انتخابی دھاندلی
الیکشن کمیشن مقناطیسی سیاہی کے بجائے ووٹر وں کی تصدیق کیلئے انگوٹھوں کی فوری تصدیق کیلئے ...
الیکشن کمیشن نے ووٹروں اور انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والے مبصرین کی رائے پر مشتمل رپورٹ شائع کردی۔ اس رپورٹ میں انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا ذکر ہے۔ عمران خان جو گزشتہ 40دن سے الیکشن کمیشن کو ساری برائیوں کا ذمے دار قرار دے رہے تھے اچانک کمیشن کی مداح سرائی میں لگ گئے۔
یہ رپورٹ بین الاقوامی مبصرین، ملکی مبصرین، ضلع ریٹرننگ افسروں، ریٹرننگ افسروں، پریزائیڈنگ افسروں، پولنگ افسروں، سیکیورٹی عہدیداروں اور عام لوگوں سے ملنے والے ردعمل کے مختصر جائزے پر مشتمل ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کے منتخب امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال نہیں کی یوں انتخابی امیدواروں کو مناسب جانچ پڑتال کیے بغیر کلیئر کردیا گیا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک ، نادرا ، ایف بی آر اور نیب نے ریٹرننگ افسروں سے تعاون نہیں کیا،اس طرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNPPکا رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم مکمل طور پر نتائج وقت پر مرتب نہ کرسکا ۔
مبصرین نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ چھپائی میں تاخیر کی بناء پر بعض پولنگ اسٹیشنوں میں بیلٹ پیپر دیر سے پہنچے، بہت سے پریذائیڈنگ افسروں نے Tamper Evidence Bagsکو صحیح طریقے کے مطابق سربہمرنہیں کیا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں نے لاپتہ ہونے والے مواد کی ذمے داری قبول نہیں کی ۔ووٹوںکی گنتی کے لیے غیر تربیت یافتہ عملے کی خدمات حاصل کی گئیں اس طرح رپورٹ میں انتخاب سے چند دن قبل پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی کا بھی ذکر کیا گیا، اسی طرح انتخابی عملے کو فراہم کی جانے والی کم سہولتوں اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کی کمی کا بھی ذکر ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی فرائض انجام دینے والے بعض اہلکار انتخابی فرائض انجام دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن نہیں پہنچے۔ الیکشن کمیشن کی یہ رپورٹ 1988ء سے ہونے والے انتخابات کے بعد جاری ہونے والی رپورٹوں کی کڑی ہے۔ اس رپورٹ میں دھاندلی کے کسی منظم منصوبے کا ذکر نہیں ہے، ساری شکایتیں انفرادی ہیں۔ ہر انتخاب کے بعد پولنگ والے دن ہونے والی خامیوں کے بارے میں ایسی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔
اس رپورٹ کے دقیق مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آئین میں کی گئی 18ویں اور 20ویں ترمیم کے تحت شفاف انتخابات کے لیے خودمختار الیکشن کمیشن کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے 13مئی کو ہونے والے انتخابات میں وہ اقدامات ناقص ثابت ہوئے ان ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے مشروط کیا گیا تھا ، اس طرح الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس کو دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ کمیشن کے چاروں اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات یکساں کردیے گئے تھے۔
گزشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کا خیال تھا کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ایک غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہوگا مگر قانون سازی کے وقت اراکین اس حقیقت کو فراموش کربیٹھے کہ اگر وزیر اعظم اور قائد حب اختلاف میں مشاورت کی وضاحت نہیں ہے، یعنی دونوں رہنماؤں کا اتفاق رائے سے یا وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کو کسی فرد کو بطورچیف الیکشن کمشنر نام تجویز کرکے مشاورت کا فریضہ پورا کریں گے پھر دونوں رہنماؤں میں عدم اتفاق کی صورت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حتمی فیصلہ کرنا تھا ، اس طرح چاروں اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات مساوی ہونے کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا گیا اور اس حقیقت کو فراموش کردیا گیا کہ کسی ایک افسر کے پاس مطلق اختیار نہ ہونے کی بناء پراس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
