یہ نوبت کیوں آئی
حکومتی کارکردگی عوام کو ریلیف دینا اور ان کے مسائل حل کرانے سے پتہ چلتی ہے مگر وزیر اعظم عوام کو بھول گئے
کسی بھی ملک میں وہاں کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج انوکھی بات نہیں اور اپنے ملک کے مقبول ترین اور ملک کو ترقی یافتہ بنانے والے حکمرانوں مہاتیر محمد اور ترکی کے حکمرانوں کے خلاف بھی ان کے مخالفین احتجاج کرتے رہے اور دنیا کا کوئی ایک بھی حکمران ایسا ہے نہ ماضی میں گزرا ہے جس کے ملک کے عوام اور تمام سیاستدان مطمئن اور خوش رہے ہوں۔
لیبیا کے عشروں تک صدر رہنے والے کرنل قذافی نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا نہیں کیا تھا مگر اپنی آمریت کے باعث وہ عوام میں غیر مقبول ہوئے اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے حکمرانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
مئی 2013ء کے انتخابات میں واضح طور پر نظر تو آ رہا تھا کہ اگلی حکومت میاں نواز شریف کی ہو گی اور وہی ہوا اور وہ دو تہائی اکثریت سے کامیاب تو نہیں ہوئے تھے مگر متحدہ، جے یو آئی اور دیگر حلیفوں کے ووٹوں سے دو تہائی ووٹ لے کر وزیر اعظم ضرور منتخب ہو گئے تھے۔
نواز شریف کی یہ اچھی بات تھی کہ انھوں نے دیگر جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کیا اور اکثریت نہ ہونے کے باوجود کے پی کے میں تحریک انصاف نے اپنے دو حلیفوں سے مل کر اپنی حکومت بنائی اور بلوچستان میں بی این پی عوامی کا وزیر اعلیٰ اور پختونخوا پارٹی کو گورنر کا عہدہ دے دیا تھا۔ سندھ میں پی پی نے اکثریت کے باعث اپنی حکومت بنائی اور وزیر اعظم نے اپنے لوگوں کو ناراض کر کے متحدہ کا گورنر رہنے دیا اور آزاد کشمیر میں پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہیں دیا اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ پیپلز پارٹی ناراض ہوتی اور پی پی کو قائد حزب اختلاف کے عہدہ دینے میں بھی دیر نہیں کی تھی۔
تحریک انصاف نے شروع سے ہی انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا اور چار خاص حلقے کھولنے پر زور دیا گیا تھا مگر وزیر اعظم تیار نہیں تھے اور ویسے بھی حکومت کو ایسا کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا مگر حکومت چاہتی تو ایسا ہو سکتا تھا مگر میاں نواز شریف نے عمران خان کے اس مطالبے پر توجہ نہیں دی وہ عمران خان سے ملنے ان کے گھر بھی گئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے رہے مگر عمران خان کو ساتھ رکھنے میں ناکام رہے کیونکہ عمران خان کو سو فیصد امید تھی کہ وہی وزیر اعظم بنیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ عمران خان نے چار حلقوں کے بعد 35 پنکچروں کا بھی الزام لگا دیا اور یہ 39 نشستیں بھی پی ٹی آئی کو دے دی جاتیں تب بھی عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔
حکومت کی بدقسمتی کہ لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آ گیا جسے پنجاب حکومت نے اہمیت نہیں دی اور عمران خان بھاولپور کے جلسے میں آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کے دھرنے کا اعلان کر چکے تھے اور پھر اسلام آباد نہ اترنے دیے جانے پر ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی انقلاب مارچ کا موقع مل گیا اور 14 اگست سے اب تک کیا ہوا یہ دنیا کو پتہ ہے۔ پارلیمنٹ نے خواہ اپنے مفاد ہی کے لیے وزیر اعظم کا ساتھ دیا اور انھیں استعفیٰ نہیں دینے دیا اور ویسے بھی ایسے دھرنوں سے حکومت جاتی ہیں نہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لیا جا سکتا ہے اور نہ دھرنے اتنے موثر تھے کہ حکومت چلی جاتی۔
دھرنوں میں عمران خان اور طاہر القادری نے اپنی تقاریر میں جو کچھ کہا اور جو الزامات لگائے وہ سو فیصد نہیں تو پچاس فیصد ضرور درست ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ان مسائل کو اجاگر کیا جو عوام کو درپیش ہی نہیں بلکہ عوام کے لیے سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں جن سے حکومت نے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم الیکشن مہم میں عوام سے کیے گئے اپنے تمام وعدے بھول چکے ہیں، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی مدت کے دعوے پورے ہونا تو دور کی بات بجلی سے محروم عوام کو بجلی کی بجائے آئے دن بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے جھٹکے دیے جاتے رہے۔
