سہراب مودی اور آغا خان یاد آئے

ہم نے ٹھٹھہ اور اپنی دوسری تاریخی مسجدوں کی کب حفاظت کی کہ ہم کھدائی میں برآمد ہونے والے گندھارا آرٹ کے نادر ....

zahedahina@gmail.com

ہمارے یہاں عموماً ثقافتی ورثے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اسے مغرب سے آنے والی اصطلاحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا لاہور کا شاہی قلعہ اپنی حالت پر نوحہ خواں ہے۔ مکلی کے قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے یورپ کے ایک ملک کو رقم فراہم کرنی پڑتی ہے' موئن جو دڑو اور ہڑپہ کو بچانے کے لیے یونیسکو والے پریشان رہتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ہمیں ان معاملات سے کوئی غرض نہیں۔

ہم نے ٹھٹھہ اور اپنی دوسری تاریخی مسجدوں کی کب حفاظت کی کہ ہم کھدائی میں برآمد ہونے والے گندھارا آرٹ کے نادر ترین نمونوں کی بربادی کو روئیں۔ یہ وہ نوادرات ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے مختلف براعظموں سے جان ہتھیلی پر رکھ کر سیاح ہمارے یہاں آتے ہیں لیکن ہم نے انھیں بھی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ افغانستان کے شہر بامیان میں مہاتما بدھ کے عظیم الشان مجسموں کو جس طرح توپوں سے اڑایا گیا اور دنیا کو بودھ زمانے کی شاندار ثقافت سے جس طرح محروم کیا گیا' اس بارے میں افغانستان کی حکومت جوابدہ ہے لیکن ہمارے یہاں بھی گندھارا دور کے بیشتر مجسموں کے نقوش کھرچ دیے گئے۔ مہاتما بدھ کے کسی مجسمے کی ناک اڑا دی گئی اور کوئی مجسمہ اپنے کانوں سے محروم ہوا۔

پچھلے دنوں پشاور شہر میں صوبے کی حکومت نے دلیپ کمار اور راج کپور کی حویلیوں کو 'قومی ورثہ' قرار دے کر اس کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ ان دونوں عمارتوں کے خریدنے والے اور موجودہ زمانے میں ان حویلیوں کے مالکان اس فیصلے سے بے حد برا فروختہ ہوئے اور انھوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیدادیں انھوں نے خطیر رقم دے کر حاصل کی ہیں اور اب وہ کسی طور ان سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ حکومت انھیں ایک معقول رقم دینے کے لیے آمادہ ہے لیکن وہ ان حویلیوں کی ملکیت کا معاملہ عدالت میں لے گئے ہیں جہاں جج صاحبان چہ کنم میں گرفتار ہیں۔ ایک فاضل جج نے تو اس مقدمے کی سماعت ہی سے انکار کر دیا ہے اور اب اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک نیا بینچ تشکیل دیا جانے والا ہے۔

کیسی اداس کرنے والی بات ہے کہ ہندوستان میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے دلیپ کمار' راج کپور' شاہ رخ خان نے کروڑوں کمائے اور کروڑوں دلوں پر بادشاہی کی ہمارے یہاں بھی کروڑوں لوگ ان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو گھر یاد آتا ہے تو پلٹ کر ایک ایسے شہر کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جو 14 اگست 1947کے بعد پاکستان کی سرحدوں میں آباد ہے۔ میری مراد پشاور شہر سے ہے۔ بالی ووڈ کے ان تین بڑوں کو گھر جانے کے لیے ویزا کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی آسانی سے نہیں ملتا۔

