سیاسی پارٹیوں میں موروثیت
محمود خان اچکزئی پر الزامات لگانے والے کچھ اینکرز اور صحافی حضرات نے ان کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے...
پچھلے چند مہینوں سے پشتونخواء میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی پارلیمنٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے باغیرت پارلمنٹیرین کی بات کرکے اور واک آوٹ کی دھمکی دیکر سیاق وسباق سے ہٹ کر محمود خان اچکزئی کو ممکنہ بائیکاٹ میں شامل نہ ہونے کا طعنہ دے کر اس کارِ خیر میں حصہ لیا۔ ( صحیح الفاظ غیرت مند اور غیرت دار ہیں) ویسے بھی انگریزی میں غیرت کا صحیح مترادف موجود نہیں پتہ نہیں انھوں نے کن معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح چوہدری نثار کے الزامات کے جوابات دینے کی بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی سیاست میں قربانیوں کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کیا۔
محمود خان اچکزئی پر الزامات لگانے والے کچھ اینکرز اور صحافی حضرات نے ان کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے پر ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کی تھیںجن کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے اب مایوسی میں الزامات لگا رہے ہیں۔ ان میں کچھ پشتون لکھاری اور ہمارے چند سرائیکی دوست شامل ہیں۔ کچھ ایسے اینکرز اور کالم نگار بھی جو اپنے آپ کو عقل کل اور کنگ میکرز سمجھتے ہیں اور ہر سیاسی لیڈر کو ہدایات دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ کچھ سیاستدان اچکزئی کی شخصیت کے سامنے گہنا (Over shadow) جاتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو ،تین نشستوں کے ساتھ 342 کے ایوان کو کیوں Dominate کیے ہوئے ہیں جب کہ کچھ حضرات کی روزی روٹی اچکزئی کے خلاف لکھنے سے متعلق ہے ۔
آئیے پہلے چوہدری اعتزاز احسن کی بات کرتے ہیں۔ اعتزاز احسن یقینا ہمارے پارلیمنٹرینز میں نسبتاً اچھی شہرت کے حامل سمجھے جاتے ہیں لیکن اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت والی بات ہے ۔ ان پر مختلف اوقات میں سنگین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں آیا۔ پنجابی فلموں کے ہیروکی طرح یہ بڑھک بھی مارتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو اس پارلیمنٹ کو ابھی ختم اور گرا سکتا ہوں ۔ پشتو کی ایک کہاوت کے مصداق اگر یہ پارلمینٹ صرف چوہدری اعتزاز احسن کی وجہ سے کھڑی ہے تو ایک ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود میں یہ کہنے پے مجبور ہوں کہ اس پارلمینٹ اور آسمان کا گِر جانا ہی بہتر ہے ۔
اب آتے ہیں محمود خان اچکزئی پر لگنے والے الزامات کی طرف ،سب سے بڑا الزام صوبائی حکومت میں شرکت، گورنر شپ اور مرکز میں ن لیگ کا ساتھ دینے کا ہے ۔پشتونخواء میپ حالیہ الیکشن میں پشتونوں کی نمایندہ جماعت بن کر سامنے آئی تو صوبے میں پشتون عوام کی نمایندگی کے لیے لازماً حکومت میں شامل ہونا تھا۔ ایک فارمولے کے تحت نیشنل پارٹی کو وزارتِ اعلیٰ ، ن لیگ کو سینئر وزارت دی گئی اور پشتونخواء میپ کے حصے میں گورنرشپ آئی، یہ وہاں کے پشتون عوام اور اس پارٹی کے اصولی موقف کے عین مطابق ہے کہ دو قومیتی صوبہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اگر بلوچ ہو توگورنر پشتون ہونا چاہیے، اسلام آباد کے نام نہاد تجزیہ نگاروں کو بلوچستان کے زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے۔
گورنرشپ وفاق کی نمایندگی کے باوجود نواز یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خیرات میں نہیں دی گئی ہے بلکہ حق کے طور پر اسٹیبلشمنٹ اور مرکز سے منوائی گئی ہے۔رہی محمود خان اچکزئی کے بھائی کے گورنر ہونے کی بات تو اس پر ہمیں بھی تحفظات ہیں لیکن یہ ریت اس ملک میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہے اگر یہی عہدہ اور حکومت میں شمولیت محلاتی سازشوں اور چوردروازوں سے کی جاتی تو جتنی بھی مذمت کی جاتی وہ کم ہوتی۔ لیکن خدا کے بندو! یہ سیاسیات کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ محمود خان اچکزئی اور اس کی پارٹی اپنے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود ساری عمر اپوزیشن میں رہیں گے۔