لوڈشیڈنگ بڑھنے سے بیروزگاری بڑھتی گئی۔ مہنگائی اگرچہ صوبائی مسئلہ ہے مگر کسی صوبائی حکومت نے مہنگائی کو سنجیدگی سے لیا نہ وزیر اعظم نے اس پر توجہ دی۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے کم ہوئے نہ عوام نے اپنی پارلیمنٹ میں اپنے مسائل کے حل کی کوئی آواز سنی۔ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد بڑھا کر تمام حکومتوں نے اپنے اخراجات بڑھائے مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں نہ ڈالر 98 روپے کا ہو جانے کا عوام کو کوئی فائدہ ہوا۔ مہنگائی، بیروزگاری بڑھتی رہی مگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دی نہ عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کرنے پر توجہ دی۔
حکومتی کارکردگی عوام کو ریلیف دینا اور ان کے مسائل حل کرانے سے پتہ چلتی ہے مگر وزیر اعظم عوام کو بھول گئے اور اپنے حلیفوں کی خوشنودی کو ترجیح دیتے رہے جس کا صلہ انھیں پارلیمنٹ نے ساتھ دے کر دیا۔ پارلیمنٹ سے وزیر اعظم کے ہاتھ تو مضبوط ہوئے مگر عوام کو پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے مفاد کی خوشخبری وزیر اعظم سے نہ مل سکی۔
حکومت کے سوا سال میں عوام کی مایوسی بڑھتی رہی اور پھر عوام نے دیکھا کہ شریف برادران کے اپنے شہر میں عوام کی بڑی تعداد 14 اگست کو پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے جلوسوں میں شرکت کے لیے نکل آئی۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک اپنی مطلوبہ تعداد میں شرکت کرنے میں ضرور ناکام رہی مگر دھرنوں میں عوام کو درپیش مسائل اجاگر کیے گئے وہاں جھوٹ بھی بولے گئے مگر عوام کے حکمران کون سے سچے تھے کہ عوام ان کی حمایت کرتے۔ دھرنوں نے معیشت ضرور تباہ کی مگر اثر دھرنے والوں پر پڑے گا نہ وزیر اعظم پر اور سزا عوام ہی کا مقدر ہوتی آئی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گو نواز گو کے نعرے دھرنوں سے باہر آ کر ملک اور غیر ملک سنے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی سیاسی زندگی میں پہلی بار یہ نوبت آئی ہے مگر وزیر اعظم نہیں سوچ رہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی؟
لیبیا کے عشروں تک صدر رہنے والے کرنل قذافی نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا نہیں کیا تھا مگر اپنی آمریت کے باعث وہ عوام میں غیر مقبول ہوئے اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے حکمرانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
مئی 2013ء کے انتخابات میں واضح طور پر نظر تو آ رہا تھا کہ اگلی حکومت میاں نواز شریف کی ہو گی اور وہی ہوا اور وہ دو تہائی اکثریت سے کامیاب تو نہیں ہوئے تھے مگر متحدہ، جے یو آئی اور دیگر حلیفوں کے ووٹوں سے دو تہائی ووٹ لے کر وزیر اعظم ضرور منتخب ہو گئے تھے۔
نواز شریف کی یہ اچھی بات تھی کہ انھوں نے دیگر جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کیا اور اکثریت نہ ہونے کے باوجود کے پی کے میں تحریک انصاف نے اپنے دو حلیفوں سے مل کر اپنی حکومت بنائی اور بلوچستان میں بی این پی عوامی کا وزیر اعلیٰ اور پختونخوا پارٹی کو گورنر کا عہدہ دے دیا تھا۔ سندھ میں پی پی نے اکثریت کے باعث اپنی حکومت بنائی اور وزیر اعظم نے اپنے لوگوں کو ناراض کر کے متحدہ کا گورنر رہنے دیا اور آزاد کشمیر میں پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہیں دیا اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ پیپلز پارٹی ناراض ہوتی اور پی پی کو قائد حزب اختلاف کے عہدہ دینے میں بھی دیر نہیں کی تھی۔
