غلامی اکیسویں صدی میں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک میں عوام اپنے جارح حکمرانوں سے تنگ آجاتے ہیں...
جدید دور میں طاقت ور ملک اپنی فوجیں کمزور ملک میں داخل کر کے اس کی سرزمین پر قبضہ کر کے حکمراں بن جاتا ہے اور اس ملک کی عوام کو اپنے تابع بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی فہرست میں غلامی کی اس شکل کو شمار نہیں کیا جاتا کہ کسی بھی ملک کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جارحیت کر کے کسی بھی ملک پر قبضہ کر لے اور اس کے عوام کو اپنے دیے گئے قوانین کا تابع بنائے حکم عدولی پر جیلوں میں ڈالے یا سخت سزائیں دے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک میں عوام اپنے جارح حکمرانوں سے تنگ آجاتے ہیں اور موقع ملتے ہی گلو خلاصی کی کوشش کرتے ہیں جسے وہ جارح ملک بغاوت سے تعبیر کرتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ اپنا تسلط برقرار رکھنے میں ناکام ہی رہتا ہے، گو کہ اسے وقتی طور پر کامیابیاں تو ملتی ہیں کہ وہ کچھ سال قابض رہتا ہے لیکن بالآخر اُسے ناکام و نامراد جانا ہی پڑتا ہے۔
انسانوں کو غلام بنانے یا جیسے دوسروں لفظوں میں کہا جائے کہ انسان پر حکمرانی کا دوسرا طریقہ مذہب ہے، جہاں لوگوں کو ایمان کے نام پر قائل کر کے حق حکمرانی کا جواز پیدا کیا جاتا ہے اس طریقہ کار میں مذہبی پیشوائیت اپنے جواز حکمرانی کے لیے تشدد و سہانے خواب کا سہارا بھی لیتی ہے جس میں اپنے احکام منوانے کے لیے طاقت اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے خائف اور لالچ میں آ کر سخت گیر مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں مجبور کمزور عوام ان کے ہر حکم کو بجا لانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
زمانہ قدیم اور نشاۃ ثانیہ سے قبل یورپ بھی مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں غلام بنا ہوا تھا کہ ایسے اپنے گناہ معاف کرانے کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی تھی، جنت جانے کے پرمٹ کے لیے اسے معاوضہ دینا پڑتا تھا، دور جاہلیت کی تمام خامیاں ان میں بدرجہ اتم پائی جاتیں تھیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد دور حاضر میں فلسطین، شام، عراق اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں مذہب و مسلک کے نام ایک طاقت ور گروہ کمزور گروہ کو اپنا ماتحت بنانے میں تشدد آمیز کارروائیوں میں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں تامل نہیں برتتا۔ انسان کو غلام بنانے کا تیسرا طریقہ معاشی حکمرانی ہے۔
اس میں بظاہر کسی کا جبر دکھائی نہیں دیتا لیکن استعماری قوتیں پوری کی پوری مملکت کو اپنی پالیسیوں کی بنا پر غلام بنا دیتی ہیں۔ ان ہی پالیسیوں کی بنا پر ان سے ٹیکس یا سود قانونی شکل میں وصول کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ اس رقم سے ان کی حفاظت اور ترقی کے منصوبے بنا کر بہتری کی طرف چلا جائے گا لیکن ان کے آقا ان کے لیڈر اور محافظ بن جاتے ہیں اور بتدریج رزق کے بہتے سرچشموں پر قابض ہو کر عالمی غلامی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں بظاہر اس طریقے میں تشدد کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا جاتا لیکن معاشی غلام بنانے کے لیے اس ملک کو اس قدر مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے کہ ایسے عوام کے تحفظ کے نام جنگی جنون میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرحدوں کے تحفظ کے نام عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرتے رہتے ہیں اور اسلحہ جمع کرنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے بے تحاشا قرضہ حاصل کرتے ہیں، یہی مالیاتی ادارے پاکستان جیسی مملکتوں میں انتشار پیدا کر کے اس کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہیں تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکیں اور ان کی معاشی غلامی کے منصوبے کا حصہ بنیں رہیں، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں ان مالیاتی اداروں کی مرہون منت ہوتی ہیں اور انھیں بغیر کسی چوں چرا کے اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف عالمی مالیاتی ادارے ہیں جن کا کام ایسے ممالک کو غلام بنانا ہے جس میں قدرتی وسائل وافر پائے جاتے ہوں اور اسے یہ ڈر ہو کہ وہ ملک ترقی کی راہ پر چل کر عالمی تھانیداری کو کہیں چیلنج ہی نہ کر دے۔
