ہمارے زمانے کا ابن بطوطہ

اب تلافی اسی صورت ہو سکتی ہے کہ کسی وقت امجد اسلام کے ساتھ نشست رکھیں ۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

رومن رسم الخط ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں تصور کر لیتے ہیں کہ ہم انگریزی زبان کے روبرو ہیں۔ تو جب امجد اسلام امجد نے اپنی نئی تصنیفِ لطیف یاروں میں بانٹتے بانٹتے ہمیں بھی نوازا تو ہم کتنے خوش ہوئے کہ اب ہم امجد اسلام امجد کا کلام انگریزی میں پڑھیں گے۔ لیکن جب ہم نے کتاب کھولی تو ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ حیران ہوئے کہ ارے یہ تو انگریزی سے آگے کی کوئی زبان ہے۔ کتاب کو بہت الٹا پلٹا کہ کسی طور پتہ چلے کہ امجد اسلام کی شاعری انگریزی کے دریا کو عبور کر کے اب کونسی زبان کے بحر ناپیدا کنار میں شناوری کر رہی ہے۔ بڑی تلاش و جستجو کے بعد ایک لفظ نظر آیا' اٹالیا Italia۔ اس سے ہم نے قیاس کیا کہ یہ اطالوی زبان ہے۔

یعنی اب امجد اسلام کی شاعری انگریزی سے آگے نکل کر اطالوی زبان میں جلوہ گر ہے۔ یہ دیکھ کر ہمیں خوشی بھی ہوئی مگر تھوڑا افسوس بھی ہوا۔ سوچا کہ بال برابر کی کسر رہ گئی۔ جب امجد کی شاعری اٹلی میں پہنچ ہی گئی تھی تو اس نے اطالوی زبان پر کیوں قناعت کی۔ ایک قدم کے فاصلہ پر لاطینی زبان موجود تھی۔ یورپ کی کلاسیکی زبانوں میں اول مقام یونانی زبان کا ہے۔ اس کے بعد لاطینی ہے۔ تو کیا مضائقہ تھا کہ اس شاعری کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہو جاتا۔ کیا امجد اسلام نے یہ قدم اس لیے نہیں اٹھایا کہ اس سے ہماری مشکلات میں اور اضافہ ہو جاتا مگر کتنا اضافہ ہو جاتا۔ انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے It is Greek to me مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عبارت میری فہم سے بالا ہے اسی طرح جس طرح یونانی زبان میری فہم سے بالا ہے۔ مطلب یہاں ہمارے کہنے کا ہے کہ ہمارے لیے تو اطالوی زبان بھی یونانی ہے۔

لاطینی زبان میں ترجمہ ہوتا تو ہمارے لیے وہ ترجمہ بھی یونانی ہوتا مگر اس سے یہ تو ہوتا کہ امجد کی شاعری یورپ کی مروجہ زبانوں سے گزر کر وہاں کی کلاسیکی زبانوں کی بلند و بالا صف میں جگہ پا لیتی۔ یعنی پھر یہ شاعری یونانی سے بس ایک قدم کے فاصلہ پر ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں امجد اسلام سوفوکلینر سے ایک قدم کے فاصلہ پر ہوتے۔ اور ایک قدم کے فاصلہ کو عبور کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اور خاص طور پر امجد اسلام کو کہ وہ تو زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔ دیس دیس کی خاک چھان چکے ہیں۔

ویسے ہم حیران ہیں کہ جب امجد اسلام آج کی دنیا کے سارے ملکوں کی خاک چاٹ چکے ہیں تو زبانوں کے معاملہ میں کیوں پیچھے رہ گئے۔ انھیں تو ہفت زبان ہونا چاہیے تھا مگر کیا خبر ہے کہ ہو چکے ہوں۔ ہم تو ہر پھر کر اردو کے کنوئیں کے مینڈک ہیں۔ اردو سے آگے زبان دانی کے معاملہ میں صفر ہیں۔ یہ امجد اسلام کی ہمارے بارے میں خوش فہمی ہے کہ اس نے اپنی شاعری کے اطالوی اڈیشن سے ہمیں نوازا۔ ادھر ہم دل ہی دل میں کتنے شرمندہ ہیں کہ امجد نے تو ہم پر اعتبار کیا تھا کہ میرا یہ تازہ مجموعہ بھی یہ عزیز خوش ہو کر پڑھے گا۔ ادھر صورت احوال یہ ہے کہ

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

کتنی شرمندگی ہو رہی ہے کہ محض اطالوی زبان سے نا آشنا ہونے کے باعث ہم امجد اسلام سے بزبان اطالیہ متعارف ہونے سے محروم ہیں۔

اب تلافی اسی صورت ہو سکتی ہے کہ کسی وقت امجد اسلام کے ساتھ نشست رکھیں اور ان کی شاعری کے اطالوی روپ کو ان سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ یقیناً اس زبان کے شناور ہوں گے۔ یہ بات ہم یہ سوچ کر کہہ رہے ہیں کہ پرانے زمانے میں جو علما و فضلا طلبِِ علم میں سفر پر نکلتے تھے' ان کا طریقہ یہ تھا کہ جس ملک میں پہنچتے وہاں پہلا کام وہ یہ کرتے کہ اس دیس کی کسی بی بی سے نکاح کر لیتے۔ اس کے پیچھے ان کا فلسفہ یہ تھا کہ کسی دوسرے دیس کی زبان سیکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہاں کی کسی بی بی سے شادی کر لو۔ پھر وہ زبان تمہیں خود بخود آ جائے گی کیونکہ کسی بھی زبان کی ماہر اولاً عورتیں ہوا کرتی ہیں۔

