کراچی کی صورتحال حکومت ایکشن لے
ارباب اختیار کراچی کی بے بسی کا ادراک کریں ...
ابو الحسن اصفہانی روڈ کے قریب میٹروول تھری میں رینجرز کے متحدہ قومی موومنٹ کے دفتر پر چھاپہ مارنے کے بعد صورتحال خاصی تشویش ناک ہو گئی ہے، ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور سی ایم ہاؤس سمیت شہر کے 9 مقامات پر فوری دھرنوں کا اعلان کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا شدید رد عمل بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ اب ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہے، اب پورے کراچی میں دھرنے ہونگے، انھوں نے سوال کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں مگر ایم کیو ایم کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔
ارباب اختیار کراچی کی بے بسی کا ادراک کریں۔ تاہم معاملہ فہمی اور متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے یہ خوش آیند بات ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے فوری طور پر 6 رکنی کمیٹی قائم کر دی، انھوں نے ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس پر چھاپے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم ہماری حلیف جماعت ہے۔ انھوں نے حراست میں لیے گئے کارکنوں کی رہائی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی عمومی سیاسی اور معاشی صورتحال جتنی اعصاب شکن ہے منی پاکستان میں بھی امن و امان سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جہاں بد امنی کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں کراچی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اس لیے دور اندیشی، تدبر، رواداری اور سیاسی افہام و تفہیم کا تقاضہ ہے کہ کوئی نیا پنڈورا بکس نہ کھولا جائے۔ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اور قائد تحریک الطاف حسین کی معروضات و شکایات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے، چھاپہ کی فوری تحقیقات کرائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کراچی میں دھرنوں سے ملک کا معاشی حب مزید مفلوج ہو جائے۔ اربوں روپے کا پہلے ہی نقصان ہو چکا ہے، ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، طالبان کی کمیں گاہیں فعال ہونے کا اعلان کر چکی ہیں۔ یہ وقت متحد رہ کر امن دشمنوں سے لڑنے کا ہے۔ ایم کیو ایم اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے فوری رابطہ کر کے صورتحال کو ڈیفیوز کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ رینجرز کا کہنا ہے کہ علاقے کی عمارت سے ایک فوجی افسر پر گولی چلائی گئی۔ چنانچہ حقیقی واقعے کے مضمرات سے قانونی طریقہ سے جلد از جلد نمٹا جائے۔
بتایا جاتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا اسکیم 33 معمار سیکٹر آفس قائم ہے جہاں گزشتہ شب تنظیم نو اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے اجلاس عام منعقد تھا، اجلاس میں سیکڑوں مرد و خواتین کارکن شریک تھے، کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف ایم کیوایم کی اعلیٰ قیادت نے رات گئے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا اور اس صورت حال پر شدید احتجاج کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر واضح کیا کہ اگر بلاجواز گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو پھر ایم کیو ایم کراچی میں حکومت کے خلاف احتجاجا ًدھرنے کا آپشن استعمال کرنے پر مجبور ہو گی، ایم کیو ایم کے ذرایع نے بتایا کہ رینجرز کے چھاپے کے بعد رابطہ کمیٹی نے اس صورت حال سے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی آگاہ کیا ہے جب کہ اس حوالے سے ایم کیو ایم نے اپنی شکایات سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارکو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایم کیوایم کی شکایات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
ارباب اختیار کراچی کی بے بسی کا ادراک کریں۔ تاہم معاملہ فہمی اور متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے یہ خوش آیند بات ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے فوری طور پر 6 رکنی کمیٹی قائم کر دی، انھوں نے ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس پر چھاپے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم ہماری حلیف جماعت ہے۔ انھوں نے حراست میں لیے گئے کارکنوں کی رہائی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی عمومی سیاسی اور معاشی صورتحال جتنی اعصاب شکن ہے منی پاکستان میں بھی امن و امان سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جہاں بد امنی کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں کراچی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اس لیے دور اندیشی، تدبر، رواداری اور سیاسی افہام و تفہیم کا تقاضہ ہے کہ کوئی نیا پنڈورا بکس نہ کھولا جائے۔ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اور قائد تحریک الطاف حسین کی معروضات و شکایات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے، چھاپہ کی فوری تحقیقات کرائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کراچی میں دھرنوں سے ملک کا معاشی حب مزید مفلوج ہو جائے۔ اربوں روپے کا پہلے ہی نقصان ہو چکا ہے، ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، طالبان کی کمیں گاہیں فعال ہونے کا اعلان کر چکی ہیں۔ یہ وقت متحد رہ کر امن دشمنوں سے لڑنے کا ہے۔ ایم کیو ایم اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے فوری رابطہ کر کے صورتحال کو ڈیفیوز کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ رینجرز کا کہنا ہے کہ علاقے کی عمارت سے ایک فوجی افسر پر گولی چلائی گئی۔ چنانچہ حقیقی واقعے کے مضمرات سے قانونی طریقہ سے جلد از جلد نمٹا جائے۔
بتایا جاتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا اسکیم 33 معمار سیکٹر آفس قائم ہے جہاں گزشتہ شب تنظیم نو اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے اجلاس عام منعقد تھا، اجلاس میں سیکڑوں مرد و خواتین کارکن شریک تھے، کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف ایم کیوایم کی اعلیٰ قیادت نے رات گئے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا اور اس صورت حال پر شدید احتجاج کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر واضح کیا کہ اگر بلاجواز گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو پھر ایم کیو ایم کراچی میں حکومت کے خلاف احتجاجا ًدھرنے کا آپشن استعمال کرنے پر مجبور ہو گی، ایم کیو ایم کے ذرایع نے بتایا کہ رینجرز کے چھاپے کے بعد رابطہ کمیٹی نے اس صورت حال سے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی آگاہ کیا ہے جب کہ اس حوالے سے ایم کیو ایم نے اپنی شکایات سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارکو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایم کیوایم کی شکایات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