صُلح ِ حُدیبیہ
’’اﷲ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ (اے محمدؐ) درخت کے نیچے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔‘‘
ISLAMABAD:
ذی قعدہ چھ ہجری میں ہونے والے اس واقعے کو جو تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کے نام سے موسوم ہے۔
قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا اور حدیبیہ سے واپسی پر قرآن مجید کی یہ آیت ناز ل ہوئی:''بے شک! ہم نے (اے محمدؐ) آپؐ کے لیے تاب ناک اور کھلی فتح کا فیصلہ فرمایا۔'' (سورۃ الفتح ) سرکار دو عالم ﷺاور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کو مکے سے ہجرت کیے چھ سال ہوگئے تھے۔
اﷲ کے گھر کے حج کی تمنا سب کے دلوں میں شدت اختیار کرتی جا رہی تھی، کیوں کہ حج زمانۂ جاہلیت سے ہی عربوں کا شعار رہا ہے اور کسی دشمن کو بھی اس کی ادائیگی سے نہیں روکا جاتا تھا۔
پھر مسلمانوں کا تو اور بھی زیادہ حق تھا کہ وہ حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کریں۔ چناں چہ رسول کریم ﷺ نے مدینے کے آس پاس کی بستیوں میں حج پر جانے کا اعلان فرما دیا۔
چودہ سو صحابہ یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ ان سب نے آپؐ کے حکم پر مدینۂ منورہ سے ہی احرام باندھ لیے اور قربانی کے جانور بھی ساتھ لے لیے، سوائے نیام کی تلوار کے کوئی اور ہتھیار ساتھ نہ لیا اور روانہ ہو گئے۔
مگر پھر بھی قریش مکہ کو آپؐ کی آمد سے سخت تکلیف ہوئی اور انہوں نے یہ طے کیا کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کو مکے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ چناں چہ ایک دستہ خالد بن ولید کی قیادت میں بھیج دیا گیا۔ جب یہ خبر اﷲ کے نبی ﷺکو ملی تو آپؐ نے مکے کا عام راستہ چھوڑ دوسرا راستہ اختیار فرمایا اور حدیبیہ پہنچ کر قیام کرلیا۔
حدیبیہ مکہ کے بارہ میل مغرب کی طرف ایک کنواں تھا، اسی کے نام پر آبادی کو بھی حدیبیہ کہا جانے لگا۔ یہ مکے کو جدہ سے ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔
حدیبیہ میں سب سے پہلے قبیلہ بنو خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاضر ہوئے جن کے ذریعے حضور پاک ﷺ نے اپنے مقصد سفر سے قریش مکہ کو مطلع فرمایا۔ یہ پیغام سن کر قریش نے ایک سردار عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا جس نے نبی کریم ﷺ سے انتہائی گستاخی سے بات کی۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو غصہ آگیا۔
مگر رسول کریمﷺکے حکم پر خاموش رہے۔ اﷲ کے نبیؐ نے قریش مکہ کو کہلوایا کہ ہم صرف حج کرنے آئے ہیں، ہمیں یہ کام کرنے دیا جائے۔ لیکن قریش اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے اور مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ آخر نبی پاک ﷺ نے ایک مرتبہ پھر مفاہمت کی کوشش کی اور اس بار حضرت عثمان غنی ؓ کو ایلچی بنا کر بھیجا۔ حضرت عثمان ؓ نے قریش مکہ کو حضورؐ کا پیغام دیا تو وہ بولے:''اے عثمان! ہم محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو تو اجازت نہیں دیں گے، اگر تم چاہو تو خانہ کعبہ کی زیارت کر سکتے ہو۔''
اس پر عاشق رسول ﷺ، حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا:''میں اپنے حضورؐ کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتا۔''
اس جواب پر قریش بہت ناراض ہوئے، انہوں نے حضرت عثمان غنی ؓ کو پکڑ لیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو یہ اطلاع ملی کی حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا۔ اب تو مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر اﷲ کے محبوبﷺ نے ارشاد فرمایا:''ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک کہ مشرکین سے عثمان ؓ کے خو ن کا بدلہ نہ لے لیں۔'' اس کے بعد اﷲ کے رسول ﷺ ببول کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور تمام صحابہ نے آپؐ سے قصاص عثمان پر بیعت لی جسے قرآن نے بیعت رضوان کہا اور سورۃ فتح میں اس کا ذکر فرمایا۔
