خوشحال محبت بھرا سماج
کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتلوں کو عمر قید کی سزا دینے کا قانون پاس کیا جائے۔
ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک آزاد امداد باہمی کے سماج میں ہی مضمر ہے لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کچھ ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جس سے عوام کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ ان مسائل کو بہت چھوٹے، حقیر اور مختصر سمجھتے ہوں لیکن عوام کے یہ مسائل بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر دودھ کو لے لیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دودھ میں پا نی، ملک پاؤڈر اور دیگر کیمیائی اشیا کی ملاوٹ کی جا تی ہیں۔ اس کا معائنہ کر نے کے لیے باقاعدہ ادارہ موجود ہے۔
ڈائریکٹر، مینجر، کلرکز اور انسپکٹرز وغیرہ۔ انھیں لاکھوں رو پے کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ مگر آپ نے کسی انسپکٹر کو دودھ کا معائنہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا۔ اس کا معائنہ کرنا اتنا آسان ہے کہ بس ایک لیکٹومیٹردودھ میں ڈال کردو منٹ میں معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام حکومت ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کروا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ہمارے ہی جیسے پسماندہ ممالک ہیں، یہاں باقاعدہ انسپکشن ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سڑکوں پہ چلنے والی تمام سرکاری اور غیرسرکاری گاڑیاں خاص کر کے جن میں مسافر سفر کرتے ہیں، ان گاڑیوں کے دونوں طرف راڈز لگے ہوئے ہوتے ہیں، حادثے کی صورت میں اگر گاڑی میں آگ لگ جائے تو مسافر باہر نہیں نکل سکتے ہیں بلکہ وہ وہیں جان سے جاتے رہیں گے۔
پسی ہوئی مرچ اور ہلدی میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ کراچی سائٹ کے علاقے میں ایسی فیکٹری ہے جہاں ناکارہ گندم کی سویاں بناکر اسے پیس کر پسی ہوئی ہلدی اور سرخ مرچ کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ یہ بات مجھے اس مزدور نے بتائی جو اس فیکٹری میں کام کرتا ہے، جب میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بات چینل کے رپورٹر کو بتاؤگے تو اس نے جواب دیا کہ آپ اس سے اچھی نوکری کہیں اور لگوا دیں تو میں بتاؤں گا۔ ہم غیر پیداواری اخراجات میں (یعنی وی آئی پی، نوکر شاہی) جتنی رقم خرچ کرتے ہیں اس کا صرف 20 فیصد پانی کی صفائی پر لگا دیں تو عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں روزانہ لاکھوں افراد آتے ہیں اور مستفید بھی ہوتے ہیں، لیکن ادویات نہیں ملتیں۔ اگر نوکر شاہی کو لاکھوں کے بجائے ہزاروں میں تنخواہیں دی جائیں تو تمام سرکاری اسپتالوں میں ادویات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ پرانے زمانے کی کہاوت ہے کہ جیسا بوؤگے ویسا ہی کاٹو گے، جس زمانے میں سویڈن کی حکومت یہ فیصلہ کر رہی تھی کہ ہر گاؤں میں ایک ایمبولینس، ایک مڈ وائف اور ایک ڈسپینسری ہو گی، اسی زمانے میں ہمارے حکمران تاج محل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