تحریک انصاف نے شروع سے ہی انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا اور چار خاص حلقے کھولنے پر زور دیا گیا تھا مگر وزیر اعظم تیار نہیں تھے اور ویسے بھی حکومت کو ایسا کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا مگر حکومت چاہتی تو ایسا ہو سکتا تھا مگر میاں نواز شریف نے عمران خان کے اس مطالبے پر توجہ نہیں دی وہ عمران خان سے ملنے ان کے گھر بھی گئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے رہے مگر عمران خان کو ساتھ رکھنے میں ناکام رہے کیونکہ عمران خان کو سو فیصد امید تھی کہ وہی وزیر اعظم بنیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ عمران خان نے چار حلقوں کے بعد 35 پنکچروں کا بھی الزام لگا دیا اور یہ 39 نشستیں بھی پی ٹی آئی کو دے دی جاتیں تب بھی عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔
حکومت کی بدقسمتی کہ لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آ گیا جسے پنجاب حکومت نے اہمیت نہیں دی اور عمران خان بھاولپور کے جلسے میں آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کے دھرنے کا اعلان کر چکے تھے اور پھر اسلام آباد نہ اترنے دیے جانے پر ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی انقلاب مارچ کا موقع مل گیا اور 14 اگست سے اب تک کیا ہوا یہ دنیا کو پتہ ہے۔ پارلیمنٹ نے خواہ اپنے مفاد ہی کے لیے وزیر اعظم کا ساتھ دیا اور انھیں استعفیٰ نہیں دینے دیا اور ویسے بھی ایسے دھرنوں سے حکومت جاتی ہیں نہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لیا جا سکتا ہے اور نہ دھرنے اتنے موثر تھے کہ حکومت چلی جاتی۔
دھرنوں میں عمران خان اور طاہر القادری نے اپنی تقاریر میں جو کچھ کہا اور جو الزامات لگائے وہ سو فیصد نہیں تو پچاس فیصد ضرور درست ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ان مسائل کو اجاگر کیا جو عوام کو درپیش ہی نہیں بلکہ عوام کے لیے سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں جن سے حکومت نے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم الیکشن مہم میں عوام سے کیے گئے اپنے تمام وعدے بھول چکے ہیں، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی مدت کے دعوے پورے ہونا تو دور کی بات بجلی سے محروم عوام کو بجلی کی بجائے آئے دن بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے جھٹکے دیے جاتے رہے۔
لوڈشیڈنگ بڑھنے سے بیروزگاری بڑھتی گئی۔ مہنگائی اگرچہ صوبائی مسئلہ ہے مگر کسی صوبائی حکومت نے مہنگائی کو سنجیدگی سے لیا نہ وزیر اعظم نے اس پر توجہ دی۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے کم ہوئے نہ عوام نے اپنی پارلیمنٹ میں اپنے مسائل کے حل کی کوئی آواز سنی۔ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد بڑھا کر تمام حکومتوں نے اپنے اخراجات بڑھائے مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں نہ ڈالر 98 روپے کا ہو جانے کا عوام کو کوئی فائدہ ہوا۔ مہنگائی، بیروزگاری بڑھتی رہی مگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دی نہ عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کرنے پر توجہ دی۔
حکومتی کارکردگی عوام کو ریلیف دینا اور ان کے مسائل حل کرانے سے پتہ چلتی ہے مگر وزیر اعظم عوام کو بھول گئے اور اپنے حلیفوں کی خوشنودی کو ترجیح دیتے رہے جس کا صلہ انھیں پارلیمنٹ نے ساتھ دے کر دیا۔ پارلیمنٹ سے وزیر اعظم کے ہاتھ تو مضبوط ہوئے مگر عوام کو پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے مفاد کی خوشخبری وزیر اعظم سے نہ مل سکی۔
حکومت کے سوا سال میں عوام کی مایوسی بڑھتی رہی اور پھر عوام نے دیکھا کہ شریف برادران کے اپنے شہر میں عوام کی بڑی تعداد 14 اگست کو پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے جلوسوں میں شرکت کے لیے نکل آئی۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک اپنی مطلوبہ تعداد میں شرکت کرنے میں ضرور ناکام رہی مگر دھرنوں میں عوام کو درپیش مسائل اجاگر کیے گئے وہاں جھوٹ بھی بولے گئے مگر عوام کے حکمران کون سے سچے تھے کہ عوام ان کی حمایت کرتے۔ دھرنوں نے معیشت ضرور تباہ کی مگر اثر دھرنے والوں پر پڑے گا نہ وزیر اعظم پر اور سزا عوام ہی کا مقدر ہوتی آئی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گو نواز گو کے نعرے دھرنوں سے باہر آ کر ملک اور غیر ملک سنے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی سیاسی زندگی میں پہلی بار یہ نوبت آئی ہے مگر وزیر اعظم نہیں سوچ رہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی؟