بات کچھ اِدھر اُدھر کی ابھی اسے مزا چکھاتے ہیں
یہ مظلوم مردوں پر کئے جانے والا وہ ظلم ہے جو ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔
KARACHI:
اوئے مارو مارو۔۔۔۔۔۔جانے نہ پائے۔۔۔۔ ابھی اسے مزا چکھاتے ہیں۔
بھائی میری بات تو پوری سن لو پہلے۔۔۔۔۔ اوئے زبان چلاتے ہو۔۔ مارو اسے اور مارو ۔۔اسکی عقل ٹھکانے آجائے۔اس کے گھر میں ماں بہن نہیں ہے۔ابھی اسے تمیز سکھاتے ہیں۔
یہ شور و غل سن کر میں بھی اس بھیڑ کی طرف متوجہ ہوا۔ ایسے مناظر عید کے دنوں میں اکثر ان بازاروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں خواتین کا رش ہوتا ہے۔ پہلی نظر میں میرا بھی دل کیا کہ اسے دو چار ہاتھ لگا دوں تھوڑی اپنی بھی فرسٹریشن نکل جائے گی لیکن مجھے موقع نہ مل سکا۔جب کچھ بھائی لوگ مار پیٹ کر کے تھک گئے اور لوگوں کے جذبات بھی سرد ہونا شروع ہوئے تو تحقیقات کا عمل شروع ہوا۔کسی نے اس لڑکے کو پانی کا گلاس پیش کیا اس نے ہانپتے کانپتے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کر اپنے حواس بہتر کئے اور رو رو کر اپنی کتھا سنائی کہ جس لڑکی کے پیچھے وہ بھاگتا ہوا آیا تھا وہ ان کی دوکان سے ایک سوٹ چوری کر کے بھاگی تھی اورجیسے ہی اسے میں نے پکڑا ، لوگوں نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔
اتنے میں کسی نے کہا کہ وہ لڑکی کہاں ہے؟ اب خود سوچئے بھلا وہ کہاں وہاں رکنے والی تھی۔
چلیں اب اس سے بھی زیادہ بھیانک داستان کی طرف آتے ہیں جس کا آغاز میاں بیوی کی گھریلو لڑائی سے ہوا۔ شوہر کا بیوی سے یہ شکوہ کہ اس کے باہر جانے کے بعد بیوی اس کی والدہ کا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتی ہے۔بات بڑھتے بڑھتے بڑھی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بیوی کو جب کچھ اور نہ سوجی تو اس نے جھٹ سے پولیس کے ایک اعلی آفیسر کے سامنے رو رو کر یہ کہہ دیا کہ اس کا شوہر ایک مخالف سیاسی جماعت کے جلسے کے لئے کافی تعداد میں لوگ اکٹھے کر کے جانے والا ہے۔ ظاہر ہے اب پولیس نے اس کے گھر یوں چھاپہ مارا جیسے وہ کوئی ڈان تھا اور گیارہ ممالک کی پولیس اس کے پیچھے تھی۔وہ غریب پچاس دن تک جیل میں رہا اور بڑی مشکل سے رہا ہوا۔
اور ایک المناک داستان کا تو میں خود کردار ہوں، ہے تو آج سے تیس سال پرانی بات مگر آج تک میں اس داغ کو دھو نہیں سکا۔ہوا یہ کہ میری شادی کو چند روز ہی ہوئے تھی ایک دن ہم کسی کی دعوت پر جانے لگے تو شریک حیات نے کہا کہ خالی ہاتھ جانا مناسب نہیں بازارسے کوئی پھل فروٹ لے جاتے ہیں۔زوجہ محترمہ پردے کی خاصی پابند تھیں۔ہم ہنستے مسکراتے قلقاریاں مارتے گھرسے موٹر سائیکل پر روانہ ہوئے اور راستے میں فروٹ مارکیٹ رکے۔سامنے کافی ساری ریڑھیاں تھیں۔اب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہم مڈل کلاس ایک کلو سیب بھی لینے جائیں تو دس بیس ریڑھیاں یوں ہی گھوم لیتے ہیں کہ کہیں اپنی جع پونجی لٹا نہ دیں۔
