ڈائری میں رکھا ایک نوحہ
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہو گیا ہے ۔۔۔
یہ ڈائری میں رکھا ایک نوحہ ہے۔
ڈائری، جس کے اوراق بوسیدہ ہو گئے، مگر نوحہ تمام نہیں ہوا، اور یہ میری ڈائری نہیں۔ یہ تو آپ کی ڈائری ہے۔
یہ شہر گریہ کی کہانی ہے۔ کراچی کی کہانی، جہاں کبھی روشنی رقص کرتی تھی۔ جہاں کبھی خواب لہلہاتے، آرزوئیں مسکراتیں، ہاں! کبھی یہاں زندگی سانس لیا کرتی تھی۔ وہ خواب بُنتی۔ ہنستی۔ کھکھلاتی۔ مگر اب خوشیاں بجھ گئی ہیں۔ خواب بنجر ہوئے۔ خواہشات تحلیل ہو گئیں۔ زندگی، اب مزید زندہ نہیں۔ شاید وہ مر چکی ہے!
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ اِس کے ساحلوں کی ٹھنڈی ریت میں سپنے چھپے تھے۔ ملک بھر کے محنت کش اِس دفینے کی تلاش میں یہاں آیا کرتے اور یہ شہر اْنھیں خوش آمدید کہتا۔ خزانہ تلاش کرنے کی تحریک دیتا۔ وہ اس کی ساحلی فضاؤں میں محنت کا بیج بوتے اور پھر ہریالی اُنھیں خوش حالی کا اَن مول تحفہ دیتی۔ مگر اب یہ گزرے زمانوں کی بات ہو گئی ہے۔ عروس البلاد کتنا بدل گیا ہے۔ گھٹن اور یاسیت۔ ہر سو سناٹا چیختا ہے۔
امید ریت کی طرح میرے ہاتھ سے پھسل رہی ہے اور میں کتابوں کی درمیان اداس بیٹھا ہوں۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کراچی کو۔ کبھی یہاں رات گئے تک زندگی چہکا کرتی۔ مگر اب شام اترنے ہی راستے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کبھی ادبی تقریبات اِس شہر کی پہچان تھیں۔ اور اب یہاں بے ادبی کا عفریت پھنکار رہا ہے۔ کوئی ایک مسئلہ ہو، تو بیان کریں۔ اتنی پیچیدگیاں، اتنی مشکلات کہ دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں، تب بھی یہ حزنیہ قصّہ تمام نہ ہو۔ یہ قصّہ بے انت ہے۔ یہ رات صبح کی چہک سے کوسوں پرے ہے۔
بزرگ کہتے ہیں؛ یہ امید ہی تھی، جس کے سہارے کراچی پروان چڑھا۔ پھلا پُھولا۔ مگر پھر بدنظمی کے جرثومے کا جنم ہوا۔ سہولیات کی فراہمی میں، دھیرے دھیرے، تعطل پیدا ہونے لگا۔ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات نہیں کیے گئے۔ شدید غفلت برتی گئی۔ یوں مسائل بڑھنے لگے۔ بالآخر کراچی نے ایک ایسے پُرپیچ شہر کی شکل اختیارکر لی، جس کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم تھی۔ جہاں لاکھوں افراد چھوٹے چھوٹے مکانوں میں قید تھے۔ شہر کی سڑکیں تنگ ہوتی گئیں۔ نتیجہ؛ ٹریفک کا اژدھام۔ حادثات۔
قدیم کتابوں میں لکھا ہے؛ جن شہروں کا انتظام بگڑتا ہے، وہاں تاریکی جنم لیتی ہے۔ کچھ یہی ہے کراچی کی کہانی۔ جب بجلی زندگی کا جزو بن گئی، تو اُس کا سانس اکھڑنے لگا۔ لوڈشیڈنگ نے یہاں ڈیرا ڈال لیا۔ زندگی پر جمود اتر آیا۔ ایک تحفہ گرانی بھی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان تک رسائی حاصل کر لی۔ غریب کو اپنی خواہشات سمیٹنی پڑیں۔ اس حد تک کہ وہ خود سمٹ گیا۔ پیٹرول بم بھی گرتے رہے۔ بھاری بلوں کے گرینڈ پھینکے جاتے رہے۔ خفیہ ٹیکسز کے ذریعے خون نچوڑا جاتا رہا۔
شاید یہ شہر قہر کے حملے سہہ لیتا۔ یہاں کے باسی سکون تلاش کرتے ہوئے ساحلوں کی سمت چلے جاتے۔ بچے مسکراتے، جوان گیت گانے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے۔ جینے کی للک میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے۔ مگر خوشی کے دشمنوں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ انھوں نے شہر پر عدم تحفظ کی چادر تان دی۔ خوف کی آندھی بھیجی۔ گولیوں کی برسات میں تشدد کا پہیہ چل پڑا۔ اندیشوں کی تیزابی بارش میں پرندے جھلس گئے۔ اور درخت ناپید ہو گئے۔