ہم سیاسی پارٹیوں میں موروثیت کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ مرض پورے جنوبی ایشیاء میں موجود ہے۔ پتہ نہیں یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے یا جنیاتی بگاڑ Genetic distortion) ، جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی کانگریس کی قیادت موتی لعل نہرو(جواہر لعل نہرو کے والد) سے لے کر اب تک یہی خاندان کرتا چلا آرہا ہے۔ سری لنکا میں نائیکے فیملی اور نیپال میںکوئرالہ گھرانا چھ دہائیوں سے پارٹی لیڈ کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے والد کی گدی جب کہ خالدہ ضیاء نے شوہر کی پارٹی سنبھالی ہوئی ہیٖ برما میں سوچی کی تیسری نسل لیڈرشپ سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے ۔خود ہمارے ہاں سب پارٹیوں میں یہ جراثیم موجود ہیں تو پھر صرف محمود خان اچکزئی ہی کیوں قابلِ گردن زنی ہے؟ اس موروثیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس کے لیے سیاسی کارکنوں کو بھی جرات سے کام لے کر اپنی اپنی پارٹیوں میں آواز اُٹھانی ہوگی ۔جب لیڈر کو مختلف وجوہات کی بنا ء پر دیوتا بنایا جائے گا تو پھر پوجا کرنی ہی پڑی گی۔
vested interest کے حصول اورچاپلوسی و خوشامد سے یہ رجحان اور بھی طاقتور ہوتا جائے گا۔ پیہم جدوجہد، ایجوکیشن ، سیاسی کلچر کے بدلنے اور جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کو رواج دینا ہوگا تب ہی اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ایک الزام ان پر نگران حکومت میں الیکشن کے دوران بلٹ پروف گاڑی لینے کی ہے تو اطلاعاً عرض ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردوں سے بچاؤ کے لیے اکثر ہائی پروفائل رہنماؤں کو بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی تھیں تو وہ کیوں نہ لیتے ۔ذرا انصاف سے کام لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ محمود خان اچکزئی اور اس کی پارٹی نے ہر مارشل لاء کی ببانگِ دہل مذمت اور اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ان کے خاندان اور پارٹی نے اس کی بڑی بھاری قیمت دسیوں سال جیل اور شہداء کی شکل میں چکائی ہے۔ باقی پارٹیوں نے کسی نہ کسی مارشل لاء کی کوئی نہ کوئی خوبی دریافت کرکے حمایت کی ہے بلکہ اکثر لیڈروں کی نشونما اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ اس ملک میں محمود خان اچکزئی اپنے اصولی اور دلیرانہ سیاست کی وجہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیٹس کو کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے ہیں۔ انھی وجوہات کی بناء پراکیلے اپنی چادر کے ساتھ پارلمینٹ کی سب سے قد آور شخصیت ہیں اور جب پارلمینٹ میں کچھ کہتے ہیں تو اتحادی اور مخالفین دونوں اسے انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی کوئی فرشتہ نہیں جس نے کبھی کوئی سیاسی غلطی نہ کی ہو اور نہ ہی تنقید سے بالاتر ہے، لیکن تنقید کرتے ہوئے حقائق کو مدِنظر رکھ کے صحافتی اور سیاسی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے۔لیکن چند باتیں محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی کے لیے بھی گوش گذار کرنا چاہتا ہوں اگر ان کی طبع نازک پرگراں نہ گذریں ۔
