صدر پیوٹن کا دورہ اور پاکستان کی سیاست
راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کے عہدے پر ٹکے رہنے کے لیے مزید ہفتے ضرور مل گئے ہیں
ISLAMABAD:
آزاد اور بے باک میڈیا کے اس موسم میں بھی میں اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنے پر مجبور رہتا ہوں۔
کسی کی دل جوئی یا میرا خرچہ پانی اُٹھانے والے سرپرستوں کے مفادات کے تحفظ سے کہیں زیادہ میرا کچھ معاملات پر محتاط رہنا محض اس وجہ سے ہے کہ برسوں اس شعبے میں جھک مارنے کے بعد میں جان چکا ہوں کہ کونسی باتیں ہماری اشرافیہ اور ریاست کے کرتا دھرتا ہضم کر ہی نہیں سکتے۔
پھر بھی بچ بچا کر اگست کے پہلے ہفتے سے ان کالموں میں بتانا شروع ہو گیا تھا کہ ''درمیانی راستہ'' نکالنے کی باتیں کیسے لوگوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔ مجھے اب بھی وہ راستہ نکلتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مگر راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کے عہدے پر ٹکے رہنے کے لیے مزید ہفتے ضرور مل گئے ہیں۔ 5 اکتوبر کے بعد سے ایک اور قصہ چل نکلے گا۔ انتظار کیے لیتے ہیں۔
''درمیانی راستہ'' ڈھونڈنے کے تناظر میں یہ بات بھی میں نے اسی کالم میں دی تھی کہ اسلام آباد کے وہ لوگ جو ''باخبر'' جانے جاتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے پائے جا رہے ہیں کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو بھی اس ملک میں کچھ سیاسی استحکام دکھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
بڑی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت کے وزیر اعظم چاہے ننکانہ صاحب متھا ٹیکنے کے بہانے ہی سہی اس سال نومبر میں پاکستان تشریف لائیں۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے اپنی 80 ویں سالگرہ منائی ہے۔ دم کا تو ویسے بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں ہر انسان کو اپنا بچپن بہت یاد آنا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ بندوبست آخرت کے لیے بھی کرنے کی خواہش بڑی شدید ہو جاتی ہے۔
منموہن سنگھ کے دورے سے قطع نظر روسی صدر پیوٹن کی اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں پاکستان آمد کا بھی بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ روسی صدر کے اس دورے کو ممکن بنانے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال سے بڑی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بابوئوں نے اس پر اتنا زور نہیں لگایا جس کی سیاسی قیادت اُمید لگائے بیٹھی تھی۔
''اصل کام'' ان ہی لوگوں نے کیا جو ایسے موقعوں پر کام آیا کرتے ہیں۔ ویسے بھی روسی صدر کو پاکستان بلوا کر امریکا کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پاکستان اپنے خطے میں یکسر تنہا نہیں ہے۔ چین تو ہمارا برسوں سے یار ہے۔ ایران سے تعلقات بہت گہرے نہ سہی مناسب سطح پر قائم ضرور ہیں اور ان میں بہتری کے بڑے امکانات ہیں۔
افغانستان کے حامد کرزئی ہماری تمام تر محبتوں کے باوجود ابھی ''گھٹ کر جپھی'' تو نہیں ڈال رہے۔ کبھی کبھار بگڑ بھی جاتے ہیں اور اپنے ملک میں پاکستان کے اُردو اخبارات کا داخلہ ممنوع کر دیتے ہیں۔ مگر وہ اور ان کی حکومت کے بہت سارے طاقتور لوگ پاکستان سے مخاصمانہ قطع تعلق بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے میں روسی صدر کا ہمارے ہاں آنا ہمارے غیر ملکوں سے تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا کر سکتا ہے۔