ذرا کھڑکی سے جھانکیں۔ آپ کو دھویں کے درمیان سوکھے ہوئے پیڑ اور زخمی پنچھی نظر آئیں گے۔ قہر کا سایہ آپ کے سامنے رقص کر رہا ہو گا۔ اجل کا عقاب جست لگائے گا اور آپ اپنے بچوں کے کل سے متعلق اندیشوں کا شکار ہو جائیں گے۔ کس قدر بگڑ چکے ہیں اِس شہر کے حالات۔ ذرا دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ یہ شہر، جو کل تک مچھیروں کی ایک پُرسکون بستی تھا، اب بے اماں شہروں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ روز یہاں پندرہ بیس افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ روز میرا اور آپ کا قتل ہوتا ہے۔ روز بینک ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ موبائل فون، گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔
لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔شہر کی رگوں میں دوڑنے والے زہر کا نام ہے؛ اسلحہ۔ اور اسلحہ بھی وہ، جو جنگوں میں برتا جاتا ہے۔ یہاں راکٹ لانچر چل رہے ہیں۔ دستی بم پھینکے جا رہے ہیں۔ گولیاں دالانوں میں گر رہی ہیں۔ نہ جانے کتنے گروہ برسرپیکار ہیں۔ کہیں لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کہیں گینگ وار ہے، قومیت کو کلیہ بنا کر جان لی جا رہی ہے۔ مذہب کو بھی قتل و غارت گری کے لیے آزادی سے برتا جانے لگا ہے۔ سیاسی اختلافات نے شہر کو تقسیم کر ڈالا۔ شکست و ریخت اِس کے مقدر میں لکھ دی۔
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہو گیا ہے۔ صنعت کار اندیشوں سے بے حال اور صنعتوں سے وابستہ ملازمین فاقوں کا شکار۔ کوئی محفوظ نہیں۔ حتیٰ کہ پولیس بھی یہ کہتی دِکھائی دیتی ہے کہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں عام شہریوں کا تو ذکر ہی کیا۔ ان کی زندگی انتہائی ارزاں ہے۔ تحفظ نامی لفظ ان کی لغت سے غائب ہو گیا۔
ماضی میں بھی اِس شہر نے کئی آپریشنز برداشت کیے، جن کا ذکر کرنے کا نہ تو یہ موقع ہے، نہ ہی اِس کی ضرورت ہے کہ اتنے آپریشنز کے باوجود مرض وہیں کا وہیں ہے۔ آپریشن تو اب بھی جاری ہے، مگر سدھار کی رفتار انتہائی سست۔
بگاڑکی مکروہ شکل نظام اور حکومت کی ناکامی کے سوا اور کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، جو گزشتہ کئی برس سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ مگر شاید اسے تنقید کی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کے کچھ اشارے ہی مل جاتے۔ ن لیگ مرکز میں برسراقتدار، جسے دھرنوں نے لگ بھگ معطل کر دیا ہے۔
اور ایسے میں کراچی کے متعلق اندیشے بڑھ رہے ہیں، جہاں سورج طلوع ہوتا تو ہے، مگر فرقہ ورانہ اختلافات کی دھند کے باعث روشنی ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ کب تک اندھیرا شہر کی گلیوں میں رقص کرے گا؟ کب تک خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ ان سوالات کا جواب دینا لگ بھگ ناممکن ہے کہ یہاں پیش گوئیاں ناکام جاتی ہیں، اور اندازوں کو شکست ہوتی ہے۔
تو یہ آپ کی ڈائری میں رکھا ایک نوحہ ہے۔ ڈائری، جس کے ورق بوسیدہ ہو گئے، مگر نوحہ تمام نہیں ہوا۔
کیا یہ نوحہ ہماری اگلی نسل کو وراثت میں ملے گا؟ یہ وہ سوال ہے، جو امیدوں کی زمین پر زلزلے لاتا ہے۔ اور خوابوں کے آشیانے ڈھے جاتے ہیں۔
ڈائری، جس کے اوراق بوسیدہ ہو گئے، مگر نوحہ تمام نہیں ہوا، اور یہ میری ڈائری نہیں۔ یہ تو آپ کی ڈائری ہے۔
یہ شہر گریہ کی کہانی ہے۔ کراچی کی کہانی، جہاں کبھی روشنی رقص کرتی تھی۔ جہاں کبھی خواب لہلہاتے، آرزوئیں مسکراتیں، ہاں! کبھی یہاں زندگی سانس لیا کرتی تھی۔ وہ خواب بُنتی۔ ہنستی۔ کھکھلاتی۔ مگر اب خوشیاں بجھ گئی ہیں۔ خواب بنجر ہوئے۔ خواہشات تحلیل ہو گئیں۔ زندگی، اب مزید زندہ نہیں۔ شاید وہ مر چکی ہے!
