تعلیم یا قومی وسائل کا ضیاع
سوچیے! جس ملک کی بیشتر آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اس ملک کی جامعات ’’غالب کے انداز بیان‘‘ پر ۔۔۔
ہمارے یہاں ایک بات بڑے دعوے سے کی جاتی ہے کہ ''ہمارا نظام تعلیم زوال پذیر ہے'' یہ دعویٰ قطعی طور پر غلط ہے کیوں کہ ہمارے نظام تعلیم کو کبھی عروج حاصل ہی نہیں رہا ہے۔ اس لیے اس کے زوال پذیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہمارا نظام تعلیم زوال پذیر نہیں ہے بلکہ پسماندگی کا شکار ہے، اگر یہ بات کی جائے کہ ہم تعلیم کے نام پر اپنے قومی وسائل ضایع کررہے ہیں تو یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا۔
اس وقت ہمارے تعلیمی نظام کی حالت یہ ہے کہ اس کی کوئی سمت ہی متعین نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جامعات کا سب سے پہلا کردار معاشرے کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، جامعات اپنی تحقیق اور فکر کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں، ہمارے ملک میں جامعات میں تحقیق کے لیے ایسے موضوع دیے جاتے ہیں جس کا پاکستان کی معیشت اور سماج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں کی جاتی بلکہ پرانی تحقیق کو ہی نیا بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔
سوچیے! جس ملک کی بیشتر آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اس ملک کی جامعات ''غالب کے انداز بیان'' پر تحقیق کرکے نامعلوم کون سی قومی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اس پر غیر جذباتی انداز فکر کی ضرورت ہے۔ اس بے مقصد تعلیم کی بدولت ہم ہزاروں ایسے روایتی تعلیم یافتہ بے روزگار پیدا کررہے ہیں جس کی ہماری معیشت میں کوئی جگہ نہیں۔
اس بات سے قطعی یہ مطلب نہ لیا جائے کہ راقم الحروف سماجی اور ادبی علوم کے خلاف ہے یا انھیں غیر ضروری تصور کرتا ہے، میرے نزدیک سماجی اور ادبی علوم انسانی زندگی کے معاملات پر غور کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسا فکری ماحول پروان چڑھتا ہے جو معاشرے کو جمود اور علمی بانجھ پن سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں پر اپنے وسائل صرف کرنے چاہئیں۔بد قسمتی سے ہم اب تک یہ تعین ہی نہیں کرسکے ہیں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا کتنا حصہ سماجی اور ادبی شعبے کے لیے درکار ہوگا، محدود مالی وسائل کے ساتھ پوری قوم کو ادب اور سماج کے شعبے میں جھونک دینا کسی طور پر مفید نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے شعبے میں ہمیشہ بے اعتنائی اختیار کی ہے۔ جس وقت یورپ میں آکسفورڈ کی بنیاد رکھی جارہی تھی اس وقت ہمارے مغل بادشاہ اپنی سر زمین پر ''تاج محل'' کی بنیاد رکھ رہے تھے، قیام پاکستان یعنی تقسیم ہند کے بعد بھارت نے اپنا پہلا وزیر ''تعلیم ایک عالم دین اور مفکر مولانا ابوالکلام آزاد کو مقرر کیا جب کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں تک تعلیم اور تجارت کے قلم داں ایک وزیر جناب آئی آئی چندریگر کے پاس تھے اس بات سے ہماری تعلیم سے سنجیدگی کا باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں، ہمارے اس رویے کا یہ عملی نتیجہ ہے کہ ہماری تعلیم جو ایک مشن کے تحت دی جانی چاہیے تھی اب تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔
ہم انگریزوں کے طریقہ تعلیم کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں، تعلیمی نظام کے ضمن میں پائی جانے والی تمام خرابیوں کو لارڈ میکالے کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم نے کون سا ایسا نظام تعلیم یا نصاب تعلیم تیار کیا ہے جو ہمیں عملی زندگی میں داخل کرکے پاکستان کو بلندیوں کی طرف لے جاسکے۔ ہمارے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام میں یکساں نصاب کے بجائے کئی طرح کے نصاب رکھنے والا تعلیمی نظام نافذ کیا ہے جو ایک طرف جامد مذہبی سوچ کو جنم دیتا ہے اور دوسری طرف لادینی اور سیکولر مزاج کو، ایک نظام حکمران طبقہ پیدا کر رہا ہے تو دوسرا نظام محکوم ایک نظام افسر شاہی بنا رہا ہے تو دوسرا کلرک اس نظام تعلیم نے ہمیں ایک قوم بنانے کے بجائے مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔
میری ذاتی رائے میں ہمارے تعلیمی نظام کو مرتب کرنے والے کرتا دھرتاؤں نے طبقاتی تقسیم کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیمی نظام میں نصاب کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے تاکہ ''تعلیم سب کے لیے'' کے عالمی سلوگن کا بھی لحاظ رکھا جاسکے اور اپنا الو بھی سیدھا رہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک ذریعہ تعلیم کا نہ ہونا ہے، ہم نے انگریزی عالمی ضرورت، فارسی علمی ضرورت، اردو قومی ضرورت، مادری، مقامی زبان صوبائی ضرورت کے نام پر اپنے طالب علم کو مختلف زبانوں کی گھتیاں سلجھانے میں لگایا ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایک طالب علم اپنا زیادہ وقت جب مختلف زبانوں کی گھتیاں سلجھانے میں صرف کرے گا تو دیگر علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ ہمارا طالب علم زمانہ طالب علمی کی آخری منزل پر بھی ان مضامین کے مبادیات سے واقف نہیں ہوتا جن پر آج کل کی دنیا گردش کررہی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار اردو میڈیم طلباء رہے ہیں۔
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کے تصور نے بھی معاشرے کی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا ہے، اس نظام نے زمینی اور آسمانی مخلوق کا تصور پیدا کیا ہے، انگریزی خواہ طبقہ اپنے آپ کو اردو دان طبقے کے مقابلے میں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ، سلیقہ شعار، برتر تصور کرتا ہے جب کہ اردو دان طبقہ انھیں استحصالی گروہ قرار دیتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں اردو میڈیم طلباء میں اجتماعی اور سماجی زندگی کا زیادہ شعور ہوتا ہے لیکن ان کے ساتھ بھی وہی المیہ ہے جو دینی مدارس کے طلباء کے ساتھ ہے یعنی ان کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہوتا ہے، یہ طلبا جب اپنی عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو آگے آکر انگریزی میڈیم بالخصوص ولادیتی پوز رکھنے والوں کی دہشت میں آکر اپنی خود اعتمادی کھو دیتے ہیں اور زندگی بھر اطاعت گزاری کے بڑے اچھے کارندے بن کر رہ جاتے ہیں جو ایک قومی نقصان ہے۔نظام تعلیم میں تیسری بڑی خرابی سوالات اٹھانے پر پابندی ہے علم کی بنیاد لفظ کیوں پر ہے جس معاشرے میں لفظ کیوں پر پابندی ہوگی اس معاشرے میں علم کبھی فروغ نہیں پاسکتا، ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں ان خرابیوں کا ذمے دار کون ہے، میرے نزدیک تعلیمی نظام میں ہمہ گیر خرابیوں کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو جاگیردارانہ سوچ کا حامل ہے وہ جانتا ہے کہ علم پھیلے گا تو ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے پیدا ہوجائیں گے، اس لیے یہ طبقہ علم کی روشنی کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے، افسرشاہی کے جگر گوشے کیوں کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے اس لیے ہماری افسر شاہی ملک کی عام بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال سے لا تعلق ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جانا چاہیے، اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں تعلیم کو وڈیرہ شاہی کے چنگل سے آزاد کرانا ہوگا اس کے بغیر تعلیمی نظام میں اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اسکول میں پڑھنے والے بچے غیر معمولی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اس عمر میں ان کے ذہنی، اخلاقی اور نظریاتی اثرات سب سے زیادہ قبول کرتے ہیں اس لیے ایسے مضامین جو کردار سازی وطن سے محبت اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں اسکول کی سطح پر پڑھائے جائیں اور اسکول کی تعلیم کو عمومی تعلیم کے نام سے موسوم کیا جائے۔
تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ عمومی تعلیم نہیں دی جاسکتی، میٹرک کے بعد عمومی تعلیم پر پابندی ہونی چاہیے، کالج کی تعلیم کو صرف فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم سے منسلک کیا جائے، اس کے نصاب کو ہماری ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے، اس طرح ہم اپنے وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لاسکیں گے۔
ہماری سائنسی تعلیم ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کرنے کے لیے یعنی ان ہی دو گروہوں میں تقسیم ہے گویا ہم سائنس دان پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
یونی ورسٹی کی تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کرکے اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے، تحقیق کا دائرہ دس سال کے لیے صرف پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے تک محدود کردیا جائے، اس طرح ہم اعلیٰ قیادت کی تعمیر کا عمل جاری رکھ سکیں گے۔نپولین نے کہا تھا تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا، ہمارے یہاں خواتین یونی ورسٹی کے قیام کی بات کی جاتی ہے لیکن ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے گرلز اسکول اور کالج میں زنانہ اسٹاف مہیا نہ کرسکے۔ ہمیں غیر جذباتی انداز فکر اختیار کرتے ہوئے اس پر بھی غور کرنا چاہیے، خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی جانب توجہ دی جائے۔
