اسکاٹش ریفرنڈم برطانوی مرکزیت کا جواز… 1
امپلانٹ کرنے کا یہ سیاسی عمل کسی ریفرنڈم کی صورت قابض قوتوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔
برطانیہ مرکزیت کو قائم رکھنے والی ویلز، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل اتحادی ریاست ہے جو اپنی طاقت کو قانونی حوالوں سے اپنے اتحادیوں میں تقسیم نہیں کرتی، حتیٰ کہ اس کی اتحادی ریاستیں اس طاقت کو جو علاقائی سطح پر بظاہر ان کو سونپی گئی ہے، اسے بھی مرکز کی شمولیت کے بنا علاقائی سطح پر کسی پالیسی سازی میں استعمال نہیں کر سکتیں۔ یہ ریاستیں پہلے بھی مونارک کی سلطانی طاقت کے زیر اثر تھیں اور بعد میں پارلیمانی اور ایگزیکٹو کی طاقت کے زیر اثر ہیں۔
مرکزی اختیارات پہلے بھی دارالحکومت لندن میں تھے اور اب بھی ویسٹ منسٹر میں ہیں، اگرچہ اسکاٹ لینڈ تعلیمی، قانونی اور مذہبی بنیادوں پر اپنے الگ اختیارات رکھتا ہے مگر دفاع کا شعبہ مکمل طور پر ہمیشہ سے انگلینڈ کے کنٹرول میں ہے اور گورنمنٹ مرکز ہی سے ان کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ الگ نہیں ہو گا، اس لیے ریفرنڈم کا نتیجہ کم از کم میرے لیے باعثِ حیرت نہیں تھا۔
ریفرنڈم کا آغاز ہوتے ہی بہت سے لوگ خوش تھے کہ اسکاٹ لینڈ برطانیہ سے الگ ہونے والا ہے اس خیال سے اسکاٹش تو خوش تھے ہی مگر ان کے علاوہ پوری دنیا میں لوگ اس خیال سے خوش ہو رہے تھے کہ اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی اُن کو بھی رنگ و نسل اور قومیتی بنیادوں پر اپنی اپنی ریاستوں سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوششوں کو ایک مضبوط جواز فراہم کرے گی، مگر ریفرنڈم کے نتیجے نے ایک طرف تو ایسے گروہوں کو مایوسی کا شکار کیا ہے، تو دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کی اشرافیہ کو بھی احساس دلایا ہے کہ زنجیریں پاؤں سے کٹ چکی ہیں مگر ان کی اپنی عوام کے اذہان کو سیاسی تجزیہ نگاروں اور اہلِ علم کی تحاریر کے ذریعے سوچ کی ایسی زنجیر میں جکڑ دیا گیا ہے جسے گرامشی کے تصورِ hegemony کے تحت سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ وہ طریقہ ہے جس میں غلبہ پانے کے لیے دوسروں کی سوچ کو مختلف تھیوریوں اور تحاریر کی مدد سے manipulate کر کے غالب قوتیں اور ریاستیں اپنے حق میں کر لیتی ہیں۔ انگلینڈ نے خصوصاََ ٹوری پارٹی کے دورِ اقتدار میں اسکاٹ لینڈ کے مسئلے پر ریفرنڈم کرا کر اپنی حکومت اور گرفت کو اسکاٹ لینڈ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی نظر میں جائز جواز بخشتے ہوئے مضبوط کر لیا ہے۔ یہ ریفرنڈم، درحقیقت برطانوی گورنمنٹ کی اندرونی و بیرونی مخالف سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے انگلینڈ پر ہونے والی تنقید کا راستہ محدود کرنے کی ایک بھر پور اور کامیاب حکمت عملی تھا، کیونکہ امریکا کے ساتھ دوسری ریاستوں کے اقلیتی گروہوں کو ان کی اپنی ریاستوں کے خلاف ابھارنے اور ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی برطانوی کوششوں پر پوری دنیا کی طرف سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے حوالے سے برطانیہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
جیسے ہی انگلینڈ دوسرے ممالک کے سیاسی تنازعات کے حوالے سے کسی تقسیم کی حمایت کرتا تو اس کو آئرلینڈ اور خصوصاََ اسکاٹ لینڈ کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ ریفرنڈم اس تنقید کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسکاٹش جو ایک مدت سے انگلینڈ کے چنگل سے خود کو الگ کرنے کی بھر پور کوششوں میں نظر آتے تھے، انھوں نے اس ریفرنڈم میں اپنی رضا کا اظہار نہیں کیا یا پھر اپنے ہی خلاف ووٹ انگلینڈ کے حق میں دیا ہے؟