سویڈن میں ڈھائی لاکھ مائیں بچوں کو جنم دینے کے دوران صرف 2 فیصد جان سے جا تی ہیں جب کہ برصغیر میں ایک لاکھ میں 450 مائیں مر جاتی ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ 12000 روپے ہو گی لیکن 90 فیصد مزدوروں کو 12000 نہیں مل رہے ہیں۔ بڑے بڑے پل اور موٹر ویز بنانے کے بجائے ہرگاؤں کو دوسرے گا ؤں کے ساتھ پکی سڑکوں سے جو ڑا جائے۔ امراض قلب اور گردوں کے اسپتال قصبوں، مضافاتوں اور ٹاؤننز میں قائم ہوں۔ پیٹرول پمپوں کے مزدوروں، سیکیورٹی گارڈوں اور ہوٹلوں کے مزدوروں کو مستقل کر کے ان کی کم از کم تنخواہیں 12000 رو پے اور ڈیوٹی 8 گھنٹے کی جائے۔کھیت مزدوروں اور بے زمین کسانوں کی روزانہ کی دہاڑی 250 روپے کے بجا ئے 500 روپے کرنے کا قانون پاس کیا جائے۔
چھوٹے دکانداروں پر جرمانے کر نے کے بجا ئے آڑھتی، ہول سیلرز اور مل فیکٹریوں کے مالکان کی پوچھ گچھ اور سزا دی جائے۔ جس زمین پر بے زمین کسان رہائش پذیر ہے اسے اس گھر کی ملکیت کے حقوق دیے جائیں۔ادویات کو اگر اس کے جینرک نام سے فروخت کر نے کی اجازت مل جائے تو عوام کو سستی دوائیاں مل سکتی ہیں۔ ہمارے ملک کے اعلی اہلکاروں، مینجروں، ڈائریکٹروں، سیکریٹریوں اور اداروں کے صدور کی تنخواہیں 50 ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ اسمبلی ارکان کو تنخواہیں اور ٹی اے ،ڈی اے نہ دیے جائیں اس لیے کہ یہ لوگ پہلے ہی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ جنکی تنخواہیں 25000 ہزار روپے سے کم ہیں ان کے بچوں کو مفت تعلیم اور معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بسوں کا کرایہ اسٹاپ کی تعداد کی بنیاد پر مقررکیا جائے۔ فلیٹ کے مالکان دس فیصد فلیٹ بے گھر لو گوں کو مفت فراہم کرنے کے قوانین بنائیں جائیں۔
کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتلوں کو عمر قید کی سزا دینے کا قانون پاس کیا جائے۔ ہاریوں کو نجی قید خانوں میں مقید رکھنے والے جاگیرداروں کو اتنے ہی عرصے قید کی سزا دی جائے جتنے عرصے اس نے ہاریوں کو قید میں رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک میں جنگلات کم از کم 25 فیصد ہونے چاہئیں۔ سرینام میں 97 فیصد جنگلات ہیں، جنوبی امریکا کے ملکوں میں 30 سے 60 فیصد تک جنگلات ہیں، امریکا میں 40 فیصد، جنوبی کوریا میں 69 فیصد، ہندوستان میں20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16 فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد ہیں۔اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کرے کہ ہر شخص اپنے گھر یا گلی کے سامنے کم ازکم ایک درخت لگائے گا ورنہ جرمانہ ہو گا۔
فوری طور پر ہر کسان کو کم از کم ایک ایکڑ زمین دی جائے۔ اطلاع ملی ہے کہ معروف مزدور رہنما کامریڈ شاہ رضا خان کا انتقال ہو گیا ہے، وا ضح رہے کہ ان کا تعلق حیدر آباد سے تھا اور وہ انتہائی مخلص، ایماندار، بہادر اور بے غرض انسان تھے۔ وہ لا کھڑا کوئلہ کے کارکنان، ٹیکسٹائل کے مزدوروں، چو ڑی بنا نے وا لے مزدوروں،گارمنٹ مزدوروں اور مختلف مل کارخانوں کے مزدوروں کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ 1973 کی مزدور تحریک حیدر آباد کے ہیرو تھے، ان کے انتقال پر کسی حکومتی نمائندے نے تعزیت نہیں کی۔
