیاسی طلسم ہے یہ کیسی سیاسی اخلاقیات ہے یہ کیسی جمہوری روایات ہیں کہ وہ سینئر مڈل کلاس جو اپنی پارٹیوں میں کام کرتے ہوئے اپنے بال سفید کرچکے ہیں جن کی کمریں خمیدہ ہوگئی ہیں وہ کل کے ناتجربہ کار نوعمر بچوں کے سامنے کس طرح بچھے جا رہے ہیں؟

اس کلچر کے خلاف کسی طرف سے کوئی آواز احتجاج بلند ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی صف دوم کی اس قیادت کو اس کی ان خدمات کے عوض کچھ مالی مراعات کچھ عہدے مل جاتے ہیں جن پر یہ سیاسی مڈل کلاس نہ صرف قانع رہتی ہے بلکہ فخر کرتی نظر آتی ہے۔ ہمارے کرپٹ جمہوری بادشاہ جنھوں نے دولت جمع کرلی ہے یہ دولت بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے اور اپنے ولی عہدوں کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے قومی خزانوں سے اربوں روپے لٹا رہی ہے اور اربوں روپوں کے ترقیاتی پروجیکٹ اپنی اولاد کی تحویل میں دے کر لوٹ مار کے مزید مواقعے حاصل کر رہی ہے۔

اس حوالے سے جہاں ہماری سیاسی مڈل کلاس کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے ، وہیں اس اشرافیائی سیاسی کلچر میں سیاسی کارکنوں کو سیاسی ہاری بناکر رکھ دیا گیا ہے جن کا کام جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانا زندہ باد کے نعرے لگانا رہ گیا ہے۔ اس شاہانہ سیاسی کلچر کی وجہ سے نچلی سطح سے قیادت کے ابھرنے کے تمام امکانات ختم ہوگئے ہیں اور بادشاہی جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔


اسلام آباد کے دھرنوں کے خوف سے نکلنے کے لیے پچھلے دنوں جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کے نام پر پارلیمنٹ کا جو مشترکہ اجلاس بلایا گیا تھا اس کا اصل مقصد خاندانی بادشاہتوں کا تحفظ تھا۔ اس مشترکہ اجلاس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس اجلاس میں جمہوریت کو بچانے کے حوالے سے جو دھواں دھار تقریریں ہوئیں ان میں سب سے زیادہ دھواں دھار تقاریر کرنے والوں کا تعلق سیاسی مڈل کلاس سے تھا اور سیاسی اشرافیہ ان تابعداران جمہوریت کی خدمات کو حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر یہ سیاسی مڈل کلاس کتنے بڑے بڑے کام کر رہی ہے۔

ہماری اشرافیہ کے خلاف عدلیہ اور نیب میں کرپشن کے بہت سارے کیس عشروں سے زیر سماعت زیر تحقیق ہیں ۔انصاف کے ہونے میں اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ عوام میں طرح طرح کے شکوک پیدا ہو رہے ہیں اور بعض اہم انکشافات کی وجہ سے یہ شکوک اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 2007 میں وکلا کی تحریک کے نتیجے میں آزاد ہونے والی عدلیہ کے سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ 2013 کے الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا وہ بھی ایک کردار ہیں۔ اس قسم کے الزامات کو بعض دوسرے انکشافات اور مضبوط بنا رہے ہیں۔ اس کے مضمرات کس قدر سنگین ہیں کیا ہماری فکری ایلیٹ اس کا اندازہ کرسکتی ہے۔

اس حوالے سے ہماری سیاسی مڈل کلاس کا کردار نہ صرف قابل حیرت ہے کہ وہ سیاسی اشرافیہ کی مبینہ کرپشن کی نہ صرف پردہ پوشی کی کوشش کرتی نظر آتی ہے بلکہ اشرافیہ کے ان گناہوں اور جرائم کی تردید میں اپنی ساری دانشورانہ صلاحیتیں استعمال کرتی بھی نظر آتی ہے ٹاک شوز میں عوام جب سیاسی مڈل کلاس کو میڈیا کے گھاٹ پر اشرافیہ کے گندے پوتڑے دھوتے دیکھتی ہے ۔ تو ان کے دلوں میں سیاسی مڈل کلاس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں انقلابات کی تاریخ میں سیاسی مڈل کلاس کے کردار کو انقلابی جدوجہد میں نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن ہم کیا اسے اپنے جاگیردارانہ نظام کی کارکردگی کہیں یا سرمایہ دارانہ نظام کی ہوس زرگری کہیں کہ ایسے تاریخی کردار کی حامل سیاسی مڈل کلاس کا کردار اس قدر گندا اور گھناؤنا نظر آرہا ہے کہ اشرافیہ کا کردار بھی اس کے سامنے ماند پڑ رہا ہے۔

سیاسی مڈل کلاس کے اکابرین وڈیرہ شاہی سیاسی جماعتوں میں کام کر رہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان کی طویل سیاسی خدمات ان کی قربانیوں ان کی صلاحیتوں ان کی سینیارٹی کے حوالے سے انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی پارٹیوں کی قیادت کریں اور انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ان کی پارلیمانی پارٹیاں انھیں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کریں؟ کیا 67 سال کے عرصے میں کوئی ایک مثال ایسی سامنے آتی ہے کہ کسی سیاسی مڈل کلاس کے فرد کو اس کی سیاسی خدمات اس کی قربانیوں اس کے تجربے اس کی سینیارٹی اس کی اہلیت کے حوالے سے اس کا جائز حق اسے دیا گیا ہو؟

آج اسلام آباد کے ڈی چوک پر 30-35 دن سے عوام کا جو جم غفیر جمع ہے جس میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ حکمران طبقات اور اس کی تابعدار مڈل کلاس اس کا مذاق اڑا رہی ہے اس پر بے ہودہ انداز میں طعنہ زنی کر رہی ہے۔ ہوسکتا ہے اپنی ناقص منصوبہ بندی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے یہ ہجوم اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو لیکن ان دھرنوں نے نہ صرف عوام میں طبقاتی شعور بیدار کیا ہے بلکہ سیاسی مڈل کلاس کے گندے رول کو اس طرح اجاگر کردیا ہے کہ اشرافیہ کے ساتھ ساتھ اس کی تابعدار سیاسی مڈل کلاس بھی بے نقاب ہوگئی ہے۔
Load Next Story