حکومت فرانس سے اعلیٰ ادبی ایوارڈ ملنے کے موقع پر ممتاز ادیب انتظار حسین کا یادگار خطاب
اردو ادب کے لیے یہ نہایت خوش آئند ہے کہ اس کے ایک نامور ادیب کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے
ہمارے ہاں شاعری کی حد تک تو فیض صاحب کی صورت میں ایسی ہستی گزری ہے، جنھوں نے ناقدری زمانہ کا گلہ کبھی نہ کیا اور زندگی میں پذیرائی کی صورت میں جو ملا اس پرشاد کام رہے۔
فکشن نگاروں میں انتظار حسین کو جس قدر توقیر اور تحسین میسر آئی ہے،اس کے پیش نظرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کے حوالے سے ان کا معاملہ بھی فیض صاحب سے مختلف نہیں ہوگا۔
انتظار حسین اردو ادب کا معتبرحوالہ ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان جیسے مہان لکھاری ہمارے درمیان موجود ہیں، جنہوں نے اردو ادب کواپنی تحریروں سے ثروت مند بنایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم اردو ادب کے عہد انتظار حسین میں زندہ ہیں، تو غلط نہ ہو گا اوراب تو برصغیر کی حدود سے باہر بھی ان کے نام کاڈنکا بج رہا ہے۔ انتظارحسین کی تحریروں کا انگریزی ترجمہ توایک مدت سے ہورہاتھا لیکن دوبرس قبل امریکا کے معروف اشاعتی ادارے سے ''بستی''کے ترجمے کا چھپناان کی مغربی دنیا میں شہرت کا اصل سبب بنا، جس کو مزید بڑھاوا بکرپرائزکے لیے نامزدگی سے مل گیا۔ اوراب حال ہی میں انہیں حکومت فرانس کی طرف سے''آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز'' کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا ہے۔
اردو ادب کے لیے یہ نہایت خوش آئند ہے کہ اس کے ایک نامورادیب کوعالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ حکومت فرانس بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے ایوارڈ کے واسطے ہمارے ہاں سے ایک ایسے ادیب کو چنا، جس سے بڑھ کرکوئی دوسرااس اس اعزاز کا حق دارنہ تھا۔ گذشتہ دنوں لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں انتظار حسین نے یہ ایوارڈ فرانس کے معزز سفیر فلپ تھیوڈ سے وصول کیا۔ اس تاریخی موقع پرانھوں نے جو خطاب کیا وہ قارئین کی نذرکیا جارہا ہے۔
عالمی مرتبت سفیر کبیر فرانس۔ اس ذرہ نوازی کے لیے کس طرح شکریہ ادا کروں۔ ابھی تو میں غرق حیرت ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا، ورنہ یوں ہے کہ من آنم کہ من دانم۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ میں اس اعزاز کا مستحق ہوں یا نہیں ہوں۔ بہرحال جس زبان سے اور جس کی اجلی روایت سے میں نے رشتہ باندھا ہے اسے تو ایسا اعزاز یقینا زیب دیتا ہے۔
اس سے میرا دھیان اردو کی نئی روایت کی نشو و ارتقا کی طرف گیا۔ اس روایت کو بنانے سنوارنے والوں میں پیش پیش وہ تھے جنہوں نے یورپ کی ادبی روایتوں سے رس اور جس حاصل کرنے کی ٹھانی تھی۔ مگر اس وقت مجھے سب سے بڑھ کر وہ تین بزرگ یاد آرہے ہیں جن کی نظریں تخصیص کے ساتھ فرانس کی ادبی روایت پر مرکوز تھیں۔ جیسے دامن پھیلائے ہوئے ہیں کہ وہاں کے جتنے رنگ جتنے گل پھول چنے جا سکتے ہیں ان سے دامن بھر لیا جائے۔ یہ تھے منٹو، میراجی، محمد حسن عسکری۔