دراصل انگلینڈ ایک مدت سے اس ریفرنڈم کی تیاری کر رہا تھا اس لیے انگلینڈ نے اسکاٹ لینڈ میں لوگوں کو امپلانٹ کرنا شروع کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں آج اسکاٹ لینڈ میں صرف اسکاٹش ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے برطانوی اور دوسرے ممالک کے لوگوں آباد ہو چکے ہیں۔ بھارت بھی اسی روش پر چلتے ہوئے پہلے تو پنجاب کے قریباََ 45 ہزار علیحدگی پسندوں کو ریاستی سطح پر قتل کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دو صوبوں میں تقسیم کر کے ہریانہ میں ہندووں کو آباد کر رہا ہے، اور کچھ یہی حال کشمیر میں ہے جہاں اسّی ہزار کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں اور ہندووں کا امپلانٹ کیا جا رہا ہے۔ امپلانٹ کرنے کا یہ سیاسی عمل کسی ریفرنڈم کی صورت قابض قوتوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔
بہرحال ایک طرف تو غیر ملکی برطانوی آبادی میں اس ریفرنڈم کے حوالے سے یہ خیال پختہ کیا گیا تھا کہ اگر اسکاٹ لینڈ انگلینڈ سے الگ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ اسکاٹش غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیں۔ دوسری طرف ایک طبقہ یہ بھی سوچ رکھتا تھا کہ اسکاٹ لینڈ اس وقت برطانیہ کی کالونی نہیں ہے یہ ایک اتحادی ریاست ہے۔ اس اتحاد اور انسلاک کو ختم کرنے کی کوششوں میں اہم کردار اسکاٹش سرمایہ داروں کا تھا۔ لہذا اس ریفرنڈم میں دس فیصد کے فرق میں بنیادی کردار ادا کرنے والے بہت سے عوامل شامل تھے جو انگلینڈ کی طرف سے در پردہ عمل آراء تھے۔ جن میں سرمایہ داروں کو کردار مرکزی تھا، یہ تنازعہ اسکاٹش سرمایہ داروں اور برطانوی سرمایہ داروں کے درمیان سیاسی مقابلے کی شکل میں تھا۔
ریفرنڈم ڈے سے پہلے اسکاٹ لینڈ کے دونوں مخالف نظریات کی حامی پارٹیوں کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے نظریات کا دفاع کریں کہ کیوں انگلینڈ کے ساتھ رہا جائے یا علیحدگی اختیار کی جائے، ان مباحث کا مقصد عوام کی رائے پر اثر انداز ہونا تھا جو برطانوی گورنمنٹ کی خواہش کی ترجمان اسکاٹش یونین کر رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں اسکاٹش سرمایہ داروں کی تمام تر کوششوں اور کامیابی کے مابین دس فی صدکے ''افتراق'' نے ایسی حدِ فاصل کھینچ دی ہے جس نے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا ہے، کیونکہ مقامی سرمایہ داری کا مقابلہ قومی سرمایہ داروں سے تھا اور قومی سرمایہ داروں کی رائے پر بین القوامی سرمایہ دار اثر انداز ہو رہے تھے۔
برطانیہ میں بھی سیاستدان اپنی گورنمنٹ کو بچانے کے لیے پالیسی سازی کے مرحلوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عوامی سروے، ریفرنڈم وغیرہ اس طرح سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ آخری نتیجہ گورنمنٹ کے حق میں ہی ہوتا ہے اس کی ایک مثال ٹونی بلیئر کے دور ِحکومت میں نیو لیبر گورنمنٹ کو فنڈز کے نام پر دی جانے والی وہ رشوت ہے جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور برطانیہ کی مشہور کمپنی سینس بری کے مالک لارڈ سینس بری نے لاکھوں پونڈ کی صورت میں اس لیے دی کہ گورنمنٹ جینیاتی فصل کی کاشت کے لیے برطانیہ کے کھیتوں کو استعمال کرنے کی اجازت باقاعدہ پالیسی کے ذریعے امریکی نیشنل کمپنی مونسینٹو کو دے۔ یہ مثال اس لیے دی ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں سیاسی عمل بہت شفاف ہے ان پر واضح ہو جائے کہ سیاست درحقیقت صرف معیشت کا مقابلہ بن چکی ہے اور مغرب میں مہذب انداز میں سیاسی بد عنوانی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
