پاکستان ایک نظر میں یہ دل والوں کی بستی ہے

یہ دل والوں کی بستی ہے، یہ کراچی کی ماں بستی ہے، یہاں پیار کا دریا بہتا ہے اور چاہت کا سمندر رہتا ہے۔

یہ دل والوں کی بستی ہے، یہ کراچی کی ماں بستی ہے، یہاں پیار کا دریا بہتا ہے اور چاہت کا سمندر رہتا ہے۔ فوٹو لورینٹ گیئر/ ٹریبیون

عجیب بستی ہے وہ، ہاں بہت عجیب، جہاں پیار ہے، قرار ہے، انس ہے، محبت ہے، ایکا ہے، یکجہتی ہے۔ ہاں کچھ دنوں پہلے اسے نظر لگ گئی تھی کہ کہتے ہیں کہ ہر پیاری شے کو نظر لگ جاتی ہے۔ جہاں داد محمد کو دادو، اسماعیل بلوچ کو کنچا، عبدالرحیم کو رحیمو اور خیر محمد کو خیرو کہا جاتا ہے اور یہ نام ایسے ہی نہیں رکھے گئے ہیں ان ناموں میں پیار ہے، اور ایسا پیار کہ بس۔

یہاں گھونگھریالے بالوں والے محنت کش ہیں اور اب بھی ہیں، جو اپنے گدھوں سے اپنے بچوں کی طرح سے چاہ رکھتے اور انہیں کماؤ پوت کہتے ہیں، اس لئے کہ یہی گدھے ان کی گاڑیاں جوتتے اور باربرداری کا سامان ڈھوتے اور ان کے پیٹ کی آگ سرد کرتے ہیں، اب بھی ایسا ہی ہے۔
جہاں کراچی کی سب سے زیادہ لا ئبریریاں ہیں، ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں، آپ خود جاکر دیکھ لیں۔ جہاں کا سیاسی شعور سب سے بلند ہے۔ ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں یہ سر پھرے بھی ہیں۔ وہ سیدھی سادی بات کرنے کے عادی ہیں اور آپ اگر ان سے ہیر پھیر کریں تو وہ سینہ تان کے آپ کے روبرو ہوں گے۔ اگر آپ سے دوستی کرلیں تو آپ کے لیے اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔ ہاں یہاں بس ایک سیاسی فکر رہی اور وہ تھی بھٹو کا عشق اور عشق بھی ایسا جو سر چڑھ کر بولا، وہ سر تا پا بھٹو کے عشق میں رنگے ہو ئے تھے، ہاں وہی دور تھا، جب اسے پیرس بنا دینے کے دعوے کئے گئے اور بس دعوے۔ لیکن اب نئی نسل باشعور ہے اور اپنے لیے نئی راہیں تلاش رہی ہے۔

اس بستی کے لوگ غریبی میں نام پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے گلی کوچے فٹ بال کے کھلاڑیوں اور باکسنگ کے دیوانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ جب رقص کرنے جسے'' لیوا '' کہتے ہیں، پر آئیں تو ان کا انگ انگ ہی نہیں تھرکتا آس پاس کی ہر شے تھرکنے لگتی ہے۔ ایسا سحر کہ جس کوئی توڑ نہیں، ہے ہی نہیں۔ یہاں کے لکھے پڑھے نوجوانوں نے اپنی گلی کوچوں کو اسکولوں میں بدل دیا تھا، جہاں وہ اپنے لوگوں میں علم کا نور بانٹتے تھے ۔ہاں شام ہوتے ہی سڑ کوں پر چٹائیاں بچھا دی جاتیں اور بچے، من موہنے بچے ان پر بیٹھ جاتے ان کے سامنے کتابیں کھلی ہوتیں اور کوئی نوجوان ان میں دانش کے موتی بانٹتا۔ ہاں ایسی بستی۔

آپ کی بات بجا کہ یہاں منشیات کے نام پر زہر بیچا جاتا تھا، قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ لیکن گراں نہ گزرے تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں یہ زہر کہاں نہیں بکتا، کہاں نہیں ہے قتل و غارت۔ بات تلخ ہے ہاں سچ تلخ ہی ہوتا ہے لیکن یہ منشیات کا زہر تو ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی فروخت ہوتا ہے اور قتل آدم سے تو کوئی قریہ محفوظ نہیں، آپ چاہیں تو اخبارات دیکھ لیجیے۔


دنیا شر اور خیر کا مجموعہ ہے، یہ ایسی ہی تھی اور ایسی ہی رہے گی۔ معرکہ خیر و شر ہمیشہ بپا رہے گا۔ لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں اس عظیم بستی میں خیر زیادہ تھا، اب بھی ہے اور بہت زیادہ۔ لیکن پھر اس بستی کے مکینوں کو ورغلایا گیا اور اسے ایک کریہہ منصوبے کے تحت آگ اور خون میں نہلایا گیا۔ کوئی محقق اگر اس کے اسباب پر غور کرے تو سب کچھ آشکار ہونے کے لیے ہے، جلد یا بدیر ایسی کوئی تحقیق ضرور سامنے آئے گی جو اس بستی کی تباہی کے اسباب سب پر عیاں کردے گی۔ لہذا گزشتہ دنوں منعقد ہونے والا لیاری فلم فیسٹول بھی ان اندھیروں میں روشنی کی کرن ثابت ہوا، شاید میں غلط کہہ گیا ہوں، لیاری روشنی تھی اور ہمیشہ رہے گی۔

یہ دل والوں کی بستی ہے، یہ کراچی کی ماں بستی ہے، یہاں پیار کا دریا بہتا ہے اور چاہت کا سمندر رہتا ہے، یہ بستی، ایسی بستی ہے جہاں لوگ البیلے رہتے ہیں۔ یہ بستی ہاں یہ '' ماں بستی'' بستی رہے گی میں جسے لیاری نہیں '' لیاری پیاری '' کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا کیونکہ اصل بیٹے کبھی اپنی ماں کو نہیں بھولتے۔
تمام عمر میری معرکوں میں گزری ہے
مرے ارادوں میں لغزش کبھی نہیں آئی

لیاری پیاری، سدا رہے آباد، تیرے باسیوں کی خیر، تیرے گلی کوچوں کی خیر، تیرے بام در کی خیر، تیرے ''واجوں'' کی خیر۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story