پاکستان ایک نظر میں چاند رات کی رونق
بے شک عیدالفطر کی چاند رات کی طرح اس رات کی گہماگہمی ویسی نہیں ہوتی لیکن آج کی رات کی اپنی ایک خاصیت ہے۔
عید کا تذکرہ چاند رات کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔ ویسے تو چاند رات عیدالفطر سے منسوب ہے کیونکہ اس رات چاند کا انتظار سب کو ہوتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کا چاند تو 10 روز پیشتر ہی نظر آجاتا ہے اس لئے چاند کی رونمائی کا تو انتظار نہیں ہوتا لیکن 9 ذی الحج کی رات کو ہی چاند رات سے تشبیہہ دی جاتی ہے ۔ بے شک عیدالفطر کی چاند رات کی طرح اس رات کی گہماگہمی ویسی نہیں ہوتی لیکن آج کی رات کی اپنی ایک خاصیت ہے کیونکہ اگلے دن نہایت محبت اور چاہ سے خریدے گئے، پالے گئے جانوروں کو قربان ہوجانا ہے۔ بچے اور نوجوانوں کے ساتھ بڑے بھی جانوروں کا خیال رکھتے ہیں، چارہ ڈالتے رہتے ہیں، ٹہلاتے ہیں، غرض ہر طرح سے قربانی کے جانور کی خاطر مدارات کی جارہی ہوتی ہیں۔
بڑے شہر کے اپنے مسائل ہیں، جگہ کی تنگی اور مہنگائی کے باعث اب عید سے ایک روز پہلے جانور کی خریداری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ جانور کو کہاں رکھا جائے، خاص کر فلیٹوں اور تنگ محلوں میں رہنے والوں کو خود کے لئے جگہ کی تنگی کی شکایت ہے تو جانور کو مناسب جگہ کیسے مل سکتی ہے، اس پر مستزاد چارہ اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ عید اور قربانی کے ''بجٹ'' میں اس بات کا بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اتنے دن پہلے جانور لائیں گے تو فی دن کے حساب سے اتنے روپے تو صرف چارے میں خرچ ہوجائیں گے، اگر جانور کو ''اجتماعی باڑے'' میں باندھنا پڑا تو وہاں فی رات کے حساب سے الگ ادائیگی کرنی ہے۔ بس یہی حساب کتاب لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ جانور کی خریداری زیادہ دن پہلے نہ کی جائے، دوسرے چاند رات کی رونق دیکھنے کے بہانے بھی جانور کی خریداری کو آخری رات تک ٹال دیا جاتا ہے۔
عموماً لوگوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ عیدالاضحیٰ سے ایک رات پہلے تاجر حضرات جانوروں کی قیمت گرا دیتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تاجر بیرون شہر سے آئے ہوتے ہیں اور انہیں اپنا تمام مال فروخت کرکے عید منانے واپس جانا ہوتا ہے، نیز جانور بچا کر لے جانے میں کرائے بھاڑے کا الگ خرچ، اس لیے مناسب یہی ہے کہ اونے پونے فروخت کرکے واپس جایا جائے۔ لیکن یہ اور بات کہ یہ ''اونے پونے'' قیمت بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ تاجر حضرات ویسے ہی ابتدائی دس دنوں میں اچھا خاصا منافع کما چکے ہوتے ہیں اس لئے انھیں بچے ہوئے مال کی قیمت کم کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا لیکن خریداروں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چاند رات کی گہماگہمی اور جلد بازی کا فائدہ اٹھا کر بعض عاقبت نااندیش تاجر اپنا نقص زدہ مال بھی خریداروں کو تھما دیتے ہیں جس کا علم خریداروں کو گھر پہنچنے کے بعد ہوتا ہے، اب قربانی نقص زدہ جانور کی تو ہو نہیں سکتی اور ارادہ بھی کرلیا ہے تو قربانی بھی لازم ہے، ایسے میں دگنا نقصان۔ اس لیے بہتر ہے ایک ہی بار ہوشیاری کا مظاہرہ کیا جائے اور اس طرح کے نوسرباز تاجروں سے بچا جائے۔
چاند رات پر سب سے زیادہ جوش کا مظاہرہ بچوں کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے، جو چند دنوں میں اپنے جانور کے ساتھ ذہنی اور جذباتی طور پر اس قدر وابستہ ہوجاتے ہیں کہ قربانی کا خیال ہی ان کی آنکھوں کو نم کردیتا ہے۔ لیکن یہی تو قربانی کا حسن ہے، یہی تو قربانی کا درس ہے۔ ایسے میں بڑوں کو اپنے بچوں کو عید قرباں کا حقیقی مفہوم سمجھانے کے ساتھ قربانی کے جذبے سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔
چاند رات پر جہاں ایک جانب بچے بڑے اپنے جانوروں کو ٹہلانے میں مصروف ہوتے ہیں وہیں نوجوانوں کا ایک ٹولہ خود ٹہلنے کے لیے نکلا ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پیدل چلنے کے بجائے اس ''ٹہلنے'' میں بغیر سائیلنسر والی پرشور بائیک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ خو اس لحاظ سے قابل مذمت ہے کہ اس طرح تفریح کرنے میں دیگر لوگوں کے آرام کا حرج ہوتا ہے۔ اگر نوجوان تفریح کرنا ہی چاہتے ہیں تو اور بھی طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، بائیک کا سائیلنسر نکال کر تیز رفتار ڈرائیونگ یا ون وہیلنگ کرنا نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے بلکہ دوسروں کے آرام و سکون میں بھی خلل کا باعث بنتا ہے۔ چاند رات کو ضرور انجوائے کیجیے لیکن کسی کو آزار میں مبتلا نہ کریں۔ ایکسپریس بلاگ کے تمام قارئین کو عید قرباں کی ڈھیروں مبارک باد قبول ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بڑے شہر کے اپنے مسائل ہیں، جگہ کی تنگی اور مہنگائی کے باعث اب عید سے ایک روز پہلے جانور کی خریداری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ جانور کو کہاں رکھا جائے، خاص کر فلیٹوں اور تنگ محلوں میں رہنے والوں کو خود کے لئے جگہ کی تنگی کی شکایت ہے تو جانور کو مناسب جگہ کیسے مل سکتی ہے، اس پر مستزاد چارہ اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ عید اور قربانی کے ''بجٹ'' میں اس بات کا بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اتنے دن پہلے جانور لائیں گے تو فی دن کے حساب سے اتنے روپے تو صرف چارے میں خرچ ہوجائیں گے، اگر جانور کو ''اجتماعی باڑے'' میں باندھنا پڑا تو وہاں فی رات کے حساب سے الگ ادائیگی کرنی ہے۔ بس یہی حساب کتاب لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ جانور کی خریداری زیادہ دن پہلے نہ کی جائے، دوسرے چاند رات کی رونق دیکھنے کے بہانے بھی جانور کی خریداری کو آخری رات تک ٹال دیا جاتا ہے۔
عموماً لوگوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ عیدالاضحیٰ سے ایک رات پہلے تاجر حضرات جانوروں کی قیمت گرا دیتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تاجر بیرون شہر سے آئے ہوتے ہیں اور انہیں اپنا تمام مال فروخت کرکے عید منانے واپس جانا ہوتا ہے، نیز جانور بچا کر لے جانے میں کرائے بھاڑے کا الگ خرچ، اس لیے مناسب یہی ہے کہ اونے پونے فروخت کرکے واپس جایا جائے۔ لیکن یہ اور بات کہ یہ ''اونے پونے'' قیمت بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ تاجر حضرات ویسے ہی ابتدائی دس دنوں میں اچھا خاصا منافع کما چکے ہوتے ہیں اس لئے انھیں بچے ہوئے مال کی قیمت کم کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا لیکن خریداروں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چاند رات کی گہماگہمی اور جلد بازی کا فائدہ اٹھا کر بعض عاقبت نااندیش تاجر اپنا نقص زدہ مال بھی خریداروں کو تھما دیتے ہیں جس کا علم خریداروں کو گھر پہنچنے کے بعد ہوتا ہے، اب قربانی نقص زدہ جانور کی تو ہو نہیں سکتی اور ارادہ بھی کرلیا ہے تو قربانی بھی لازم ہے، ایسے میں دگنا نقصان۔ اس لیے بہتر ہے ایک ہی بار ہوشیاری کا مظاہرہ کیا جائے اور اس طرح کے نوسرباز تاجروں سے بچا جائے۔
چاند رات پر سب سے زیادہ جوش کا مظاہرہ بچوں کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے، جو چند دنوں میں اپنے جانور کے ساتھ ذہنی اور جذباتی طور پر اس قدر وابستہ ہوجاتے ہیں کہ قربانی کا خیال ہی ان کی آنکھوں کو نم کردیتا ہے۔ لیکن یہی تو قربانی کا حسن ہے، یہی تو قربانی کا درس ہے۔ ایسے میں بڑوں کو اپنے بچوں کو عید قرباں کا حقیقی مفہوم سمجھانے کے ساتھ قربانی کے جذبے سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔
چاند رات پر جہاں ایک جانب بچے بڑے اپنے جانوروں کو ٹہلانے میں مصروف ہوتے ہیں وہیں نوجوانوں کا ایک ٹولہ خود ٹہلنے کے لیے نکلا ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پیدل چلنے کے بجائے اس ''ٹہلنے'' میں بغیر سائیلنسر والی پرشور بائیک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ خو اس لحاظ سے قابل مذمت ہے کہ اس طرح تفریح کرنے میں دیگر لوگوں کے آرام کا حرج ہوتا ہے۔ اگر نوجوان تفریح کرنا ہی چاہتے ہیں تو اور بھی طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، بائیک کا سائیلنسر نکال کر تیز رفتار ڈرائیونگ یا ون وہیلنگ کرنا نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے بلکہ دوسروں کے آرام و سکون میں بھی خلل کا باعث بنتا ہے۔ چاند رات کو ضرور انجوائے کیجیے لیکن کسی کو آزار میں مبتلا نہ کریں۔ ایکسپریس بلاگ کے تمام قارئین کو عید قرباں کی ڈھیروں مبارک باد قبول ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