مگر مزدور طبقہ انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد اور مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ اب عوام بھو ک ،افلاس،غربت، بے روزگا ری، مہنگائی، لاعلاج، بے گھری، اذیت، ذلت اور ہر قسم کے استحصال سے بلبلا اٹھے ہیں۔ شیخ سعدی کے مطابق 'تنگ آمد، بہ جنگ آ مد'۔ جب لوگ افلاس اور بھوک سے مرنے لگیں گے تو وہ خود ردعمل کریں گے، اور محنت کشوں کا انقلاب برپا کر کے ایک آزاد امداد با ہمی کا معاشرہ تشکیل دیکر ایک خوشحال اور محبت بھرا سماج قائم کریں گے۔
ڈائریکٹر، مینجر، کلرکز اور انسپکٹرز وغیرہ۔ انھیں لاکھوں رو پے کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ مگر آپ نے کسی انسپکٹر کو دودھ کا معائنہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا۔ اس کا معائنہ کرنا اتنا آسان ہے کہ بس ایک لیکٹومیٹردودھ میں ڈال کردو منٹ میں معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام حکومت ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کروا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ہمارے ہی جیسے پسماندہ ممالک ہیں، یہاں باقاعدہ انسپکشن ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سڑکوں پہ چلنے والی تمام سرکاری اور غیرسرکاری گاڑیاں خاص کر کے جن میں مسافر سفر کرتے ہیں، ان گاڑیوں کے دونوں طرف راڈز لگے ہوئے ہوتے ہیں، حادثے کی صورت میں اگر گاڑی میں آگ لگ جائے تو مسافر باہر نہیں نکل سکتے ہیں بلکہ وہ وہیں جان سے جاتے رہیں گے۔
پسی ہوئی مرچ اور ہلدی میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ کراچی سائٹ کے علاقے میں ایسی فیکٹری ہے جہاں ناکارہ گندم کی سویاں بناکر اسے پیس کر پسی ہوئی ہلدی اور سرخ مرچ کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ یہ بات مجھے اس مزدور نے بتائی جو اس فیکٹری میں کام کرتا ہے، جب میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بات چینل کے رپورٹر کو بتاؤگے تو اس نے جواب دیا کہ آپ اس سے اچھی نوکری کہیں اور لگوا دیں تو میں بتاؤں گا۔ ہم غیر پیداواری اخراجات میں (یعنی وی آئی پی، نوکر شاہی) جتنی رقم خرچ کرتے ہیں اس کا صرف 20 فیصد پانی کی صفائی پر لگا دیں تو عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں روزانہ لاکھوں افراد آتے ہیں اور مستفید بھی ہوتے ہیں، لیکن ادویات نہیں ملتیں۔ اگر نوکر شاہی کو لاکھوں کے بجائے ہزاروں میں تنخواہیں دی جائیں تو تمام سرکاری اسپتالوں میں ادویات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ پرانے زمانے کی کہاوت ہے کہ جیسا بوؤگے ویسا ہی کاٹو گے، جس زمانے میں سویڈن کی حکومت یہ فیصلہ کر رہی تھی کہ ہر گاؤں میں ایک ایمبولینس، ایک مڈ وائف اور ایک ڈسپینسری ہو گی، اسی زمانے میں ہمارے حکمران تاج محل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
سویڈن میں ڈھائی لاکھ مائیں بچوں کو جنم دینے کے دوران صرف 2 فیصد جان سے جا تی ہیں جب کہ برصغیر میں ایک لاکھ میں 450 مائیں مر جاتی ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ 12000 روپے ہو گی لیکن 90 فیصد مزدوروں کو 12000 نہیں مل رہے ہیں۔ بڑے بڑے پل اور موٹر ویز بنانے کے بجائے ہرگاؤں کو دوسرے گا ؤں کے ساتھ پکی سڑکوں سے جو ڑا جائے۔ امراض قلب اور گردوں کے اسپتال قصبوں، مضافاتوں اور ٹاؤننز میں قائم ہوں۔ پیٹرول پمپوں کے مزدوروں، سیکیورٹی گارڈوں اور ہوٹلوں کے مزدوروں کو مستقل کر کے ان کی کم از کم تنخواہیں 12000 رو پے اور ڈیوٹی 8 گھنٹے کی جائے۔کھیت مزدوروں اور بے زمین کسانوں کی روزانہ کی دہاڑی 250 روپے کے بجا ئے 500 روپے کرنے کا قانون پاس کیا جائے۔