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ اِس کے ساحلوں کی ٹھنڈی ریت میں سپنے چھپے تھے۔ ملک بھر کے محنت کش اِس دفینے کی تلاش میں یہاں آیا کرتے اور یہ شہر اْنھیں خوش آمدید کہتا۔ خزانہ تلاش کرنے کی تحریک دیتا۔ وہ اس کی ساحلی فضاؤں میں محنت کا بیج بوتے اور پھر ہریالی اُنھیں خوش حالی کا اَن مول تحفہ دیتی۔ مگر اب یہ گزرے زمانوں کی بات ہو گئی ہے۔ عروس البلاد کتنا بدل گیا ہے۔ گھٹن اور یاسیت۔ ہر سو سناٹا چیختا ہے۔
امید ریت کی طرح میرے ہاتھ سے پھسل رہی ہے اور میں کتابوں کی درمیان اداس بیٹھا ہوں۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کراچی کو۔ کبھی یہاں رات گئے تک زندگی چہکا کرتی۔ مگر اب شام اترنے ہی راستے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کبھی ادبی تقریبات اِس شہر کی پہچان تھیں۔ اور اب یہاں بے ادبی کا عفریت پھنکار رہا ہے۔ کوئی ایک مسئلہ ہو، تو بیان کریں۔ اتنی پیچیدگیاں، اتنی مشکلات کہ دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں، تب بھی یہ حزنیہ قصّہ تمام نہ ہو۔ یہ قصّہ بے انت ہے۔ یہ رات صبح کی چہک سے کوسوں پرے ہے۔
بزرگ کہتے ہیں؛ یہ امید ہی تھی، جس کے سہارے کراچی پروان چڑھا۔ پھلا پُھولا۔ مگر پھر بدنظمی کے جرثومے کا جنم ہوا۔ سہولیات کی فراہمی میں، دھیرے دھیرے، تعطل پیدا ہونے لگا۔ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات نہیں کیے گئے۔ شدید غفلت برتی گئی۔ یوں مسائل بڑھنے لگے۔ بالآخر کراچی نے ایک ایسے پُرپیچ شہر کی شکل اختیارکر لی، جس کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم تھی۔ جہاں لاکھوں افراد چھوٹے چھوٹے مکانوں میں قید تھے۔ شہر کی سڑکیں تنگ ہوتی گئیں۔ نتیجہ؛ ٹریفک کا اژدھام۔ حادثات۔
قدیم کتابوں میں لکھا ہے؛ جن شہروں کا انتظام بگڑتا ہے، وہاں تاریکی جنم لیتی ہے۔ کچھ یہی ہے کراچی کی کہانی۔ جب بجلی زندگی کا جزو بن گئی، تو اُس کا سانس اکھڑنے لگا۔ لوڈشیڈنگ نے یہاں ڈیرا ڈال لیا۔ زندگی پر جمود اتر آیا۔ ایک تحفہ گرانی بھی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان تک رسائی حاصل کر لی۔ غریب کو اپنی خواہشات سمیٹنی پڑیں۔ اس حد تک کہ وہ خود سمٹ گیا۔ پیٹرول بم بھی گرتے رہے۔ بھاری بلوں کے گرینڈ پھینکے جاتے رہے۔ خفیہ ٹیکسز کے ذریعے خون نچوڑا جاتا رہا۔
شاید یہ شہر قہر کے حملے سہہ لیتا۔ یہاں کے باسی سکون تلاش کرتے ہوئے ساحلوں کی سمت چلے جاتے۔ بچے مسکراتے، جوان گیت گانے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے۔ جینے کی للک میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے۔ مگر خوشی کے دشمنوں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ انھوں نے شہر پر عدم تحفظ کی چادر تان دی۔ خوف کی آندھی بھیجی۔ گولیوں کی برسات میں تشدد کا پہیہ چل پڑا۔ اندیشوں کی تیزابی بارش میں پرندے جھلس گئے۔ اور درخت ناپید ہو گئے۔