پہلی بات تو موروثیت کی ہے پارٹی ورکرز کے ساتھ ساتھ لیڈرز کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ اس کی نفی کریں اور اپنے خاندان کے لوگوں کی سیاست میں آنے کی حوصلہ شکنی کریں ۔حکومت میں شامل ایک آدھ وزیروں کی کرپشن کے بارے میں جو باتیں لوگ کر رہے ہیں ان کو روکنے اور احتساب کرنے کے لیے ایک میکنزم بنانا پڑے گا ۔ ان کے وزرا اور اراکین اسمبلی اب صرف پارٹی کے وزراء اور نمایندے نہیں رہے بلکہ عوام کے نمایندے ہیں اس لیے بلا امتیاز عوام کی خدمت کرنی ہوگی اور عام لوگوں سے تکبر اور رعونت سے پیش آنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا ۔ بقولِ حافظ ازدے ہمہ مستی و غرور ست و تکبر ( اس کی طرف سے تمام تر مستی غرور اور تکبر ہے)۔ ورنہ کل کو پھر انتخابات ہونگے اور یہی عوام ہونگے۔
محمود خان اچکزئی پر الزامات لگانے والے کچھ اینکرز اور صحافی حضرات نے ان کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے پر ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کی تھیںجن کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے اب مایوسی میں الزامات لگا رہے ہیں۔ ان میں کچھ پشتون لکھاری اور ہمارے چند سرائیکی دوست شامل ہیں۔ کچھ ایسے اینکرز اور کالم نگار بھی جو اپنے آپ کو عقل کل اور کنگ میکرز سمجھتے ہیں اور ہر سیاسی لیڈر کو ہدایات دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ کچھ سیاستدان اچکزئی کی شخصیت کے سامنے گہنا (Over shadow) جاتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو ،تین نشستوں کے ساتھ 342 کے ایوان کو کیوں Dominate کیے ہوئے ہیں جب کہ کچھ حضرات کی روزی روٹی اچکزئی کے خلاف لکھنے سے متعلق ہے ۔
آئیے پہلے چوہدری اعتزاز احسن کی بات کرتے ہیں۔ اعتزاز احسن یقینا ہمارے پارلیمنٹرینز میں نسبتاً اچھی شہرت کے حامل سمجھے جاتے ہیں لیکن اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت والی بات ہے ۔ ان پر مختلف اوقات میں سنگین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں آیا۔ پنجابی فلموں کے ہیروکی طرح یہ بڑھک بھی مارتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو اس پارلیمنٹ کو ابھی ختم اور گرا سکتا ہوں ۔ پشتو کی ایک کہاوت کے مصداق اگر یہ پارلمینٹ صرف چوہدری اعتزاز احسن کی وجہ سے کھڑی ہے تو ایک ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود میں یہ کہنے پے مجبور ہوں کہ اس پارلمینٹ اور آسمان کا گِر جانا ہی بہتر ہے ۔
اب آتے ہیں محمود خان اچکزئی پر لگنے والے الزامات کی طرف ،سب سے بڑا الزام صوبائی حکومت میں شرکت، گورنر شپ اور مرکز میں ن لیگ کا ساتھ دینے کا ہے ۔پشتونخواء میپ حالیہ الیکشن میں پشتونوں کی نمایندہ جماعت بن کر سامنے آئی تو صوبے میں پشتون عوام کی نمایندگی کے لیے لازماً حکومت میں شامل ہونا تھا۔ ایک فارمولے کے تحت نیشنل پارٹی کو وزارتِ اعلیٰ ، ن لیگ کو سینئر وزارت دی گئی اور پشتونخواء میپ کے حصے میں گورنرشپ آئی، یہ وہاں کے پشتون عوام اور اس پارٹی کے اصولی موقف کے عین مطابق ہے کہ دو قومیتی صوبہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اگر بلوچ ہو توگورنر پشتون ہونا چاہیے، اسلام آباد کے نام نہاد تجزیہ نگاروں کو بلوچستان کے زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے۔
گورنرشپ وفاق کی نمایندگی کے باوجود نواز یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خیرات میں نہیں دی گئی ہے بلکہ حق کے طور پر اسٹیبلشمنٹ اور مرکز سے منوائی گئی ہے۔رہی محمود خان اچکزئی کے بھائی کے گورنر ہونے کی بات تو اس پر ہمیں بھی تحفظات ہیں لیکن یہ ریت اس ملک میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہے اگر یہی عہدہ اور حکومت میں شمولیت محلاتی سازشوں اور چوردروازوں سے کی جاتی تو جتنی بھی مذمت کی جاتی وہ کم ہوتی۔ لیکن خدا کے بندو! یہ سیاسیات کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ محمود خان اچکزئی اور اس کی پارٹی اپنے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود ساری عمر اپوزیشن میں رہیں گے۔
