بات کچھ اِدھر اُدھر کی کس قدر مشکل ہے یہ زندگی کا سفر
فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب سے آواز آئی حضور سیمینار میں چلنا نہیں ہے کیا؟
خاکسار نے جواب دیا کونسا سیمینار ؟
یار اپنی ای میل دیکھ آج ہمیں خصوصی افراد کے حوالے سے سیمینار میں جانا تھا
میں نے کہا کہ یار میرا تو کوئی ارادہ نہیں، بلاوجہ وقت کا ضیاع ہوگا اور بور الگ ہونگے
ارے یار چلتے ہیں چائے اور سینڈوچ کھا کر آجائیں گے
چل تو کہتا ہے تو چلتے ہیں
اور پھر ہم دونوں سیمینار ہال کی جانب چل پڑے سیشن کا ایجنڈا خصوصی افراد اور ہمارا معاشرہ تھا۔
معمول کی طرح تمام کارروائی ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی، وقفے کے دوران چائے بسکٹ نوش فرمائے اور واپس جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ جانے کیوں دل میں خیال آیا کہ تھوڑی دیر اور بیٹھ جاتے ہیں۔ جیسے ہی ہم بیٹھے قوت سماعت سے محروم نوجوان کی کہانی کی ویڈیو چلنا شروع ہوگئی۔
مبارک ہو الله نے آپکو ایک اور بیٹا عطا کیا ہے مگر یہ پیدائشی طور پر ایک کان سے سن نہیں سکتا تھا اور دوسرے کان سے بہت اونچا سنے گا، یہ خبر اس کے والدین پر بجلی بن کر گری، ابھی اس کی ماں اسکی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں اور تکلیف سے بمشکل نکل پائی تھی کہ یہ خبر----- ماں تو مایوس ہی ہو گئی، باپ کی ڈاکٹر نے ہمّت باندھی کہ الله پر بھروسہ رکھیں وہ بڑا کارساز ہے الله نے چاہا تو یہ معذوری دور ہو جائے گی۔
اولاد کیسی بھی ہو والدین کو پیاری ہی ہوتی ہے، یہ پیار اور محبت تو پروردگار دلوں میں ڈالتا ہے۔ فہد گھر کا سب سے چھوٹا تھا تو لاڈلا بھی تھا والدین اور بڑے بہن بھائی اسکا بے حد خیال رکھتے اسے اشاروں اور ہونٹوں کی جنبش سے بات سمجھانا سکھاتے دن گزرتے گئے اور وہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ گیا، قوت سماعت کی کمزوری کی وجہ سے فہد کو بولنے میں بھی بہت دشواری تھی وہ بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کر پاتا، 4 برس کا ہوا تو ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اس کے ہیرینگ ایڈ لگوا دیں، اس وقت تک پاکستان میں صرف انالوگ ہیرنگ ایڈ ہی دستیاب تھے جن کا بنیادی نقص یہ تھا کہ اس لگانے سے کان میں ایک عجیب سا شور سا ہوتا تھا۔ مگر یہ اسکی واحد اور آخری امید تھی اور اس کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں تھا اس لئے مجبوراً اسے وہی استعمال کرنا پڑا ڈاکٹر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اسے نارمل بچوں کے اسکول میں داخل کروائیں تاکہ وہ ٹھیک سے بولنا سیکھ سکے لہذا والدین نے قریبی اسکول میں داخل کرادیا۔
اسکول میں داخلے کے بعد فہد کیلئے ایک مشکل سفر کا آغاز ہوگیا، اونچا سننے کی وجہ سے وہ باقی بچوں کی طرح استاد کی بات مشکل سے سمجھ پاتا اور بولنا تو اسکے لئے پہلے ہی مشکل تھا، ٹیچر اسے نکمہ اور کن ذہن سمجھ کر سب سے آخر میں بیٹھا دیتے۔ بچے کبھی مذاق اڑاتے کبھی طرح طرح کے ناموں سے پکارتے تو کبھی آلہ سماعت سے چھیڑ چھاڑ کرتے - فہد کبھی غصہ میں آلہ سماعت اتار کر پھینک دیتا، کبھی برداشت کرتا اور کبھی بے بس ہو کر رو پڑتا اپنی ماں سے شکایت کرتا باپ سے گلہ کرتا بھائی سے ناراض ہو جاتا وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
کس قدر مشکل ہے یہ زندگی کا سفر
خدا نے مرنا حرام کیا لوگوں نے جینا
