نیا آئینی اور معاشی ڈھانچہ اور عوام
آج پورا ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار کر دیا گیا ہے، عوام کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
قانون قدرت ہے اگر مکئی بوئی جائے تو مکئی ہی پیدا ہوتی ہے۔ 1947ء سے لے کر ستمبر 2014ء تک ہر سال حکمرانوں نے دعوے کیے کہ ان کی حکومت عوام کی خوشحالی کو بحال کرے گی۔ آئین اور جمہوریت کو تقدس کے درجے پر لے جا کر عوام کو باور کرایا گیا ہے کہ اگر آئین، جمہوریت نہ رہے تو خدانخواستہ پتہ نہیں کیا غضب ڈھے جائے گا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کلچر میں اشرافیہ یا ٹرائیکا عوام کو دھوکے میں رکھ کر اقتدار کے ذریعے اختیارات حاصل کر کے ملکی تمام ''ریاستی وسائل'' کو اپنے طبقے ٹرائیکا کے لیے محفوظ کر لیتی ہے۔
پاکستانی ٹرائیکا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اس کی اتحادی پارٹیوں کے تمام لیڈر سرمایہ دار، جاگیردار ہیں۔ یہ تمام آج تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ دونوں پارٹیوں نے حکمرانوں کی کرپشن اور الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک منظم انداز میں عوام کو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ طاہر القادری نے براہ راست ریاستی وسائل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ نہ ہی عمران خان نے اس پر بات کی ہے۔ دراصل آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ''ریاستی پیداواری وسائل کو عوام کی ملکیت قرار دیا جائے۔'' اب بھی عوام کے قدرتی حق کی معاشی و سیاسی نفی مسلسل کی جا رہی ہے۔
ریاستی معاشی وسائل ہی ٹرائیکا اور عوام کے درمیان کشمکش کی وجہ ہیں ایک طرف چند مٹھی بھر لوگ ٹرائیکا ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور دوسری طرف ''غریب عوام'' ریاستی وسائل سے محروم ہیں۔ تمام پارٹیاں آج اصل حقائق کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر رہی ہیں۔ خواہ تحریک انصاف، عوامی تحریک، نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر اعلیٰ اتحادی پارٹیاں ہوں۔ آج افواج پاکستان ضرب عضب کی وجہ سے محاذ پر لڑ رہی ہیں۔ یہ دہشت گردی کیوں آج مسئلہ بن کر سامنے آ گئی ہے؟ اس میں سول اور سیاسی حکمرانوں کی مالیاتی لوٹ مار کی پالیسیوں کا زیادہ دخل ہے۔
آج افواج پاکستان، عوام اور ریاست کے درمیان معاشی اور قانونی رشتوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکمران دیگر سیاسی پارٹیوں اور تحریک انصاف، عوام تحریک کسی کے پاس سوائے جذباتی تقریروں، نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تمام سیاسی گروپ آئین و جمہوریت کو مقدس قرار دے کر عوام سے مزید معاشی قربانی مانگتے ہیں۔ آئین، جمہوریت اور عوامی بھاری مینڈیٹ رکھنے والوں کا چہرہ عوام کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ تمام لوگ حکمرانی کی کشتی میں سوار ہیں۔ ان کی مالیاتی دھاندلیوں کو دیکھیں، 1947ء سے لے کر ہر حکومت نے عوام کو دھوکا دیا۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14ء سے یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔
