مشکلات پر صبر
’’بے شک! اﷲ صابرین پر بہت مہربان ہوتا ہے۔‘‘
KARACHI:
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم لوگ ایک بار پھر بارش، سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے تمام صوبوں اور شہروں میں طوفانی بارش نے بڑی ابتری پھیلا دی ہے۔
اکثر لوگوں کے گھر، مویشی، املاک یا تو سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں یا اگر وہ محفوظ ہیں تو ان کے گھروں کو جانے والے راستے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں یا پھر ان کی طرف سامان رسد لے کر آنے والی ٹرانسپورٹ مشکلات کا شکار ہے۔
دیکھا جائے تو پورے ملک کے سبھی علاقے سیلاب، بارش، طوفان سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے انسانی زندگیاں مشکلات میں گھر گئی ہیں۔
یہ مشکلات اصل میں ہماری آزمائشیں ہیں، ہمارے امتحان ہیں۔ ان حالات کے ذریعے ہمارا پیدا کرنے والا رب ہمارے ایمان کی پختگی اور مستقل مزاجی کو دیکھتا ہے، اور خاص طور سے یہ دیکھتا ہے کہ ہم مشکل حالات میں بھی اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے کس حد تک فرماں بردار رہتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ان مشکلات سے گھبرا کر ہم اس سے دور ہوجائیں یا اس سے شکوے شکایت شروع کردیں۔
بلاشبہ ہر مشکل اور پریشانی پروردگار عالم کی طرف سے آتی ہے اور وہی ہر انسان کو اس مشکل سے نکال کر دلی سکون اور چین عطا فرماتا ہے۔
اس لیے اہل ایمان کا فرض ہے کہ ہمہ وقت اپنے پیدا کرنے والے اور اپنی حفاظت کرنے والے مالک حقیقی کی حمد و ثنا کریں، اسی سے امن و سلامتی بھی مانگیں اور صحت و رزق بھی۔ وہ بہت بڑا مہربان اور سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہر طرح کی مشکلات سے نکلنے کے لیے اسی سے مدد مانگیں، چاہے وہ سیلاب ہو، زلزلہ ہو، طوفانی ہوائیں ہوں یا دوسری آسمانی اور قدرتی آفات، ان تمام مشکل حالات میں رب العالمین کو اپنے بندوں کے اپنے سامنے جھکے ہوئے سر دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ آزمائش کے اس دور میں بھی اس کے بندے ان مشکلات پر صبر کررہے ہیں اور ان سے نکلنے کے لیے اسی سے رجوع کررہے ہیں۔
ہمارا پالنے والا، ہمارا خالق اور ہمارا رب اس کرۂ ارض کے سبھی لوگوں کو طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات میں مبتلا کرکے ان کے ایک رب پر ایمان کی پختگی کو جانچتا رہتا ہے۔
ظاہر ہے اس امتحان اور آزمائش میں اس کے نیک اور فرماں بردار بندے کامیاب ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہر حال میں اپنے خالق اور مالک کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کی زبان کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کرتی۔
اس کے برعکس ایمان سے محروم یا کمزور ایمان والے لوگ اس امتحان میں ڈگمگا جاتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کی جانب سے جب ان کی آزمائشں کی جاتی ہے تو اس امتحان میں ثابت قدم رہنے کے بجائے گھبرا جاتے ہیں اور ان کی زبان پر شکوے اور شکایات آجاتی ہیں۔
ظاہر ہے ہمارا رب طرح طرح سے ہماری آزمائش کرتا ہے، ہمارا امتحان لیتا ہے، وہ ہمیں خوش حالی دے کر بھی ہماری آزمائش کرتا ہے اور بدحالی دے کر بھی دیکھتا ہے کہ ہم کتنے صابر اور شاکر ہیں اور اس کی رضا پر کس حد تک راضی رہتے ہیں۔ یہاں ایک ہم نکتے کی طرف اشارہ دیا جارہا ہے۔
وہ یہ کہ چاہے دکھ ہو یا سکھ، خوشیاں ہوں یا پریشانیاں، ہر طرح کے حالات میں اپنے رب کی رضا کے سامنے سر نیاز خم کرنے والا ہی فرماں بردار بندوں میں شمار ہوسکتا ہے۔ جس نے ذرا سی پریشانی پر اپنے رب سے شکوہ کردیا تو اس کی ثابت قدمی ختم ہوگئی اور وہ صبر و شکر کی دولت سے محروم ہوکر فرماں بردار بندوں کی صف میں سے نکل گیا۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے، لیکن جب انہیں اﷲ (کے راستے میں) کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اﷲ کا عذاب۔
اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل علم کے سینوں میں ہے، اﷲ اس سے واقف نہیں؟ اور اﷲ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔''
(سورۃ العنکبوت آیت10,11)
سورۂ عنکبوت کی مذکورہ بالا آیات میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر اﷲ رب العزت کی راہ میں دکھ اور پریشانیاں آجاتی ہیں تو بہت سے ایمان والے گھبرا جاتے ہیں اور ان آزمائشوں کو عذاب الٰہی قرار دینے لگتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کا عذاب تو بہت ہی خطرناک ہوتا ہے اور سچے اہل ایمان ہمیشہ اس سے پناہ مانگتے ہیں۔
لیکن اگر کچھ لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں تو جو لوگ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ان پر اﷲ کا عذاب ہے جو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے نازل ہوا ہے تو کمزور ایمان والے ایک دم پریشان ہوجاتے ہیں۔
ہم جب کبھی بارش، طوفان، زلزلے یا کسی اور قدرتی آفت میں گھرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں بڑی قومی آزمائش یا قومی سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس مشکل وقت میں بعض اوقات ہمارے قومی ادارے اپنے لوگوں کی سہولت اور آسانی بہم پہنچانے کے لیے انہیں خصوصی رعایت بھی دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پروردگار عالم اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے اپنے فرماں بردار بندوں کی ایمانی قوت کو جانچتا ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں کس حد تک میرے فرماں بردار رہتے ہیں اور وہ کون ہیں جو ان حالات سے پریشان ہوکر میرا راستہ چھوڑ کر بھٹک جاتے ہیں۔
اس موقع پر بعض حضرات پریشانیوں میں گھرے ہوئے ان لوگوں کو تسلی اور دلاسہ دینے کے بجائے انہیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب تمہارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔
یہ تمہارے ہی تو کرتوت کی سزا ہے، جب کہ اس طرح کے لوگوں کا یہ قومی اور ملی فرض ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسے ہوئے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھائیں اور انہیں اس موقع پر صبر و استقامت سے کام لینے کا مشورہ دیں اور خود بھی ان کے لیے اپنے رب کے حضور یہ دعا کریں کہ وہ جلد از جلد ان لوگوں کو اس مشکل صورت حال سے نکال دے اور انہیں مذکورہ بالا پریشانیوں میں صبر سے کام لینے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ صبر اور شکر کے ساتھ اس امتحان سے گزر جائیں گے اور اﷲ رب العزت کے پسندیدہ اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔
انسان پر جو بھی مشکلات آتی ہیں، وہ رب العالمین کی جانب سے آتی ہیں اور وہ قرآن حکیم میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا یعنی اسے اتنی مشکلات اور آزمائشوں ہی میں مبتلا کرتا ہے جو وہ برداشت کرلے۔
ہم واپس مندرجہ بالا آیت کی طرف چلتے ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ ''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے، لیکن جب انہیں اﷲ (کے راستے میں) کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اﷲ کا عذاب۔''
اس میں کم و بیش انہی حالات کی طرف اشارہ ہے۔ سب نہیں البتہ بعض لوگ ہم میں ایسے ہیں جو اﷲ پر ایمان تو لے آتے ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں یا ان کے دوسرے ساتھیوں کو کوئی ذاتی پریشانی یا قدرتی آفت گھیرتی ہے تو وہ اسے اﷲ کا عذاب قرار دینے لگتے ہیں۔ اس سے سبھی لوگوں کے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور اﷲ پر ان کا ایمان اور بھروسا ڈگمگانے لگتا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ان کا امتحان لیا جارہا ہوتا ہے اور ان کا پالنے والا اور مالک یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس پر ایمان میں کتنے مضبوط ہیں۔