یوں الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے جامع منصوبہ بندی کی ، پہلی دفعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی تیاری SMSکے ذریعے انتخابی فہرست میں درج ناموں کی تصدیق اور پولنگ اسٹیشن بنانے کی اطلاع پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹر کے گھروں کے قریب بنانے کے بارے میں فیصلے ہوئے ، اس طرح انگوٹھوں کی تصدیق کیلئے مقناطیسی سیاہی کی فراہمی پولنگ اسٹیشنوں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب شامل تھی مگر جب انتخاب کا دن آیا تو تمام اراکین کے یکساں اختیارت کی بناء پر الیکشن کمیشن مؤثر نہیں رہا ۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)فخر الدین جی ابراہیم اسلام آباد کے بجائے کراچی میں بیٹھنے لگے ، یوں مکمل اختیار والی اتھارٹی نہ ہونے کی بناء پر الیکشن کمیشن کے افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی ۔ عدالتی افسران پہلی دفعہ ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام دے رہے تھے وہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے متعلقہ عملے کی مضبوطی سے کمانڈ نہ کرسکے ۔ پختونخواہ صوبے سمیت تمام صوبوں میں دیر سے پولنگ شروع ہوئی ۔
کراچی میں صورتحال زیادہ خراب تھی ، بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں دوپہر کے بعد پولنگ شروع ہوئی پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وقت پر مکمل سیکیورٹی فراہم نہیں کی ، اس کے علاوہ پریذائیڈنگ افسروں اور پولنگ افسروں کی مکمل طورپر تربیت نہیں ہوئی یوں غیر تربیت یافتہ عملے کی شکایات موصول ہوئی پھرالیکشن کمیشن مقناطیسی سیاہی مطلوبہ تعداد میں فراہم کرنے میں ناکام رہا ووٹروں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی انگوٹھوں کے نشان کاؤنٹر فائل پر حاصل کرنے کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا ، کاؤنٹر فائلوں پر امیدواروں کے انگوٹھوں کے نشانات واضح طور پر منتقل نہیں ہوئے ۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل کی ہدایت پر انگوٹھوں کے نشانات والی کاؤنٹر فائلیں نادرا کو بھیجوائیں گئیں تو بہت سے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہوسکی مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ کسی کاؤنٹر فائل پر موجود انگوٹھے کے نشان کی نادرا کے ماسٹر ڈیٹا سے تصدیق نہ ہونے کا مطلب ووٹر کا جعلی ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ عملے یا ووٹر کی تربیت نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نظام میں خامی کی بناء پر مکمل طور پر شفاف انتخابات منعقد نہ ہو سکے اس صورتحال میں دو راستے رہ جاتے ہیں پہلا تو یہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے پر نواز شریف حکومت مستعفی ہوجائے اور عبوری حکومت 90دن میں الیکشن کرائے ، اس صورت میں میاں نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی مشاورت سے نگراں وزیر اعظم کا تقرر ہوگا اور وہ و ہی الیکشن کمیشن سے انتخابات کرائے جس نے 2013ء میں انتخابات کرائے اس صورت میں گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ہونے والی غلطیاں پھر دہرائی جائیں گی یوں ہارنے والی جماعت کو یہ حق حاصل ہوگاکہ وہ دھاندلیوں کا شور مچاکر اسلام آباد میں دھرنا دے اور پھر سے انتخابات کیلئے کوشش کرے یا دوسری صورت یہ ہے کہ پارلیمنٹ جامع انتخابی اصلاحات کرے ، سیاسی جماعتیں غیر سرکاری تنظیمیں مؤثر اصلاحات کی تیاری کیلئے سفارشات پیش کریں ۔
الیکشن کمیشن مقناطیسی سیاہی کے بجائے ووٹر وں کی تصدیق کیلئے انگوٹھوں کی فوری تصدیق کیلئے خصوصی الیکٹرانک مشین تیار کرے تاکہ ووٹر فوری طور پر تصدیق کے بعد ووٹ ڈالنے کا اہل ہوسکے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے یوں پانچ سال بعد جامع انتخابی اصلاحات کے بعد انتخابات منعقد ہوں گے تو الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہوگا، الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس ضمن میں خاصا کام کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ترقیاتی ادارہ اس ضمن میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی نے عوام سے تجاویز طلب کی ہیں، یوں جامع تجاویز پر مشتمل انتخابی اصلاحات الیکشن کمیشن کو فعال اور شفاف انتخابات کو یقینی بناسکتی ہیں۔ اب پاکستان کے عوام خود فیصلہ کرے کہ کون سا راستہ زیادہ پائیدار اور شفا ف انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔
یہ رپورٹ بین الاقوامی مبصرین، ملکی مبصرین، ضلع ریٹرننگ افسروں، ریٹرننگ افسروں، پریزائیڈنگ افسروں، پولنگ افسروں، سیکیورٹی عہدیداروں اور عام لوگوں سے ملنے والے ردعمل کے مختصر جائزے پر مشتمل ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کے منتخب امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال نہیں کی یوں انتخابی امیدواروں کو مناسب جانچ پڑتال کیے بغیر کلیئر کردیا گیا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک ، نادرا ، ایف بی آر اور نیب نے ریٹرننگ افسروں سے تعاون نہیں کیا،اس طرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNPPکا رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم مکمل طور پر نتائج وقت پر مرتب نہ کرسکا ۔
مبصرین نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ چھپائی میں تاخیر کی بناء پر بعض پولنگ اسٹیشنوں میں بیلٹ پیپر دیر سے پہنچے، بہت سے پریذائیڈنگ افسروں نے Tamper Evidence Bagsکو صحیح طریقے کے مطابق سربہمرنہیں کیا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں نے لاپتہ ہونے والے مواد کی ذمے داری قبول نہیں کی ۔ووٹوںکی گنتی کے لیے غیر تربیت یافتہ عملے کی خدمات حاصل کی گئیں اس طرح رپورٹ میں انتخاب سے چند دن قبل پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی کا بھی ذکر کیا گیا، اسی طرح انتخابی عملے کو فراہم کی جانے والی کم سہولتوں اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کی کمی کا بھی ذکر ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی فرائض انجام دینے والے بعض اہلکار انتخابی فرائض انجام دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن نہیں پہنچے۔ الیکشن کمیشن کی یہ رپورٹ 1988ء سے ہونے والے انتخابات کے بعد جاری ہونے والی رپورٹوں کی کڑی ہے۔ اس رپورٹ میں دھاندلی کے کسی منظم منصوبے کا ذکر نہیں ہے، ساری شکایتیں انفرادی ہیں۔ ہر انتخاب کے بعد پولنگ والے دن ہونے والی خامیوں کے بارے میں ایسی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔
اس رپورٹ کے دقیق مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آئین میں کی گئی 18ویں اور 20ویں ترمیم کے تحت شفاف انتخابات کے لیے خودمختار الیکشن کمیشن کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے 13مئی کو ہونے والے انتخابات میں وہ اقدامات ناقص ثابت ہوئے ان ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے مشروط کیا گیا تھا ، اس طرح الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس کو دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ کمیشن کے چاروں اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات یکساں کردیے گئے تھے۔
گزشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کا خیال تھا کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ایک غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہوگا مگر قانون سازی کے وقت اراکین اس حقیقت کو فراموش کربیٹھے کہ اگر وزیر اعظم اور قائد حب اختلاف میں مشاورت کی وضاحت نہیں ہے، یعنی دونوں رہنماؤں کا اتفاق رائے سے یا وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کو کسی فرد کو بطورچیف الیکشن کمشنر نام تجویز کرکے مشاورت کا فریضہ پورا کریں گے پھر دونوں رہنماؤں میں عدم اتفاق کی صورت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حتمی فیصلہ کرنا تھا ، اس طرح چاروں اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات مساوی ہونے کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا گیا اور اس حقیقت کو فراموش کردیا گیا کہ کسی ایک افسر کے پاس مطلق اختیار نہ ہونے کی بناء پراس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