مالی سال 2012-13ء میں حکومت نے عوام سے ٹیکس ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ60 لاکھ روپے وصول کیے۔ حکومت نے اخراجات کی مد میں 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ دکھائے۔ اور خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا۔ حکومت نے دوسرے ذرایع سے جو آمدنی حاصل کی تھی اگر اسے بھی لیا جائے تو بجٹ کی مالیاتی دھاندلی، گھپلے کی شکل بالکل بدل جاتی ہے۔ اسی کتاب کے صفحے 119 پر حکومت نے Long Term قرضہ سامراجی اداروں سے لیا۔ مالی سال 2012-13ء میں حکومت نے کل قرضہ 2643.0 ملین ڈالر حاصل کیا۔
اس میں سے سود و اصل زر کی مد میں بروقت 2612.0 ملین ڈالر کٹوا کر باقی نقد 31.0 ملین ڈالر وصول کیے۔ جن کی پاکستانی روپے میں مالیت 12 ارب 99 کروڑ 85 لاکھ43 ہزار روپے بنتی ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 111 پر Worker's Remittance زرمبادلہ مالی سال 2012-13ء میں 13921.86 ملین ڈالر حکومت نے لیا جس کی مالیت 13 کھرب 46 ارب 62 کروڑ 25 لاکھ 37 ہزار روپے تھی اور جب دونوں مدوں (بیرونی قرضہ اور زر مبادلہ) کو ریونیو میں جمع کیا جاتا ہے تو ریونیو 43 کھرب 32 ارب 5 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار روپے ہوتا ہے۔
جب حکومتی اخراجات میں سے اس ریونیو کو خارج کر دیا جائے تو پھر بجٹ خسارہ 4 کھرب 84 ارب 24 کروڑ 29 لاکھ روپے رہ جاتا ہے اور دوسری حکومت کی مالیاتی دھاندلی متذکرہ کتاب کے صفحے 61 پر دیکھیں حکومت نے غیر ملکی اور ملکی سود ادائیگی کے لیے 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ روپے جاری اخراجات Current Expenditure میں دکھائے ہیں۔ اب یہ کتنا بڑا فراڈ ہے جب حکمرانوں نے غیر ملکی قرض لیتے وقت غیر ملکی سود و اصل زر 2612.0 ملین ڈالر بروقت کٹوا دیے تھے جو پاکستانی 2 کھرب 52 ارب 65 کروڑ 14 لاکھ 46 ہزار روپے بنتے ہیں۔
اس طرح عوام کو دھوکا دیا گیا۔ حکومت نے ملکی ادائیگی کیا کی ہو گی۔ کیونکہ نوٹ چھاپنے والے بھی یہ خود اور لینے والے بھی خود ہیں۔ تیسری طرف حکومت نے بجٹ خسارے کو جواز بنا کر متذکرہ کتاب کے 132 صفحے پر ملکی بینک سے 18 کھرب 80 ارب روپے حاصل کیے۔ اگر اصل بجٹ خسارے کو اس قرضے میں سے نکال دیا جائے تو باقی 13 کھرب 95 ارب 75 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار 2 سو روپے بچ جاتے ہیں۔ اور اگر عوام کو دھوکہ دے کر ملکی اور غیرملکی سود ادائیگی کے نام پر اسی متذکرہ کتاب کے صفحے 60 پر 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ روپے دکھائے گئے ہیں۔
یہ رقم بھی ملکی قرض سے بچنے والی رقم میں شامل کر لی جائے تو کل رقم 24 کھرب ایک ارب 55 کروڑ 50 لاکھ 80 ہزار روپے ہو جاتی ہے۔ حکومت نے ریونیو کے تقریبا برابر مالیاتی گھپلا کیا۔ اگر اسے ڈالر میں تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ 24 ارب 82 کروڑ 81 لاکھ 26 ہزار ڈالر ہوتے ہیں۔ حکمران ہر سال غیر ملکی Long Term مہنگے قرضے لیتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی قرض کی سود و اصل زر بروقت ادائیگی کرتے ہیں اور بجٹ میں عوام سے سود اصل زر کی وصولی کرتے ہیں ملکی بینک سے مالی سال 2009ء میں حکمرانوں نے 5 کھرب 86 ارب روپے، 2010ء میں 7 کھرب 99 ارب روپے، 2011ء میں 13 کھرب 65 ارب روپے، 2012-13ء میں 18 کھرب 80 ارب روپے کے ملکی قرضے لے کر دھاندلی کی گئی۔
