لاپتہ افراد کی بازیابی ذمے داروں کو سزا ہی مسئلے کا حل ہےاختر مینگل
14 ہزار افراد لاپتہ ہیں، 5 سو کی لاشیں ملیں،4 سو افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی،قدیر بلوچ
لاہور:
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر تھے سپریم کورٹ نے انھیں بلوایا تو وہ لاپتہ افراد کے کیس کیلیے وطن آ گئے۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جائے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکی جائیں، اگر واقعی مسئلہ حل کرناہے تو لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور اس کے پیچھے جو بھی ہے اس کو سزا دی جائے۔ وہ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''لائیو ود طلعت'' کے میزبان سے گفتگو کر رہے تھے۔ وائس فار مسنگ پرسنز بلوچستان کے نائب چیئرمین قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے 14ہزار افراد لاپتہ ہیں، اس کی تفصیل سپریم کورٹ اور پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو دی ہے، ان افراد کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں جن میں ایجنسیاں بھی شامل ہیں نے اٹھایا۔
سپریم کورٹ نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان افراد کو اٹھانے والی ایف سی ہے، 14ہزار افراد میں 500 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، ان کے علاوہ چار سو افراد جن میں کالجوں کے پروفیسر، طلبا، ڈاکٹر، سیاسی کارکن شامل ہیں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ ہوم سیکریٹری بلوچستان نصیب اللہ نے بتایا کہ کمیشن برائے لاپتہ افراد میں لاپتہ افراد کی کل تعداد 116تھی، اب صرف 44 لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا ہے، سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کیس میں ان کی تعداد 118 تھی جو 50 رہ گئی ہے۔ سی سی پی اوکوئٹہ میر زبیر نے بتایاکہ ہمارے پاس اے پی سی بہت کم ہیں، کوئٹہ میں باقی تینوں صوبائی دارالحکومتوںکی نسبت جرائم کی شرح کم ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز وزیر خان ناصر نے بتایا کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، فرانزک لیبارٹری نہیں ہے، ہمیں موبائل فونز کا ڈیٹا نہیں دیا جاتا تھا تاہم سپریم کورٹ کی مہربانی سے اب موبائل کمپنیاں تعاون کرتی ہیں۔ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن حامد شکیل نے بتایا کہ اغوا برائے تاوان ، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملزموں کو سزا نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ججوں، گواہوں اور پراسیکیوشن والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، اس کیلیے قانوں سازی کرنا ہو گی۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر تھے سپریم کورٹ نے انھیں بلوایا تو وہ لاپتہ افراد کے کیس کیلیے وطن آ گئے۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جائے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکی جائیں، اگر واقعی مسئلہ حل کرناہے تو لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور اس کے پیچھے جو بھی ہے اس کو سزا دی جائے۔ وہ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''لائیو ود طلعت'' کے میزبان سے گفتگو کر رہے تھے۔ وائس فار مسنگ پرسنز بلوچستان کے نائب چیئرمین قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے 14ہزار افراد لاپتہ ہیں، اس کی تفصیل سپریم کورٹ اور پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو دی ہے، ان افراد کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں جن میں ایجنسیاں بھی شامل ہیں نے اٹھایا۔
سپریم کورٹ نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان افراد کو اٹھانے والی ایف سی ہے، 14ہزار افراد میں 500 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، ان کے علاوہ چار سو افراد جن میں کالجوں کے پروفیسر، طلبا، ڈاکٹر، سیاسی کارکن شامل ہیں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ ہوم سیکریٹری بلوچستان نصیب اللہ نے بتایا کہ کمیشن برائے لاپتہ افراد میں لاپتہ افراد کی کل تعداد 116تھی، اب صرف 44 لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا ہے، سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کیس میں ان کی تعداد 118 تھی جو 50 رہ گئی ہے۔ سی سی پی اوکوئٹہ میر زبیر نے بتایاکہ ہمارے پاس اے پی سی بہت کم ہیں، کوئٹہ میں باقی تینوں صوبائی دارالحکومتوںکی نسبت جرائم کی شرح کم ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز وزیر خان ناصر نے بتایا کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، فرانزک لیبارٹری نہیں ہے، ہمیں موبائل فونز کا ڈیٹا نہیں دیا جاتا تھا تاہم سپریم کورٹ کی مہربانی سے اب موبائل کمپنیاں تعاون کرتی ہیں۔ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن حامد شکیل نے بتایا کہ اغوا برائے تاوان ، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملزموں کو سزا نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ججوں، گواہوں اور پراسیکیوشن والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، اس کیلیے قانوں سازی کرنا ہو گی۔