ذرا کھڑکی سے جھانکیں۔ آپ کو دھویں کے درمیان سوکھے ہوئے پیڑ اور زخمی پنچھی نظر آئیں گے۔ قہر کا سایہ آپ کے سامنے رقص کر رہا ہو گا۔ اجل کا عقاب جست لگائے گا اور آپ اپنے بچوں کے کل سے متعلق اندیشوں کا شکار ہو جائیں گے۔ کس قدر بگڑ چکے ہیں اِس شہر کے حالات۔ ذرا دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ یہ شہر، جو کل تک مچھیروں کی ایک پُرسکون بستی تھا، اب بے اماں شہروں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ روز یہاں پندرہ بیس افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ روز میرا اور آپ کا قتل ہوتا ہے۔ روز بینک ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ موبائل فون، گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔
لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔شہر کی رگوں میں دوڑنے والے زہر کا نام ہے؛ اسلحہ۔ اور اسلحہ بھی وہ، جو جنگوں میں برتا جاتا ہے۔ یہاں راکٹ لانچر چل رہے ہیں۔ دستی بم پھینکے جا رہے ہیں۔ گولیاں دالانوں میں گر رہی ہیں۔ نہ جانے کتنے گروہ برسرپیکار ہیں۔ کہیں لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کہیں گینگ وار ہے، قومیت کو کلیہ بنا کر جان لی جا رہی ہے۔ مذہب کو بھی قتل و غارت گری کے لیے آزادی سے برتا جانے لگا ہے۔ سیاسی اختلافات نے شہر کو تقسیم کر ڈالا۔ شکست و ریخت اِس کے مقدر میں لکھ دی۔
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہو گیا ہے۔ صنعت کار اندیشوں سے بے حال اور صنعتوں سے وابستہ ملازمین فاقوں کا شکار۔ کوئی محفوظ نہیں۔ حتیٰ کہ پولیس بھی یہ کہتی دِکھائی دیتی ہے کہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں عام شہریوں کا تو ذکر ہی کیا۔ ان کی زندگی انتہائی ارزاں ہے۔ تحفظ نامی لفظ ان کی لغت سے غائب ہو گیا۔
ماضی میں بھی اِس شہر نے کئی آپریشنز برداشت کیے، جن کا ذکر کرنے کا نہ تو یہ موقع ہے، نہ ہی اِس کی ضرورت ہے کہ اتنے آپریشنز کے باوجود مرض وہیں کا وہیں ہے۔ آپریشن تو اب بھی جاری ہے، مگر سدھار کی رفتار انتہائی سست۔
بگاڑکی مکروہ شکل نظام اور حکومت کی ناکامی کے سوا اور کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، جو گزشتہ کئی برس سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ مگر شاید اسے تنقید کی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کے کچھ اشارے ہی مل جاتے۔ ن لیگ مرکز میں برسراقتدار، جسے دھرنوں نے لگ بھگ معطل کر دیا ہے۔
اور ایسے میں کراچی کے متعلق اندیشے بڑھ رہے ہیں، جہاں سورج طلوع ہوتا تو ہے، مگر فرقہ ورانہ اختلافات کی دھند کے باعث روشنی ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ کب تک اندھیرا شہر کی گلیوں میں رقص کرے گا؟ کب تک خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ ان سوالات کا جواب دینا لگ بھگ ناممکن ہے کہ یہاں پیش گوئیاں ناکام جاتی ہیں، اور اندازوں کو شکست ہوتی ہے۔
تو یہ آپ کی ڈائری میں رکھا ایک نوحہ ہے۔ ڈائری، جس کے ورق بوسیدہ ہو گئے، مگر نوحہ تمام نہیں ہوا۔
کیا یہ نوحہ ہماری اگلی نسل کو وراثت میں ملے گا؟ یہ وہ سوال ہے، جو امیدوں کی زمین پر زلزلے لاتا ہے۔ اور خوابوں کے آشیانے ڈھے جاتے ہیں۔