دنیا بھر سے پاکستان اب بھی تاخیر نہیں ہوئی ۔۔۔

ہم کو آج خود کوایک حقیقی زندہ قوم ثابت کرنا ہے۔ابھی صرف ایک منگل یان اڑاہے اورپاکستان کے جاگنے کے لیے ایک ہی کافی ہے۔

اگرچہ ہم اِس وقت بہت پیچھے ہیں مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی صرف ایک منگل یان اڑاہے اور ہمارے جاگنے کے لیے ایک ہی کافی ہے اور پھر سبز ہلالی پرچم کو زمین سے لے کر خلا کی آخری حدوں تک پہنچانا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اکتوبر 1957 کی سرد شام امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے'' کول ووڈ ''میں تمام لوگ ایک ہی خبر کے بارے میں سوچ و بچار کر رہے تھے۔ تمام لوگ قصبے کے باہر ایک اونچی جگہ پر ہوئے اور بلند آواز میں ریڈیو آن کیا تونیوز کاسٹر نے یہ پیغام دیا ''اورانسان نے فضا کی تسخیر کی طرف اپنے قدم بڑھا دیئے، روسی خلائی جہاز سپٹنک ون کامیابی سے لانچ کر دیا گیا ہے۔'' قصبے کے سبھی باسیوں نے آسمان پر بلند ہوتے اور خلاؤں کو چیرتے ہوئے سپٹنک ون کو محوِ پرواز دیکھا۔

یہ دور سرد جنگ کا دور تھا۔ امریکہ اور روس (سوویت یونین) آپس میں جنگ آزما تھے اور دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن اور حریف اول سمجھتے تھے اس لیئے زمین سے لے کر خلاء تک ہر شعبے میں انکا آپس میں مقابلہ تھا۔ ایسے وقت میں روس کا سپٹنک ون کا کامیاب تجربہ امریکی عزت پر حرف تھا اور یہ ثبوت تھا کہ روس امریکہ سے بہت آگے ہے۔
لیکن پھر تبدیلی آئی اور 1957 کے بعد امریکہ نے خلائی میدان میں روس کو کوسوں دور چھوڑ دیا اور اپنے حریف کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کی۔

اوپر بیان کی گئی بات کا مقصد ایک خبر کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔

''منگل یان تقریباََ 300 دنوں کے سفر کے بعد 24 ستمبر کو صبح تقریباََ 8 بجے مریخ کے مدار میں داخل ہوا۔''

یہ بیان بھارتی خلا ئی ادارے ''اسرو'' نے اپنے ہیڈ کوارٹر بنگلور سے ریلیز کیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارت دنیا کا سب سے پہلا ملک بن گیا جسکا پہلا ہی مشن کامیابی کے ساتھ مریخ پر جا پہنچا ۔ اس سے پھلے 49 مختلف مشنز مریخ پر بھیجے جا چکے ہیں جن میں سے 20 روس، 20 امریکہ، 3 یورپ، ایک چین اور ایک جاپان نے بھیجا ہے۔ امریکہ کا حالیہ مشن کیوروسٹی ہے جس پر لاگت تقریباََ 1 بلین امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ بھارت کا مشن ''منگل یان'' پر صر ف اور صرف ساڑھے چار ارب انڈین روپے لاگت آئی ہے۔

1947 کو آزاد ہونے والے دو ملک آزادی کے 67 سال بعد بھی ایک دوسرے کے حریف ہیں ۔ ہم پاکستانی قوم اپنے وطن کی عزت، شان اور آن اپنے حریف کے مقابلے میں ہر حال میں بلند اور بلند تر رکھنا چاھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارا ملک صحت، دفاع، تجارت اور کھیل سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے حریف سے مقابلہ کرتا پایا جاتا تھا۔ بلکہ ہمارا روپیہ انکے روپے پہ بھاری، ہمارا دفاع انکے دفاع سے مضبوط اور ہمارے کھلاڑی انکے کھلاڑیوں سے جیتتے تھے۔ اقوامِ عالم میں ہمارے ملک کا نام عزت اور برابری سے لیا جاتا تھا۔