مرکزی اختیارات پہلے بھی دارالحکومت لندن میں تھے اور اب بھی ویسٹ منسٹر میں ہیں، اگرچہ اسکاٹ لینڈ تعلیمی، قانونی اور مذہبی بنیادوں پر اپنے الگ اختیارات رکھتا ہے مگر دفاع کا شعبہ مکمل طور پر ہمیشہ سے انگلینڈ کے کنٹرول میں ہے اور گورنمنٹ مرکز ہی سے ان کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ الگ نہیں ہو گا، اس لیے ریفرنڈم کا نتیجہ کم از کم میرے لیے باعثِ حیرت نہیں تھا۔
ریفرنڈم کا آغاز ہوتے ہی بہت سے لوگ خوش تھے کہ اسکاٹ لینڈ برطانیہ سے الگ ہونے والا ہے اس خیال سے اسکاٹش تو خوش تھے ہی مگر ان کے علاوہ پوری دنیا میں لوگ اس خیال سے خوش ہو رہے تھے کہ اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی اُن کو بھی رنگ و نسل اور قومیتی بنیادوں پر اپنی اپنی ریاستوں سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوششوں کو ایک مضبوط جواز فراہم کرے گی، مگر ریفرنڈم کے نتیجے نے ایک طرف تو ایسے گروہوں کو مایوسی کا شکار کیا ہے، تو دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کی اشرافیہ کو بھی احساس دلایا ہے کہ زنجیریں پاؤں سے کٹ چکی ہیں مگر ان کی اپنی عوام کے اذہان کو سیاسی تجزیہ نگاروں اور اہلِ علم کی تحاریر کے ذریعے سوچ کی ایسی زنجیر میں جکڑ دیا گیا ہے جسے گرامشی کے تصورِ hegemony کے تحت سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ وہ طریقہ ہے جس میں غلبہ پانے کے لیے دوسروں کی سوچ کو مختلف تھیوریوں اور تحاریر کی مدد سے manipulate کر کے غالب قوتیں اور ریاستیں اپنے حق میں کر لیتی ہیں۔ انگلینڈ نے خصوصاََ ٹوری پارٹی کے دورِ اقتدار میں اسکاٹ لینڈ کے مسئلے پر ریفرنڈم کرا کر اپنی حکومت اور گرفت کو اسکاٹ لینڈ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی نظر میں جائز جواز بخشتے ہوئے مضبوط کر لیا ہے۔ یہ ریفرنڈم، درحقیقت برطانوی گورنمنٹ کی اندرونی و بیرونی مخالف سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے انگلینڈ پر ہونے والی تنقید کا راستہ محدود کرنے کی ایک بھر پور اور کامیاب حکمت عملی تھا، کیونکہ امریکا کے ساتھ دوسری ریاستوں کے اقلیتی گروہوں کو ان کی اپنی ریاستوں کے خلاف ابھارنے اور ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی برطانوی کوششوں پر پوری دنیا کی طرف سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے حوالے سے برطانیہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
جیسے ہی انگلینڈ دوسرے ممالک کے سیاسی تنازعات کے حوالے سے کسی تقسیم کی حمایت کرتا تو اس کو آئرلینڈ اور خصوصاََ اسکاٹ لینڈ کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ ریفرنڈم اس تنقید کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسکاٹش جو ایک مدت سے انگلینڈ کے چنگل سے خود کو الگ کرنے کی بھر پور کوششوں میں نظر آتے تھے، انھوں نے اس ریفرنڈم میں اپنی رضا کا اظہار نہیں کیا یا پھر اپنے ہی خلاف ووٹ انگلینڈ کے حق میں دیا ہے؟