کالج اور یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے عمر کی مقررہ حد ختم کی جائے تاکہ اس حدیث مبارکہ کے اس حکم ''علم حاصل کرو ماں کی گود سے لحد تک'' کی تعمیل ہوسکے۔
اس وقت ہمارے تعلیمی نظام کی حالت یہ ہے کہ اس کی کوئی سمت ہی متعین نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جامعات کا سب سے پہلا کردار معاشرے کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، جامعات اپنی تحقیق اور فکر کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں، ہمارے ملک میں جامعات میں تحقیق کے لیے ایسے موضوع دیے جاتے ہیں جس کا پاکستان کی معیشت اور سماج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں کی جاتی بلکہ پرانی تحقیق کو ہی نیا بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔
سوچیے! جس ملک کی بیشتر آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اس ملک کی جامعات ''غالب کے انداز بیان'' پر تحقیق کرکے نامعلوم کون سی قومی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اس پر غیر جذباتی انداز فکر کی ضرورت ہے۔ اس بے مقصد تعلیم کی بدولت ہم ہزاروں ایسے روایتی تعلیم یافتہ بے روزگار پیدا کررہے ہیں جس کی ہماری معیشت میں کوئی جگہ نہیں۔
اس بات سے قطعی یہ مطلب نہ لیا جائے کہ راقم الحروف سماجی اور ادبی علوم کے خلاف ہے یا انھیں غیر ضروری تصور کرتا ہے، میرے نزدیک سماجی اور ادبی علوم انسانی زندگی کے معاملات پر غور کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسا فکری ماحول پروان چڑھتا ہے جو معاشرے کو جمود اور علمی بانجھ پن سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں پر اپنے وسائل صرف کرنے چاہئیں۔بد قسمتی سے ہم اب تک یہ تعین ہی نہیں کرسکے ہیں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا کتنا حصہ سماجی اور ادبی شعبے کے لیے درکار ہوگا، محدود مالی وسائل کے ساتھ پوری قوم کو ادب اور سماج کے شعبے میں جھونک دینا کسی طور پر مفید نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے شعبے میں ہمیشہ بے اعتنائی اختیار کی ہے۔ جس وقت یورپ میں آکسفورڈ کی بنیاد رکھی جارہی تھی اس وقت ہمارے مغل بادشاہ اپنی سر زمین پر ''تاج محل'' کی بنیاد رکھ رہے تھے، قیام پاکستان یعنی تقسیم ہند کے بعد بھارت نے اپنا پہلا وزیر ''تعلیم ایک عالم دین اور مفکر مولانا ابوالکلام آزاد کو مقرر کیا جب کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں تک تعلیم اور تجارت کے قلم داں ایک وزیر جناب آئی آئی چندریگر کے پاس تھے اس بات سے ہماری تعلیم سے سنجیدگی کا باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں، ہمارے اس رویے کا یہ عملی نتیجہ ہے کہ ہماری تعلیم جو ایک مشن کے تحت دی جانی چاہیے تھی اب تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔
ہم انگریزوں کے طریقہ تعلیم کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں، تعلیمی نظام کے ضمن میں پائی جانے والی تمام خرابیوں کو لارڈ میکالے کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم نے کون سا ایسا نظام تعلیم یا نصاب تعلیم تیار کیا ہے جو ہمیں عملی زندگی میں داخل کرکے پاکستان کو بلندیوں کی طرف لے جاسکے۔ ہمارے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام میں یکساں نصاب کے بجائے کئی طرح کے نصاب رکھنے والا تعلیمی نظام نافذ کیا ہے جو ایک طرف جامد مذہبی سوچ کو جنم دیتا ہے اور دوسری طرف لادینی اور سیکولر مزاج کو، ایک نظام حکمران طبقہ پیدا کر رہا ہے تو دوسرا نظام محکوم ایک نظام افسر شاہی بنا رہا ہے تو دوسرا کلرک اس نظام تعلیم نے ہمیں ایک قوم بنانے کے بجائے مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔
میری ذاتی رائے میں ہمارے تعلیمی نظام کو مرتب کرنے والے کرتا دھرتاؤں نے طبقاتی تقسیم کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیمی نظام میں نصاب کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے تاکہ ''تعلیم سب کے لیے'' کے عالمی سلوگن کا بھی لحاظ رکھا جاسکے اور اپنا الو بھی سیدھا رہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک ذریعہ تعلیم کا نہ ہونا ہے، ہم نے انگریزی عالمی ضرورت، فارسی علمی ضرورت، اردو قومی ضرورت، مادری، مقامی زبان صوبائی ضرورت کے نام پر اپنے طالب علم کو مختلف زبانوں کی گھتیاں سلجھانے میں لگایا ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایک طالب علم اپنا زیادہ وقت جب مختلف زبانوں کی گھتیاں سلجھانے میں صرف کرے گا تو دیگر علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ ہمارا طالب علم زمانہ طالب علمی کی آخری منزل پر بھی ان مضامین کے مبادیات سے واقف نہیں ہوتا جن پر آج کل کی دنیا گردش کررہی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار اردو میڈیم طلباء رہے ہیں۔