لیکن پھر اچانک حالات نے کہیں پلٹا کھایا اور آج اگر کسی بھی میدان اور شعبہ زندگی کو لے لیا جائے تو ہمیں اپنے حریف سے شرمندگی اور شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر کوئی یہ دلیل دے کہ انکی اور ہماری آبادی کا فرق ہے اس لیے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ تو یہ دلیل درست نہیں کیونکہ چند لاکھ آبادیوں والے ملک بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔ ویسے بھی مقابلہ تو صلاحیتوں کا ہے، ذہن کا اور جذبے کا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی میں بھارت 136 ویں نمبر پر ہے اور ہم اس سے دس درجے نیچے146 نمبر پر ہیں۔ پاکستان دنیا کے دس خطرناک ترین ممالک میں سے نویں نمبر پر ہے۔ ہم پورے سال میں 25 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جبکہ بھارت صرف اور صرف آئی ٹی کی مد میں 30 بلین ڈالر کما رہاہے۔ حتی کہ بنگلا دیش بھی محض ٹیکسٹائل کی برآمد کے ذریعے 30 بلین ڈالر کمار ہاہے۔جو ایف سولہ طیارے ہمارے سب سے بہترین ہیں اور جنکو لینے کے لیے ہم امریکہ کے ترلے کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہی امریکہ اسکا مینوفیکچرنگ لائسنس بھارت کو دینے کے ترلے کر رہا ہے۔ چیچ ہمارا سب سے بڑا حلیف ہے مگر وہ ہمارے حریب بھارت کے ساتھ سالانہ سو ارب ڈالر کی تجارت کر رہا ہے۔ جاپان نے بھی بھارت میں 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کااعلان کیا ہے۔ ایک امریکی ڈالر 60 بھارتی روپے اور 103 پاکستانی روپے کا برابر پہنچ چکا ہے۔

کھیلوں کے میدانوں میں کرکٹ سے لے کر، ہاکی، کبڈی اور ہر طرح کے مقابلوں میں ہم ان سے کافی پیچھے ہیں۔ دنیا کے آئی ٹی ہب سلیکون ویلی ان سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے ''پیارے برادر اسلامی عرب ممالک'' میں اگر افرادی قوت کا حساب لگائیں تو بھی بھارت ہم سے برتری لے جا چکا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں ذہن سے لے کر بازو تک ہر دوڑ میں بھارت ہم سے آگے نکل گیا ہے اور ان سالوں میں ہم نے کن باتوں میں نام کمایا ہے۔۔۔ دہشتگردی، شدت پسندی، فراڈ، کرپشن۔۔۔
ہمارے ہاں پانی سے چلنے والی کار کے موجد نوسر بازوں نے نام کمایا ہے، آلو پر اللہ کا نام ڈھونڈنے والوں نے داد سمیٹی ہے۔ اور ہم نے دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے کنٹینر ٹیکنالوجی میں جدت حاصل کی ہے۔ اور نوٹوں پر حکومت مخالف نعرے لکھنے جیسے آئیڈیاز دئیے ہیں۔

مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مگر احساس کرنے ضرور ہے کہ ابھی وقت بہت زیادہ نہیں گزرا ہے ابھی ترقی کا قافلہ بہت آگے نہیں گیا ہے۔ ابھی صرف ایک منگل یان اڑاہے اور ہمارے جاگنے کے لیے ایک ہی کافی ہے۔ ہم کو آج خود کو ایک حقیقی زندہ قوم ثابت کرنا ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کرنی ہے۔ صحت، تعلیم، صنعت، تجارت، سائنس، سپیس، ٹیکنالوجی، کھیل، دفاع ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے ہیں اور اپنے ملک کا نام ہر مقام پر بلند کرنا ہے اور اپنے پرچم کو دنیا کا سب سے عزت والا پرچم بنانا ہے۔ آئیں ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ چاند تارے والے اس سبز ہلالی پرچم کو زمین سے لے کر خلا کی آخری حدوں تک بلند سے بلند تر کریں گیں۔ انشاء اللہ

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story