منٹو صاحب نے تو اپنی ادبی زندگی کا آغاز ہی اس رنگ سے کیا کہ فرانسیسی مختصر افسانے کے ترجموں پر جٹ گئے۔ جوش میں یہ بھی اعلان کردیا کہ موپساں عالمی ادبی دنیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ اور فرانسیسی شاعری۔ ارے میرا جی سے بڑھ کر اس شاعری کا شیدائی کہاں نظر آئے گا۔ ویسے تو میرا جی دیس دیس کے گل پھول سونگھتے سمیٹتے نظر آتے ہیں۔ مگر جس ذوق و شوق سے انہوں نے بادیلیر، ویاں اور میلارمے ایسے شاعروں کو اپنایا ہے اور جس طرح ڈوب کر انہیں ترجمہ کیا ہے اور ان کا تعارف لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور محمد حسن عسکری۔
فرانس کی ادبی اور علمی روایت میں جس طرح انہوں نے غوطہ زنی کی ہے اور جس شد و مد سے اردو میں اس کا تعارف کرایا ہے اس کی لو کیا پوچھتے ہو۔ مہینے کے مہینے اپنے کالم جھلکیاں میں بتانا کہ اب فرانس میں کون سے رجحان کا چرچا ہے اور سارتر نے اب کون سا گل کھلایا ہے اور سارتر کا معاملہ یہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک پورا دور ایسا گزرا ہے جو سارتر کے اثرات سے گونجتا دکھائی پڑتا ہے۔ اور کامیو، اس کے آؤٹ سائڈر کے آگے پیچھے تین ترجمے ہوئے۔ باقی ناولوں کے بھی ترجمے ہوئے معہ اس آخری ناول ''فرسٹ مین'' کے جسے لکھتے لکھتے ناول نگار دنیا سے گزر گیا۔
لیجئے گارساں دتاسی کو تو میں بھول ہی چلا تھا۔ انیسویں صدی میں اس فرانسیسی سکالر نے کس خوبی سے اردو زبان و ادب کا مطالعہ کیا ہے۔ اور زبان و ادب کی ابتدا اور اور نشو و ارتقا کا اپنے زمانے کے سیاق و سباق میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
مگر میری نظر ہر پھر کر ان تین بزرگوں پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ منٹو، میرا جی، محمد حسن عسکری۔ اس ایوارڈ کو بھی انھیں کا فیض جانتا ہوں۔ سو انھیں کی نذر کرتا ہوں۔
یار کہیں گے کہ منٹو، میرا جی اور عسکری تو ہوئے۔ کچھ اپنی بھی تو کہو۔ کیا کہیں، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اس روایت سے بالخصوص فرانسیسی فکشن کی روایت سے جو تھوڑی شناسائی ہوئی وہ بھی انہیں کے صدقے میں ہوئی۔ لیجئے چلتے چلتے آندرے ژید کا ایک ناول مجھے یاد آگیا۔ انگریزی میں جس کا عنوان ہے۔ کاؤنٹر فیٹرز۔ عجب ناول ہے۔ ختم ہوجاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ آخری صفحہ تک پہنچتے پہنچتے چند بالکل نئے کردار نمودار ہوتے ہیں۔ تو کیا یہاں سے ناول کا کوئی نیا باب شروع ہونے لگا مگر لیجئے ناول کی آخری سطر لکھی گئی۔ ناول ختم۔
مگر کہاں ختم ہوا۔ نیچے لکھاہے To Be Continued اور ژید کی بصیرت سے میں نے یہ جانا کہ کہانی جب شروع ہوجائے تو اس کا کوئی انت نہیں۔ کہانی کارکا قلم جہاں رک جاتا ہے اسے ہم ناول یا افسانے کا انجام سمجھ لیتے ہیں۔ مگر کہانی تو پھر بھی جاری رہتی ہے۔ اسی لیے تو اچھے ناول، اچھے افسانے کا انجام ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