اگر مجھے غلط یاد نہیں تو راج کپور کبھی پلٹ کر اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھ سکے جہاں وہ 14 اگست 1929 کو پیدا ہوئے تھے۔ دلیپ جی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں مستقبل کا خیال دھندلا جاتا ہے' حال صبح و شام گزارنے کا معاملہ ہوتا ہے اور اگر رہ جاتا ہے تو صرف ماضی جس کی یادیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔ شاہ رخ ایک مرتبہ پشاور آئے تھے اور اس کی گلیوں میں انھوں نے اپنے بڑوں کے کھوئے ہوئے ماضی کو ڈھونڈا تھا۔ آج شاہ رخ خان کا آبائی گھر جو شاہ ولی قتال کے علاقے میں ہے اس کی حالت کچھ اچھی نہیں۔

پرانے پشاور کا ایک بہت پرانا محلہ ڈھکی منور شاہ ہے جہاں اس وقت ہندوستانی سنیما کے لیجنڈ پرتھوی راج کی بنائی ہوئی شاندار حویلی کھڑی ہے۔ پرتھوی راج کے بیٹے راج کپور وہ بے مثال ہیرو ہیں جنھیں ہمارے یہاں آج بھی 'میں آوارہ ہوں۔ آسمان کا تارہ ہوں' ہم بگڑے دل شہزادے۔ راج سنگھاسن پر جا بیٹھیں' جب جب کریں ارادے' جیسے ناقابل فراموش گانوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے چاہنے والوں کو دکھ اس بات کا ہے کہ ان کی حویلی کا صدر دروازہ' اس کے شاندار جھروکے' بڑی بڑی کھڑکیاں اور ان میں جڑے ہوئے کچھ شیشے ٹوٹ گئے ہیں جن سے وقت کی دھول اندر جاتی رہتی ہے اور ہر منزل کے اس فرش پر جمتی رہتی ہے جس پر بیسویں صدی میں بننے والے مقبول جیومیٹریکل ڈیزائن کے ٹائیل لگے ہوئے ہیں۔

پچھلے دنوں ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم میں ایک نئے ڈائریکٹر آئے ہیں اور انھوں نے شہر کی تاریخ اور تہذیب کے لیے دل میں درد رکھنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ دلیپ کمار اور راج کپور کی حویلی کو حکومت کی نگرانی میں لے کر اس کو نئے سرے سے آراستہ کریں گے۔ اس وعدے کی روشنی میں اُمید یہ کی جا رہی ہے کہ صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتیں' اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں گی اور اپنا ثقافتی ورثہ برباد نہیں ہونے دیں گی ۔


ثقافتی ورثہ مذہب' نسل زبان اور علاقے کی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے۔ 2012میں جب میں دلی گئی تو مجھے پروفیسر اور اوما چکرورتی نے بتایا کہ ہمایوں کے مقبرے کی مرمت اور تزئین و آرائش اپنے آخری مرحلوں میں ہے۔ وہ مجھے ہمایوں کے مقبرے لے کر گئیں اور وہاں ہم دونوں نے بیٹھ کر مزدوروں کو چلچلاتی دھوپ میں کام کرتے دیکھا۔ دھندلا جا نے والے گل بوٹوں میں رنگ بھرے جا رہے تھے۔

ہمایوں کا مقبرہ مغل تاریخ کی ایک نہایت اہم عمارت ہے' یہی وہ عمارت تھی جہاں 1857ء میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے پناہ لی تھی اور پناہ نہیں ملی تھی۔ اُوما چکرورتی مغل دور پر اتھارٹی ہیں' وہ کس جوش و جذبے سے ہمایوں کے مقبرے کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔ میں انھیں دیکھتی رہی اور یہی دعا کرتی رہی کہ وہ لوگ سلامت رہیں جو ہندوستانی تاریخ کو دہلی سلطنت اور خاندان مغلیہ میں تقسیم کرتے ہیں لیکن اسے ہندو مسلمان میں بانٹ کر نہیں دیکھتے۔