ابن انشا نے ایک سفر نامہ ابن بطوطہ کے تعاقب میں' کے عنوان سے لکھا تھا۔ وہ کتاب اس وقت ہمارے سامنے ہوتی تو ہم اس سے استفادہ کر کے بتاتے کہ ابن بطوطہ نے کتنے ملکوں کے سفر اور کتنی عورتوں سے شادیاں کی تھیں۔ امجد اسلام امجد ہمارے زمانے کے ابن بطوطہ ہیں۔ مگر انھوں نے ازراہ احتیاط ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے کتنے ملکوں کے سفر کیے ہیں اور کتنی، خیر جانے دیجیے اس بات کو۔ معذرت تو ہمیں یہ کرنی ہے کہ اطالوی نہ جاننے کی وجہ سے ہم ان کی اس تازہ تصنیف کو پڑھنے سے محروم رہے۔


ارے صاحب کیا بتائیں خود اپنے سلسلہ میں بھی ایک دو بار اس طرز کی شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ ایک مرتبہ ہمیں بنگلور کا سفر درپیش ہوا۔ وہاں مراٹھی زبان والوں کی ایک انجمن نے ہمیں بلاوا بھیجا کہ اتفاق سے انھیں دنوں آپ کے افسانوں کے مراٹھی ترجموں کا ایک انتخاب شائع ہوا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب ہوا چاہتی ہے۔ اتفاق سے آپ بھی یہاں آئے ہوئے ہیں۔ سو آپ اس تقریب میں تشریف لا کر اس کی شوبھا بڑھائیے۔

یہ دعوت نامہ پڑھ کر ہم پہ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ہم نے ان سے معذرت کی کہ ہمیں تو مراٹھی زبان کی الف' ب' ت بھی نہیں آتی۔ ہم آ کر وہاں کیسے بات کریں گے اور کس زبان میں آپ کا شکریہ ادا کریں گے۔ ادھر سے جواب آیا کہ کوئی مضائقہ نہیں آپ کے افسانے تو مراٹھی سے آشنا ہو ہی گئے ہیں۔ ذرا سی کسر رہ گئی۔ ورنہ آپ بھی اپنے افسانوں کے ساتھ مراٹھی زبان کے شناور نظر آتے۔ بہر حال آپ یہاں آ کر جو اردو بولیں گے اسے ہم اپنے مترجم افسانوں سے مس کر کے سنیں گے تو وہ بھی مراٹھی ہو گی۔ اس خوشی میں ہم آپ کو دوشالا اڑھائیں گے۔

اب دوسرا واقعہ سنئے۔ احمد آباد میں ایک طالبہ اپنی زبان میں ہمارے افسانوں پر کچھ تحقیقی کام کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں اس نے ہمیں خط لکھا۔ وہ خط گجراتی زبان میں تھا۔ تب ہم نے یہ خط بذریعہ ڈاک وارث علوی کو بھیجا اور گزارش کی کہ اس خط کا اردو میں ترجمہ کر کے ہمیں بھیج دیجیے تا کہ ہم اس بی بی کا مافی الضمیر جان کر اس کے خط کا جواب لکھ سکیں۔

ادھر سے وارث علوی کا جواب آیا کہ زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ یہاں احمد آباد آئیے۔ یہاں یونیورسٹی میں ہم آپ کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کریں گے۔ وہاں طالبات اپنی بولی ٹھولی میں جو آپ سے جواب سوال کریں گی اس سے آپ کو گجراتی زبان میں مہارت ہو جائے گی۔ پھر آپ لاہور جا کر اس طالبہ کے خط کا مفہوم سمجھ لیں گے اور اطمینان سے اس کے خط کا جواب دے سکیں گے۔ ساتھ میں میرے گجراتی ڈراموں کو بھی آپ آسانی سے پڑھ سکیں گے۔

ہم نے بھی سوچا کہ ہاں یہ زیادہ آسان طریقہ ہے۔ مگر ادھر احمد آباد میں ہندو مسلم فساد کی آگ بھڑک اٹھی اس سے ہمارا سفر کھوٹا ہو گیا۔ ادھر اس طالبہ نے بھی پھر اپنے خط کے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ یعنی ہمارے جواب کا شرمندہ احسان ہوئے بغیر ہی اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کر لیا۔

اگر ہم نے ابن بطوطہ سے کچھ بصیرت حاصل کی ہوتی تو کسی نہ کسی طرح احمد آباد کے سفر کی صورت پیدا کر لیتے اور اس شرمندگی سے بچ جاتے کہ ع

زبان یار من گجری و من گجری نمی دانم

ویسے ابن بطوطہ تک جانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بصیرت تو ہم امجد اسلام کے سفر نامے پڑھ کر بھی حاصل کر سکتے تھے۔ بس یہ کہئے کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ بس اردو کے کنوئیں میں پڑے ٹراتے رہیں۔
Load Next Story