آج پورا ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ عوام کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ٹرائیکا کے پاس افراط زر اور عوام کے پاس ''قلت زر'' بڑھتا جا رہا ہے۔ آج افواج پاکستان کو سوچنا ہو گا کہ موجودہ مالیاتی سسٹم میں پاکستان بچ سکے گا؟ حکمرانوں کے چہرے بدلنے سے کیا ملک کی سلامتی اور عوام میں خوشحالی آ سکے گی۔ مالی سال 2012-13ء میں افواج پاکستان کا بجٹ 5 کھرب 40 ارب59 کروڑ 50 لاکھ روپے تھا اور حکمرانوں نے اسی مدت کے دوران 24 کھرب ایک ارب 55 کروڑ 50 لاکھ 80 ہزار روپے کی کرپشن کی تھی۔ کیا آج عوام اور ریاست کے درمیان ''آئینی اور معاشی'' نئے معاہدے کی ضرورت نہیں۔ عوام کو ریاستی معاشی وسائل کا مالک تسلیم کرنا ہی ملک کی آج سلامتی سے مشروط ہے۔
کسی بھی ملک میں عوام کو ان کے بنیادی معاشی حقوق سے بے دخل کر کے حکمران عوامی معاشی آزادی کے انقلاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن 14 افراد کو براہ راست قتل کیا گیا۔ اور دہشت گردی پورے ملک میں کروا کر عوام میں خوف پیدا کرنے کی حکمرانی ٹرائیکی پالیسیاں ہیں۔
حکمران کرسی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ جمہوریت اور آئین کی بات کرتے ہیں۔ یہ ٹرائیکی آئین اور جمہوریت عوام کو معاشی آزادی کا حق نہیں دے سکتے۔ یہ بے ثمر آئین اور بے ثمر جمہوریت عوام کی قوت خرید میں کمی اور قدرت کے دیے گئے معاشی حقوق سے عوام کو محروم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ طرز جمہوریت جس میں جاگیردار، سرمایہ کار روپے خرچ کر کے سیٹیں جیتیں اور پھر ہر ممبر اسمبلی میں فروخت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اس سسٹم میں اصلاح کر کے عوام و ملک میں معاشی انقلاب لا سکیں گے؟ کسی عمارت کی مرمت اور رنگ روغن سے عمارت کا ڈھانچہ اور بنیاد تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اصل ضرورت ہے کہ ریاستی سطح پر معاشی اور آئینی مکمل ڈھانچے کو عوام کے اختیار اور عوام کا تابع کر دیا جائے۔ تا کہ غریب عوام اپنے مقدر کے خود مالک بن کر اپنی ضرورت کے مطابق معاشی پلاننگ کریں۔ عوام اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشحالی کی نفی نہیں کریں گے۔ جو آج سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ٹرائیکا عوام کی خوشحالی کی نفی کر رہی ہے اس لیے عوام کے لیے معاشی و آئینی ڈھانچہ بدلا جائے۔
پاکستانی ٹرائیکا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اس کی اتحادی پارٹیوں کے تمام لیڈر سرمایہ دار، جاگیردار ہیں۔ یہ تمام آج تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ دونوں پارٹیوں نے حکمرانوں کی کرپشن اور الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک منظم انداز میں عوام کو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ طاہر القادری نے براہ راست ریاستی وسائل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ نہ ہی عمران خان نے اس پر بات کی ہے۔ دراصل آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ''ریاستی پیداواری وسائل کو عوام کی ملکیت قرار دیا جائے۔'' اب بھی عوام کے قدرتی حق کی معاشی و سیاسی نفی مسلسل کی جا رہی ہے۔
ریاستی معاشی وسائل ہی ٹرائیکا اور عوام کے درمیان کشمکش کی وجہ ہیں ایک طرف چند مٹھی بھر لوگ ٹرائیکا ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور دوسری طرف ''غریب عوام'' ریاستی وسائل سے محروم ہیں۔ تمام پارٹیاں آج اصل حقائق کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر رہی ہیں۔ خواہ تحریک انصاف، عوامی تحریک، نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر اعلیٰ اتحادی پارٹیاں ہوں۔ آج افواج پاکستان ضرب عضب کی وجہ سے محاذ پر لڑ رہی ہیں۔ یہ دہشت گردی کیوں آج مسئلہ بن کر سامنے آ گئی ہے؟ اس میں سول اور سیاسی حکمرانوں کی مالیاتی لوٹ مار کی پالیسیوں کا زیادہ دخل ہے۔
