سچ

وہ اپنی تمام آمدنی غریب بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے وقف کر چکا ہے ...

raomanzarhayat@gmail.com

حکم ملا کہ کیا آقاؐ کی سیرت پڑھی ہے؟ طالبعلم کا جواب اثبات میں تھا۔ پوچھا گیا کہ آقاؐ پر سیرت کی پہلی کتاب ابنِ ہشام کی تھی۔ کیا وہ بھی نظر سے گزری ہے؟ جواب نفی میں تھا! تین دن ہوئے جاتے ہیں کہ یہ پُر مغز اور نہایت مختلف نسخہ پڑھ رہا ہوں۔ روشنی کی ایک لکیر ہے جو نظر آتی ہے۔ نور کا ایک سیلاب! کیا بات کروں اور کس کا تذکرہ چھوڑ دوں!

دنیاوی معاملات میں "سچ" بالآخر ہے کیا؟ یہ عامیانہ بات نہیں۔ میں ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ٹوٹے پھوٹے لوگ، پریشان حال انسان اور بغیر ادراک کے زندگی کی تار پر تیزی سے دوڑتے ہوئے اشخاص کا ہجوم نظر آتا ہے۔ کسی قسم کی تربیت سے عاری یہ لوگ انسانی سطح سے قدرے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محض ایک ریوڑ! بھیڑیے ہیں کہ جابجا شکار کر رہے ہیں! یہ آدم خور خوش ہیں کہ سب ان سے گھبراتے ہیں اور ڈر کر ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر پاتے۔

نتیجہ کیا ہے! اٹھارہ کروڑ جانوروں پر مشتمل ظلم کی چراگاہ اور چند سو بھیڑیوں کا غول! لوگوں کی حالت ابتر سے ابتر ترین ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان بیکاری کا زہر پی پی کر زندگی سے بیزار نظر آتے ہیں۔ لوگ غربت سے خودکشی کی جانب رواں ہے۔ جومرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، انتہائی ضعف اور مجبوری کے عالم میں اپنی عزت تک نیلام کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مگر مقتدر طبقہ شادیانے بجانے میں مصروف ہے۔

صاحبان علم! کیا یہ ہے ہمارا پاکستان، جہاں غریب کے لیے سوائے الفاظ کے کچھ بھی نہیں! کیا کوئی تین دن سے بھوکا خاندان کھانے کے لیے تڑپے گا یا آئین کی کتاب کی طرف دیکھے گا۔ اور آئین بھی ایسا جسکی ایک سطر پر بھی کبھی عمل نہیں کیا گیا! لفاظی اور محض لفاظی! غریب پہلے تو فقط غریب تھا مگر اب تو وہ محض سانس لے رہا ہے! کیا اس کو زندگی کہا جا سکتا ہے! رب کعبہ کی قسم! ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر اب ظلم، جہالت اور غربت کا راج ہے۔ اتنی ناانصافی تو غلامی کے دور میں نہیں ہوئی تھی!میں دوبارہ عرض کرونگا کہ بالاخر"سچ" کیا ہے؟ ہمارے ملک میں بحثیت نظام "جعلی طریقہ کار" سے ہر اصول کو بے توقیر کر دیا گیا ہے۔

لہذا اب ہر شخص، گروہ، سیاسی جماعت اور ہر لیڈر کا اپنا اپنا"سچ" ہے۔ یہاں ایک شخص کا سچ دوسرے کی نظر میں مکمل جھوٹ ہے۔ قومی سطح پر بھی بالکل یہی حال ہے۔ پھر نظام عدل کی کارکردگی! سبحان اللہ! یہ نظام سائل کو تاریخ پر تاریخ دینے پر قادر ہے۔ صرف ایک چیز اس کے اختیار سے باہر ہے اور وہ ہے انصاف کی فراہمی! دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں دہائیوں تک مقدمات چلتے ہیں اور انصاف مانگنے والا مایوس ہو کر دنیا ہی سے رخصت ہو جاتا ہے! ہمارا نظام عدل ضلع کی حد تک ہی کیوں ختم نہیں ہو سکتا! ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا وجود کیا واقعی انصاف دلانے میں تیزی کا باعث ہے یا تاخیر کا! اور پھر وکلاء کی فیس! پولیس اور پٹوار سے کچلے ہوئے لوگ جب شاندار عدالتوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی مجبوری اور بے بسی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔

کیا قومیں ایسے ترقی کرتیں ہیں! کیا ہمارے ہمسائے ممالک جو اب دنیا کے لیے ترقی کی مثال بنتے جا رہے ہیں، ہمارے ہی نقش کردہ ترقی کے راستے پر گامزن ہیں، نہیں، بالکل نہیں۔ پاکستان کا شمار اب دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں ہوتا ہے اور کوئی غیر ملکی اہم شخصیت اس ملک میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو محض ایک سراب ہے! آپ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں چلے جائیے۔


آپ کسی کاروباری شخص کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ جناب آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ یقین فرمائیے وہ آپکو اس نظر سے دیکھے گا کہ شائد آپ عقل سے عاری انسان ہیں! سرمایہ کاری کے لیے آپکو لوگوں کو قائل نہیں کرنا ہوتا بلکہ ملک میں ایسے بہترین حالات پیدا کرنے ہوتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں اپنے آپکو مکمل طور پر محفوظ گردانیں اور انھیں حکومت کے وعدوں پر یقینِ کامل ہو! آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ذی شعور کاروباری آدمی چین، تائیوان، سنگاپور، ملائشیا اور دبئی کو چھوڑ کر ہمارے ملک میں قدم رکھنے کی جرات کر پائیگا۔ ہرگز نہیں! یہاں تو کسی کی بھی زندگی، مال و دولت اور حرمت محفوظ نہیں!

ہمارے ملک میں سیکڑوں ارب پتی لوگ موجود ہیں۔ آپکو ان کی موجودگی کا احساس بڑی شدت سے ہوتا ہے۔ کروڑوں روپے کی گاڑیاں، بیش قیمت محلات، نوکروں کی لمبی قطاریں اور محافظوں کی اَن گنت تعداد۔ یہ مظاہر آ پکو ہر شہر میں نظر آئینگے۔ لاہور میں تو قدم قدم پر انتہائی بے شرمی سے دولت کے وہ وہ مظاہرے نظر آتے ہیں یا آپکو زبردستی دکھائے جاتے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے۔ میں آج تک دیکھنے کا متمنی ہوں کہ ان لوگوں نے اپنی دولت سے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قومی سطح کا ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جسکی بدولت ان کا نام اور ہمارے ملک کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہو۔ مگر پوری دنیا میں ایسے حالات بالکل نہیں ہیں۔ اس سے قبل کہ میں آپکو بل گیٹس، وارن بوفے اور فیس بُک کے مالک مارک زوکر برگ کے غریب لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے حیرت انگیز واقعات بتاؤں، میں ایک عرض کرنا چاہونگا۔

میرے ایک دوست تقریباً چالیس سال پہلے امریکا چلے گئے۔ وہاں بنیادی طور پر انھوں نے انتہائی نچلی سطح سے کاروبار شروع کیا۔ بیس پچیس برس کی شدید محنت سے وہ ایک انتہائی خوشحال تاجر بن گئے۔ وہ امریکا میں نیو جرسی کے قریب رہتے ہیں۔ بہت زیادہ پیسہ کمانے کے بعد انھیں خیال آیا کہ انھیں اتنی دولت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان آ کر انھوں نے لیہ، بھکر اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں انتہائی غریب لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کئی فلاحی منصوبے شروع کر دیے۔ وہ سو فیصد کامیاب ہو گئے۔ اس شخص نے آج تک اپنے کسی کام کی تشہیر نہیں کی۔ وہ کسی سے ذکر تک نہیں کرتا کہ وہ غریب آدمیوں کے لیے کوئی اچھا کام کر رہا ہے۔ اس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ لاہور میں وہ تین چار مہینے گزارتا ہے اور پھر واپس نیوجرسی چلا جاتا ہے۔