دراصل انگلینڈ ایک مدت سے اس ریفرنڈم کی تیاری کر رہا تھا اس لیے انگلینڈ نے اسکاٹ لینڈ میں لوگوں کو امپلانٹ کرنا شروع کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں آج اسکاٹ لینڈ میں صرف اسکاٹش ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے برطانوی اور دوسرے ممالک کے لوگوں آباد ہو چکے ہیں۔ بھارت بھی اسی روش پر چلتے ہوئے پہلے تو پنجاب کے قریباََ 45 ہزار علیحدگی پسندوں کو ریاستی سطح پر قتل کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دو صوبوں میں تقسیم کر کے ہریانہ میں ہندووں کو آباد کر رہا ہے، اور کچھ یہی حال کشمیر میں ہے جہاں اسّی ہزار کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں اور ہندووں کا امپلانٹ کیا جا رہا ہے۔ امپلانٹ کرنے کا یہ سیاسی عمل کسی ریفرنڈم کی صورت قابض قوتوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔
بہرحال ایک طرف تو غیر ملکی برطانوی آبادی میں اس ریفرنڈم کے حوالے سے یہ خیال پختہ کیا گیا تھا کہ اگر اسکاٹ لینڈ انگلینڈ سے الگ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ اسکاٹش غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیں۔ دوسری طرف ایک طبقہ یہ بھی سوچ رکھتا تھا کہ اسکاٹ لینڈ اس وقت برطانیہ کی کالونی نہیں ہے یہ ایک اتحادی ریاست ہے۔ اس اتحاد اور انسلاک کو ختم کرنے کی کوششوں میں اہم کردار اسکاٹش سرمایہ داروں کا تھا۔ لہذا اس ریفرنڈم میں دس فیصد کے فرق میں بنیادی کردار ادا کرنے والے بہت سے عوامل شامل تھے جو انگلینڈ کی طرف سے در پردہ عمل آراء تھے۔ جن میں سرمایہ داروں کو کردار مرکزی تھا، یہ تنازعہ اسکاٹش سرمایہ داروں اور برطانوی سرمایہ داروں کے درمیان سیاسی مقابلے کی شکل میں تھا۔
ریفرنڈم ڈے سے پہلے اسکاٹ لینڈ کے دونوں مخالف نظریات کی حامی پارٹیوں کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے نظریات کا دفاع کریں کہ کیوں انگلینڈ کے ساتھ رہا جائے یا علیحدگی اختیار کی جائے، ان مباحث کا مقصد عوام کی رائے پر اثر انداز ہونا تھا جو برطانوی گورنمنٹ کی خواہش کی ترجمان اسکاٹش یونین کر رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں اسکاٹش سرمایہ داروں کی تمام تر کوششوں اور کامیابی کے مابین دس فی صدکے ''افتراق'' نے ایسی حدِ فاصل کھینچ دی ہے جس نے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا ہے، کیونکہ مقامی سرمایہ داری کا مقابلہ قومی سرمایہ داروں سے تھا اور قومی سرمایہ داروں کی رائے پر بین القوامی سرمایہ دار اثر انداز ہو رہے تھے۔
برطانیہ میں بھی سیاستدان اپنی گورنمنٹ کو بچانے کے لیے پالیسی سازی کے مرحلوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عوامی سروے، ریفرنڈم وغیرہ اس طرح سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ آخری نتیجہ گورنمنٹ کے حق میں ہی ہوتا ہے اس کی ایک مثال ٹونی بلیئر کے دور ِحکومت میں نیو لیبر گورنمنٹ کو فنڈز کے نام پر دی جانے والی وہ رشوت ہے جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور برطانیہ کی مشہور کمپنی سینس بری کے مالک لارڈ سینس بری نے لاکھوں پونڈ کی صورت میں اس لیے دی کہ گورنمنٹ جینیاتی فصل کی کاشت کے لیے برطانیہ کے کھیتوں کو استعمال کرنے کی اجازت باقاعدہ پالیسی کے ذریعے امریکی نیشنل کمپنی مونسینٹو کو دے۔ یہ مثال اس لیے دی ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں سیاسی عمل بہت شفاف ہے ان پر واضح ہو جائے کہ سیاست درحقیقت صرف معیشت کا مقابلہ بن چکی ہے اور مغرب میں مہذب انداز میں سیاسی بد عنوانی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)