انقلاب کا پیش خیمہ

لاہور سے نکلنے والے اور اسلام آباد کی ڈی چوک پر تقریباً ڈیڑھ ماہ سے قیام پذیر ...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

LONDON:
پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سیاست اقتدار کے کھیل سے نکل کر طبقاتی تضادات کے اصل کھیل کے میدان میں داخل ہورہی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ عوام اپنی 67 سالہ غلامانہ زندگی کو سمجھنے اور اس سے نکلنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

لاہور سے نکلنے والے اور اسلام آباد کی ڈی چوک پر تقریباً ڈیڑھ ماہ سے قیام پذیر 20-25 ہزار مرد اور خواتین نے اپنے کندھوں اور گودیوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو اٹھاکر بھوک، پیاس، آندھی، طوفان، سخت دھوپ اور موسلا دھار بارشوں میں جس صبر و استقامت سے وقت کاٹا ہے یہ کوئی مذاق ہے نہ کوئی مہم جوئی نہ یہ ہجوم کسی جلسے میں تفریح کے لیے آیا ہے نہ یہ کسی وڈیرے یا صنعت کار کے ہاری یا دیہاڑی دار لوگ ہیں، یہ جب لاہور سے نکل رہے تھے تو ان کے سامنے 14 لاشیں اور 90 بے گناہ افراد زخموں سے چور چور اسپتالوں میں پڑے ہوئے تھے۔

لاہور سے نکلنے والے اگر بزدل یا ڈرپوک ہوتے تو 14 لاشیں اور یہ زخمی انھیں اسلام آباد کی طرف ایک ایسا خطرناک سفر کرنے سے روک دیتیں جس میں جان جانے کا خطرہ ایک حقیقی شکل میں ان کے سامنے کھڑا تھا۔ لیکن چونکہ یہ حق کے مسافران خطرات سے آگاہ تھے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ کا یہ کٹھن بن باس ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ پیدا کرسکا۔

ہوسکتا ہے اس تحریک کی قیادت کرنے والوں کے ذہنوں میں اقتدار کی خواہش بھی موجود ہو لیکن اقتدار کی اس خواہش میں نہ انتخابی دھاندلی کا کوئی ذکر ہے نہ دھونس دھن دولت کے استعمال کا کوئی حربہ، اس ''مہم جوئی'' کی قیادت کرنے والے ایک ایسا نیا پاکستان بنانے کے دعویدار ہیں جس میں طبقاتی استحصال کم سے کم ہو، انصاف صرف اشرافیہ کی میراث نہ ہو، ہاری اور کسان وڈیروں اور جاگیرداروں کے غلام نہ ہوں، خواتین کا مقدر گھر کی چار دیواری میں محبوس ہونا نہ ہو، لوگ بھوک سے تنگ آکر خودکشیاں نہ کریں، بے روزگاری سے تنگ آکر بچوں کے ساتھ دریاؤں میں چھلانگیں نہ لگائیں۔

ایک چھوٹا سا طبقہ اپنے معزز مہمانوں کے لنچ کا اہتمام 70 ڈشوں سے نہ کرے اور 90 فی صد عوام باسی روٹی اور پیاز سے ناشتہ اور ڈنر نہ کریں، لاکھوں غریب چٹائیوں کے ہوٹلوں میں مسافرت کے اہل نہ ہوں اور اشرافیہ کے راج مہاراج 8 لاکھ روزانہ کے کرائے کے کمروں میں رہنے کی جسارت نہ کریں، ہوسکتا ہے یہ تبدیلی ایک خواب ہو لیکن ہر بڑی تبدیلی کی ابتدا خواب سے ہی ہوتی ہے۔ لاہور سے ان پاگلوں کی روانگی سے پہلے ملک کا کوئی غریب اس قسم کے غیر منصفانہ اور گستاخانہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ لاہور سے نکلنے اور پارلیمنٹ کے سامنے مقدس شاہراہ دستور کو گندہ کرنے والوں نے ملک کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ خواب غریب عوام کی آنکھوں میں سجایا ہے۔

ان دھرنوں کو حماقت اور مہم جوئی کہنے والے اشرافیہ اور ان کے ایجنٹ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر اس خواب کو پہلے مرحلے اور آنکھ کھلنے سے پہلے ہی تعبیر سے محروم نہ کردیاگیا تو عوام کا یہ خواب ایک حقیقت بن کر اشرافیہ کے حال اور مستقبل کو راکھ کردے گا، یہی خوف اشرافیہ کو متحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنارہا ہے۔ یہی خوف تیسری، چوتھی قوتوں کی خدمت میں دست بستہ حاضریوں پر مجبور کررہاہے یہی خوف خزانوں اور مڈل کلاس کے علما کے منہ کھلوا رہا ہے۔یہی خوف، یہ پروپیگنڈا کروارہا ہے کہ ''دھرنے ناکام ہوکر اپنی موت آپ مرگئے ہیں۔''