لیکن اس نے ایک دن مجھے حیران کر ڈالا۔ وہ امریکا میں بھی غریب لوگوں کی مدد کرنے کے ہمہ وقت جنون میں مبتلا رہتا ہے۔ اس نے شائد چالیس یا پچاس کروڑ روپے کا کوئی خیراتی تعلیمی ٹرسٹ بنانا تھا۔ اسے کسی دوست نے بتایا کہ ایک اور شخص بھی یہی کام کرنا چاہتا ہے تو آپ اسے جا کر مل لو۔ دوسرا شخص جو تعلیمی ٹرسٹ بنانا چاہتا تھا، ایک امریکی گورا تھا۔ اس کی کامیاب ایئر لائن تھی اور وہ اس کا واحد مالک تھا۔ خیر دونوں میں ملاقات کا وقت طے ہوا۔ میرا دوست مقررہ وقت پر اس جگہ پہنچ گیا جہاں ان دونوں نے تعلیمی پروجیکٹ کے لیے ملنا تھا۔ میرا پاکستانی دوست ہوٹل کی لابی میں دس منٹ تک بیٹھا رہا مگر وہ امریکی تاجر دس منٹ کی تاخیر سے پہنچا۔ آگے کی تمام باتیں حیران کن ہیں۔ وہ گورا جو جہازوں کی ایک کامیاب کمپنی کا مالک تھا، اس نے سب سے پہلے کہا کہ اس نے اپنے اوپر پیسے خرچنے چھوڑ دیے ہیں۔

وہ اپنی تمام آمدنی غریب بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے وقف کر چکا ہے۔ تاخیر کی معذرت کرنے کے بعد وہ کہنے لگا کہ ہوٹل تک آنے کے لیے ٹیکسی والا دو سو ڈالر لیتا ہے لہذا وہ بس پر بیٹھ کر یہاں پہنچا ہے۔ اس نے دو سو ڈالر اس لیے بچائے ہیں کہ یہ بھی ان غریب بچوں کا حق ہے جنکی مدد کرنے کے لیے اس نے سب کچھ دان کر ڈالا ہے۔ آپ آگے سنیے، پھر وہ انگریز تاجر بتانے لگا کہ وہ نئے کپڑے نہیں پہنتا۔ بلکہ وہ پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں کی دکان پر جا کر اپنے لیے انتہائی سستے سوٹ اور جوتے خرید لیتا ہے۔ کیونکہ جو پیسے اس نے اپنے کپڑوں اور نئے جوتوں پر خرچ کرنے تھے، وہ بھی دراصل غریب بچوں پر استعمال ہونے چاہیئں۔ کہنے لگا کہ اس نے آج تک اپنی ذاتی ائیر لائن میں بزنس کلاس میں سفر نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ ہوائی جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے۔ آپکو میں یاد دلاتا چلوں کہ وہ جہازوں کی کامیاب ترین کمپنی کا واحد مالک ہے۔ خیر یہ دونوں شخص، اب ملکر امریکا، پاکستان اور کئی افریقی ممالک میں مختلف فلاحی کام کر رہے ہیں۔

اب آپ اپنے ملک پر نظر دوڑائیے۔ ہر طرف دولت کی نمائش کی طفلانہ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہمارے نیم سیاسی و منافقانہ سماجی نظام نے ناجائز ذرایع سے منقش سیکڑوں ارب پتی افراد پیدا کر ڈالے ہیں۔ ان میں کسی کے پاس اتنا ظرف نہیں کہ اپنی سونے کی کان کو عام لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دے! سب کچھ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مختص ہے! کوئی بھی ایسا نہیں کہ میں کہہ سکوں کہ اس نے بل گیٹس کی طرح اپنی66 فیصد دولت بچوں کی ادویات کے لیے خیرات کر دی ہے۔

وہ معصوم بچے جنکو کبھی بھی یہ علم نہیں ہو پائے گا کہ ان کی زندگی دراصل خدا کے بعد ایک ایسے شخص نے بچائی ہے جو انکو جانتا تک نہیں۔ میری نظر میں تو ہمارے امیر لوگ دراصل غریب ترین بیمار لوگ ہیں جنکی ہوس زر کبھی ختم نہیں ہوتی۔! انکو دولت جمع رکھنے کی بیماری ہے! اور کوئی ناجائز ذرایع سے کمائی ہوئی دولت کے متعلق سوال تک نہیں کر سکتا! اگر کرے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے! ہم محض اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریاں ہیں جو ان ذہنی طور پر قلاش بھیڑیوں کی مرغوب غذا ہیں! اصل سچ تو بس اتنا سا ہی ہے!
Load Next Story