نریندر مودی کی کہہ مکرنیاں
اب نئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان سے مذاکرات کو دہشت گردی کے ہتھکنڈے سے مشروط کر دیا ہے ۔۔۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہفتے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ'' پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر پاکستان کا یہ فرض ہے کہ وہ پوری طرح سنجیدگی سے آگے آئے' دوطرفہ مذاکرات کے لیے دہشتگردی سے پاک پرامن اور ساز گار ماحول بنائے' ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتا ہوں۔'' ممبئی حملے کے بعد بھارت کے ہاتھ میں ایک نیا ہتھکنڈا آ گیا ہے جب بھی دوطرفہ مذاکرات کی بات چلتی ہے وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی بوچھاڑ کر کے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔
اب نئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان سے مذاکرات کو دہشت گردی کے اسی ہتھکنڈے سے مشروط کر دیا ہے۔ اس نوعیت کے بیانات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم متنازعہ امور کو پاکستان سے پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مخلص ہی نہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ مودی حکومت کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی خواہاں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تو بھارتی حکومت نے مثبت ردعمل دینے کے بجائے اس کے خلاف واویلا مچانا شروع کر دیا اور نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ متنازعہ معاملات اقوام متحدہ میں اٹھانے سے حل نہیں ہوں گے' کشمیر دوطرفہ معاملہ ہے۔ بھارتی حکومت کواس حقیقت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پنڈت جواہر لعل نہرو ہی لے کر گئے اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ استصواب رائے سے کرنے پر رضا مند ہو گئے تھے۔ اب بھارت نے اس مسئلے پر پینترا ہی بدل لیا اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اٹھانے پر ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں بھارتی مشن کے فرسٹ سیکریٹری ابھیشک سنگھ نے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ''کشمیری عوام نے دنیا بھر میں تسلیم شدہ جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی قسمت کا انتخاب کیا' یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ کشمیری عوام ابھی تک اپنی قسمت کے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا اس فورم پر ایک بار پھر کشمیر کے حوالے سے واویلا بے سود ہے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بجائے منفی پیغام گیا ہے۔کشمیر کے بارے میں نواز شریف کے ریمارکس حقائق کے منافی ہیں''۔
بھارتی میڈیا نے بھی میاں نواز شریف کے خطاب کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد جو معاملات منظر عام پر آئے وہ اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت اب مسئلہ کشمیر کو کسی بھی فورم پر زیربحث لانے کے لیے آمادہ نہیں اور وہ یہ تاثر دینے کی بھونڈی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیری بھارتی نظام کو قبول کر چکے ہیں اور کشمیر بھارت کا ہی حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے مطالبے پر بھارتی حکومت نے ناراضگی کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ بھارت کی ناراضی کی کوئی پروا نہیں، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا ' مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی تائید جاری رکھیں گے' کشمیرکے مسئلے پر پورا پاکستان متحد ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو بھارتی وزیراعظم نے خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں' دہشت گردی کتنے اقسام میں آ چکی ہے کہ ہر چھوڑا بڑا ملک اس کی زد میں ہے۔
بھارتی حکومت کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان خود ایک عرصے سے دہشت گردی کا عذاب سہہ رہا ہے اور اس کی سیکیورٹی فورسز اسے بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں جس کا اعتراف خود امریکی حکومت بھی عالمی سطح پر کر چکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی کبھی حمایت نہیں کی بلکہ حال ہی میں داعش اور اس جیسے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے عالمی برادری کی حمایت کا واضح اعلان کیا ہے۔ ایسے میں مودی حکومت کو دہشت گردی کے الزامات کے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے خطے کو پرامن بنانے کے لیے مذاکرات کا عمل فوری شروع کرنا چاہیے۔
ایک جانب بھارتی وزیراعظم یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ وہ ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتے ہیں تو دوسری طرف وہ بات چیت کے عمل کو شروع کرنے سے قبل ہی مشروط پیش کش کر کے اسے سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی رہنمائوں اور کشمیری قائدین نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے قوم کے حقیقی جذبات اور امنگوں کی ترجمانی قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت اگر پاکستان سے حقیقی معنوں میں دوستی اور تعاون بڑھانے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے کشمیر سمیت متنازعہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ مذاکرات سے انکار یا فرار کا کوئی بھی ہتھکنڈا مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنا رہے گا اور دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات کبھی پروان نہ چڑھ سکیں گے۔