دنیا میں انقلابات اور تبدیلیوں کی تاریخ کامیابیوں اور ناکامیوں سے بھری ہوئی ہے۔ چین میں کسان تحریکیں بار بار ناکامیوں سے دو چار ہوئیں۔1911 کا انقلاب ناکام ہوا لیکن کوئی ناکامی نہ طبقاتی نظام کے شکار عوام کو مایوس کرسکتی ہے نہ عوام کو آگے بڑھنے سے روک سکتی ہے کیوں کہ طبقاتی تضادات خود اپنے اندر اتنی زبردست طاقت رکھتے ہیں کہ وہ بڑی سے بڑی ریاستی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیتے ہیں، یہ وہ حقائق ہیں جنھیں نہ جھوٹے پروپیگنڈے سے دبایا جاسکتا ہے نہ ریاستی طاقت سے کچلا جاسکتا ہے نہ ڈالروں اور روپوں کے ڈھیر سے خریدا جاسکتاہے نہ بدلا جاسکتاہے۔

گوئیبلز فائشزم کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس نے جھوٹ کو طرح طرح سے سچ بناکر پیش کیا اور ہٹلر کو بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن جھوٹ کبھی سچ پر غالب نہیں آسکتا، آج وقت کے ہٹلروں کو بچانے کے لیے ایک دو نہیں سیکڑوں گوئیبلز کانوں پر قلم رکھے منہ میں گناہوں کی جھوٹی زبان رکھے عوام کو مایوسی کے سمندر میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ بھی گوئیبلز کی مہارت کے ساتھ کررہے ہیں لیکن ان اکابرین کو اندازہ نہیں کہ دھرنے والوں نے اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے دلوں اور ذہنوں میں جو آگ لگائی ہے وہ چنار کی لکڑیوں کی نہیں بلکہ روئی کی آگ ہے جو اندر ہی اندر پھیلتی ہے اور اس وقت باہر آتی ہے جب ملک بھر کے ''فائر انجن'' اسے بجھانے کے قابل نہیں رہتے۔

میں دھرنے کی قیادت کرنے والوں کی تسلیوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن یہ تسلیاں طفل تسلیاں نہیں بلکہ عوام کے ذہنوں کو مایوسی سے بچانے کی ا یک کوشش ہے لیکن میرا خیال ہے کہ دھرنے کے شرکاء اس قدر باشعور ہیں کہ وہ وقتی ناکامیوں، پسپائیوں سے قطعی مایوس نہیں ہوں گے اور اس حقیقت سے با خبر رہیں گے کہ دیر سے سہی حق نا حق پر سچ جھوٹ پر مظلوم ظالم پر غالب آجاتا ہے، بڑے بڑے مقاصد چھوٹی چھوٹی ناکامیوں سے ختم نہیں ہوجاتے بلکہ حق اور انصاف کی جنگ لڑنے والوں میں ناکامیاں حوصلہ اور عزم بن جاتی ہیں اور عزم اور حوصلے کی ہی طاقت انھیں آخر کار کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ہمارا ملک آج جو دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے اس کی نوعیت اس قدر دلچسپ ہے کہ اسے دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔

ملک کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت نقلی اور اصلی دانشور اور اہل قلم یک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ 2013 کے الیکشن میں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں اصلی اور نقلی دانشور یک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہونی چاہیے، بلدیاتی الیکشن فوری ہونے چاہئیں، یہ بھی سب کا متفقہ مطالبہ ہے، کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حالات کے جبر نے کرپٹ ترین اشرافیہ کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل ہونی چاہیے۔ یہ بھی سارے سیاسی اکابرین کا متفقہ مطالبہ ہے۔ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے، یہ بھی ایک انتہائی جائز مطالبہ ہے، دھرنوں کے مقتولین کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، اس مطالبے کی صداقت سے کون انکار کرسکتاہے۔ یہی مطالبات دھرنے والے کررہے ہیں، پھر انھیں احمق، پاگل، سازشی، غیر ملکی وغیرہ وغیرہ کہنا کھلی بد دیانتی کے علاوہ کیا ہے۔؟

اگلے روزکا اخبار میرے سامنے رکھا ہے جس میں تین خبریں ایسی ہیں جو ہماری جمہوریت، ہماری پارلیمنٹ، ہمارے قانون، ہمارے انصاف کے منہ پر طمانچہ بن رہی ہیں، پہلی خبر کے مطابق ''سندھ اسمبلی کے سامنے درخت سے ایک بے روزگار نے چھلانگ لگادی'' اس کا تعلق نواب شاہ سے بتایا جاتا ہے۔

دوسری خبر کے مطابق معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر لیاقت آباد میں ایک شخص نے گلے میں پھندا لگاکر خودکشی کرلی، تیسری خبر کے مطابق فیصل آباد میں ایک غریب پر بجلی کے 18 ہزار روپے کا بل دیکھ کر دل کا دورہ پڑا اور وہ اﷲ کو پیارا ہوگیا۔ اے جمہوریت کے آقاؤ اورغلامو! ذرا ان تین خبروں کو غور سے پڑھو شاید تمہارے سر شرم سے جھک جائیں اور جمہوریت کی تقدیس تم پر آشکارا ہوجائے یاد رکھو دھرنے انقلاب نہیں انقلاب کا پیش خیمہ ہیں۔
Load Next Story