آخر میں میری نظر پھر انہیں اپنے تین بزرگوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ منٹو، میراجی، محمد حسن عسکری، اس ایوارڈ کو بھی میں انہیں کا فیض جانتا ہوں۔ سو بصدادب انہیں کو نذر کرتا ہوں۔
فکشن نگاروں میں انتظار حسین کو جس قدر توقیر اور تحسین میسر آئی ہے،اس کے پیش نظرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کے حوالے سے ان کا معاملہ بھی فیض صاحب سے مختلف نہیں ہوگا۔
انتظار حسین اردو ادب کا معتبرحوالہ ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان جیسے مہان لکھاری ہمارے درمیان موجود ہیں، جنہوں نے اردو ادب کواپنی تحریروں سے ثروت مند بنایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم اردو ادب کے عہد انتظار حسین میں زندہ ہیں، تو غلط نہ ہو گا اوراب تو برصغیر کی حدود سے باہر بھی ان کے نام کاڈنکا بج رہا ہے۔ انتظارحسین کی تحریروں کا انگریزی ترجمہ توایک مدت سے ہورہاتھا لیکن دوبرس قبل امریکا کے معروف اشاعتی ادارے سے ''بستی''کے ترجمے کا چھپناان کی مغربی دنیا میں شہرت کا اصل سبب بنا، جس کو مزید بڑھاوا بکرپرائزکے لیے نامزدگی سے مل گیا۔ اوراب حال ہی میں انہیں حکومت فرانس کی طرف سے''آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز'' کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا ہے۔
اردو ادب کے لیے یہ نہایت خوش آئند ہے کہ اس کے ایک نامورادیب کوعالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ حکومت فرانس بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے ایوارڈ کے واسطے ہمارے ہاں سے ایک ایسے ادیب کو چنا، جس سے بڑھ کرکوئی دوسرااس اس اعزاز کا حق دارنہ تھا۔ گذشتہ دنوں لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں انتظار حسین نے یہ ایوارڈ فرانس کے معزز سفیر فلپ تھیوڈ سے وصول کیا۔ اس تاریخی موقع پرانھوں نے جو خطاب کیا وہ قارئین کی نذرکیا جارہا ہے۔
عالمی مرتبت سفیر کبیر فرانس۔ اس ذرہ نوازی کے لیے کس طرح شکریہ ادا کروں۔ ابھی تو میں غرق حیرت ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا، ورنہ یوں ہے کہ من آنم کہ من دانم۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ میں اس اعزاز کا مستحق ہوں یا نہیں ہوں۔ بہرحال جس زبان سے اور جس کی اجلی روایت سے میں نے رشتہ باندھا ہے اسے تو ایسا اعزاز یقینا زیب دیتا ہے۔
اس سے میرا دھیان اردو کی نئی روایت کی نشو و ارتقا کی طرف گیا۔ اس روایت کو بنانے سنوارنے والوں میں پیش پیش وہ تھے جنہوں نے یورپ کی ادبی روایتوں سے رس اور جس حاصل کرنے کی ٹھانی تھی۔ مگر اس وقت مجھے سب سے بڑھ کر وہ تین بزرگ یاد آرہے ہیں جن کی نظریں تخصیص کے ساتھ فرانس کی ادبی روایت پر مرکوز تھیں۔ جیسے دامن پھیلائے ہوئے ہیں کہ وہاں کے جتنے رنگ جتنے گل پھول چنے جا سکتے ہیں ان سے دامن بھر لیا جائے۔ یہ تھے منٹو، میراجی، محمد حسن عسکری۔
