بلاول بھٹو پنجاب میں پارٹی کو فعال کرنے کے لئے سرگرم

بلاول بھٹو چنیوٹ کے سیلاب زدہ علاقے میں جس طرح پانی میں اکیلے چلے گئے اس سے نظر آیا کہ وہ بڑے دلیر ہیں۔

بلاول بھٹو چنیوٹ کے سیلاب زدہ علاقے میں جس طرح پانی میں اکیلے چلے گئے اس سے نظر آیا کہ وہ بڑے دلیر ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
پیپلزپارٹی پنجاب میں خاصے عرصے سے سیاسی دباؤ اور تنہائی کا شکار چلی آرہی ہے۔ جب تک بے نظیر حیات تھیں پیپلزپارٹی پنجاب میں بڑی حد تک متحرک اور فعال رہیں۔ گو پارٹی میں 70ء کی دہائی والی اٹھان نہیں تھی، اس کے باوجود پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنے سیاسی حریفوں مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کو ٹف ٹائم دیتی رہی لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی گزشتہ دور حکومت خصوصاً 2013 ء کے انتخابات کے دوران پنجاب میں خاصی حد تک غیر فعال نظر آئی۔ اس میں جہاں مسلم لیگ (ن) کی عدم برداشت کی پالیسی شامل تھی، وہیں دہشت گردی بھی پیپلزپارٹی کیلئے بڑا ایشو تھا۔

مسلم لیگ (ن) بھی نہیں چاہتی تھی کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں متحرک کردار اد ا کرے اور طالبان کا بھی یہی ایجنڈا تھا، اسٹیبلشمنٹ تو روائتی طور پر پیپلزپارٹی کی مخالف ہے، یوں پنجاب میں پیپلزپارٹی کیلئے انتہائی سخت حالات پیدا ہوگئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں میں اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو کوئی شخصیت متحرک کر سکتی ہے تو وہ بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً آصف زرداری کوبھی اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے۔ آصف زرداری نے اسلام آبادکی حالیہ پارٹی میٹنگ میں کہہ دیا تھا کہ پنجاب بلاول چلائے گا۔

آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت مناسب موقع کی تلاش میں تھی کہ بلاول بھٹو کوکب پنجاب میں لانچ کیا جائے۔ ان کی پنجاب آمد کے بارے میں مختلف تاریخیں بھی دی جاتی رہیں۔ پنجاب میں حالیہ سیلاب پر وہ موقع آگیا اور بلاول بھٹو زرداری پنجاب کے سیاسی میدان میں اترگئے۔ سیلاب زدہ علاقے میں ان کا استقبال غیر معمولی انداز میں ہوا اور انہوں نے خود بھی پانی میں اتر کر سب کو حیران کردیا۔ گو ان کا دورہ مختصر تھا لیکن اس کے اثرات انتہائی گہرے مرتب ہوئے۔ بلاول بھٹو نے طے شدہ شیڈول کے تحت اکتوبر میں پنجاب آنا تھا مگر سیلاب کے باعث ان کو جلدی آنا پڑ گیا۔

بلاول بھٹو کا اس لحاظ سے دورہ بڑا اہم تھا کہ یہ ان کا پہلا دورہ تھا ، وہ اکیلے آئے اور آصف زرداری نے پہلی دفعہ انہیں اکیلے آنے دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی کے اندر بلاول بھٹو کا اثرو رسوخ بڑھ گیا ہے۔ بلاول بھٹو روائتی سیاست میں بڑی ماڈرن تکنیک کے ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر عمران خان کی سیاست کی مخالفت کر رہے ہیںاور نواز شریف کو بھی فائدہ نہیں دینا چاہتے اس لئے انہوں نے عمران اور نواز شریف سے علیحدہ لائن لے لی ہے۔ بلاول بھٹو نے پنجاب میں ہوشیاری سے کشمیر واپس لینے کا بیان دیا ۔ انڈیا نے بلاول بھٹو کے بیان پر بڑا سخت ردعمل دیا ہے اور بھارتی میڈیا نے ہلچل مچا رکھی ہے۔

بھارتی میڈیا میں ابھی تک اس ایشو پر بحث چل رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 70 ء کی دھائی میں کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کا بیان دیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے بھی مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا تھا۔ پنجاب میں بلاول بھٹو کے حوالے سے ایک انتظار اور تشنگی تھی اور لوگ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت کی دلچسپی کے بارے میں بھی کنفیوژ تھے۔ اس دورے سے جیالوں کا انتظار اور تشنگی دور ہوگئی ہے۔ بلاول بھٹو نے پنجاب میں پارٹی کو متحرک کردیا ہے اور پارٹی جس تعطل اور مایوسی کا شکار ہوگئی تھی اس کو توڑدیا ہے اس سے پارٹی مایوسی سے نکل گئی ہے اور روشنی کی کرن نظر آئی ہے۔