ارشاد ربانی ہے:''اﷲ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ (اے محمدؐ) درخت کے نیچے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔ پس اﷲ نے ان کے دلوں کا حال جان لیا، ان پر تسلی نازل فرمائی اور ان کو فتح عطا فرمائی۔''
حضور پاک ﷺ نے حضرت عثمان کی جانب سے اس طرح بیعت فرمائی کہ اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان غنی کا ہاتھ قرار دے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا:''وہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی حاجت میں گئے ہیں۔''
قریش نے جب اس بیعت کا حال سنا تو اپنے قاصد بھیج کر مفاہمت کی کوشش کی۔ انہوں نے سہیل بن عمرو عامری کو چند آدمیوں کے ہمراہ آپؐ کی خدمت اقدس میں اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ آپؐ اس سال واپس چلے جائیں ورنہ تمام عرب ہمیں طعنے دیں گے اور ہماری بے عزتی ہوگی۔
زبانی کلامی یہ معاہدہ طے ہونے کے بعد آپؐ نے حضرت علی ؓ کو یہ معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔
انہوں نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد الرسول اﷲ اور سہیل بن عمرو کے مابین طے ہوا جس پر سہیل کو اعتراض ہوا تو حضورؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ اسے بدل دیں۔ اس پر علی المرتضیٰ نے کہا:''میں اپنے ہاتھ سے اﷲ کے رسول کا نام نہیں کاٹ سکتا۔''
چناں چہ حضور ﷺ نے خود محمد الرسول اﷲ کے الفاظ کاٹ کر محمد بن عبداﷲ کے الفاظ لکھوادیے۔ یہ صلح نامہ دس برس کے لیے طے ہوا، تاکہ اس دوران لوگ امن سے رہیں۔
اس صلح نامے کی چند خاص باتیں یہ تھیں:
جو محمدﷺ کی ذمہ داری میں جانا چاہے، جاسکتا ہے اور جو قریش کے عہد میں داخل ہونا چاہے، وہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ان میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمدؐ کے پا س آئے گا، وہ اسے اس کے ولی کے پاس واپس بھیج دیں گے۔
اس سال محمد ﷺ اپنے اصحاب کو لے کر مدینہ واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال مکے میں تین دن قیام کے لیے آجائیں۔ ان کے پاس مسافروں کے ہتھیار کے سوا اور کوئی ہتھیار نہ ہو گا۔ اس معاہدے پر صحابہ بہت افسردہ ہوئے کہ وہ خانۂ کعبہ کی زیارت کیے بغیر واپس جارہے ہیں۔ انہیں اس بات پر بہت دکھ تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر حضور ﷺ سے مل نہیں سکتا اور اگر بغیر اجازت آگیا تو حضورؐ اسے واپس لوٹا دیں گے۔ صلح نامے کے بعد ابو جندلؓ قریش مکہ کی قید سے بھاگ کر حضورؐ کے پاس آگئے مگر حضور ﷺ نے معاہدہ نہ توڑا اور انہیں واپس کردیا۔
صلح نامے کی ایک شرط کے مطابق بنو خزاعہ جو پہلے ہی حضور ﷺ کی طرف مائل تھے، اسی وقت آپ کی حمایت میں آگئے اور بنو بکر نے قریش کا دامن تھام لیا۔ اﷲ کے نبیؐ نے حدیبیہ میں دس روز قیام فرمایا جس کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے۔ اس دوران سورۂ فتح نازل ہوئی۔ اﷲ نے ا س صلح کو صلح مبین سے تعبیر کیا اس سورت کے نزول کے بعد صحابہ کا دلی رنج ختم ہو گیا۔
اس صلح سے پہلے مکہ اور مدینہ کے لوگ آپس میں نہیں مل سکتے تھے اور نہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اس طرح ہو سکتی تھی جس طرح بعد میں ہوئی۔ اس طرح یہ صلح فتح مبین قرار پائی۔ لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے سے اسلام اور مسلمانوں کی سچائی اور نیکی ظاہر ہوئی اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
صرف دو سال میں مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا۔ آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں کو بھی خطوط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی گئی جس سے اسلام کا نور عرب کے باہر بھی پھیلنے لگا۔ درحقیقت صلح حدیبیہ کا یہ معاہدہ ہی فتح مکہ کا سبب بنا اور پھر پورا عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔
ذی قعدہ چھ ہجری میں ہونے والے اس واقعے کو جو تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کے نام سے موسوم ہے۔
قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا اور حدیبیہ سے واپسی پر قرآن مجید کی یہ آیت ناز ل ہوئی:''بے شک! ہم نے (اے محمدؐ) آپؐ کے لیے تاب ناک اور کھلی فتح کا فیصلہ فرمایا۔'' (سورۃ الفتح ) سرکار دو عالم ﷺاور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کو مکے سے ہجرت کیے چھ سال ہوگئے تھے۔
اﷲ کے گھر کے حج کی تمنا سب کے دلوں میں شدت اختیار کرتی جا رہی تھی، کیوں کہ حج زمانۂ جاہلیت سے ہی عربوں کا شعار رہا ہے اور کسی دشمن کو بھی اس کی ادائیگی سے نہیں روکا جاتا تھا۔
پھر مسلمانوں کا تو اور بھی زیادہ حق تھا کہ وہ حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کریں۔ چناں چہ رسول کریم ﷺ نے مدینے کے آس پاس کی بستیوں میں حج پر جانے کا اعلان فرما دیا۔
چودہ سو صحابہ یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ ان سب نے آپؐ کے حکم پر مدینۂ منورہ سے ہی احرام باندھ لیے اور قربانی کے جانور بھی ساتھ لے لیے، سوائے نیام کی تلوار کے کوئی اور ہتھیار ساتھ نہ لیا اور روانہ ہو گئے۔
مگر پھر بھی قریش مکہ کو آپؐ کی آمد سے سخت تکلیف ہوئی اور انہوں نے یہ طے کیا کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کو مکے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ چناں چہ ایک دستہ خالد بن ولید کی قیادت میں بھیج دیا گیا۔ جب یہ خبر اﷲ کے نبی ﷺکو ملی تو آپؐ نے مکے کا عام راستہ چھوڑ دوسرا راستہ اختیار فرمایا اور حدیبیہ پہنچ کر قیام کرلیا۔
حدیبیہ مکہ کے بارہ میل مغرب کی طرف ایک کنواں تھا، اسی کے نام پر آبادی کو بھی حدیبیہ کہا جانے لگا۔ یہ مکے کو جدہ سے ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔
حدیبیہ میں سب سے پہلے قبیلہ بنو خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاضر ہوئے جن کے ذریعے حضور پاک ﷺ نے اپنے مقصد سفر سے قریش مکہ کو مطلع فرمایا۔ یہ پیغام سن کر قریش نے ایک سردار عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا جس نے نبی کریم ﷺ سے انتہائی گستاخی سے بات کی۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو غصہ آگیا۔
مگر رسول کریمﷺکے حکم پر خاموش رہے۔ اﷲ کے نبیؐ نے قریش مکہ کو کہلوایا کہ ہم صرف حج کرنے آئے ہیں، ہمیں یہ کام کرنے دیا جائے۔ لیکن قریش اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے اور مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ آخر نبی پاک ﷺ نے ایک مرتبہ پھر مفاہمت کی کوشش کی اور اس بار حضرت عثمان غنی ؓ کو ایلچی بنا کر بھیجا۔ حضرت عثمان ؓ نے قریش مکہ کو حضورؐ کا پیغام دیا تو وہ بولے:''اے عثمان! ہم محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو تو اجازت نہیں دیں گے، اگر تم چاہو تو خانہ کعبہ کی زیارت کر سکتے ہو۔''
اس پر عاشق رسول ﷺ، حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا:''میں اپنے حضورؐ کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتا۔''
اس جواب پر قریش بہت ناراض ہوئے، انہوں نے حضرت عثمان غنی ؓ کو پکڑ لیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو یہ اطلاع ملی کی حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا۔ اب تو مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر اﷲ کے محبوبﷺ نے ارشاد فرمایا:''ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک کہ مشرکین سے عثمان ؓ کے خو ن کا بدلہ نہ لے لیں۔'' اس کے بعد اﷲ کے رسول ﷺ ببول کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور تمام صحابہ نے آپؐ سے قصاص عثمان پر بیعت لی جسے قرآن نے بیعت رضوان کہا اور سورۃ فتح میں اس کا ذکر فرمایا۔