جب کافی دیر ہو گئی اور زوجہ محترمہ واپس نہ آئیں تو میں نے بائیک کھڑی کی اور نکلا تلاش میں۔ وہاں کافی تعداد میں خواتین با نقاب تھیں مجھے الجھن ہونے لگی ایک ریڑھی پر مجھے شک ہوا جیسے میری زوجہ کھڑی ہیں، میں نے جاتے ہی پوچھ لیا کہ ابھی تک پھل لئے نہیں؟ اس نے گردن ہلا دی کہ نہیں۔خیر میں نے جلدی سے پھل اٹھا کر ریڑھی والے کو تولنے کا کہا اور پیسے دے کر شاپنگ بیگ اسے پکڑا کر کہا کہ چلواب چلیں دیر ہو رہی ہے۔میرا یہ کہنا تھا کہ اس پردہ نشین نے تیز آواز میں کہا؛
میں نے اس کی آواز سنی تو اندازہ ہوا کہ میں ایک جیسے پردے سے کتنا بڑا دھوکا کھا گیا ہوں،جب تک میں یہ غلط فہمی دور کرتا اور میری حقیقی شریک حیات آ کر میری صفائی دیتی مجھے کافی سارے ہاتھ لگ چکے تھے۔دعوت میں تو پھر کیا جانا تھا ہم نے۔چاک گریباں میں گھر آنا پڑا۔ جہاں جہاں سے بھی ہم گزرے لوگ عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے کہ ایک بندہ آگے گریبان پھٹا موٹر سائیکل چلا رہا ہے اور ایک پردہ نشین پیچھے آنسو بہا رہی ہے۔ہم دونوں تکلیف میں تھے مگر نوعیت مختلف تھی۔
مجھے یہ غم تھا کہ میں تو ایسا ویسا نہیں تھا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ اور میری زوجہ اس دکھ میں تھی کہ اس کے نصیب پھوٹ گئے جو ایک دل پھینک اور چھچھورے انسان سے اس کی زندگی جوڑ دی گئی۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات کا ردعمل اس قدر فوری ہوتا ہے کہ بس آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہ مظلوم مردوں پر کئے جانے والا وہ ظلم ہے جو ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ کاش کوئی ہم بچاروں کی بھی فریاد سن لے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اوئے مارو مارو۔۔۔۔۔۔جانے نہ پائے۔۔۔۔ ابھی اسے مزا چکھاتے ہیں۔
بھائی میری بات تو پوری سن لو پہلے۔۔۔۔۔ اوئے زبان چلاتے ہو۔۔ مارو اسے اور مارو ۔۔اسکی عقل ٹھکانے آجائے۔اس کے گھر میں ماں بہن نہیں ہے۔ابھی اسے تمیز سکھاتے ہیں۔
یہ شور و غل سن کر میں بھی اس بھیڑ کی طرف متوجہ ہوا۔ ایسے مناظر عید کے دنوں میں اکثر ان بازاروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں خواتین کا رش ہوتا ہے۔ پہلی نظر میں میرا بھی دل کیا کہ اسے دو چار ہاتھ لگا دوں تھوڑی اپنی بھی فرسٹریشن نکل جائے گی لیکن مجھے موقع نہ مل سکا۔جب کچھ بھائی لوگ مار پیٹ کر کے تھک گئے اور لوگوں کے جذبات بھی سرد ہونا شروع ہوئے تو تحقیقات کا عمل شروع ہوا۔کسی نے اس لڑکے کو پانی کا گلاس پیش کیا اس نے ہانپتے کانپتے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کر اپنے حواس بہتر کئے اور رو رو کر اپنی کتھا سنائی کہ جس لڑکی کے پیچھے وہ بھاگتا ہوا آیا تھا وہ ان کی دوکان سے ایک سوٹ چوری کر کے بھاگی تھی اورجیسے ہی اسے میں نے پکڑا ، لوگوں نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔
اتنے میں کسی نے کہا کہ وہ لڑکی کہاں ہے؟ اب خود سوچئے بھلا وہ کہاں وہاں رکنے والی تھی۔