ہم سیاسی پارٹیوں میں موروثیت کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ مرض پورے جنوبی ایشیاء میں موجود ہے۔ پتہ نہیں یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے یا جنیاتی بگاڑ Genetic distortion) ، جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی کانگریس کی قیادت موتی لعل نہرو(جواہر لعل نہرو کے والد) سے لے کر اب تک یہی خاندان کرتا چلا آرہا ہے۔ سری لنکا میں نائیکے فیملی اور نیپال میںکوئرالہ گھرانا چھ دہائیوں سے پارٹی لیڈ کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے والد کی گدی جب کہ خالدہ ضیاء نے شوہر کی پارٹی سنبھالی ہوئی ہیٖ برما میں سوچی کی تیسری نسل لیڈرشپ سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے ۔خود ہمارے ہاں سب پارٹیوں میں یہ جراثیم موجود ہیں تو پھر صرف محمود خان اچکزئی ہی کیوں قابلِ گردن زنی ہے؟ اس موروثیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس کے لیے سیاسی کارکنوں کو بھی جرات سے کام لے کر اپنی اپنی پارٹیوں میں آواز اُٹھانی ہوگی ۔جب لیڈر کو مختلف وجوہات کی بنا ء پر دیوتا بنایا جائے گا تو پھر پوجا کرنی ہی پڑی گی۔
vested interest کے حصول اورچاپلوسی و خوشامد سے یہ رجحان اور بھی طاقتور ہوتا جائے گا۔ پیہم جدوجہد، ایجوکیشن ، سیاسی کلچر کے بدلنے اور جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کو رواج دینا ہوگا تب ہی اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ایک الزام ان پر نگران حکومت میں الیکشن کے دوران بلٹ پروف گاڑی لینے کی ہے تو اطلاعاً عرض ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردوں سے بچاؤ کے لیے اکثر ہائی پروفائل رہنماؤں کو بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی تھیں تو وہ کیوں نہ لیتے ۔ذرا انصاف سے کام لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ محمود خان اچکزئی اور اس کی پارٹی نے ہر مارشل لاء کی ببانگِ دہل مذمت اور اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ان کے خاندان اور پارٹی نے اس کی بڑی بھاری قیمت دسیوں سال جیل اور شہداء کی شکل میں چکائی ہے۔ باقی پارٹیوں نے کسی نہ کسی مارشل لاء کی کوئی نہ کوئی خوبی دریافت کرکے حمایت کی ہے بلکہ اکثر لیڈروں کی نشونما اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ اس ملک میں محمود خان اچکزئی اپنے اصولی اور دلیرانہ سیاست کی وجہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیٹس کو کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے ہیں۔ انھی وجوہات کی بناء پراکیلے اپنی چادر کے ساتھ پارلمینٹ کی سب سے قد آور شخصیت ہیں اور جب پارلمینٹ میں کچھ کہتے ہیں تو اتحادی اور مخالفین دونوں اسے انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی کوئی فرشتہ نہیں جس نے کبھی کوئی سیاسی غلطی نہ کی ہو اور نہ ہی تنقید سے بالاتر ہے، لیکن تنقید کرتے ہوئے حقائق کو مدِنظر رکھ کے صحافتی اور سیاسی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے۔لیکن چند باتیں محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی کے لیے بھی گوش گذار کرنا چاہتا ہوں اگر ان کی طبع نازک پرگراں نہ گذریں ۔
پہلی بات تو موروثیت کی ہے پارٹی ورکرز کے ساتھ ساتھ لیڈرز کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ اس کی نفی کریں اور اپنے خاندان کے لوگوں کی سیاست میں آنے کی حوصلہ شکنی کریں ۔حکومت میں شامل ایک آدھ وزیروں کی کرپشن کے بارے میں جو باتیں لوگ کر رہے ہیں ان کو روکنے اور احتساب کرنے کے لیے ایک میکنزم بنانا پڑے گا ۔ ان کے وزرا اور اراکین اسمبلی اب صرف پارٹی کے وزراء اور نمایندے نہیں رہے بلکہ عوام کے نمایندے ہیں اس لیے بلا امتیاز عوام کی خدمت کرنی ہوگی اور عام لوگوں سے تکبر اور رعونت سے پیش آنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا ۔ بقولِ حافظ ازدے ہمہ مستی و غرور ست و تکبر ( اس کی طرف سے تمام تر مستی غرور اور تکبر ہے)۔ ورنہ کل کو پھر انتخابات ہونگے اور یہی عوام ہونگے۔