ارشاد ربانی ہے:''اﷲ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ (اے محمدؐ) درخت کے نیچے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔ پس اﷲ نے ان کے دلوں کا حال جان لیا، ان پر تسلی نازل فرمائی اور ان کو فتح عطا فرمائی۔''
حضور پاک ﷺ نے حضرت عثمان کی جانب سے اس طرح بیعت فرمائی کہ اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان غنی کا ہاتھ قرار دے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا:''وہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی حاجت میں گئے ہیں۔''
قریش نے جب اس بیعت کا حال سنا تو اپنے قاصد بھیج کر مفاہمت کی کوشش کی۔ انہوں نے سہیل بن عمرو عامری کو چند آدمیوں کے ہمراہ آپؐ کی خدمت اقدس میں اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ آپؐ اس سال واپس چلے جائیں ورنہ تمام عرب ہمیں طعنے دیں گے اور ہماری بے عزتی ہوگی۔
زبانی کلامی یہ معاہدہ طے ہونے کے بعد آپؐ نے حضرت علی ؓ کو یہ معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔
انہوں نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد الرسول اﷲ اور سہیل بن عمرو کے مابین طے ہوا جس پر سہیل کو اعتراض ہوا تو حضورؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ اسے بدل دیں۔ اس پر علی المرتضیٰ نے کہا:''میں اپنے ہاتھ سے اﷲ کے رسول کا نام نہیں کاٹ سکتا۔''
چناں چہ حضور ﷺ نے خود محمد الرسول اﷲ کے الفاظ کاٹ کر محمد بن عبداﷲ کے الفاظ لکھوادیے۔ یہ صلح نامہ دس برس کے لیے طے ہوا، تاکہ اس دوران لوگ امن سے رہیں۔
اس صلح نامے کی چند خاص باتیں یہ تھیں:
جو محمدﷺ کی ذمہ داری میں جانا چاہے، جاسکتا ہے اور جو قریش کے عہد میں داخل ہونا چاہے، وہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ان میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمدؐ کے پا س آئے گا، وہ اسے اس کے ولی کے پاس واپس بھیج دیں گے۔
اس سال محمد ﷺ اپنے اصحاب کو لے کر مدینہ واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال مکے میں تین دن قیام کے لیے آجائیں۔ ان کے پاس مسافروں کے ہتھیار کے سوا اور کوئی ہتھیار نہ ہو گا۔ اس معاہدے پر صحابہ بہت افسردہ ہوئے کہ وہ خانۂ کعبہ کی زیارت کیے بغیر واپس جارہے ہیں۔ انہیں اس بات پر بہت دکھ تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر حضور ﷺ سے مل نہیں سکتا اور اگر بغیر اجازت آگیا تو حضورؐ اسے واپس لوٹا دیں گے۔ صلح نامے کے بعد ابو جندلؓ قریش مکہ کی قید سے بھاگ کر حضورؐ کے پاس آگئے مگر حضور ﷺ نے معاہدہ نہ توڑا اور انہیں واپس کردیا۔
صلح نامے کی ایک شرط کے مطابق بنو خزاعہ جو پہلے ہی حضور ﷺ کی طرف مائل تھے، اسی وقت آپ کی حمایت میں آگئے اور بنو بکر نے قریش کا دامن تھام لیا۔ اﷲ کے نبیؐ نے حدیبیہ میں دس روز قیام فرمایا جس کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے۔ اس دوران سورۂ فتح نازل ہوئی۔ اﷲ نے ا س صلح کو صلح مبین سے تعبیر کیا اس سورت کے نزول کے بعد صحابہ کا دلی رنج ختم ہو گیا۔
اس صلح سے پہلے مکہ اور مدینہ کے لوگ آپس میں نہیں مل سکتے تھے اور نہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اس طرح ہو سکتی تھی جس طرح بعد میں ہوئی۔ اس طرح یہ صلح فتح مبین قرار پائی۔ لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے سے اسلام اور مسلمانوں کی سچائی اور نیکی ظاہر ہوئی اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
صرف دو سال میں مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا۔ آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں کو بھی خطوط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی گئی جس سے اسلام کا نور عرب کے باہر بھی پھیلنے لگا۔ درحقیقت صلح حدیبیہ کا یہ معاہدہ ہی فتح مکہ کا سبب بنا اور پھر پورا عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