یوں الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے جامع منصوبہ بندی کی ، پہلی دفعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی تیاری SMSکے ذریعے انتخابی فہرست میں درج ناموں کی تصدیق اور پولنگ اسٹیشن بنانے کی اطلاع پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹر کے گھروں کے قریب بنانے کے بارے میں فیصلے ہوئے ، اس طرح انگوٹھوں کی تصدیق کیلئے مقناطیسی سیاہی کی فراہمی پولنگ اسٹیشنوں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب شامل تھی مگر جب انتخاب کا دن آیا تو تمام اراکین کے یکساں اختیارت کی بناء پر الیکشن کمیشن مؤثر نہیں رہا ۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)فخر الدین جی ابراہیم اسلام آباد کے بجائے کراچی میں بیٹھنے لگے ، یوں مکمل اختیار والی اتھارٹی نہ ہونے کی بناء پر الیکشن کمیشن کے افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی ۔ عدالتی افسران پہلی دفعہ ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام دے رہے تھے وہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے متعلقہ عملے کی مضبوطی سے کمانڈ نہ کرسکے ۔ پختونخواہ صوبے سمیت تمام صوبوں میں دیر سے پولنگ شروع ہوئی ۔
کراچی میں صورتحال زیادہ خراب تھی ، بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں دوپہر کے بعد پولنگ شروع ہوئی پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وقت پر مکمل سیکیورٹی فراہم نہیں کی ، اس کے علاوہ پریذائیڈنگ افسروں اور پولنگ افسروں کی مکمل طورپر تربیت نہیں ہوئی یوں غیر تربیت یافتہ عملے کی شکایات موصول ہوئی پھرالیکشن کمیشن مقناطیسی سیاہی مطلوبہ تعداد میں فراہم کرنے میں ناکام رہا ووٹروں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی انگوٹھوں کے نشان کاؤنٹر فائل پر حاصل کرنے کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا ، کاؤنٹر فائلوں پر امیدواروں کے انگوٹھوں کے نشانات واضح طور پر منتقل نہیں ہوئے ۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل کی ہدایت پر انگوٹھوں کے نشانات والی کاؤنٹر فائلیں نادرا کو بھیجوائیں گئیں تو بہت سے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہوسکی مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ کسی کاؤنٹر فائل پر موجود انگوٹھے کے نشان کی نادرا کے ماسٹر ڈیٹا سے تصدیق نہ ہونے کا مطلب ووٹر کا جعلی ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ عملے یا ووٹر کی تربیت نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نظام میں خامی کی بناء پر مکمل طور پر شفاف انتخابات منعقد نہ ہو سکے اس صورتحال میں دو راستے رہ جاتے ہیں پہلا تو یہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے پر نواز شریف حکومت مستعفی ہوجائے اور عبوری حکومت 90دن میں الیکشن کرائے ، اس صورت میں میاں نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی مشاورت سے نگراں وزیر اعظم کا تقرر ہوگا اور وہ و ہی الیکشن کمیشن سے انتخابات کرائے جس نے 2013ء میں انتخابات کرائے اس صورت میں گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ہونے والی غلطیاں پھر دہرائی جائیں گی یوں ہارنے والی جماعت کو یہ حق حاصل ہوگاکہ وہ دھاندلیوں کا شور مچاکر اسلام آباد میں دھرنا دے اور پھر سے انتخابات کیلئے کوشش کرے یا دوسری صورت یہ ہے کہ پارلیمنٹ جامع انتخابی اصلاحات کرے ، سیاسی جماعتیں غیر سرکاری تنظیمیں مؤثر اصلاحات کی تیاری کیلئے سفارشات پیش کریں ۔
الیکشن کمیشن مقناطیسی سیاہی کے بجائے ووٹر وں کی تصدیق کیلئے انگوٹھوں کی فوری تصدیق کیلئے خصوصی الیکٹرانک مشین تیار کرے تاکہ ووٹر فوری طور پر تصدیق کے بعد ووٹ ڈالنے کا اہل ہوسکے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے یوں پانچ سال بعد جامع انتخابی اصلاحات کے بعد انتخابات منعقد ہوں گے تو الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہوگا، الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس ضمن میں خاصا کام کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ترقیاتی ادارہ اس ضمن میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی نے عوام سے تجاویز طلب کی ہیں، یوں جامع تجاویز پر مشتمل انتخابی اصلاحات الیکشن کمیشن کو فعال اور شفاف انتخابات کو یقینی بناسکتی ہیں۔ اب پاکستان کے عوام خود فیصلہ کرے کہ کون سا راستہ زیادہ پائیدار اور شفا ف انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