غریبی یوں بھی ختم ہوگی

سیلاب نے پاکستانی قوم کو برباد کر دیا ہے اور ہم اس برباد قوم کے کروڑوں روپے سیر سپاٹوں پر صرف کر رہے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

KARACHI:
آج میں سب سے پہلے اپنے سمیت احمق پاکستانی عوام کو عہد حاضر کے سب سے بڑے اور دانشور سیاستدان جناب نیلسن منڈیلا (جنوبی افریقی) کی یہ بات سنانا چاہتا ہوں کہ ''غریبی خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے۔'' ہم پاکستانی دنیا میں غالباً سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوم ہیں اور ہمارا مقصد اپنے غریب بھائیوں کی غربت کو مٹانا ہے لیکن ایک طرف ہمارا خیرات کرنے کا جذبہ بڑھتا جاتا ہے تو دوسری طرف غربت اس سے زیادہ بڑھ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جناب منڈیلا نے بیان کر دی ہے کہ ہمارے ہاں خیرات تو بہت ہے انصاف نہیں ہے۔ اس بات کو ہمارے ایک شاعر شعیب بن عزیز نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے کہ

اب دیکھتے ہیں رات گزرتی ہے کس طرح
بادہ بھی بہت ہے غم جاناں بھی بہت ہے

شعر نقل کرنے میں غلطی اپنی جگہ لیکن شعر کی صداقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے ہاں معاشی انصاف نہیں ہے جب ہم نے دنیا کو معاشی انصاف کا پہلا سبق دیا تھا تو وہ یوں تھا کہ جب یہ کہا گیا کہ آپ نے مدینہ کے مزدور کی تنخواہ کے برابر اپنی تنخواہ مقرر کی ہے جو ایک امیرالمومنین کے لیے بہت کم ہے کہ ان کی ذمے داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا کہ پھر مدینہ کے مزدور کی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں میری خودبخود بڑھ جائے گی۔ چودہ سو برس سے مسلمان جمعہ کے ہر خطبے میں اس شخص کا نام بے پناہ احترام کے ساتھ لیتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

یہ معاشی انصاف کی پہلی مثال تھی جو نوع انسانی نے ہوش و حواس کے ساتھ اپنے بارے میں محسوس کی لیکن بدقسمتی سے انسانوں کے حکمرانوں نے اپنی ہی نسل کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ سیلاب نے پاکستانی قوم کو برباد کر دیا ہے اور ہم اس برباد قوم کے کروڑوں روپے سیر سپاٹوں پر صرف کر رہے ہیں۔ اگر نیویارک جا کر بھی صرف نیپال کے وزیر اعظم سے ہی ملاقات کرنی تھی تو یہ تو چند قدم مشرق کی طرف چل کر بھی ہو سکتی تھی۔ ایسے ہی اخراجات اور قوم کی حالت زار کو سامنے رکھ کر اسے معاشی ناانصافی کہتے ہیں۔ ایسے میں غربت میں اضافہ جتنا چاہیں ہو سکتا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ اگر معاشی انصاف کی سنگدلی یہی رہی تو قومی غربت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہے گا۔


نیلسن منڈیلا کے ایک پُرحکمت جملے نے آج کا موضوع بدل دیا ہے۔ آج کے اخبارات میں یہ جملہ شائع ہوا جس نے میرے ذہن کو اپنے حلقے میں لے لیا۔ بہر کیف میں اپنے ہیرو اور پنجاب کے کلچر کے ایک پہلو کے نمائندے کی جیل سے رہائی پر کچھ لکھنا چاہتا تھا۔ شاہد عزیز عرف گلو بٹ کو لاہور ہائی کورٹ نے باعزت رہا کر دیا۔ اب وہ غائب کر دیا گیا ہے تا کہ وہ محفوظ رہے۔ گلو بٹ ہمارے حکمرانوں کو بہت عزیز تھا اور وہ اسے پیار سے ہمارا شیر کہا کرتے تھے۔

اس شیر نے ماڈل ٹاؤن والے سانحہ میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کسی گاڑی کا شیشہ سلامت نہیں رہنے دیا اور اپنے افسروں کی طرف سے شاباش بھی حاصل کی۔ گلو بٹ پولیس کا ٹاؤٹ بتایا جاتا ہے لیکن اب وہ ایک شخصیت بن گیا ہے اور موجودہ حکومت نے الیکشن کرائے تو وہ آپ کا زیادہ نہیں تو ایم پی اے بھی ہو سکتا ہے اور کوئی وزیر بھی جس شعبے کا اسے وزیر بننا ہے وہ اس نے خود ہی چن لیا ہے بہر کیف گلو بٹ کی رہائی پر اسے مبارک باد۔

جناب وزیر اعظم کے امریکی دورے پر جانے سے پاکستانی قوم کو ایک خاص اعزاز مل گیا ہے۔ یہاں پاکستان میں کہا جاتا تھا کہ جناب نواز شریف نے خاندانی حکومت قائم کر رکھی ہے جسے شاہی خاندان کہا جاتا تھا۔ پاکستانی عوام کی یہ بات نہ جانے امریکا کیسے پہنچ گئی کہ وہاں کی ویب سائٹ پر میاں صاحب کو ''ہز ہائی نس'' کا شاہی خطاب دے دیا گیا۔ ہز ہائی نس کا تعظیمی لقب کسی بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اس طرح میاں صاحب بھی عالمی سطح پر سچ مچ کے بادشاہ بن گئے یعنی انھیں بادشاہوں کی عالمی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ اس ویب سائٹ پر قطر' کویت' برونائی اور سپین کے حکمرانوں کو بھی ہز ہائی نس لکھا گیا۔

یہ لقب بادشاہوں کے جاہ و جلال اور ان کی شان و شوکت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لفظ کو پہلی بار روم کی بادشاہت کے لیے استعمال کیا گیا تھا بعد میں انگلستان کے بادشاہوں نے بھی اسی لقب کو پسند کر لیا لیکن اب اس کی جگہ ہز ایکسی لنسی اور ہز ہائی نس کا لقب استعمال ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ میں کسی ملک کا سفیر بتاتا ہے کہ اس کے ملک کے سربراہ کے لیے کون سا اعزازی لقب لکھا جائے۔

اب یہ امریکا میں ہمارے سفیر ہی بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو بادشاہ کب سے بنا دیا یا ان کو اس کی ہدایت کی گئی تھی۔ موجودہ دور میں ناروے اور ڈنمارک کے شاہی خاندان کے لیے بھی یہ لقب استعمال ہوتا ہے۔ کویت کے امیر کے لیے بھی یہ لقب مستعمل ہے۔ اگر پاکستان کے اندر اپوزیشن لیڈر میاں صاحب پر بادشاہت کا الزام نہ لگایا کرتے تو یہ واقعہ قابل ذکر نہیں تھا بلکہ اسے ویب سائٹ والوں کی غلطی ہی کہا جاتا لیکن اب یہ غلطی ذو معنی ہو گئی ہے۔ خدا خیر کرے۔
Load Next Story