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کے تصور نے بھی معاشرے کی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا ہے، اس نظام نے زمینی اور آسمانی مخلوق کا تصور پیدا کیا ہے، انگریزی خواہ طبقہ اپنے آپ کو اردو دان طبقے کے مقابلے میں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ، سلیقہ شعار، برتر تصور کرتا ہے جب کہ اردو دان طبقہ انھیں استحصالی گروہ قرار دیتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں اردو میڈیم طلباء میں اجتماعی اور سماجی زندگی کا زیادہ شعور ہوتا ہے لیکن ان کے ساتھ بھی وہی المیہ ہے جو دینی مدارس کے طلباء کے ساتھ ہے یعنی ان کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہوتا ہے، یہ طلبا جب اپنی عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو آگے آکر انگریزی میڈیم بالخصوص ولادیتی پوز رکھنے والوں کی دہشت میں آکر اپنی خود اعتمادی کھو دیتے ہیں اور زندگی بھر اطاعت گزاری کے بڑے اچھے کارندے بن کر رہ جاتے ہیں جو ایک قومی نقصان ہے۔نظام تعلیم میں تیسری بڑی خرابی سوالات اٹھانے پر پابندی ہے علم کی بنیاد لفظ کیوں پر ہے جس معاشرے میں لفظ کیوں پر پابندی ہوگی اس معاشرے میں علم کبھی فروغ نہیں پاسکتا، ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں ان خرابیوں کا ذمے دار کون ہے، میرے نزدیک تعلیمی نظام میں ہمہ گیر خرابیوں کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو جاگیردارانہ سوچ کا حامل ہے وہ جانتا ہے کہ علم پھیلے گا تو ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے پیدا ہوجائیں گے، اس لیے یہ طبقہ علم کی روشنی کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے، افسرشاہی کے جگر گوشے کیوں کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے اس لیے ہماری افسر شاہی ملک کی عام بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال سے لا تعلق ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جانا چاہیے، اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں تعلیم کو وڈیرہ شاہی کے چنگل سے آزاد کرانا ہوگا اس کے بغیر تعلیمی نظام میں اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اسکول میں پڑھنے والے بچے غیر معمولی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اس عمر میں ان کے ذہنی، اخلاقی اور نظریاتی اثرات سب سے زیادہ قبول کرتے ہیں اس لیے ایسے مضامین جو کردار سازی وطن سے محبت اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں اسکول کی سطح پر پڑھائے جائیں اور اسکول کی تعلیم کو عمومی تعلیم کے نام سے موسوم کیا جائے۔
تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ عمومی تعلیم نہیں دی جاسکتی، میٹرک کے بعد عمومی تعلیم پر پابندی ہونی چاہیے، کالج کی تعلیم کو صرف فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم سے منسلک کیا جائے، اس کے نصاب کو ہماری ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے، اس طرح ہم اپنے وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لاسکیں گے۔
ہماری سائنسی تعلیم ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کرنے کے لیے یعنی ان ہی دو گروہوں میں تقسیم ہے گویا ہم سائنس دان پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
یونی ورسٹی کی تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کرکے اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے، تحقیق کا دائرہ دس سال کے لیے صرف پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے تک محدود کردیا جائے، اس طرح ہم اعلیٰ قیادت کی تعمیر کا عمل جاری رکھ سکیں گے۔نپولین نے کہا تھا تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا، ہمارے یہاں خواتین یونی ورسٹی کے قیام کی بات کی جاتی ہے لیکن ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے گرلز اسکول اور کالج میں زنانہ اسٹاف مہیا نہ کرسکے۔ ہمیں غیر جذباتی انداز فکر اختیار کرتے ہوئے اس پر بھی غور کرنا چاہیے، خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی جانب توجہ دی جائے۔
کالج اور یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے عمر کی مقررہ حد ختم کی جائے تاکہ اس حدیث مبارکہ کے اس حکم ''علم حاصل کرو ماں کی گود سے لحد تک'' کی تعمیل ہوسکے۔