چلیں اب اس سے بھی زیادہ بھیانک داستان کی طرف آتے ہیں جس کا آغاز میاں بیوی کی گھریلو لڑائی سے ہوا۔ شوہر کا بیوی سے یہ شکوہ کہ اس کے باہر جانے کے بعد بیوی اس کی والدہ کا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتی ہے۔بات بڑھتے بڑھتے بڑھی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بیوی کو جب کچھ اور نہ سوجی تو اس نے جھٹ سے پولیس کے ایک اعلی آفیسر کے سامنے رو رو کر یہ کہہ دیا کہ اس کا شوہر ایک مخالف سیاسی جماعت کے جلسے کے لئے کافی تعداد میں لوگ اکٹھے کر کے جانے والا ہے۔ ظاہر ہے اب پولیس نے اس کے گھر یوں چھاپہ مارا جیسے وہ کوئی ڈان تھا اور گیارہ ممالک کی پولیس اس کے پیچھے تھی۔وہ غریب پچاس دن تک جیل میں رہا اور بڑی مشکل سے رہا ہوا۔
اور ایک المناک داستان کا تو میں خود کردار ہوں، ہے تو آج سے تیس سال پرانی بات مگر آج تک میں اس داغ کو دھو نہیں سکا۔ہوا یہ کہ میری شادی کو چند روز ہی ہوئے تھی ایک دن ہم کسی کی دعوت پر جانے لگے تو شریک حیات نے کہا کہ خالی ہاتھ جانا مناسب نہیں بازارسے کوئی پھل فروٹ لے جاتے ہیں۔زوجہ محترمہ پردے کی خاصی پابند تھیں۔ہم ہنستے مسکراتے قلقاریاں مارتے گھرسے موٹر سائیکل پر روانہ ہوئے اور راستے میں فروٹ مارکیٹ رکے۔سامنے کافی ساری ریڑھیاں تھیں۔اب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہم مڈل کلاس ایک کلو سیب بھی لینے جائیں تو دس بیس ریڑھیاں یوں ہی گھوم لیتے ہیں کہ کہیں اپنی جع پونجی لٹا نہ دیں۔
جب کافی دیر ہو گئی اور زوجہ محترمہ واپس نہ آئیں تو میں نے بائیک کھڑی کی اور نکلا تلاش میں۔ وہاں کافی تعداد میں خواتین با نقاب تھیں مجھے الجھن ہونے لگی ایک ریڑھی پر مجھے شک ہوا جیسے میری زوجہ کھڑی ہیں، میں نے جاتے ہی پوچھ لیا کہ ابھی تک پھل لئے نہیں؟ اس نے گردن ہلا دی کہ نہیں۔خیر میں نے جلدی سے پھل اٹھا کر ریڑھی والے کو تولنے کا کہا اور پیسے دے کر شاپنگ بیگ اسے پکڑا کر کہا کہ چلواب چلیں دیر ہو رہی ہے۔میرا یہ کہنا تھا کہ اس پردہ نشین نے تیز آواز میں کہا؛
" توں کون ہندا اے پیسے دین والا ہور پچھن والا،دسدی آں میں تینوں " ( تم کون ہوتے ہو پیسے دینے والے اور پوچھنے والے، میں تمہیں ابھی بتاتی ہوں) ۔
میں نے اس کی آواز سنی تو اندازہ ہوا کہ میں ایک جیسے پردے سے کتنا بڑا دھوکا کھا گیا ہوں،جب تک میں یہ غلط فہمی دور کرتا اور میری حقیقی شریک حیات آ کر میری صفائی دیتی مجھے کافی سارے ہاتھ لگ چکے تھے۔دعوت میں تو پھر کیا جانا تھا ہم نے۔چاک گریباں میں گھر آنا پڑا۔ جہاں جہاں سے بھی ہم گزرے لوگ عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے کہ ایک بندہ آگے گریبان پھٹا موٹر سائیکل چلا رہا ہے اور ایک پردہ نشین پیچھے آنسو بہا رہی ہے۔ہم دونوں تکلیف میں تھے مگر نوعیت مختلف تھی۔
مجھے یہ غم تھا کہ میں تو ایسا ویسا نہیں تھا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ اور میری زوجہ اس دکھ میں تھی کہ اس کے نصیب پھوٹ گئے جو ایک دل پھینک اور چھچھورے انسان سے اس کی زندگی جوڑ دی گئی۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات کا ردعمل اس قدر فوری ہوتا ہے کہ بس آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہ مظلوم مردوں پر کئے جانے والا وہ ظلم ہے جو ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ کاش کوئی ہم بچاروں کی بھی فریاد سن لے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