یہ شاطر عالمی مالیاتی ادارے ایسی مملکتوں کو قرض کے چنگل میں پھنسا کر ورلڈ گیم کا حصہ بنا لیتے ہیں اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ Alexander Fraser Tyler سے منسوب یہ بیان اکثر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ''دنیا کی بڑی تہذیبوں کی اوسط عمر دو سال رہی ہے ایسی ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے، پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک، پھر عزم و حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک، پھر آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خودغرضی تک، خود غرضی لاتعلقی کا سبب بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے۔
بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔'' غلامی کی کئی اقسام میں ہمیں انفرادی طور پر خود اپنے آپ کا موازنہ بھی کر لینا چاہیے کہ ہم غلامی کی کس قسم میں گرفتار ہیں۔ اصل لبِ لباب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ ہم طاقت کے ہاتھوں غلام بنے ہیں یا اپنی معاشرتی طرز زندگی میں کسی کے معاشی غلام بن چکے ہیں۔ بہ حیثیت قوم تو ہم اپنے فیصلے اپنے لیڈروں کے ہاتھ میں سونپ دیتے ہیں جس پر ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کس قسم کی غلامی میں رکھنا پسند کرتے ہیں گھر میں اپنے والدین کی حق تلفی ہو کہ اپنی شریک حیات کو اپنا تابع بنا کر اسے ازدواجی غلام بنانا، یا پھر آجر ہو کر ملازم کو اجرت پر رکھ کر غلام بنانا، ہماری سرشت میں داخل ہی اس لیے ہے کیونکہ ہم نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رکھا ہے۔
اسی نفس کی خواہشات کے آگے ہم جھک جاتے ہیں اور اگر ہمارا تعلق سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہے تو اپنی فکر میں تشدد کی آمیزش کر دیتے ہیں کیونکہ اخلاق و کردار سے ہمارا دور تک واسطہ نہیں ہوتا، ہم چند افراد کے اس مجموعے میں گروہ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور بہ زور طاقت اقلیتی گروہ کو زیر نگیں کرنے کے لیے ہر سعی کرتے ہیں، گروہ کو اپنی طاقت کو موثر بنانے کے لیے مذہب، یا کسی بھی نظریے کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ جب تک کسی انسان کو جذباتی نہ کیا جائے اس سے من پسند خواہشات پوری نہیں کرائی جا سکتیں۔ افرادی قوت کا انحصار پھر اسی قوت پر ہوتا ہے جو اسے مضبوطی فراہم کرے اور وہ خود بھی کسی منافق کی طرح فرار ہونے کے لیے ایک راستہ ضرور رکھتا ہے کیونکہ منافق کی خاصیت یہی ہے کہ غار میں داخلے سے قبل وہ باہر جانے کا راستہ سامنے رکھتا ہے۔
گروہ کو ملکی اثر پذیری حاصل ہوتی ہے تو اس مملکت کو اس جیسے کئی گروہوں کو پاؤں تلے رکھنے کے لیے جاہ و حشمت کے ساتھ مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے وہ ادارے فراہم کرتے ہیں جن کا مقصد ہی انسانوں کو غلام بنانا ہے اور انسان غلام بنتے بنتے اپنی پوری قوم اور ملک کو بھی غلام بناتا چلا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس قوم کو اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرنے میں عقل سے زیادہ جذبات کا استعمال کرنا پڑتا ہے اپنے لیڈروں کے قول و فعل کے تضاد کو سنہری حیلہ سازیوں میں ڈھال کر اپنی نسل کو گروہی رکھنے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ غلامی کی اس سیاسی قسم کو بھی کسی میزان میں نہیں تولا جاتا کیونکہ جب جسموں کی قیمت سر عام لگنے لگیں تو ضمیر کے خریدار، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کہ مصداق کوڑیوں کے مول ملتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں رہا کہ انسان کی غلامی خود اس کے ہاتھ میں ہے یا کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں میں، لیکن ہم اپنے گرد و نواح میں دیکھیں تو با آسانی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ عوام اپنے لیڈروں کے عاقبت نااندیش فیصلوں کی بنا پر غلامی کی زنجیر سے اس ہاتھی کی طرح آزاد نہیں ہو پاتے جو ساری عمر اپنے طاقت ور جسم کے ساتھ بندھی زنجیر کو اس لیے نہیں توڑ پاتا کیونکہ اس نے پختہ یقین کر لیا ہوتا ہے کہ وہ غلام بن چکا ہے۔ اگر طاقت ور ہاتھی ذرا سی ہمت دکھاتا تو باآسانی زنجیروں کو توڑ سکتا تھا، لیکن جب خوئے غلامی مقدر بنا لی جائے تو اس سے آزادی دلانے کے لیے عرش سے فرشتے نہیں آ سکتے۔ آزادی جسمانی یا ذہنی ہو، یا سیاسی غلام انسان ہی بنتا ہے اور جدوجہد ہی اسے نجات دلاتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک میں عوام اپنے جارح حکمرانوں سے تنگ آجاتے ہیں اور موقع ملتے ہی گلو خلاصی کی کوشش کرتے ہیں جسے وہ جارح ملک بغاوت سے تعبیر کرتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ اپنا تسلط برقرار رکھنے میں ناکام ہی رہتا ہے، گو کہ اسے وقتی طور پر کامیابیاں تو ملتی ہیں کہ وہ کچھ سال قابض رہتا ہے لیکن بالآخر اُسے ناکام و نامراد جانا ہی پڑتا ہے۔
انسانوں کو غلام بنانے یا جیسے دوسروں لفظوں میں کہا جائے کہ انسان پر حکمرانی کا دوسرا طریقہ مذہب ہے، جہاں لوگوں کو ایمان کے نام پر قائل کر کے حق حکمرانی کا جواز پیدا کیا جاتا ہے اس طریقہ کار میں مذہبی پیشوائیت اپنے جواز حکمرانی کے لیے تشدد و سہانے خواب کا سہارا بھی لیتی ہے جس میں اپنے احکام منوانے کے لیے طاقت اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے خائف اور لالچ میں آ کر سخت گیر مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں مجبور کمزور عوام ان کے ہر حکم کو بجا لانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
زمانہ قدیم اور نشاۃ ثانیہ سے قبل یورپ بھی مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں غلام بنا ہوا تھا کہ ایسے اپنے گناہ معاف کرانے کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی تھی، جنت جانے کے پرمٹ کے لیے اسے معاوضہ دینا پڑتا تھا، دور جاہلیت کی تمام خامیاں ان میں بدرجہ اتم پائی جاتیں تھیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد دور حاضر میں فلسطین، شام، عراق اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں مذہب و مسلک کے نام ایک طاقت ور گروہ کمزور گروہ کو اپنا ماتحت بنانے میں تشدد آمیز کارروائیوں میں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں تامل نہیں برتتا۔ انسان کو غلام بنانے کا تیسرا طریقہ معاشی حکمرانی ہے۔
اس میں بظاہر کسی کا جبر دکھائی نہیں دیتا لیکن استعماری قوتیں پوری کی پوری مملکت کو اپنی پالیسیوں کی بنا پر غلام بنا دیتی ہیں۔ ان ہی پالیسیوں کی بنا پر ان سے ٹیکس یا سود قانونی شکل میں وصول کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ اس رقم سے ان کی حفاظت اور ترقی کے منصوبے بنا کر بہتری کی طرف چلا جائے گا لیکن ان کے آقا ان کے لیڈر اور محافظ بن جاتے ہیں اور بتدریج رزق کے بہتے سرچشموں پر قابض ہو کر عالمی غلامی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں بظاہر اس طریقے میں تشدد کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا جاتا لیکن معاشی غلام بنانے کے لیے اس ملک کو اس قدر مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے کہ ایسے عوام کے تحفظ کے نام جنگی جنون میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرحدوں کے تحفظ کے نام عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرتے رہتے ہیں اور اسلحہ جمع کرنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے بے تحاشا قرضہ حاصل کرتے ہیں، یہی مالیاتی ادارے پاکستان جیسی مملکتوں میں انتشار پیدا کر کے اس کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہیں تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکیں اور ان کی معاشی غلامی کے منصوبے کا حصہ بنیں رہیں، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں ان مالیاتی اداروں کی مرہون منت ہوتی ہیں اور انھیں بغیر کسی چوں چرا کے اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف عالمی مالیاتی ادارے ہیں جن کا کام ایسے ممالک کو غلام بنانا ہے جس میں قدرتی وسائل وافر پائے جاتے ہوں اور اسے یہ ڈر ہو کہ وہ ملک ترقی کی راہ پر چل کر عالمی تھانیداری کو کہیں چیلنج ہی نہ کر دے۔
