کچھ قصائیوں کے بارے میں
شرافت ویٹر کا تعلق بھی رامپور سے تھا۔ مسعود اشعر کو بھی اسی شہر سے نسبت ہے ۔۔۔
ابھی جو پچھلے دنوں فرانسیسی سفارت خانے کے زیر اہتمام لاہور میں ایک تقریب ہوئی تھی اس میں ہمارے دوست خالد احمد نے ہمارے افسانوں پر بات کرتے ہوئے ایک رامپوری ویٹر کا اعتراض نقل کیا۔ اس نے کسی افسانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں جو عورتوں کی زبان لکھی گئی ہے وہ ہمارے رامپور میں قصائنیاں بولا کرتی تھیں۔
اس پر مسعود اشعر نے کہا کہ رامپور میں قصائنیوں کی کوئی ایسی شہرت نہیں تھی۔ وہ میرٹھ کی قصائنیاں ہوں گی جن کی زبان پر انتظار حسین نے طبع آزمائی کی ہے۔
اب ہم پر واجب آتا ہے کہ قصور ہم سے ہوا ہے۔ خالد احمد خواہ مخواہ پکڑے گئے لہٰذا ہمیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اس پر ہمیں اپنے شہر لاہور کے آنجہانی کافی ہائوس کا ذکر کرنا پڑے گا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی برسوں کا ذکر ہے۔ انڈیا کافی ہائوس اپنی ماقبل تقسیم روایات کے ساتھ ابھی یہاں موجود تھا۔ کیا خوب گوشہ تھا۔ ایک میز شہر کے معزز صحافیوں سے منسوب تھی۔ مولانا چراغ حسن حسرت' شورش کاشمیری' عبداللہ ملک وغیرہ۔ ایک گوشے میں نوخیز مصور اپنا رنگ جمائے بیٹھے ہیں اور تجریدی آرٹ پر رواں ہیں ایک میز ریاض قادر کے لیے مخصوص تھی جہاں ریاض قادر اور ناصر کاظمی کی جوڑی شعر و ادب پر رواں نظر آتی تھی اور ویٹر اتنے مردم شناس کہ انھیں خوب اندازہ تھا کہ کس میز پر کس طرح کی بات کرنی ہے۔
ہم ناصر کاظمی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آئے تھے۔ ناصر کاظمی نے فوراً کافی سے ہماری تواضع کی۔ ویٹر جب کافی کی ٹرے لے کر آیا تو ناصر نے ہمارا تعارف کرایا ''شرافت صاحب' یہ ہمارے دوست انتظار حسین ہیں''۔
شرافت نے ہمیں دیکھا' مسکرائے۔ بولے ''اچھا آپ ہیں انتظار حسین جن کا انھیں دنوں ماہ نو میں ایک افسانہ 'عقیلہ خالہ' چھپا ہے۔ آپ ہی کا ہے نا''۔
''جی' آپ نے پڑھا ہے وہ افسانہ۔ کیا لگا''۔
''جی پڑھا تو ہے'' مسکرائے۔ ٹرے پر سجی پیالیاں میز پر سجائیں اور خالی ٹرے کے ساتھ واپس چلے گئے۔ دیر بعد آئے۔ پیالیاں سمیٹتے ہوئے بولے ''انتظار صاحب آپ نے جو اس افسانے میں عورتوں والی زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں قصائنیاں بولا کرتی تھیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان لکھ کر دکھائیے''۔
مسکرائے۔ ہم نے بھی مسکرا کر جواب دیا ''کوشش کریں گے''۔
شرافت ویٹر کا تعلق بھی رامپور سے تھا۔ مسعود اشعر کو بھی اسی شہر سے نسبت ہے۔ اس شہر کی قصائینیوں کی وجہ شہرت کیا تھی' یہ شرافت ویٹر جانے اور مسعود اشعر جانیں۔ انھوں نے اپنے شہر کی قصائینیوں کا دفاع کرتے ہوئے گیند میرٹھ کی طرف لڑھکا دی جہاں ہم نے خاصا وقت گزارا ہے بیشک میرٹھ کے قصائی مشہور تھے۔ پھر ان کی قصائینیوں کی بھی کچھ نہ کچھ شہرت تو ہو گی۔ اور میرٹھ کے قصائیوں کی شہرت تو لاہور تک پہنچی ہوئی تھی۔ کیسے آڑے وقت میں انھوں نے یہاں آ کر لاہور والوں کی مدد کی تھی۔ اس معلومات کے لیے ہم مرحوم اعجاز حسین بٹالوی کے مرہون منت ہیں۔ ایک شام ٹی ہائوس میں بیٹھے بیٹھے بتانے لگے کہ ''ادھر سے کیا کیا جوہر قابل آیا اور یہاں پروان چڑھا۔ دلی سے مولانا محمد حسین آزاد آئے۔ پانی پت سے مولانا حالی آئے۔ میرٹھ سے قصائی آئے۔ اور اب تم اسی میرٹھ سے تم آئے ہو''۔