آج افواج پاکستان، عوام اور ریاست کے درمیان معاشی اور قانونی رشتوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکمران دیگر سیاسی پارٹیوں اور تحریک انصاف، عوام تحریک کسی کے پاس سوائے جذباتی تقریروں، نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تمام سیاسی گروپ آئین و جمہوریت کو مقدس قرار دے کر عوام سے مزید معاشی قربانی مانگتے ہیں۔ آئین، جمہوریت اور عوامی بھاری مینڈیٹ رکھنے والوں کا چہرہ عوام کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ تمام لوگ حکمرانی کی کشتی میں سوار ہیں۔ ان کی مالیاتی دھاندلیوں کو دیکھیں، 1947ء سے لے کر ہر حکومت نے عوام کو دھوکا دیا۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14ء سے یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔
مالی سال 2012-13ء میں حکومت نے عوام سے ٹیکس ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ60 لاکھ روپے وصول کیے۔ حکومت نے اخراجات کی مد میں 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ دکھائے۔ اور خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا۔ حکومت نے دوسرے ذرایع سے جو آمدنی حاصل کی تھی اگر اسے بھی لیا جائے تو بجٹ کی مالیاتی دھاندلی، گھپلے کی شکل بالکل بدل جاتی ہے۔ اسی کتاب کے صفحے 119 پر حکومت نے Long Term قرضہ سامراجی اداروں سے لیا۔ مالی سال 2012-13ء میں حکومت نے کل قرضہ 2643.0 ملین ڈالر حاصل کیا۔
اس میں سے سود و اصل زر کی مد میں بروقت 2612.0 ملین ڈالر کٹوا کر باقی نقد 31.0 ملین ڈالر وصول کیے۔ جن کی پاکستانی روپے میں مالیت 12 ارب 99 کروڑ 85 لاکھ43 ہزار روپے بنتی ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 111 پر Worker's Remittance زرمبادلہ مالی سال 2012-13ء میں 13921.86 ملین ڈالر حکومت نے لیا جس کی مالیت 13 کھرب 46 ارب 62 کروڑ 25 لاکھ 37 ہزار روپے تھی اور جب دونوں مدوں (بیرونی قرضہ اور زر مبادلہ) کو ریونیو میں جمع کیا جاتا ہے تو ریونیو 43 کھرب 32 ارب 5 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار روپے ہوتا ہے۔
جب حکومتی اخراجات میں سے اس ریونیو کو خارج کر دیا جائے تو پھر بجٹ خسارہ 4 کھرب 84 ارب 24 کروڑ 29 لاکھ روپے رہ جاتا ہے اور دوسری حکومت کی مالیاتی دھاندلی متذکرہ کتاب کے صفحے 61 پر دیکھیں حکومت نے غیر ملکی اور ملکی سود ادائیگی کے لیے 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ روپے جاری اخراجات Current Expenditure میں دکھائے ہیں۔ اب یہ کتنا بڑا فراڈ ہے جب حکمرانوں نے غیر ملکی قرض لیتے وقت غیر ملکی سود و اصل زر 2612.0 ملین ڈالر بروقت کٹوا دیے تھے جو پاکستانی 2 کھرب 52 ارب 65 کروڑ 14 لاکھ 46 ہزار روپے بنتے ہیں۔
اس طرح عوام کو دھوکا دیا گیا۔ حکومت نے ملکی ادائیگی کیا کی ہو گی۔ کیونکہ نوٹ چھاپنے والے بھی یہ خود اور لینے والے بھی خود ہیں۔ تیسری طرف حکومت نے بجٹ خسارے کو جواز بنا کر متذکرہ کتاب کے 132 صفحے پر ملکی بینک سے 18 کھرب 80 ارب روپے حاصل کیے۔ اگر اصل بجٹ خسارے کو اس قرضے میں سے نکال دیا جائے تو باقی 13 کھرب 95 ارب 75 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار 2 سو روپے بچ جاتے ہیں۔ اور اگر عوام کو دھوکہ دے کر ملکی اور غیرملکی سود ادائیگی کے نام پر اسی متذکرہ کتاب کے صفحے 60 پر 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ روپے دکھائے گئے ہیں۔