یہ شاطر عالمی مالیاتی ادارے ایسی مملکتوں کو قرض کے چنگل میں پھنسا کر ورلڈ گیم کا حصہ بنا لیتے ہیں اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ Alexander Fraser Tyler سے منسوب یہ بیان اکثر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ''دنیا کی بڑی تہذیبوں کی اوسط عمر دو سال رہی ہے ایسی ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے، پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک، پھر عزم و حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک، پھر آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خودغرضی تک، خود غرضی لاتعلقی کا سبب بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے۔
بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔'' غلامی کی کئی اقسام میں ہمیں انفرادی طور پر خود اپنے آپ کا موازنہ بھی کر لینا چاہیے کہ ہم غلامی کی کس قسم میں گرفتار ہیں۔ اصل لبِ لباب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ ہم طاقت کے ہاتھوں غلام بنے ہیں یا اپنی معاشرتی طرز زندگی میں کسی کے معاشی غلام بن چکے ہیں۔ بہ حیثیت قوم تو ہم اپنے فیصلے اپنے لیڈروں کے ہاتھ میں سونپ دیتے ہیں جس پر ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کس قسم کی غلامی میں رکھنا پسند کرتے ہیں گھر میں اپنے والدین کی حق تلفی ہو کہ اپنی شریک حیات کو اپنا تابع بنا کر اسے ازدواجی غلام بنانا، یا پھر آجر ہو کر ملازم کو اجرت پر رکھ کر غلام بنانا، ہماری سرشت میں داخل ہی اس لیے ہے کیونکہ ہم نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رکھا ہے۔
اسی نفس کی خواہشات کے آگے ہم جھک جاتے ہیں اور اگر ہمارا تعلق سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہے تو اپنی فکر میں تشدد کی آمیزش کر دیتے ہیں کیونکہ اخلاق و کردار سے ہمارا دور تک واسطہ نہیں ہوتا، ہم چند افراد کے اس مجموعے میں گروہ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور بہ زور طاقت اقلیتی گروہ کو زیر نگیں کرنے کے لیے ہر سعی کرتے ہیں، گروہ کو اپنی طاقت کو موثر بنانے کے لیے مذہب، یا کسی بھی نظریے کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ جب تک کسی انسان کو جذباتی نہ کیا جائے اس سے من پسند خواہشات پوری نہیں کرائی جا سکتیں۔ افرادی قوت کا انحصار پھر اسی قوت پر ہوتا ہے جو اسے مضبوطی فراہم کرے اور وہ خود بھی کسی منافق کی طرح فرار ہونے کے لیے ایک راستہ ضرور رکھتا ہے کیونکہ منافق کی خاصیت یہی ہے کہ غار میں داخلے سے قبل وہ باہر جانے کا راستہ سامنے رکھتا ہے۔
گروہ کو ملکی اثر پذیری حاصل ہوتی ہے تو اس مملکت کو اس جیسے کئی گروہوں کو پاؤں تلے رکھنے کے لیے جاہ و حشمت کے ساتھ مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے وہ ادارے فراہم کرتے ہیں جن کا مقصد ہی انسانوں کو غلام بنانا ہے اور انسان غلام بنتے بنتے اپنی پوری قوم اور ملک کو بھی غلام بناتا چلا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس قوم کو اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرنے میں عقل سے زیادہ جذبات کا استعمال کرنا پڑتا ہے اپنے لیڈروں کے قول و فعل کے تضاد کو سنہری حیلہ سازیوں میں ڈھال کر اپنی نسل کو گروہی رکھنے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ غلامی کی اس سیاسی قسم کو بھی کسی میزان میں نہیں تولا جاتا کیونکہ جب جسموں کی قیمت سر عام لگنے لگیں تو ضمیر کے خریدار، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کہ مصداق کوڑیوں کے مول ملتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں رہا کہ انسان کی غلامی خود اس کے ہاتھ میں ہے یا کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں میں، لیکن ہم اپنے گرد و نواح میں دیکھیں تو با آسانی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ عوام اپنے لیڈروں کے عاقبت نااندیش فیصلوں کی بنا پر غلامی کی زنجیر سے اس ہاتھی کی طرح آزاد نہیں ہو پاتے جو ساری عمر اپنے طاقت ور جسم کے ساتھ بندھی زنجیر کو اس لیے نہیں توڑ پاتا کیونکہ اس نے پختہ یقین کر لیا ہوتا ہے کہ وہ غلام بن چکا ہے۔ اگر طاقت ور ہاتھی ذرا سی ہمت دکھاتا تو باآسانی زنجیروں کو توڑ سکتا تھا، لیکن جب خوئے غلامی مقدر بنا لی جائے تو اس سے آزادی دلانے کے لیے عرش سے فرشتے نہیں آ سکتے۔ آزادی جسمانی یا ذہنی ہو، یا سیاسی غلام انسان ہی بنتا ہے اور جدوجہد ہی اسے نجات دلاتی ہے۔