مزید ارشاد ہوتا ہے:''اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔''
اس آیت میں ارشاد ہورہا ہے کہ جب تمہارا رب تمہیں اس مشکل اور اس امتحان سے نکالتا ہے اور اس کی مدد آپہنچتی ہے تو یہ لوگ جو اس سے پہلے آپ کو بار بار یہ باور کرا رہے تھے کہ ان مشکلات کا سبب تم خود ہو اور یہ تمہارے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔
لیکن اب جب کہ پروردگار کی مدد آگئی تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس انعام الٰہی کا سبب ہم ہیں یعنی تم پر یہ انعام ہماری وجہ سے ہوا ہے ورنہ تم تو بہت گناہ گار ہوں اسی لیے ہر وقت مشکلات اور آزمائشوں میں گھرے رہتے ہو۔ گویا یہ لوگ اﷲ کے فرماں بردار بندے ہیں اور انہی کی وجہ سے مشکلات دور ہوتی ہیں۔ یہ انداز فکر کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آیت کے آخری حصے میں ارشاد ہورہا ہے کہ''کیا جو اہل علم کے سینوں میں ہے، اﷲ اس سے واقف نہیں؟ اور اﷲ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔''
یہاں واضح طور پر یہ اعلان ہورہا ہے کہ اﷲ سب کے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور اس بات سے بھی واقف ہے کہ کون ایمان والے ہیں اور کون منافق ہیں، اس کی نظر سے کوئی نہیں بچ سکتا، اس لیے اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خلوص نیت کے ساتھ باری تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائیں۔ ان کا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ سب مشکلات اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ان سے نکال سکتا ہے۔
ایمان پر اس پختگی سے ہی رب العالمین کی رضا اور خوش نودی حاصل ہوسکتی ہے۔ بے شک! اﷲ اپنے فرماں بردار بندوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم لوگ ایک بار پھر بارش، سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے تمام صوبوں اور شہروں میں طوفانی بارش نے بڑی ابتری پھیلا دی ہے۔
اکثر لوگوں کے گھر، مویشی، املاک یا تو سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں یا اگر وہ محفوظ ہیں تو ان کے گھروں کو جانے والے راستے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں یا پھر ان کی طرف سامان رسد لے کر آنے والی ٹرانسپورٹ مشکلات کا شکار ہے۔
دیکھا جائے تو پورے ملک کے سبھی علاقے سیلاب، بارش، طوفان سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے انسانی زندگیاں مشکلات میں گھر گئی ہیں۔
یہ مشکلات اصل میں ہماری آزمائشیں ہیں، ہمارے امتحان ہیں۔ ان حالات کے ذریعے ہمارا پیدا کرنے والا رب ہمارے ایمان کی پختگی اور مستقل مزاجی کو دیکھتا ہے، اور خاص طور سے یہ دیکھتا ہے کہ ہم مشکل حالات میں بھی اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے کس حد تک فرماں بردار رہتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ان مشکلات سے گھبرا کر ہم اس سے دور ہوجائیں یا اس سے شکوے شکایت شروع کردیں۔
بلاشبہ ہر مشکل اور پریشانی پروردگار عالم کی طرف سے آتی ہے اور وہی ہر انسان کو اس مشکل سے نکال کر دلی سکون اور چین عطا فرماتا ہے۔
اس لیے اہل ایمان کا فرض ہے کہ ہمہ وقت اپنے پیدا کرنے والے اور اپنی حفاظت کرنے والے مالک حقیقی کی حمد و ثنا کریں، اسی سے امن و سلامتی بھی مانگیں اور صحت و رزق بھی۔ وہ بہت بڑا مہربان اور سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہر طرح کی مشکلات سے نکلنے کے لیے اسی سے مدد مانگیں، چاہے وہ سیلاب ہو، زلزلہ ہو، طوفانی ہوائیں ہوں یا دوسری آسمانی اور قدرتی آفات، ان تمام مشکل حالات میں رب العالمین کو اپنے بندوں کے اپنے سامنے جھکے ہوئے سر دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ آزمائش کے اس دور میں بھی اس کے بندے ان مشکلات پر صبر کررہے ہیں اور ان سے نکلنے کے لیے اسی سے رجوع کررہے ہیں۔