سیکڑوں اور ہزاروں برس پرانے ثقافتی ورثے کی بات تو جانے دیں' ہم نے انیسویں صدی میں جان سے گزر جانے والے اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب کی حویلی اور ان کے مدفن کو یوں بھُلا دیا جیسے وہ کبھی موجود ہی نہیں تھے۔ غالب کا ایک فرنگی پرستار جب ان کے نام کی مالا جپتا ہوا دلی پہنچا تو وہ دلی کے مشہور محلے بَلیماراں میں اپنے چہیتے شاعر کی حویلی تلاش نہ کر سکا۔ اس بات نے اسے اتنا مضطرب کیا کہ اس نے اپنا شکوہ ایک مضمون کی صورت بیان کیا۔ یہ شکایت چونکہ بہ زبان انگریزی کی گئی تھی اس لیے دلی والوں پر اس کا بہت اثر ہوا۔ ان کی حویلی کی تلاش کی گئی جس میں دروغ برگردن راوی لکڑی اور کوئلے کی ٹال تھی۔

یہ لکھتے ہوئے مجھے سہراب مودی یاد آئے جنھیں اپنے ثقافتی ورثے سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے جب فلم 'غالب' بنانے کا ارادہ کیا اور غالب کے مزار پر پہنچے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ میر کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر اسد اللہ خاں غالب کے مزار کی تباہ حالی نے انھیں رُلا دیا۔ یہ وہ غالب ہے جس پر دلی والے ناز کرتے ہیں اور جسے دلی سے ایسا عشق تھا کہ وہ آگرے سے آیا تو پھر ان ہی کے شہر کا ہو رہا اور دفن بھی وہیں ہوا۔ لیکن کسی نے اس کی قبر کے ارد گرد سے کوڑا کرکٹ نہ ہٹوایا اور نہ ان کے مزار کی تعمیر نو ہوئی۔

یہ سہراب مودی کی ذات تھی جس نے 'ہمدرد' کے حکیم عبدالحمید کی معاونت سے لاکھوں روپے خرچ کر کے غالب کے مزار کی سنگ مرمر سے تعمیر کرائی۔ کئی برس پہلے جب میں ان کے مزار پر حاضر ہوئی تو سنگ مرمر کی سفیدی دھندلا گئی تھی۔ سہراب مودی مجھے یاد آئے تو اس لیے کہ انھوں نے اردو کے اس بے بدل شاعر کے مرقد کا احترام کیا۔ وہ شخص جو سہراب کے قدیم وطن ایران سے خصوصی محبت رکھتا تھا اور جس نے فارسی میں ہزاروں شعر کہے' اس غالب کی تکریم کا اس سے بہتر انداز اور کیا ہو سکتا تھا جو سہراب مودی نے اختیار کیا۔

غالب کے مزار کی تزئین کے لیے پہلے ہم ایک پارسی کو دعائیں دیتے تھے اب ایک آغا خانی شہزادہ کریم آغا خان کے بنائے ہوئے آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کا شکریہ ادا کریں جس نے حالیہ دنوں میں اردو شاعری کے شہزادۂ عالم کے مزار کی تزئین و آرائش بہت عقیدت اور محبت سے کرائی ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ کے قریب غالب کا مدفن ہمیں ہماری علمی' ادبی اور تہذیبی وراثت یاد دلاتا ہے۔ حضرت نظام الدین کے پہلو میں طوطی شکر مقال حضرت امیر خسرو دفن ہیں۔

تصوف' فلسفے اور شاعری کی وہ زنجیر جو ہمیں ایک شاندار تاریخی روایت سے جوڑتی ہے۔ اسی زنجیر کی نئی کڑیاں دلیپ کمار' پرتھوی راج' راج کپور' شاہ رخ خان اور بے شمار دوسرے نام ہیں جن کی یادیں اور یادگاریں سارے ہندوستان اور پاکستان میں بکھری ہوئی ہیں۔ انھیں فراموش کر کے اور ان کی طرف سے پیٹھ موڑ کر ہم ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے فقیر ہو جاتے ہیں۔ شاید ہم میں سے کوئی بھی فقیر ہونا پسند نہ کرے۔
Load Next Story