ہم نے کہا کہ آزاد' حالی اور اپنی وجہ آمد کا تو ہمیں پتہ ہے۔ وہ جو جوہر قابل قصائیوں کی صورت میں یہاں آیا تھا ان کی وجہ آمد بھی معلوم ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے''۔
بولے ''وہ وجہ آمد اس طرح ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سو ہم اس دوران گائے کے گوشت کے ذائقہ کو بھول گئے اور یہاں کے قصائی بڑے جانور کو ذبح کرنے کے فن سے بیگانہ ہو گئے۔ جب سکھ دور ختم ہوا اور انگریزوں کی عملداری شروع ہوئی تو انھوں نے یہ پابندی منسوخ کر دی مگر اب دوسرا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ وہ یہ کہ یہاں کے قصاب بڑے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ بھول چکے تھے۔ تب انگریز حکام نے میرٹھ چھائونی کو مراسلہ بھیجا کہ ادھر سے کچھ ایسے قصاب بھیجے جائیں جو بڑے جانور کو ذبح کرنے کی مہارت رکھتے ہوں۔ سو اس تقریب سے میرٹھ کے منتخب قصائی جو گائے کو ذبح کرنے کی مہارت رکھتے تھے میرٹھ سے لاہور پہنچے اور ہاتھوں ہاتھ لیے گئے''۔
چلیے ہمیں پتہ چل گیا کہ لاہور کی کچھ خدمت میرٹھ کے قصائیوں نے بھی کی ہے جس کی وجہ سے لاہور کے مسلمانوں نے پھر سے گائے کے گوشت کے ذائقہ کو تازہ کیا۔
باقی مسعود اشعر کو قصائی قصائنی کے حوالے سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا رامپور والے گائے کے گوشت سے نا آشنا ہیں مگر وہ جو اپنی تار روٹی کی ڈش پر اتنا فخر کرتے ہیں وہ تو گائے کے گوشت ہی کی مرہون منت ہے۔
اور ہاں یہ مت سمجھو کہ قصائیوں کی نسبت بس مسلمانوں ہی سے ہے۔ ارے مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے قصائی ہندوستان میں موجود تھے۔ ان کا ذکر تو آپ کو مہا بھارت میں بھی مل جائے گا۔
مہا بھارت میں جو ایک کہانی بیان ہوئی ہے وہ ہم سے سن لو۔ ایک رشی کو پتہ چلا کہ ہستنا پور میں ایک بڑا رشی بیٹھا ہوا ہے جس کے پاس وہ علم ہے جو تیرے پاس نہیں ہے۔ یہ سن کر اسے اس رشی سے ملنے کا اور اس سے ودیا حاصل کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ بس پھر وہ ہستنا پور کی طرف چل پڑا۔
بتانے والے نے بتایا تھا کہ اس نگر کے فلاں نکڑ پر اس کا ٹھکانہ ہے۔ رشی اس شہر میں اس محلہ میں پہنچا اور اس نکڑ کو بھی ڈھونڈ نکالا مگر وہاں تو کسی رشی کا آشرم نہیں تھا۔ ایک دکان ضرور تھی جہاں ایک قصائی بیٹھا گوشت بیچ رہا تھا۔ وہ اسی حیرانی میں وہاں بھٹک رہا تھا کہ اس قصائی نے اسے تاڑا۔ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اور بولا مہاراج میں تو تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ اسے گھر لے گیا اور پھر اسے تعلیم دینی شروع کی۔
اسی رشی نے تعجب سے پوچھا ''مہاراج تم اتنے بڑے رشی ہو کہ اپنی جگہ ودیا ساگر ہو۔ مگر قصائی کا کام کرتے ہو۔ یہ کیا بھید ہے''۔
وہ رشی بولا' یہ بھی ہماری تعلیم کا حصہ ہے۔ خیر اب تم آگئے ہو۔ میرا کام ختم ہوا۔ اب میں اپنے آشرم میں جا کر بیٹھوں گا اور تم قصائی کی دکان پر بیٹھو گے''۔
