جامعہ اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی داخلہ پالیسی میں ججوں کو خصوصی رعایت
ججزمعاشرے کے باعزت لوگ ہیں، رعایت دی جاسکتی ہے،یونیورسٹی
وفاقی اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایم فل؍پی ایچ ڈی کی داخلہ پالیسی میں ججوں کو خصوصی رعایت دیتے ہوئے سیکنڈ ڈویژن کے حامل ججوں کو بھی ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دیدی جسکے بعد معاشرے کے دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے داخلوں کے خواہشمند امیدواروں نے یونیورسٹی انتظامی سے ایم فل،پی ایچ ڈی کی داخلہ پالیسی میں انھیں بھی رعایت دینے کی گزارش کی ہے اور داخلہ پالیسی کو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں کرتے ہوئے سیکنڈڈویژن کے حامل طلبا وطالبات کوبھی ایم فل،پی ایچ ڈی کے داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دینے کی استدعا کی ہے۔
دیگرشعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکنڈ ڈویژن کے حامل امیدواروں نے اسے غیرمنصفانہ اور امتیازی پالیسی سے تعبیرکرتے ہوئے اس میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کیاہے، واضح رہے کہ داخلہ ٹیسٹ میں اس طرزکی کوئی بھی پالیسی جامعہ کراچی اوراین ای ڈی یونیورسٹی سمیت کسی دوسری جامعہ میں موجود نہیں ہے''ایکسپریس'' کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ابتدائی طور پر ایم فل،پی ایچ ڈی کی داخلہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے ماسٹرز میں سیکنڈ ڈویژن کے حامل طلبا وطالبات کوداخلوں سے روک دیا تھا اور اس پالیسی کو یونیورسٹی کی جانب سے دیے گئے اشتہار میں باقاعدہ طور پر ظاہر کیا گیا اور سیکنڈ ڈویژن کے حامل طلبا وطالبات کوٹیسٹ کے لیے ایڈمٹ کارڈبھی جاری نہیں کیے گئے کیونکہ یونیورسٹی چاہتی تھی کہ ایم فل،پی ایچ ڈی میں فرسٹ ڈویژن سے ماسٹرز کرنیوالے طلبا وطالبات داخلہ حاصل کریں۔
تاہم ازاں بعد یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں ایم فل،پی ایچ ڈی کے خواہشمند بعض ججوں کو سیکنڈ ڈویژن میں متعلقہ سندہونے کے باوجود ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ یونیورسٹی کاخیال ہے کہ ججزمعاشرے کے باعزت لوگ اور انتہائی تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے داخلہ پالیسی میں اس طرح کی رعایت دی جاسکتی ہے، دوسری جانب یونیورسٹی کی جانب سے ججوں کے حوالے سے بارعایت پالیسی سامنے آنے کے بعد انتظامیہ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں میں بھی داخلوں کیلیے یکساں پالیسی رائج کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ یونیورسٹی کی جانب سے ناہموار اور غیرمنصفانہ داخلہ پالیسی کا دیا گیا تاثر ختم ہوسکے۔
دیگرشعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکنڈ ڈویژن کے حامل امیدواروں نے اسے غیرمنصفانہ اور امتیازی پالیسی سے تعبیرکرتے ہوئے اس میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کیاہے، واضح رہے کہ داخلہ ٹیسٹ میں اس طرزکی کوئی بھی پالیسی جامعہ کراچی اوراین ای ڈی یونیورسٹی سمیت کسی دوسری جامعہ میں موجود نہیں ہے''ایکسپریس'' کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ابتدائی طور پر ایم فل،پی ایچ ڈی کی داخلہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے ماسٹرز میں سیکنڈ ڈویژن کے حامل طلبا وطالبات کوداخلوں سے روک دیا تھا اور اس پالیسی کو یونیورسٹی کی جانب سے دیے گئے اشتہار میں باقاعدہ طور پر ظاہر کیا گیا اور سیکنڈ ڈویژن کے حامل طلبا وطالبات کوٹیسٹ کے لیے ایڈمٹ کارڈبھی جاری نہیں کیے گئے کیونکہ یونیورسٹی چاہتی تھی کہ ایم فل،پی ایچ ڈی میں فرسٹ ڈویژن سے ماسٹرز کرنیوالے طلبا وطالبات داخلہ حاصل کریں۔
تاہم ازاں بعد یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں ایم فل،پی ایچ ڈی کے خواہشمند بعض ججوں کو سیکنڈ ڈویژن میں متعلقہ سندہونے کے باوجود ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ یونیورسٹی کاخیال ہے کہ ججزمعاشرے کے باعزت لوگ اور انتہائی تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے داخلہ پالیسی میں اس طرح کی رعایت دی جاسکتی ہے، دوسری جانب یونیورسٹی کی جانب سے ججوں کے حوالے سے بارعایت پالیسی سامنے آنے کے بعد انتظامیہ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں میں بھی داخلوں کیلیے یکساں پالیسی رائج کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ یونیورسٹی کی جانب سے ناہموار اور غیرمنصفانہ داخلہ پالیسی کا دیا گیا تاثر ختم ہوسکے۔