مقصد روس کو ساتھ ملا کر امریکا کو للکارنا نہیں ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالامال اس ملک کے نو دولتیے اب غیر ملکی منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ انھیں پاکستان میں اس ضمن میں کافی امکانات دکھائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان اسٹیل ملز ہی کو لے لیجیے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔
روسیوں نے ضیاء الحق کی سخت گیر افغانستان پالیسی کے باوجود اس منصوبے میں اپنا تعاون جاری رکھا۔ آج کل اس اسٹیل ملز کا بُرا حال ہے۔ پیوٹن کو تھوڑی سی محنت کے بعد سمجھایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں خاندانوں کو روز گار فراہم کرنے والی یہ ملز اگر روسی سرمایہ اور جدید ٹیکنالوجی سے حیات نو حاصل کر سکے تو پاکستانیوں کی نظر میں ان کی واہ واہ ہو جائے گی۔
روسی ایک زمانے میں ایران سے پائپ لائن کے ذریعے تیل و گیس کو پاکستان لانے اور پھر وہاں سے بھارت بھیجنے کے منصوبے میں بڑی دلچسپی لے رہے تھے۔ مشرف کا خود کو ''جگری یار'' کہنے والا بش مگر اس سے خوش نہ تھا۔ اس نے بھارتی حکومت کو ایٹمی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے میں تعاون کی یقین دہانیاں کرائیں۔
بھارتی اپنے ملک میں آنے والے تیل و گیس کی ''قیمت مناسب'' نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اس منصوبے سے الگ ہو گئے۔ مگر ایران میں تیل اب بھی موجود ہے اور گیس کے بے تحاشہ ذخائر بھی اور اس ملک کو نئی منڈیوں کی آنے والے کئی برسوں تک ضرورت اپنی جگہ موجود رہے گی۔
طویل المدت منصوبوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے روسیوں کو اس بات پر بھی آہستہ آہستہ قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کا تعاون فراہم کرے جو اس نے کئی سالوں سے بھارت کے لیے جاری رکھا ہوا ہے۔ سوچی سمجھی پیش قدمیوں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی بات یہ اعتماد پیدا کرنا کہ پاکستان اور روس ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے دیر پا تعاون اور دوستی کی راہوں پر چل سکتے ہیں۔
مجھے لیکن ابھی بھی خدشہ یہ لاحق ہے کہ بہت ساری قوتیں اور عناصر ہیں جو پاکستان اور روس میں اعتماد کے رشتے پیدا کرنے میں ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے۔ بدقسمتی سے جس روز پاکستان کے صدر کو روس جانا تھا اسی روز اتفاق سے یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار پا کر گھر بھیج دیے گئے۔
بدھ کے روز کم از کم ایک بات تو یقینی ہوئی کہ راجہ پرویز اشرف 2 اکتوبر کو روسی صدر سے بطور وزیر اعظم پاکستان ملاقات کرنے کے بعد سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کر سکیں گے۔ ہماری وزارت خارجہ میں بیٹھے امریکا کے چند پیاروں نے بڑی مکاری سے صدر زرداری کا نیویارک والا دورہ اِن دنوں رکھ دیا تھا جب روسی صدر یہاں آنا چاہ رہے تھے۔
ایوان صدر نے بڑی ہوشیار سے یہ چال ناکام بنا دی۔ اب بدقسمتی سے ''یوم عشق رسول ﷺ'' کے نام پر گزشتہ جمعہ کو پشاور سے کراچی تک ہونے والے واقعات نے روسی صدر کے دفتر میں بیٹھے چند افراد کو پریشان کر دیا ہے۔
پروگرام یہ تھا کہ روسی صدر پاکستان آئیں تو دو دن اور ایک رات ٹھہریں۔ جمعہ کے واقعات کے بعد ''سکیورٹی'' کے نام پر صدر پیوٹن کو بتایا جا رہا ہے کہ خیریت اسی میں ہے کہ موصوف صبح پاکستان پہنچ کر سورج غروب ہونے سے چند لمحے پہلے واپس پرواز کر جائیں۔ روسی صدر کے پاکستان میں قیام کے لمحوں کو آٹھ سے دس گھنٹوں تک محدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
میری بڑی خواہش ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں کو یکجا ہوکر روس کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان میں ایک رات گزار کر وہ ہمارے ملک کے بارے میں ''غیر محفوظ'' ہونے کے تاثر کو بڑی شدت سے رد کر سکیں گے اور ان کا محض ایک رات ہمارے ہاں ٹھہرنا ہی ان کی طرف سے دوستی کا ایک ناقابل فراموش تحفہ سمجھا جائے گا۔