یہ رقم بھی ملکی قرض سے بچنے والی رقم میں شامل کر لی جائے تو کل رقم 24 کھرب ایک ارب 55 کروڑ 50 لاکھ 80 ہزار روپے ہو جاتی ہے۔ حکومت نے ریونیو کے تقریبا برابر مالیاتی گھپلا کیا۔ اگر اسے ڈالر میں تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ 24 ارب 82 کروڑ 81 لاکھ 26 ہزار ڈالر ہوتے ہیں۔ حکمران ہر سال غیر ملکی Long Term مہنگے قرضے لیتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی قرض کی سود و اصل زر بروقت ادائیگی کرتے ہیں اور بجٹ میں عوام سے سود اصل زر کی وصولی کرتے ہیں ملکی بینک سے مالی سال 2009ء میں حکمرانوں نے 5 کھرب 86 ارب روپے، 2010ء میں 7 کھرب 99 ارب روپے، 2011ء میں 13 کھرب 65 ارب روپے، 2012-13ء میں 18 کھرب 80 ارب روپے کے ملکی قرضے لے کر دھاندلی کی گئی۔
آج پورا ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ عوام کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ٹرائیکا کے پاس افراط زر اور عوام کے پاس ''قلت زر'' بڑھتا جا رہا ہے۔ آج افواج پاکستان کو سوچنا ہو گا کہ موجودہ مالیاتی سسٹم میں پاکستان بچ سکے گا؟ حکمرانوں کے چہرے بدلنے سے کیا ملک کی سلامتی اور عوام میں خوشحالی آ سکے گی۔ مالی سال 2012-13ء میں افواج پاکستان کا بجٹ 5 کھرب 40 ارب59 کروڑ 50 لاکھ روپے تھا اور حکمرانوں نے اسی مدت کے دوران 24 کھرب ایک ارب 55 کروڑ 50 لاکھ 80 ہزار روپے کی کرپشن کی تھی۔ کیا آج عوام اور ریاست کے درمیان ''آئینی اور معاشی'' نئے معاہدے کی ضرورت نہیں۔ عوام کو ریاستی معاشی وسائل کا مالک تسلیم کرنا ہی ملک کی آج سلامتی سے مشروط ہے۔
کسی بھی ملک میں عوام کو ان کے بنیادی معاشی حقوق سے بے دخل کر کے حکمران عوامی معاشی آزادی کے انقلاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن 14 افراد کو براہ راست قتل کیا گیا۔ اور دہشت گردی پورے ملک میں کروا کر عوام میں خوف پیدا کرنے کی حکمرانی ٹرائیکی پالیسیاں ہیں۔
حکمران کرسی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ جمہوریت اور آئین کی بات کرتے ہیں۔ یہ ٹرائیکی آئین اور جمہوریت عوام کو معاشی آزادی کا حق نہیں دے سکتے۔ یہ بے ثمر آئین اور بے ثمر جمہوریت عوام کی قوت خرید میں کمی اور قدرت کے دیے گئے معاشی حقوق سے عوام کو محروم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ طرز جمہوریت جس میں جاگیردار، سرمایہ کار روپے خرچ کر کے سیٹیں جیتیں اور پھر ہر ممبر اسمبلی میں فروخت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اس سسٹم میں اصلاح کر کے عوام و ملک میں معاشی انقلاب لا سکیں گے؟ کسی عمارت کی مرمت اور رنگ روغن سے عمارت کا ڈھانچہ اور بنیاد تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اصل ضرورت ہے کہ ریاستی سطح پر معاشی اور آئینی مکمل ڈھانچے کو عوام کے اختیار اور عوام کا تابع کر دیا جائے۔ تا کہ غریب عوام اپنے مقدر کے خود مالک بن کر اپنی ضرورت کے مطابق معاشی پلاننگ کریں۔ عوام اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشحالی کی نفی نہیں کریں گے۔ جو آج سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ٹرائیکا عوام کی خوشحالی کی نفی کر رہی ہے اس لیے عوام کے لیے معاشی و آئینی ڈھانچہ بدلا جائے۔