اب نئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان سے مذاکرات کو دہشت گردی کے اسی ہتھکنڈے سے مشروط کر دیا ہے۔ اس نوعیت کے بیانات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم متنازعہ امور کو پاکستان سے پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مخلص ہی نہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ مودی حکومت کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی خواہاں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تو بھارتی حکومت نے مثبت ردعمل دینے کے بجائے اس کے خلاف واویلا مچانا شروع کر دیا اور نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ متنازعہ معاملات اقوام متحدہ میں اٹھانے سے حل نہیں ہوں گے' کشمیر دوطرفہ معاملہ ہے۔ بھارتی حکومت کواس حقیقت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پنڈت جواہر لعل نہرو ہی لے کر گئے اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ استصواب رائے سے کرنے پر رضا مند ہو گئے تھے۔ اب بھارت نے اس مسئلے پر پینترا ہی بدل لیا اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اٹھانے پر ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں بھارتی مشن کے فرسٹ سیکریٹری ابھیشک سنگھ نے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ''کشمیری عوام نے دنیا بھر میں تسلیم شدہ جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی قسمت کا انتخاب کیا' یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ کشمیری عوام ابھی تک اپنی قسمت کے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا اس فورم پر ایک بار پھر کشمیر کے حوالے سے واویلا بے سود ہے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بجائے منفی پیغام گیا ہے۔کشمیر کے بارے میں نواز شریف کے ریمارکس حقائق کے منافی ہیں''۔
بھارتی میڈیا نے بھی میاں نواز شریف کے خطاب کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد جو معاملات منظر عام پر آئے وہ اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت اب مسئلہ کشمیر کو کسی بھی فورم پر زیربحث لانے کے لیے آمادہ نہیں اور وہ یہ تاثر دینے کی بھونڈی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیری بھارتی نظام کو قبول کر چکے ہیں اور کشمیر بھارت کا ہی حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے مطالبے پر بھارتی حکومت نے ناراضگی کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ بھارت کی ناراضی کی کوئی پروا نہیں، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا ' مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی تائید جاری رکھیں گے' کشمیرکے مسئلے پر پورا پاکستان متحد ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو بھارتی وزیراعظم نے خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں' دہشت گردی کتنے اقسام میں آ چکی ہے کہ ہر چھوڑا بڑا ملک اس کی زد میں ہے۔
بھارتی حکومت کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان خود ایک عرصے سے دہشت گردی کا عذاب سہہ رہا ہے اور اس کی سیکیورٹی فورسز اسے بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں جس کا اعتراف خود امریکی حکومت بھی عالمی سطح پر کر چکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی کبھی حمایت نہیں کی بلکہ حال ہی میں داعش اور اس جیسے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے عالمی برادری کی حمایت کا واضح اعلان کیا ہے۔ ایسے میں مودی حکومت کو دہشت گردی کے الزامات کے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے خطے کو پرامن بنانے کے لیے مذاکرات کا عمل فوری شروع کرنا چاہیے۔
ایک جانب بھارتی وزیراعظم یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ وہ ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتے ہیں تو دوسری طرف وہ بات چیت کے عمل کو شروع کرنے سے قبل ہی مشروط پیش کش کر کے اسے سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی رہنمائوں اور کشمیری قائدین نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے قوم کے حقیقی جذبات اور امنگوں کی ترجمانی قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت اگر پاکستان سے حقیقی معنوں میں دوستی اور تعاون بڑھانے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے کشمیر سمیت متنازعہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ مذاکرات سے انکار یا فرار کا کوئی بھی ہتھکنڈا مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنا رہے گا اور دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات کبھی پروان نہ چڑھ سکیں گے۔