چھوٹے دکانداروں پر جرمانے کر نے کے بجا ئے آڑھتی، ہول سیلرز اور مل فیکٹریوں کے مالکان کی پوچھ گچھ اور سزا دی جائے۔ جس زمین پر بے زمین کسان رہائش پذیر ہے اسے اس گھر کی ملکیت کے حقوق دیے جائیں۔ادویات کو اگر اس کے جینرک نام سے فروخت کر نے کی اجازت مل جائے تو عوام کو سستی دوائیاں مل سکتی ہیں۔ ہمارے ملک کے اعلی اہلکاروں، مینجروں، ڈائریکٹروں، سیکریٹریوں اور اداروں کے صدور کی تنخواہیں 50 ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ اسمبلی ارکان کو تنخواہیں اور ٹی اے ،ڈی اے نہ دیے جائیں اس لیے کہ یہ لوگ پہلے ہی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ جنکی تنخواہیں 25000 ہزار روپے سے کم ہیں ان کے بچوں کو مفت تعلیم اور معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بسوں کا کرایہ اسٹاپ کی تعداد کی بنیاد پر مقررکیا جائے۔ فلیٹ کے مالکان دس فیصد فلیٹ بے گھر لو گوں کو مفت فراہم کرنے کے قوانین بنائیں جائیں۔
کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتلوں کو عمر قید کی سزا دینے کا قانون پاس کیا جائے۔ ہاریوں کو نجی قید خانوں میں مقید رکھنے والے جاگیرداروں کو اتنے ہی عرصے قید کی سزا دی جائے جتنے عرصے اس نے ہاریوں کو قید میں رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک میں جنگلات کم از کم 25 فیصد ہونے چاہئیں۔ سرینام میں 97 فیصد جنگلات ہیں، جنوبی امریکا کے ملکوں میں 30 سے 60 فیصد تک جنگلات ہیں، امریکا میں 40 فیصد، جنوبی کوریا میں 69 فیصد، ہندوستان میں20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16 فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد ہیں۔اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کرے کہ ہر شخص اپنے گھر یا گلی کے سامنے کم ازکم ایک درخت لگائے گا ورنہ جرمانہ ہو گا۔
فوری طور پر ہر کسان کو کم از کم ایک ایکڑ زمین دی جائے۔ اطلاع ملی ہے کہ معروف مزدور رہنما کامریڈ شاہ رضا خان کا انتقال ہو گیا ہے، وا ضح رہے کہ ان کا تعلق حیدر آباد سے تھا اور وہ انتہائی مخلص، ایماندار، بہادر اور بے غرض انسان تھے۔ وہ لا کھڑا کوئلہ کے کارکنان، ٹیکسٹائل کے مزدوروں، چو ڑی بنا نے وا لے مزدوروں،گارمنٹ مزدوروں اور مختلف مل کارخانوں کے مزدوروں کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ 1973 کی مزدور تحریک حیدر آباد کے ہیرو تھے، ان کے انتقال پر کسی حکومتی نمائندے نے تعزیت نہیں کی۔
مگر مزدور طبقہ انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد اور مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ اب عوام بھو ک ،افلاس،غربت، بے روزگا ری، مہنگائی، لاعلاج، بے گھری، اذیت، ذلت اور ہر قسم کے استحصال سے بلبلا اٹھے ہیں۔ شیخ سعدی کے مطابق 'تنگ آمد، بہ جنگ آ مد'۔ جب لوگ افلاس اور بھوک سے مرنے لگیں گے تو وہ خود ردعمل کریں گے، اور محنت کشوں کا انقلاب برپا کر کے ایک آزاد امداد با ہمی کا معاشرہ تشکیل دیکر ایک خوشحال اور محبت بھرا سماج قائم کریں گے۔