سو جو قصائی تھا وہ پھر رشی کے روپ میں نمودار ہوا۔ اور اپنے آشرم کی طرف چلا گیا۔ جو رشی تھا وہ اب قصائی کی دکان پر بیٹھا تھا اور گوشت فروخت کر رہا تھا۔
اس پر مسعود اشعر نے کہا کہ رامپور میں قصائنیوں کی کوئی ایسی شہرت نہیں تھی۔ وہ میرٹھ کی قصائنیاں ہوں گی جن کی زبان پر انتظار حسین نے طبع آزمائی کی ہے۔
اب ہم پر واجب آتا ہے کہ قصور ہم سے ہوا ہے۔ خالد احمد خواہ مخواہ پکڑے گئے لہٰذا ہمیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اس پر ہمیں اپنے شہر لاہور کے آنجہانی کافی ہائوس کا ذکر کرنا پڑے گا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی برسوں کا ذکر ہے۔ انڈیا کافی ہائوس اپنی ماقبل تقسیم روایات کے ساتھ ابھی یہاں موجود تھا۔ کیا خوب گوشہ تھا۔ ایک میز شہر کے معزز صحافیوں سے منسوب تھی۔ مولانا چراغ حسن حسرت' شورش کاشمیری' عبداللہ ملک وغیرہ۔ ایک گوشے میں نوخیز مصور اپنا رنگ جمائے بیٹھے ہیں اور تجریدی آرٹ پر رواں ہیں ایک میز ریاض قادر کے لیے مخصوص تھی جہاں ریاض قادر اور ناصر کاظمی کی جوڑی شعر و ادب پر رواں نظر آتی تھی اور ویٹر اتنے مردم شناس کہ انھیں خوب اندازہ تھا کہ کس میز پر کس طرح کی بات کرنی ہے۔
ہم ناصر کاظمی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آئے تھے۔ ناصر کاظمی نے فوراً کافی سے ہماری تواضع کی۔ ویٹر جب کافی کی ٹرے لے کر آیا تو ناصر نے ہمارا تعارف کرایا ''شرافت صاحب' یہ ہمارے دوست انتظار حسین ہیں''۔
شرافت نے ہمیں دیکھا' مسکرائے۔ بولے ''اچھا آپ ہیں انتظار حسین جن کا انھیں دنوں ماہ نو میں ایک افسانہ 'عقیلہ خالہ' چھپا ہے۔ آپ ہی کا ہے نا''۔
''جی' آپ نے پڑھا ہے وہ افسانہ۔ کیا لگا''۔
''جی پڑھا تو ہے'' مسکرائے۔ ٹرے پر سجی پیالیاں میز پر سجائیں اور خالی ٹرے کے ساتھ واپس چلے گئے۔ دیر بعد آئے۔ پیالیاں سمیٹتے ہوئے بولے ''انتظار صاحب آپ نے جو اس افسانے میں عورتوں والی زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں قصائنیاں بولا کرتی تھیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان لکھ کر دکھائیے''۔
مسکرائے۔ ہم نے بھی مسکرا کر جواب دیا ''کوشش کریں گے''۔
شرافت ویٹر کا تعلق بھی رامپور سے تھا۔ مسعود اشعر کو بھی اسی شہر سے نسبت ہے۔ اس شہر کی قصائینیوں کی وجہ شہرت کیا تھی' یہ شرافت ویٹر جانے اور مسعود اشعر جانیں۔ انھوں نے اپنے شہر کی قصائینیوں کا دفاع کرتے ہوئے گیند میرٹھ کی طرف لڑھکا دی جہاں ہم نے خاصا وقت گزارا ہے بیشک میرٹھ کے قصائی مشہور تھے۔ پھر ان کی قصائینیوں کی بھی کچھ نہ کچھ شہرت تو ہو گی۔ اور میرٹھ کے قصائیوں کی شہرت تو لاہور تک پہنچی ہوئی تھی۔ کیسے آڑے وقت میں انھوں نے یہاں آ کر لاہور والوں کی مدد کی تھی۔ اس معلومات کے لیے ہم مرحوم اعجاز حسین بٹالوی کے مرہون منت ہیں۔ ایک شام ٹی ہائوس میں بیٹھے بیٹھے بتانے لگے کہ ''ادھر سے کیا کیا جوہر قابل آیا اور یہاں پروان چڑھا۔ دلی سے مولانا محمد حسین آزاد آئے۔ پانی پت سے مولانا حالی آئے۔ میرٹھ سے قصائی آئے۔ اور اب تم اسی میرٹھ سے تم آئے ہو''۔