آزاد اور بے باک میڈیا کے اس موسم میں بھی میں اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنے پر مجبور رہتا ہوں۔
کسی کی دل جوئی یا میرا خرچہ پانی اُٹھانے والے سرپرستوں کے مفادات کے تحفظ سے کہیں زیادہ میرا کچھ معاملات پر محتاط رہنا محض اس وجہ سے ہے کہ برسوں اس شعبے میں جھک مارنے کے بعد میں جان چکا ہوں کہ کونسی باتیں ہماری اشرافیہ اور ریاست کے کرتا دھرتا ہضم کر ہی نہیں سکتے۔
پھر بھی بچ بچا کر اگست کے پہلے ہفتے سے ان کالموں میں بتانا شروع ہو گیا تھا کہ ''درمیانی راستہ'' نکالنے کی باتیں کیسے لوگوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔ مجھے اب بھی وہ راستہ نکلتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مگر راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کے عہدے پر ٹکے رہنے کے لیے مزید ہفتے ضرور مل گئے ہیں۔ 5 اکتوبر کے بعد سے ایک اور قصہ چل نکلے گا۔ انتظار کیے لیتے ہیں۔
''درمیانی راستہ'' ڈھونڈنے کے تناظر میں یہ بات بھی میں نے اسی کالم میں دی تھی کہ اسلام آباد کے وہ لوگ جو ''باخبر'' جانے جاتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے پائے جا رہے ہیں کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو بھی اس ملک میں کچھ سیاسی استحکام دکھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
بڑی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت کے وزیر اعظم چاہے ننکانہ صاحب متھا ٹیکنے کے بہانے ہی سہی اس سال نومبر میں پاکستان تشریف لائیں۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے اپنی 80 ویں سالگرہ منائی ہے۔ دم کا تو ویسے بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں ہر انسان کو اپنا بچپن بہت یاد آنا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ بندوبست آخرت کے لیے بھی کرنے کی خواہش بڑی شدید ہو جاتی ہے۔
منموہن سنگھ کے دورے سے قطع نظر روسی صدر پیوٹن کی اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں پاکستان آمد کا بھی بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ روسی صدر کے اس دورے کو ممکن بنانے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال سے بڑی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بابوئوں نے اس پر اتنا زور نہیں لگایا جس کی سیاسی قیادت اُمید لگائے بیٹھی تھی۔
''اصل کام'' ان ہی لوگوں نے کیا جو ایسے موقعوں پر کام آیا کرتے ہیں۔ ویسے بھی روسی صدر کو پاکستان بلوا کر امریکا کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پاکستان اپنے خطے میں یکسر تنہا نہیں ہے۔ چین تو ہمارا برسوں سے یار ہے۔ ایران سے تعلقات بہت گہرے نہ سہی مناسب سطح پر قائم ضرور ہیں اور ان میں بہتری کے بڑے امکانات ہیں۔
افغانستان کے حامد کرزئی ہماری تمام تر محبتوں کے باوجود ابھی ''گھٹ کر جپھی'' تو نہیں ڈال رہے۔ کبھی کبھار بگڑ بھی جاتے ہیں اور اپنے ملک میں پاکستان کے اُردو اخبارات کا داخلہ ممنوع کر دیتے ہیں۔ مگر وہ اور ان کی حکومت کے بہت سارے طاقتور لوگ پاکستان سے مخاصمانہ قطع تعلق بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے میں روسی صدر کا ہمارے ہاں آنا ہمارے غیر ملکوں سے تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا کر سکتا ہے۔
مقصد روس کو ساتھ ملا کر امریکا کو للکارنا نہیں ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالامال اس ملک کے نو دولتیے اب غیر ملکی منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ انھیں پاکستان میں اس ضمن میں کافی امکانات دکھائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان اسٹیل ملز ہی کو لے لیجیے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔
روسیوں نے ضیاء الحق کی سخت گیر افغانستان پالیسی کے باوجود اس منصوبے میں اپنا تعاون جاری رکھا۔ آج کل اس اسٹیل ملز کا بُرا حال ہے۔ پیوٹن کو تھوڑی سی محنت کے بعد سمجھایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں خاندانوں کو روز گار فراہم کرنے والی یہ ملز اگر روسی سرمایہ اور جدید ٹیکنالوجی سے حیات نو حاصل کر سکے تو پاکستانیوں کی نظر میں ان کی واہ واہ ہو جائے گی۔
روسی ایک زمانے میں ایران سے پائپ لائن کے ذریعے تیل و گیس کو پاکستان لانے اور پھر وہاں سے بھارت بھیجنے کے منصوبے میں بڑی دلچسپی لے رہے تھے۔ مشرف کا خود کو ''جگری یار'' کہنے والا بش مگر اس سے خوش نہ تھا۔ اس نے بھارتی حکومت کو ایٹمی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے میں تعاون کی یقین دہانیاں کرائیں۔
بھارتی اپنے ملک میں آنے والے تیل و گیس کی ''قیمت مناسب'' نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اس منصوبے سے الگ ہو گئے۔ مگر ایران میں تیل اب بھی موجود ہے اور گیس کے بے تحاشہ ذخائر بھی اور اس ملک کو نئی منڈیوں کی آنے والے کئی برسوں تک ضرورت اپنی جگہ موجود رہے گی۔
طویل المدت منصوبوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے روسیوں کو اس بات پر بھی آہستہ آہستہ قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کا تعاون فراہم کرے جو اس نے کئی سالوں سے بھارت کے لیے جاری رکھا ہوا ہے۔ سوچی سمجھی پیش قدمیوں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی بات یہ اعتماد پیدا کرنا کہ پاکستان اور روس ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے دیر پا تعاون اور دوستی کی راہوں پر چل سکتے ہیں۔
مجھے لیکن ابھی بھی خدشہ یہ لاحق ہے کہ بہت ساری قوتیں اور عناصر ہیں جو پاکستان اور روس میں اعتماد کے رشتے پیدا کرنے میں ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے۔ بدقسمتی سے جس روز پاکستان کے صدر کو روس جانا تھا اسی روز اتفاق سے یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار پا کر گھر بھیج دیے گئے۔
بدھ کے روز کم از کم ایک بات تو یقینی ہوئی کہ راجہ پرویز اشرف 2 اکتوبر کو روسی صدر سے بطور وزیر اعظم پاکستان ملاقات کرنے کے بعد سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کر سکیں گے۔ ہماری وزارت خارجہ میں بیٹھے امریکا کے چند پیاروں نے بڑی مکاری سے صدر زرداری کا نیویارک والا دورہ اِن دنوں رکھ دیا تھا جب روسی صدر یہاں آنا چاہ رہے تھے۔
ایوان صدر نے بڑی ہوشیار سے یہ چال ناکام بنا دی۔ اب بدقسمتی سے ''یوم عشق رسول ﷺ'' کے نام پر گزشتہ جمعہ کو پشاور سے کراچی تک ہونے والے واقعات نے روسی صدر کے دفتر میں بیٹھے چند افراد کو پریشان کر دیا ہے۔
پروگرام یہ تھا کہ روسی صدر پاکستان آئیں تو دو دن اور ایک رات ٹھہریں۔ جمعہ کے واقعات کے بعد ''سکیورٹی'' کے نام پر صدر پیوٹن کو بتایا جا رہا ہے کہ خیریت اسی میں ہے کہ موصوف صبح پاکستان پہنچ کر سورج غروب ہونے سے چند لمحے پہلے واپس پرواز کر جائیں۔ روسی صدر کے پاکستان میں قیام کے لمحوں کو آٹھ سے دس گھنٹوں تک محدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
میری بڑی خواہش ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں کو یکجا ہوکر روس کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان میں ایک رات گزار کر وہ ہمارے ملک کے بارے میں ''غیر محفوظ'' ہونے کے تاثر کو بڑی شدت سے رد کر سکیں گے اور ان کا محض ایک رات ہمارے ہاں ٹھہرنا ہی ان کی طرف سے دوستی کا ایک ناقابل فراموش تحفہ سمجھا جائے گا۔