ماں اسے سمجھاتی کہ بیٹا خدا کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر تو دوسروں کی باتوں پر کان نہ دھرا کر بس اوپر والے سے دعا کیا کر اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں، ماں کی یہ بات اسکی ہمت بڑھا دیتی خدا نے اسے بہت ہمت اور حوصلے سے نوازہ تھا۔ فہد نے اپنی تعلیم جاری رکھی پہلی دوسری تیسری جماعت آہستہ آہستہ کچھ کچھ بولنا بھی سیکھ لیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا گو کہ بہت اچھے نمبروں سے نہیں مگر عام بچوں کا مقابلہ کرنا یقیناً اس کے لئے بڑی کامیابی تھی،اس کامیابی سے اسکا حوصلہ مزید بڑھ گیا۔
مگر یہ تو ابھی آغاز سفر تھا ابھی تو اسے بہت منزلیں طے کرنا تھیں وہ اپنے گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا فہد نے پہلے انٹر اور پھر بی کام کا امتحان پاس کرلیا۔ سائنس نے بھی ترقی کے سفر طے کئے اور سائنسدانوں نے ڈیجیٹل ہیرنگ ایڈ ایجاد کرلیا جس سے اس کی مشکلات میں کافی حد تک کمی آگئی تھی اب وہ بہتر طور پر سن سکتا تھا۔ اس نے ایم بی اے میں داخلے کے لئے ٹیسٹ دیا اور میریٹ پر منتخب بھی ہوگیا، اس تیز رفتار زمانے میں اسکا ایم بی اے کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اس نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا اور اپنے سے زیادہ قابل لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
فہد کے اس کے بڑے بھائی نے اس کی صلاحیتوں میں اضافے کے لئے اسے کچھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کے امتحانات کی تیاری کروائی، وہ امتحانات بھی امتیازی نمبروں سے پاس ہوگا اور ان سرٹیفیکیشن کی بدولت اس نے شہر کی ایک بڑی آئی ٹی کمپنی میں نوکری حاصل کرلی۔ اس تیز رفتار دور میں جہاں ایک پوزیشن کے لئے ہزاروں امیدوار نوکری حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہاں ایک قوت سماعت سے محروم شخص کا بغیر کسی سفارش پر نوکری حاصل کرنا واقعی قابل ستائش تھا۔ مگر کچھ لوگوں کو اس کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی، یہ دنیا کسی کو کہاں چین سے جینے دیتی ہے۔ آس پاس کے لوگ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگے، اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عیاری سے مختلف شعبے میں تبادلہ کراتے رہے۔ فہد لڑتا رہا محنت کرتا رہا۔
ان تمام تجربات کے بعد اس نے اپنی زندگی ان لوگوں کے نام کردی جو کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ فہد نے ایک غیر سرکاری تنظیم میں رضاکار شمولیت اختیار کرلی۔ نہ دن دیکھتا نہ رات اسکا مقصد اب اپنی بہتری سے زیادہ دوسرے لوگوں کی بہتری تھی وہ معذور افراد کے لئے مختلف اسکولوں، یونیورسٹی اور اداروں کا رخ کرتا اور ان کے لئے فنڈز اکھٹا کرتا ان کے ساتھ وقت گزارتا۔
شاعر نے بھی کیا خوب کہا کہ؛
اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اس نے شعر کو حقیقت کا رنگ دے دیا، فہد نے، ایک معذور انسان جسے خود سہاروں کی ضرورت تھی لیکن اب وہ دوسروں کی سہاروں اور امیدوں کا مرکز ہے۔ فہد کو اسٹیج پر بلایا گیا، جیسے ہی وہ نوجوان اسٹیج پر پہنچا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ہر شخص اس کی جانب ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے سلیوٹ کر رہا ہو۔
میں چپ چاپ کہانی سن رہا تھا اور سر شرم سے جھکا ہوا کہ پروردگار نے مجھے صحت تندرستی سے نوازہ اور کسی بھی قسم کی جسمانی اور ذہنی کمزوری سے دور رکھا مگر کیا میں اس کا شکر ادا کر رہا ہوں؟ کیا میں بھی اس نوجوان کی طرح اپنے ارد گرد بسے ہوئے لوگوں کی بہتری کے لئے کوئی کام کررہا ہوں ؟ یہی سوال میں قارئین کے لئے بھی چھوڑے جا رہا ہوں، کیا ہم سب اپنے حصے کا فرض ادا کررہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