ہم نے کہا کہ آزاد' حالی اور اپنی وجہ آمد کا تو ہمیں پتہ ہے۔ وہ جو جوہر قابل قصائیوں کی صورت میں یہاں آیا تھا ان کی وجہ آمد بھی معلوم ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے''۔
بولے ''وہ وجہ آمد اس طرح ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سو ہم اس دوران گائے کے گوشت کے ذائقہ کو بھول گئے اور یہاں کے قصائی بڑے جانور کو ذبح کرنے کے فن سے بیگانہ ہو گئے۔ جب سکھ دور ختم ہوا اور انگریزوں کی عملداری شروع ہوئی تو انھوں نے یہ پابندی منسوخ کر دی مگر اب دوسرا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ وہ یہ کہ یہاں کے قصاب بڑے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ بھول چکے تھے۔ تب انگریز حکام نے میرٹھ چھائونی کو مراسلہ بھیجا کہ ادھر سے کچھ ایسے قصاب بھیجے جائیں جو بڑے جانور کو ذبح کرنے کی مہارت رکھتے ہوں۔ سو اس تقریب سے میرٹھ کے منتخب قصائی جو گائے کو ذبح کرنے کی مہارت رکھتے تھے میرٹھ سے لاہور پہنچے اور ہاتھوں ہاتھ لیے گئے''۔
چلیے ہمیں پتہ چل گیا کہ لاہور کی کچھ خدمت میرٹھ کے قصائیوں نے بھی کی ہے جس کی وجہ سے لاہور کے مسلمانوں نے پھر سے گائے کے گوشت کے ذائقہ کو تازہ کیا۔
باقی مسعود اشعر کو قصائی قصائنی کے حوالے سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا رامپور والے گائے کے گوشت سے نا آشنا ہیں مگر وہ جو اپنی تار روٹی کی ڈش پر اتنا فخر کرتے ہیں وہ تو گائے کے گوشت ہی کی مرہون منت ہے۔
اور ہاں یہ مت سمجھو کہ قصائیوں کی نسبت بس مسلمانوں ہی سے ہے۔ ارے مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے قصائی ہندوستان میں موجود تھے۔ ان کا ذکر تو آپ کو مہا بھارت میں بھی مل جائے گا۔
مہا بھارت میں جو ایک کہانی بیان ہوئی ہے وہ ہم سے سن لو۔ ایک رشی کو پتہ چلا کہ ہستنا پور میں ایک بڑا رشی بیٹھا ہوا ہے جس کے پاس وہ علم ہے جو تیرے پاس نہیں ہے۔ یہ سن کر اسے اس رشی سے ملنے کا اور اس سے ودیا حاصل کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ بس پھر وہ ہستنا پور کی طرف چل پڑا۔
بتانے والے نے بتایا تھا کہ اس نگر کے فلاں نکڑ پر اس کا ٹھکانہ ہے۔ رشی اس شہر میں اس محلہ میں پہنچا اور اس نکڑ کو بھی ڈھونڈ نکالا مگر وہاں تو کسی رشی کا آشرم نہیں تھا۔ ایک دکان ضرور تھی جہاں ایک قصائی بیٹھا گوشت بیچ رہا تھا۔ وہ اسی حیرانی میں وہاں بھٹک رہا تھا کہ اس قصائی نے اسے تاڑا۔ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اور بولا مہاراج میں تو تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ اسے گھر لے گیا اور پھر اسے تعلیم دینی شروع کی۔
اسی رشی نے تعجب سے پوچھا ''مہاراج تم اتنے بڑے رشی ہو کہ اپنی جگہ ودیا ساگر ہو۔ مگر قصائی کا کام کرتے ہو۔ یہ کیا بھید ہے''۔
وہ رشی بولا' یہ بھی ہماری تعلیم کا حصہ ہے۔ خیر اب تم آگئے ہو۔ میرا کام ختم ہوا۔ اب میں اپنے آشرم میں جا کر بیٹھوں گا اور تم قصائی کی دکان پر بیٹھو گے''۔
سو جو قصائی تھا وہ پھر رشی کے روپ میں نمودار ہوا۔ اور اپنے آشرم کی طرف چلا گیا۔ جو رشی تھا وہ اب قصائی کی دکان پر بیٹھا تھا اور گوشت فروخت کر رہا تھا۔