ہمارا پالنے والا، ہمارا خالق اور ہمارا رب اس کرۂ ارض کے سبھی لوگوں کو طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات میں مبتلا کرکے ان کے ایک رب پر ایمان کی پختگی کو جانچتا رہتا ہے۔
ظاہر ہے اس امتحان اور آزمائش میں اس کے نیک اور فرماں بردار بندے کامیاب ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہر حال میں اپنے خالق اور مالک کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کی زبان کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کرتی۔
اس کے برعکس ایمان سے محروم یا کمزور ایمان والے لوگ اس امتحان میں ڈگمگا جاتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کی جانب سے جب ان کی آزمائشں کی جاتی ہے تو اس امتحان میں ثابت قدم رہنے کے بجائے گھبرا جاتے ہیں اور ان کی زبان پر شکوے اور شکایات آجاتی ہیں۔
ظاہر ہے ہمارا رب طرح طرح سے ہماری آزمائش کرتا ہے، ہمارا امتحان لیتا ہے، وہ ہمیں خوش حالی دے کر بھی ہماری آزمائش کرتا ہے اور بدحالی دے کر بھی دیکھتا ہے کہ ہم کتنے صابر اور شاکر ہیں اور اس کی رضا پر کس حد تک راضی رہتے ہیں۔ یہاں ایک ہم نکتے کی طرف اشارہ دیا جارہا ہے۔
وہ یہ کہ چاہے دکھ ہو یا سکھ، خوشیاں ہوں یا پریشانیاں، ہر طرح کے حالات میں اپنے رب کی رضا کے سامنے سر نیاز خم کرنے والا ہی فرماں بردار بندوں میں شمار ہوسکتا ہے۔ جس نے ذرا سی پریشانی پر اپنے رب سے شکوہ کردیا تو اس کی ثابت قدمی ختم ہوگئی اور وہ صبر و شکر کی دولت سے محروم ہوکر فرماں بردار بندوں کی صف میں سے نکل گیا۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے، لیکن جب انہیں اﷲ (کے راستے میں) کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اﷲ کا عذاب۔
اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل علم کے سینوں میں ہے، اﷲ اس سے واقف نہیں؟ اور اﷲ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔''
(سورۃ العنکبوت آیت10,11)
سورۂ عنکبوت کی مذکورہ بالا آیات میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر اﷲ رب العزت کی راہ میں دکھ اور پریشانیاں آجاتی ہیں تو بہت سے ایمان والے گھبرا جاتے ہیں اور ان آزمائشوں کو عذاب الٰہی قرار دینے لگتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کا عذاب تو بہت ہی خطرناک ہوتا ہے اور سچے اہل ایمان ہمیشہ اس سے پناہ مانگتے ہیں۔
لیکن اگر کچھ لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں تو جو لوگ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ان پر اﷲ کا عذاب ہے جو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے نازل ہوا ہے تو کمزور ایمان والے ایک دم پریشان ہوجاتے ہیں۔
ہم جب کبھی بارش، طوفان، زلزلے یا کسی اور قدرتی آفت میں گھرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں بڑی قومی آزمائش یا قومی سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس مشکل وقت میں بعض اوقات ہمارے قومی ادارے اپنے لوگوں کی سہولت اور آسانی بہم پہنچانے کے لیے انہیں خصوصی رعایت بھی دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پروردگار عالم اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے اپنے فرماں بردار بندوں کی ایمانی قوت کو جانچتا ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں کس حد تک میرے فرماں بردار رہتے ہیں اور وہ کون ہیں جو ان حالات سے پریشان ہوکر میرا راستہ چھوڑ کر بھٹک جاتے ہیں۔
اس موقع پر بعض حضرات پریشانیوں میں گھرے ہوئے ان لوگوں کو تسلی اور دلاسہ دینے کے بجائے انہیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب تمہارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔
یہ تمہارے ہی تو کرتوت کی سزا ہے، جب کہ اس طرح کے لوگوں کا یہ قومی اور ملی فرض ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسے ہوئے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھائیں اور انہیں اس موقع پر صبر و استقامت سے کام لینے کا مشورہ دیں اور خود بھی ان کے لیے اپنے رب کے حضور یہ دعا کریں کہ وہ جلد از جلد ان لوگوں کو اس مشکل صورت حال سے نکال دے اور انہیں مذکورہ بالا پریشانیوں میں صبر سے کام لینے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ صبر اور شکر کے ساتھ اس امتحان سے گزر جائیں گے اور اﷲ رب العزت کے پسندیدہ اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔
انسان پر جو بھی مشکلات آتی ہیں، وہ رب العالمین کی جانب سے آتی ہیں اور وہ قرآن حکیم میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا یعنی اسے اتنی مشکلات اور آزمائشوں ہی میں مبتلا کرتا ہے جو وہ برداشت کرلے۔
ہم واپس مندرجہ بالا آیت کی طرف چلتے ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ ''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے، لیکن جب انہیں اﷲ (کے راستے میں) کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اﷲ کا عذاب۔''
اس میں کم و بیش انہی حالات کی طرف اشارہ ہے۔ سب نہیں البتہ بعض لوگ ہم میں ایسے ہیں جو اﷲ پر ایمان تو لے آتے ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں یا ان کے دوسرے ساتھیوں کو کوئی ذاتی پریشانی یا قدرتی آفت گھیرتی ہے تو وہ اسے اﷲ کا عذاب قرار دینے لگتے ہیں۔ اس سے سبھی لوگوں کے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور اﷲ پر ان کا ایمان اور بھروسا ڈگمگانے لگتا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ان کا امتحان لیا جارہا ہوتا ہے اور ان کا پالنے والا اور مالک یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس پر ایمان میں کتنے مضبوط ہیں۔
مزید ارشاد ہوتا ہے:''اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔''
اس آیت میں ارشاد ہورہا ہے کہ جب تمہارا رب تمہیں اس مشکل اور اس امتحان سے نکالتا ہے اور اس کی مدد آپہنچتی ہے تو یہ لوگ جو اس سے پہلے آپ کو بار بار یہ باور کرا رہے تھے کہ ان مشکلات کا سبب تم خود ہو اور یہ تمہارے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔
لیکن اب جب کہ پروردگار کی مدد آگئی تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس انعام الٰہی کا سبب ہم ہیں یعنی تم پر یہ انعام ہماری وجہ سے ہوا ہے ورنہ تم تو بہت گناہ گار ہوں اسی لیے ہر وقت مشکلات اور آزمائشوں میں گھرے رہتے ہو۔ گویا یہ لوگ اﷲ کے فرماں بردار بندے ہیں اور انہی کی وجہ سے مشکلات دور ہوتی ہیں۔ یہ انداز فکر کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آیت کے آخری حصے میں ارشاد ہورہا ہے کہ''کیا جو اہل علم کے سینوں میں ہے، اﷲ اس سے واقف نہیں؟ اور اﷲ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔''
یہاں واضح طور پر یہ اعلان ہورہا ہے کہ اﷲ سب کے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور اس بات سے بھی واقف ہے کہ کون ایمان والے ہیں اور کون منافق ہیں، اس کی نظر سے کوئی نہیں بچ سکتا، اس لیے اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خلوص نیت کے ساتھ باری تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائیں۔ ان کا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ سب مشکلات اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ان سے نکال سکتا ہے۔
ایمان پر اس پختگی سے ہی رب العالمین کی رضا اور خوش نودی حاصل ہوسکتی ہے۔ بے شک! اﷲ اپنے فرماں بردار بندوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