چنیوٹ کے سیلاب زدہ علاقے میں جس طرح وہ پانی میں اکیلے چلے گئے اس سے نظر آیا کہ وہ بڑے دلیر ہیں۔ ذوالفقار بھٹو اور بے بظیر بھٹو بھی عوام کے مفاد میں دلیری سے فیصلے کرتے تھے اور دونوں نے عوام کیلئے جانیں دے دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان بچانے کیلئے کمپرومائز کر سکتے تھے اور بے نظیر بھٹو راولپنڈی لیاقت باغ جیپ سے باہر نہ نکلتیں تو بچ سکتی تھیں۔ بلاول بھٹو کے اندر عوام کی محبت نظر آئی۔ وہ ہیلی کاپٹر سے اترے تو سیلاب سے متاثرہ آبادی میں خواتین ان کو سامنے دیکھ رہی تھیں اور وہ چار پانچ فٹ پانی کے باعث ان کی طرف نہیں آسکتی تھیں جس پر بلاول بھٹو نے سکیورٹی اور گہرے پانی کی پرواہ نہ کی اور بغیر سوچے سمجھے پانی میں داخل ہوگئے اور واپس بھی اسی پانی سے گزر کر آئے۔

وہ پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے حسن مرتضیٰ کے ڈیرے پر گئے تو وہاں بھی عوام میں گھل مل گئے۔ جیالوں کو بلاول بھٹو کی شکل میں مستقبل نظر آنا شروع ہوگیا ہے جس سے ان کے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقے میں خواتین نے جس طرح بلاول سے پیار کیا اور اس کا منہ چومتی رہیںاور کہتی رہیں کہ ''ساڈی بے نظیر دا پتر آیا ہے ''۔ اس پر بلاول نے کہا کہ آج مجھے احساس ہوا کہ میری ماں سچ کہتی تھیں کہ عوام ہی اصل سرمایہ ہیں۔

بلاول بھٹو کے دورہ چنیوٹ میں صوبائی پارٹی تنظیم کی مس مینجمنٹ اور ناقص انتظامات بھی دیکھنے میں آئے۔ میاں منظور احمد وٹو کو ایک دن پہلے اپنی ٹیم کے ہمراہ چنیوٹ میں انتظامات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ میڈیا تقریب سے دو کلو میٹر دور تھا جس وجہ سے مناسب لائیو کوریج نہیں ہوسکی۔ دو بلٹ پروف گاڑیاں بھی پھنس گئیں، ان کو نکالنے کیلئے ٹریکٹرز لائے گئے مگر وہ بھی جواب دے گئے جس ٹرک میں سٹیج کا بلٹ پروف سامان تھا وہ بھی دلدل میں پھنس گیا تھا جس وجہ سے بلاول تقریر نہیں کر سکے۔ متاثرین کیلئے امدادی سامان بھی بڑی مشکل سے پانچ منٹ پہلے پہنچایا گیا۔

بلاول بھٹو ڈنر میں جس سٹائل سے پہلی بار پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو ملے۔ ہر میز پر 20 سے 25 منٹ وقت دیا اور سب کو جس تحمل اور حوصلے سے سنا کسی کو ٹوکا نہیں اور اس کے مطابق جواب دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے جواب کے پیچھے ایک سوچ ، گہرائی اور ویژن موجود ہے۔ بلاول بھٹو کے اندر انسانیت ، پیار اور اپنی ماں بے نظیر بھٹو کی دی گئی تربیت نظر آرہی تھی اسی طرح بے نظیر بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو نے تربیت دی تھی ان کے اندر مہذب پن بہت زیادہ ہے۔

جب وہ ڈنر میں پارٹی رہنماؤں کی میز پر پہنچے جس پر اعتزاز احسن ، شیری رحمٰن، لطیف کھوسہ ، جہانگیر بدر، قمر زمان کائرہ، نوید چودھری اور نوابزادہ غضنفر گل بیٹھے تھے بلاول بھٹو نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کی گائیڈنس اور رہنمائی چاہیے آپ کا بی بی شہید کے ساتھ کام کا تجربہ ہے میں آپ سے بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک ایک لمحے میں بے نظیر بھٹو کی سوچ ان کے اندر نظر آرہی تھی۔ بلاول بھٹو کا ویژن بڑا کلیئر تھا ان کا کہنا تھا کہ وہ 18 اکتوبر کے بعد لاہور آئیں گے اور یہاں بیٹھیں گے۔

پارٹی کو واپس اس کے قدموں پر کھڑا کریں گے جہاں بی بی اور بھٹو چھوڑ کر گئے تھے۔ پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکز بنا کر پنجاب کو پیپلزپارٹی کا قلعہ بنائیں گے اور پارٹی کے ہر ورکر سے ملیں گے ۔ بلاول بھٹو کی سیاست کیلئے اصل چیلنج پنجاب ہے۔ ان کو پنجاب میں اپنی ٹیم تبدیل کرنی ہے لیکن ٹیم تبدیل کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ساؤتھ پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن کچھ ٹھیک ہے، سنٹرل اور نارتھ میں نئی ٹیم تیار کرنا پڑے گی۔ یہ سال بلاول بھٹو کیلئے بڑا اہم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی سیاست کو کیسے آگے لے کر چلتے ہیں۔
Load Next Story