وزیرستان آپریشن اور امن کے امکانات
پاکستانی قوم ایک طویل عرصے سے اس مسئلے پر منقسم رہی ہے کہ ہتھیار اٹھائے ان شدت پسندوں سے ۔۔۔
پاک فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا جو تا حال جاری ہے، امریکی اور افغان فورسز پاکستان پر ایک طویل عرصے سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں کیوں کہ یہ نیٹ ورک ان کے بقول افغانستان میں بغاوت کا بنیادی سبب ہے اور مغربی افواج یہ سمجھتی ہیں کہ شمالی وزیرستان اس نیٹ ورک کا سب سے مضبوط گڑھ ہے۔
پاکستانی قوم ایک طویل عرصے سے اس مسئلے پر منقسم رہی ہے کہ ہتھیار اٹھائے ان شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں یا پھر ان کے خلاف فوجی کارروائی ہی واحد حل ہے۔ دائیں بازو (یعنی مذہبی جماعتوں) کے لوگ ان شدت پسندوں کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سے مذاکرات کو ہی دیرپا حل سمجھتے آئے ہیں ان کے پاس اپنے اس موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنے دلائل موجود ہیں جب کہ بائیں بازو کی جماعتیں سیکیورٹی فورسز اور میڈیا کے کئی حلقے ان کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی کے حامی رہے ہیں۔ آخرکار مذاکراتی کمیٹی قائم کی گئی بارہا اس میں تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن دونوں طرف سے اعتماد کی فضا قائم نہ ہونے کے سبب یہ مذاکرات کسی خاص پیش رفت کے بغیر ہی ختم ہوگئے اس دوران دونوں حریف ایک دوسرے پر مذاکرات کی فضا خراب کرنے کا الزام عائد کرتے رہے اور جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر عمل در آمد نہ ہوسکا پھر بالآخر کراچی ایئر پورٹ پر کیے جانے والے حملے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وزیرستان آپریشن کا حتمی فیصلہ کرلیاگیا۔
چوں کہ یہ ایک جرأت مندانہ اور نڈر فیصلہ تھا لہٰذا اس کو بہت جلدی عوامی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوگئی، ایک ایسی قوم جس نے ایک عشرے سے بھی اوپر اپنے سامنے آگ و خون کا سمندر دیکھا ہے لہٰذا پوری قوم کی نگاہیں ہماری بہادر افواج پر لگ گئیں تاکہ ملک کو بد امنی کے ناسور سے باہر نکال کر خوش حالی کے راستے پر ڈالا جاسکے، لیکن بعض سیاسی شخصیات اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد اس کی صرف نیم دلی سے حمایت کرتی نظر آئیں اور کسی نے اس کی اونر شپ نہ لی شاید اس کی وجہ اس آپریشن کے ممکنہ نتائج اور جوابی حملوں کا خطرہ تھا یا یہ اپنی حکومتوں کے لیے کوئی نیا چیلنج کھولنے کی حمایت میں نہیں تھے، وجہ کوئی بھی ہو لیکن یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ہر طرز عمل کسی بھی طریقے سے پسندیدہ نہیں گردانا جاسکتا کیوں کہ قومی مفاد ہم سب کے لیے افضل ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے یہ آپریشن کامیابی سے آگے بڑھتا گیا سیاست دانوں اور حکومتوں نے اس کو سراہنا شروع کردیا۔ شاید وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، جس تیزی کے ساتھ ہماری افواج نے اس شورش زدہ علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنا شروع کیا اس کی توقع شاید کسی کو بھی نہ تھی اور آج تقریباً80 فیصد سے زائد علاقے پر سیکیورٹی افواج اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ جوکہ تقریباً ایک معرکۃ الآرا کامیابی گردانی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ علاقے جو کچھ عرصے پہلے تک سب کے لیے نوگو ایریا تھا اب نہ صرف یہ کہ سیکیورٹی اداروں بلکہ میڈیا کے نمائندوں کے لیے بھی کھول دیا گیا ہے۔ عسکری اداروں کے مطابق اس آپریشن میں کسی گروپ کے ساتھ کوئی تفریق یا رعایت نہیں کی گئی اور پورے علاقے کو بلا کسی تخصیص کے خالی کرایاگیا۔
اس وقت خدا کا شکر ہے کہ ملک میں ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کے متواتر ہونیوالے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے جو اس آپریشن کے کامیاب ہونے کی دلالت کرتا ہے، البتہ پاکستان کی حکومت اور عسکری اداروں نے امریکی نیٹو اور افغان فورسز سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ بھاگ جانے والے عسکری گروپوں کو جو مبینہ طور پر افغان صوبے کنڑ اور سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے، کیوں کہ اب بھی سرحد پار سے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی چیک پوسٹوں اور گاڑیوں پر حملے کی اطلاعات موجود ہیں۔ دوسری طرف امریکی پاکستان سے بارہا یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک جو اس علاقے میں منظم تھا اس کو وہاں دوبارہ جگہ لینے سے روکا جائے یہ آپریشن اس اہم وقت پر ہو رہا ہے جب امریکا افغانستان سے انخلاء کی تیاری کر رہا ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ افغان حکومت اور فوج کو مضبوط اور منظم کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ افغان صدارتی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر پردہ ڈال کر دونوں امیدواروں کو ایک معاہدے پر مجبور کردیا گیا اور ایک کو صدر اور دوسرے کو چیف ایگزیکٹوکے بے معنی عہدے سے نوازا گیا اس وقت کرزئی کی حکومت صرف کابل کے نواحی علاقوں تک اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے اور افغان فوج امریکی سپورٹ کے بغیر ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قطعی طور پر نہ تو تیار ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے جب کہ کرزئی حکومت کی پاکستان کے خلاف روایتی ہرزہ سرائی بھی جاری رہی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو افغان اور بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی ملی بھگت پر سخت اعتراض ہے اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ان کا خفیہ گٹھ جوڑ بھی بے نقاب ہوا ہے آنیوالے دنوں میں افغان حکومت کا طرز عمل اس خطے میں امن کے امکانات کو واضح کرے گا۔
افغانستان کی حکومت ہمیشہ پاکستان پر اپنے معاملات میں دخل اندازی کا الزام لگاتی آئی ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کی حکومت کو بھی افغان انٹیلی جنس اداروں کے طرز عمل پر شدید تحفظات ہیں اور ہمارے سیکیورٹی ادارے بھی سرحد کے اس پار سے در اندازی کے واقعات پر بجا طور پر چراغ پا ہیں۔ پاکستانی فوج نے وزیرستان میں آپریشن کرکے اس خطے میں امن کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے ٹھوس کوشش کی ہے۔ اب بال افغان حکومت اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کے کورٹ میں ہے کہ وہ سرحد کے اس پار سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ہونیوالے حملوں کا تدارک کریں۔ کیوں کہ تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو اپنے بہادر نوجوانوں کے پیچھے کھڑا ہونا اور متحد رہنا بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ خطے سے زیادہ پاکستان کے مستقبل کی بقا کی جنگ ہے جسے جیتنا ہم سب کے لیے ازحد ضروری ہے کاش کہ ہماری حکومت اور ضدی سیاست دان اپنی انا کو قربان کرکے ملک و قوم کو متحد رکھنے کا درس دیں جو کہ ملک کی بقاء اور سالمیت کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔
پاکستانی قوم ایک طویل عرصے سے اس مسئلے پر منقسم رہی ہے کہ ہتھیار اٹھائے ان شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں یا پھر ان کے خلاف فوجی کارروائی ہی واحد حل ہے۔ دائیں بازو (یعنی مذہبی جماعتوں) کے لوگ ان شدت پسندوں کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سے مذاکرات کو ہی دیرپا حل سمجھتے آئے ہیں ان کے پاس اپنے اس موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنے دلائل موجود ہیں جب کہ بائیں بازو کی جماعتیں سیکیورٹی فورسز اور میڈیا کے کئی حلقے ان کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی کے حامی رہے ہیں۔ آخرکار مذاکراتی کمیٹی قائم کی گئی بارہا اس میں تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن دونوں طرف سے اعتماد کی فضا قائم نہ ہونے کے سبب یہ مذاکرات کسی خاص پیش رفت کے بغیر ہی ختم ہوگئے اس دوران دونوں حریف ایک دوسرے پر مذاکرات کی فضا خراب کرنے کا الزام عائد کرتے رہے اور جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر عمل در آمد نہ ہوسکا پھر بالآخر کراچی ایئر پورٹ پر کیے جانے والے حملے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وزیرستان آپریشن کا حتمی فیصلہ کرلیاگیا۔
چوں کہ یہ ایک جرأت مندانہ اور نڈر فیصلہ تھا لہٰذا اس کو بہت جلدی عوامی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوگئی، ایک ایسی قوم جس نے ایک عشرے سے بھی اوپر اپنے سامنے آگ و خون کا سمندر دیکھا ہے لہٰذا پوری قوم کی نگاہیں ہماری بہادر افواج پر لگ گئیں تاکہ ملک کو بد امنی کے ناسور سے باہر نکال کر خوش حالی کے راستے پر ڈالا جاسکے، لیکن بعض سیاسی شخصیات اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد اس کی صرف نیم دلی سے حمایت کرتی نظر آئیں اور کسی نے اس کی اونر شپ نہ لی شاید اس کی وجہ اس آپریشن کے ممکنہ نتائج اور جوابی حملوں کا خطرہ تھا یا یہ اپنی حکومتوں کے لیے کوئی نیا چیلنج کھولنے کی حمایت میں نہیں تھے، وجہ کوئی بھی ہو لیکن یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ہر طرز عمل کسی بھی طریقے سے پسندیدہ نہیں گردانا جاسکتا کیوں کہ قومی مفاد ہم سب کے لیے افضل ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے یہ آپریشن کامیابی سے آگے بڑھتا گیا سیاست دانوں اور حکومتوں نے اس کو سراہنا شروع کردیا۔ شاید وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، جس تیزی کے ساتھ ہماری افواج نے اس شورش زدہ علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنا شروع کیا اس کی توقع شاید کسی کو بھی نہ تھی اور آج تقریباً80 فیصد سے زائد علاقے پر سیکیورٹی افواج اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ جوکہ تقریباً ایک معرکۃ الآرا کامیابی گردانی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ علاقے جو کچھ عرصے پہلے تک سب کے لیے نوگو ایریا تھا اب نہ صرف یہ کہ سیکیورٹی اداروں بلکہ میڈیا کے نمائندوں کے لیے بھی کھول دیا گیا ہے۔ عسکری اداروں کے مطابق اس آپریشن میں کسی گروپ کے ساتھ کوئی تفریق یا رعایت نہیں کی گئی اور پورے علاقے کو بلا کسی تخصیص کے خالی کرایاگیا۔
اس وقت خدا کا شکر ہے کہ ملک میں ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کے متواتر ہونیوالے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے جو اس آپریشن کے کامیاب ہونے کی دلالت کرتا ہے، البتہ پاکستان کی حکومت اور عسکری اداروں نے امریکی نیٹو اور افغان فورسز سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ بھاگ جانے والے عسکری گروپوں کو جو مبینہ طور پر افغان صوبے کنڑ اور سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے، کیوں کہ اب بھی سرحد پار سے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی چیک پوسٹوں اور گاڑیوں پر حملے کی اطلاعات موجود ہیں۔ دوسری طرف امریکی پاکستان سے بارہا یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک جو اس علاقے میں منظم تھا اس کو وہاں دوبارہ جگہ لینے سے روکا جائے یہ آپریشن اس اہم وقت پر ہو رہا ہے جب امریکا افغانستان سے انخلاء کی تیاری کر رہا ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ افغان حکومت اور فوج کو مضبوط اور منظم کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ افغان صدارتی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر پردہ ڈال کر دونوں امیدواروں کو ایک معاہدے پر مجبور کردیا گیا اور ایک کو صدر اور دوسرے کو چیف ایگزیکٹوکے بے معنی عہدے سے نوازا گیا اس وقت کرزئی کی حکومت صرف کابل کے نواحی علاقوں تک اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے اور افغان فوج امریکی سپورٹ کے بغیر ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قطعی طور پر نہ تو تیار ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے جب کہ کرزئی حکومت کی پاکستان کے خلاف روایتی ہرزہ سرائی بھی جاری رہی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو افغان اور بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی ملی بھگت پر سخت اعتراض ہے اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ان کا خفیہ گٹھ جوڑ بھی بے نقاب ہوا ہے آنیوالے دنوں میں افغان حکومت کا طرز عمل اس خطے میں امن کے امکانات کو واضح کرے گا۔
افغانستان کی حکومت ہمیشہ پاکستان پر اپنے معاملات میں دخل اندازی کا الزام لگاتی آئی ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کی حکومت کو بھی افغان انٹیلی جنس اداروں کے طرز عمل پر شدید تحفظات ہیں اور ہمارے سیکیورٹی ادارے بھی سرحد کے اس پار سے در اندازی کے واقعات پر بجا طور پر چراغ پا ہیں۔ پاکستانی فوج نے وزیرستان میں آپریشن کرکے اس خطے میں امن کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے ٹھوس کوشش کی ہے۔ اب بال افغان حکومت اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کے کورٹ میں ہے کہ وہ سرحد کے اس پار سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ہونیوالے حملوں کا تدارک کریں۔ کیوں کہ تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو اپنے بہادر نوجوانوں کے پیچھے کھڑا ہونا اور متحد رہنا بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ خطے سے زیادہ پاکستان کے مستقبل کی بقا کی جنگ ہے جسے جیتنا ہم سب کے لیے ازحد ضروری ہے کاش کہ ہماری حکومت اور ضدی سیاست دان اپنی انا کو قربان کرکے ملک و قوم کو متحد رکھنے کا درس دیں جو کہ ملک کی بقاء اور سالمیت کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