رینجرزنے گلشن معمارمیں ایم پی اے آفس پر چھاپہ مارکرمتعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیارابطہ کمیٹی

چھاپے کا مقصد ایم کیوایم کوکراچی سمیت شہری سندھ کے عوام کے حقوق کی جدوجہد سے باز ررکھنا کا گھناؤنا عمل ہے،رابطہ کمیٹی

رینجرز نے فیصل سبزواری اور عادل خان کو بھی سیکٹر آفس میں جانے سے روک دیا، رابطہ کمیٹی فوٹو: ایم کیو ایم

متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے رینجرز کی طرف سے اسکیم 33 میں واقع ایم پی اے آفس پر چھاپے، متعدد کارکنان کی گرفتاری اور دفتر میں توڑ پھوڑ اور چھاپے کے دوران کارکنان پر تشدد کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

رابطہ کمیٹی کے مطابق چھاپے کے وقت 500 سے زائد کارکنان وذمہ داران اور خواتین کی بھی بڑی تعداد تنظیم نو اور عید الاضحیٰ کی آمد پر تنظیمی اجلاس میں موجود تھے اور حق پرست صوبائی وزیر امور نوجوان فیصل سبزواری، رکن قومی اسمبلی مزمل قریشی اور اراکین رابطہ کمیٹی کو چھاپے کے دوران دفتر کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا۔


ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر ایم کیوایم کے کارکنان وذمہ داران کی بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ رابطہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ عوامی رابطہ آفس میں موجود کارکنان، ذمہ داران کو بلاجواز غیر انسانی تشدد کانشانہ بنایا گیا کہ جو کہ انتہائی افسوسناک عمل ہے، اسکیم 33 میں ایم کیوایم کے دفتر پر چھاپے کا مقصد ایم کیوایم کو کراچی سمیت شہری سندھ کے عوام کے حقوق کی جدوجہد سے باز ررکھنا کا گھناؤنا عمل ہے۔


رابطہ کمیٹی نے صدر ممنون حسین، وزیرا عظم نواز شریف ،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی، گور نر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ سے مطالبہ کیا کہ صوبائی وزیر اور رکن قومی اسمبلی کی موجودگی میں اسکیم 33 میں واقع ایم پی اے آفس(عوامی رابطہ آفس) پر چھاپے اور متعدد سے زائد کارکنان کی بلاجواز گرفتاری کا نوٹس لیا جائے اور رینجرز حکام سے جواب طلب کیا جائے۔



ایم کیو ایم کے رہنما اور اسی حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی فیصل سبزواری نے آفس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم دفتر تنظیمی مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں اور یہاں حلقے کے لوگوں کی داد رسی کی جاتی ہے، آج حلقے کے رضاکاروں اور کارکنان کا رات 9 بجے اجلاس تھا اور جب میں اجلاس کے لئے آرہا تھا تو اطلاع ملی کہ رینجرز نے دفتر پر چھاپہ مارا ہے اور کارکنان اور رضاکاروں کو زدو کوب کیا جارہا ہے جبکہ چھاپے کے دوران خواتین کی بھی تضحیک کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم یہاں پہنچے تو دیکھا کہ رینجرز اہلکار سب کی تلاشی لے رہے تھے، میں نے باہر کھڑے 2 اہلکاروں سے کہا کہ میں آپ کے اعلیٰ افسر سے ملنا چاہتا ہوں لیکن مجھے ملنے نہیں دیا گیا اور رینجرز ایم کیو ایم کے 30 کارکنان کو ساتھ لے گئی۔

فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ایم کیو ایم پر ظلم کی داستانیں رقم ہوئی ہیں اور ایسے واقعات سے پوری آبادی متنفر ہوتی ہے اور یہ مزید تلخی پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے نام پر لاہور سے اسلام آباد تک غنڈا گردی کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا جبکہ ہمیں دیوار سے لگایا جارہا ہے لہٰذا میری وفاقی وصوبائی حکومت اور ڈی جی رینجرز سے درخواست ہے کہ وہ واقعے کا نوٹس لیں اور بے گناہ افراد کو فوری رہا کیا جائے ورنہ رات کو ہر دفتر جائیں گے۔



 
Load Next Story