گزشتہ 14 سال میں 40 ہزار تارکین وطن نے روشن مستقبل کی تلاش میں موت کو گلے لگا لیااقوام متحدہ
2013 میں یورپ میں داخل ہونے والوں میں سے 63 فیصد کا تعلق شام، ایریٹیریا، افغانستان اور صومالیہ سے تھا، رپورٹ
موجودہ بگڑتی معاشی صورت حال نے غریب ممالک کے لوگوں کو روشن مستقبل کی تلاش میں امیر ممالک کی جانب غیر قانونی راستوں سے سفر کرنے پر مجبور کردیا ہے لیکن ان میں سے ہزاروں نئی زندگی کی تلاش میں سمندر کی موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں جب کہ عالمی ادارہ مہاجرین کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 14 سال میں 40 ہزار سے زائد تارکین وطن بہتر روزگار کی تلاش میں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے عالمی مہاجرین (آئی او ایم ) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دہائی تارکین وطن کے لیے ہلاکت خیز واقع ہوئی ہے اور روزگار کی تلاش میں سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں افراد موت کی منہ میں چلے گئے، رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریباً 22 ہزار افراد یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ 6 ہزار افراد امریکا اورمیکسیکو کی سرحد کے قریب جبکہ 3 ہزار افریقہ کے صحرا سے بحر ہند کے ذریعے سفر کے دوران ہلاک ہوئے،گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ کو ''قاتل سفر- ان کی تلاش جو ہرہجرت کےدوران اپنی زندگی کھوچکے'' کا نام دیا گیا ہے
آئی او ایم کے ڈائریکٹر جنرل ولیم لاسی سوئنگ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی اموات کی تعداد گننے کی بجائے ان کی زند گیوں کو بچانے کے لئے عالمی سطح پو کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف 2013 میں یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے 4 ہزار تارکین وطن موت کے منہ میں چلے گئے، ان میں اکثریت سمندر میں کشتیوں کے ڈوبنے سے رواں سال کے پہلے 9ماہ میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق صرف اس ماہ 500 افراد ہلاک ہوئے جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، تارکین میں سے اکثر تو اچھے مستقبل کی تلاش میں خواب اپنی آنکھوں میں سجانے گھر بار چھوڑتے ہیں اور کچھ اپنے ممالک میں جاری جنگوں سے تنگ آکر امن کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنی امیدوں کو دل میں لئے سمندر کی موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں، رپورٹ کے مطابق اس سال اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن میں زیادہ تعداد ایریٹیریا اور شام کے لوگوں کی ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق نے اپنی تازہ رپورٹ یورپی یونین پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے مہاجرین کے یورپ میں داخلے کو روکنے کے لئے سخت قوانین بنارکھے ہیں جن کے باعث لوگ غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک تارکین وطن کو بچانے کے لیے وہ کوششیں نہیں کر رہے جس کی ضرورت ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں یورپ میں داخل ہونے والوں میں سے 63 فیصد کا تعلق شام، ایریٹیریا، افغانستان اور صومالیہ سے تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے عالمی مہاجرین (آئی او ایم ) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دہائی تارکین وطن کے لیے ہلاکت خیز واقع ہوئی ہے اور روزگار کی تلاش میں سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں افراد موت کی منہ میں چلے گئے، رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریباً 22 ہزار افراد یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ 6 ہزار افراد امریکا اورمیکسیکو کی سرحد کے قریب جبکہ 3 ہزار افریقہ کے صحرا سے بحر ہند کے ذریعے سفر کے دوران ہلاک ہوئے،گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ کو ''قاتل سفر- ان کی تلاش جو ہرہجرت کےدوران اپنی زندگی کھوچکے'' کا نام دیا گیا ہے
آئی او ایم کے ڈائریکٹر جنرل ولیم لاسی سوئنگ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی اموات کی تعداد گننے کی بجائے ان کی زند گیوں کو بچانے کے لئے عالمی سطح پو کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف 2013 میں یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے 4 ہزار تارکین وطن موت کے منہ میں چلے گئے، ان میں اکثریت سمندر میں کشتیوں کے ڈوبنے سے رواں سال کے پہلے 9ماہ میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق صرف اس ماہ 500 افراد ہلاک ہوئے جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، تارکین میں سے اکثر تو اچھے مستقبل کی تلاش میں خواب اپنی آنکھوں میں سجانے گھر بار چھوڑتے ہیں اور کچھ اپنے ممالک میں جاری جنگوں سے تنگ آکر امن کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنی امیدوں کو دل میں لئے سمندر کی موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں، رپورٹ کے مطابق اس سال اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن میں زیادہ تعداد ایریٹیریا اور شام کے لوگوں کی ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق نے اپنی تازہ رپورٹ یورپی یونین پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے مہاجرین کے یورپ میں داخلے کو روکنے کے لئے سخت قوانین بنارکھے ہیں جن کے باعث لوگ غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک تارکین وطن کو بچانے کے لیے وہ کوششیں نہیں کر رہے جس کی ضرورت ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں یورپ میں داخل ہونے والوں میں سے 63 فیصد کا تعلق شام، ایریٹیریا، افغانستان اور صومالیہ سے تھا۔