انتخابی وعدوں کا ٹوٹنا

اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے سلسلے میں6 ستمبر کو جو ابتدائی جائزہ لیا گیا اس میں انگلینڈ سے آزادی کے لیے ۔۔۔

اقتدار حاصل کرنے کی خاطر سیاست دان بہت سے وعدے کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا پورا کیا جانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جاگیردارانہ معاشرے میں عوامی مقبولیت حاصل کرنا محض اپنے اہداف کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ عوام بآسانی بہکاوے میں آ جاتے ہیں اور بار بار انھی لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جو پہلے ہی انھیں بے وقوف بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے۔ اگر اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو انگلینڈ کا نظام بھی کوئی خاص مختلف نہیں۔

اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے سلسلے میں6 ستمبر کو جو ابتدائی جائزہ لیا گیا اس میں انگلینڈ سے آزادی کے لیے اسکاٹ لینڈ والوں کو ''یس'' یعنی ہاں کہنا تھا اور ان کی تعداد ''نو'' یعنی نہیں کہنے والوں سے قدرے زیادہ تھی جب کہ ریفرنڈم کا انعقاد 18 ستمبر کو ہوا جس میں فیصلہ برعکس آیا۔ انگلینڈ کی تین بڑی پارٹیوں نے ریفرنڈم کے حوالے سے بے شمار وعدے کیے تھے لیکن کنزرویٹو' لیبر اور لبرل پارٹی کے مابین بعد ازاں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے عمل میں نہ آ سکا چنانچہ ریفرنڈم کا نتیجہ انگلینڈ کے ساتھ رہنے ہی کے حق میں ہوا۔

ریفرنڈم کے بعد نہ تو کسی سیاسی پارٹی کو اپنے وعدے یاد رہے اور نہ ہی اہم سیاسی پارٹیوں میں جو باہمی خیرسگالی نظر آ رہی تھی وہ گھنٹہ بھر بعد ہی معدوم ہو گئی۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 19 ستمبر کو صبح سات بجے ریفرنڈم نتائج کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ نے اسکاٹ لینڈ سے جو وعدے کیے ہیں انھیں پورا کیا جائے گا لیکن پھر بعد میں آنے والے خیال کے تحت انھوں نے ایک ایسی بات کہہ دی جس سے تنازع کھڑا ہو گیا۔ وہ بات یہ تھی کہ اب برطانوی عوام کی آواز کو بھی اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں بغور سنا جائے گا اور انگریزی قوانین پر اسکاٹ لینڈ پارلیمنٹ میں ووٹنگ کرائی جائے گی۔

چند منٹ بعد ہی ٹوری پارٹی کے لیڈر ولیم ہیگ نے اس کی بھرپور انداز میں تائید کی اور مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کا فوری طور پر اجلاس بلا لیا جائے۔ ٹوری پارٹی کے سابقہ وزیر اوون پیٹرسن نے اس سے بھی آگے بڑھ کر لیبر پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن (جو کہ اسکاٹ ہیں) پر تنقید کی کہ انھوں نے یو کے کی تین بڑی پارٹیوں کے لیڈروں کے جلد بازی میں کیے گئے وعدوں کی توثیق کیوں کی جب کہ انھیں پارلیمنٹ کی اس حوالے سے تائید حاصل نہیں تھی جس میں اسکاٹ لینڈ والوں کو بہت زیادہ نئے اختیارات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اب یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے امکانی خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ لندن کے میئر بورس جانسن نے ''بار نیٹ فارمولا'' پر نظرثانی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ فارمولا 1970ء کے عشرے میں سابق سول سرونٹ لارڈ بارنیٹ نے وضع کیا تھا جس میں اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو سرکاری نوکری کے اختتام پر 10152 پاؤنڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ اس کے مقابلے میں برطانیہ کے شہریوں کو 8529 پاؤنڈ دیے جاتے ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون پر اس وقت اپنی پارٹی کے علاوہ اسکاٹ لینڈ والوں کا بھی بہت دباؤ ہے۔ جو چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کیا جائے۔


اسکاٹ لینڈ کے وزیر اول اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کے لیڈر ایلکس سالمنڈ نے جو کہ آزادی کی تحریک کی قیادت کر رہے تھے کہا ہے کہ برطانیہ کی دو بڑی پارٹیوں نے آخری منٹ میں اسکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ کے عوام نہ صرف حیران ہوئے ہیں بلکہ انھیں بہت غصہ بھی آیا ہے بالخصوص ان لوگوں کو جو ریفرنڈم کے ووٹوں کے سلسلہ میں بہت سرگرم عمل تھے۔ اب لیبر پارٹی کے لیڈر ڈیوڈ ملی بینڈ کو 2015ء میں ہونے والے انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم کی حکمت عملی میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ لیبر پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ہیریٹ ہرمین نے کہا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون ملک کے مستقبل کا خیال کرنے کے بجائے اپنے تھوڑے سے سیاسی مفاد کے لیے دوسری پارٹیوں کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ لیبر پارٹی کے ڈگلس الیگزینڈر نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے بارے میں عدم اعتماد اور نفرت ہے۔

انگلینڈ کے مئی 2015ء میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کو نئے اختیارات دینے کی بحث بہت زور شور سے جاری ہے جس کے لیے دارالعوام اور دارالامراء دونوں ایوانوں سے منظوری لی جانی ضروری ہے۔ عمران خان برطانوی جمہوریت کی مثال دیتے ہیں لیکن شاید انھیں یہ علم نہیں کہ وہاں پر بھی اختیارات گراس روٹ تک نہیں پہنچتے۔ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کا نتیجہ جو بھی نکلا ہو اس سے یہ بات ضرور ثابت ہو گئی ہے کہ انگلینڈ کی جمہوریت کو بھی کامل نہیں کہا جا سکتا۔ اسکاٹ لینڈ والوں نے اگرچہ اپنی آزادی کی لڑائی ہار دی ہے لیکن وہاں بھی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ضروری ہے۔

1947ء میں پاکستان کے لیڈروں کے پاس آزادی حاصل کرنے کے بعد برطانوی طرز حکومت اختیار کرنے کے بجائے کسی اور نظام میں منتقل ہونے کا متبادل نہیں تھا۔ ایک دفعہ جب انھوں نے آزادی حاصل کر لی تو ان کا بنیادی مقصد اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو قائم رکھنا اور نئی قوم کی آزادی کی حفاظت کرنا تھا۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور یوں انھوں نے ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی۔

1973ء کے آئین میں اس کی جھلک موجود ہے جہاں نچلی سطح پر اختیارات منتقل نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے صوبائی اور وفاقی سطح پر جمہوریت ایک مبہم صورت میں ہی موجود ہے۔ صوبائی سطح پر منتخب ہونے والے نمایندے اپنی طاقت کا استعمال اسمبلیوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ سینیٹ کے لیے بالواسطہ انتخابات کروانا کسی لطیفے سے کم نہیں۔ ملک کے لیے انتخابات میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے جمہوری اصولوں پر زیادہ موثر انداز سے عملدرآمد کیا جا سکے جو کہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق پورا اتر سکے۔ ہمیں کچھ زیادہ بہتر نظام کی ضرورت ہے۔

ہمارا سیاسی نظام بھی برطانوی طرز پر قائم ہے اور ہماری جمہوریت جاگیردارانہ ہے جس کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ میگنا کارٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاگیرداروں کے ڈی این اے میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ایسے وعدے کیے جائیں جنھیں بآسانی توڑا جا سکے اور احتساب کا کوئی ڈر نہ ہو۔
Load Next Story