منٹو صاحب نے تو اپنی ادبی زندگی کا آغاز ہی اس رنگ سے کیا کہ فرانسیسی مختصر افسانے کے ترجموں پر جٹ گئے۔ جوش میں یہ بھی اعلان کردیا کہ موپساں عالمی ادبی دنیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ اور فرانسیسی شاعری۔ ارے میرا جی سے بڑھ کر اس شاعری کا شیدائی کہاں نظر آئے گا۔ ویسے تو میرا جی دیس دیس کے گل پھول سونگھتے سمیٹتے نظر آتے ہیں۔ مگر جس ذوق و شوق سے انہوں نے بادیلیر، ویاں اور میلارمے ایسے شاعروں کو اپنایا ہے اور جس طرح ڈوب کر انہیں ترجمہ کیا ہے اور ان کا تعارف لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور محمد حسن عسکری۔
فرانس کی ادبی اور علمی روایت میں جس طرح انہوں نے غوطہ زنی کی ہے اور جس شد و مد سے اردو میں اس کا تعارف کرایا ہے اس کی لو کیا پوچھتے ہو۔ مہینے کے مہینے اپنے کالم جھلکیاں میں بتانا کہ اب فرانس میں کون سے رجحان کا چرچا ہے اور سارتر نے اب کون سا گل کھلایا ہے اور سارتر کا معاملہ یہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک پورا دور ایسا گزرا ہے جو سارتر کے اثرات سے گونجتا دکھائی پڑتا ہے۔ اور کامیو، اس کے آؤٹ سائڈر کے آگے پیچھے تین ترجمے ہوئے۔ باقی ناولوں کے بھی ترجمے ہوئے معہ اس آخری ناول ''فرسٹ مین'' کے جسے لکھتے لکھتے ناول نگار دنیا سے گزر گیا۔
لیجئے گارساں دتاسی کو تو میں بھول ہی چلا تھا۔ انیسویں صدی میں اس فرانسیسی سکالر نے کس خوبی سے اردو زبان و ادب کا مطالعہ کیا ہے۔ اور زبان و ادب کی ابتدا اور اور نشو و ارتقا کا اپنے زمانے کے سیاق و سباق میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
مگر میری نظر ہر پھر کر ان تین بزرگوں پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ منٹو، میرا جی، محمد حسن عسکری۔ اس ایوارڈ کو بھی انھیں کا فیض جانتا ہوں۔ سو انھیں کی نذر کرتا ہوں۔
یار کہیں گے کہ منٹو، میرا جی اور عسکری تو ہوئے۔ کچھ اپنی بھی تو کہو۔ کیا کہیں، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اس روایت سے بالخصوص فرانسیسی فکشن کی روایت سے جو تھوڑی شناسائی ہوئی وہ بھی انہیں کے صدقے میں ہوئی۔ لیجئے چلتے چلتے آندرے ژید کا ایک ناول مجھے یاد آگیا۔ انگریزی میں جس کا عنوان ہے۔ کاؤنٹر فیٹرز۔ عجب ناول ہے۔ ختم ہوجاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ آخری صفحہ تک پہنچتے پہنچتے چند بالکل نئے کردار نمودار ہوتے ہیں۔ تو کیا یہاں سے ناول کا کوئی نیا باب شروع ہونے لگا مگر لیجئے ناول کی آخری سطر لکھی گئی۔ ناول ختم۔
مگر کہاں ختم ہوا۔ نیچے لکھاہے To Be Continued اور ژید کی بصیرت سے میں نے یہ جانا کہ کہانی جب شروع ہوجائے تو اس کا کوئی انت نہیں۔ کہانی کارکا قلم جہاں رک جاتا ہے اسے ہم ناول یا افسانے کا انجام سمجھ لیتے ہیں۔ مگر کہانی تو پھر بھی جاری رہتی ہے۔ اسی لیے تو اچھے ناول، اچھے افسانے کا انجام ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
آخر میں میری نظر پھر انہیں اپنے تین بزرگوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ منٹو، میراجی، محمد حسن عسکری، اس ایوارڈ کو بھی میں انہیں کا فیض جانتا ہوں۔ سو بصدادب انہیں کو نذر کرتا ہوں۔