پاکستان ایک نظر میں کیا ٹائیگرز شیروں کا مقابلہ کرسکیں گے
سیاسی جماعتوں نے معاملات کو قابو نہیں کیا تونقصان صرف اُن کا نہیں پاکستان کا بھی ہوسکتا ہے اوراللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔
سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بھی بند نہیں کئے جاتے اگر کسی ملک کے سیاست دان مذاکرات کے دروازے بند کر دیں اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے غیر جمہوری رویے اپنانے لگیں تو پھر ایسے معاشروں میں افراتفری جنم لینے لگتی ہے جو آہستہ آہستہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے کر خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
لاہور میں 17 جون 2014 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آتا ہے جو پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک ''انقلاب سا'' برپا کر دیتا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری نیا پاکستان اور انقلاب کا ایجنڈا لے کر اسلام آباد پہنج جاتے ہیں، حکومت کی جانب سے ابتدا میں تو دھرنوں کے حوالے سے انتہائی سخت موقف اختیار کیا جاتا ہے لیکن کپتان اور قادری کے کارکنوں کی مستقل مزاجی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کرتی ہے پھر دونوں جماعتوں سے مذاکرات کے لئے ٹیمیں تشکیل پاتی ہیں، کبھی مذاکرات کی گاڑی آگے چلتی تو کبھی اسے رستے میں بریک لگ جاتی لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کی جانب سے مسلسل سخت موقف کے باعث مذاکرات منجمد ہو کر رہے جاتے ہیں اور پھر اور ہر طرف تبدیلی کے اور گو نواز گو کے نعرے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری نے عوام کو تھوڑا بہت ہی سہی مگر سیاسی شعور ضرور دیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر دونوں حضرات پہلے اپنی اور اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کر لیتے اور پھر میدان میں آتے۔ اس وقت کپتان اور اور قادری صاحب نے ملک میں ''گو نواز گو'' کی مہم شروع کر رکھی ہے جس نے نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء، مشیروں اور رہنماؤں کو بلکہ (ن) لیگ کے ''شیروں'' کا بھی جینا محال کر رکھا ہے۔ اب سرکاری و غیر سرکاری تقریبات کے علاوہ گو نواز گو کی تحریک اسکول، کالجز، جامعات اور گلی محلوں میں بھی جا پہنچی ہے جو ماڈل ٹاؤن کی طرز کے یا اس سے بھی کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ٹائیگرز نے گو نواز گو کے حوالے سے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اگر یہی طرز جاری رہا تو صورت حال عمران خان کے قابو سے باہر نکل جائے گی اور پھر اب تو وزیراعظم نواز شریف کی حمایت میں مریم نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر حکومتی اراکین کے خطرناک بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس سے نکلنے والی چنگاری پورے ملک کو آناً فاناً اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
چند روز قبل وزیراعظم نواز شریف وزیرآباد میں سیلاب متاثرین سے خطاب کر کے گئے تو کچھ لوگوں نے وہاں بھی گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کر دیئے جس پر مسلم لیگ ن کے ایم پی اے توفیق بٹ غصے میں آ گئے اور مظاہرین کی پٹائی کرنا شروع کردی اور پھر میڈیا میں آکر جوشیلہ بیان بھی دے دیا کہ اگر آئندہ ان دہشت گردوں نے کسی جلسے میں اس قسم کی حرکت کی تو ہم انھیں ٹھڈے ماریں گے۔ جس پر مریم نواز کے ٹویٹ نے جلتی کا کام کیااور کہہ ڈالا کہ ''شیروں سے پنگا لینے والوں کے لئے یہ پہلا ٹریلر ہے''۔
پھر کچھ ہی دنوں بعد پشاور کے اسلامیہ کالج میں بھی ایک تقریب کے دوران گو نواز گو کا نعرہ لگانے پر 2 طلبہ تنظیمیں آمنے سامنے آ گئیں اور بات صرف ہاتھا پائی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نوبت فائرنگ تک آ پہنچی جس کی زد میں آ کر طالب علم زخمی بھی ہو گیا۔
یہ تووہ واقعات ہیں جو اب تک رونما ہوچکے ہیں جسے ہم آٹے میں نمک کے مترادف قرار دے کر نظر انداز کرسکتے ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ چند واقعات ہیں مگر چنگاری کا آغاز ہے۔ آج بات صرف ہاتھا پائی تک پہنچی ہے مگر یہ سلسلہ کسی بھی بڑے تصادم کی وجہ بن سکتاہے ۔ ابھی تو ایک گروہ اپنی من مانی کررہا ہے لیکن اگر دوسرے گروہ نے بھی جواب دینے کا فیصلہ کرلیا تو پھر قائدین کے لڑائی گلی محلوں میں پہنچ سکتی ہے جسے عام حرفوں میں خانہ جنگی کہا جاسکتاہے ۔۔۔۔ اور اگر آپ تاریخ کو پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو پڑھیے کہ قوموں کی تباہی کے لیے محض صرف خانہ جنگی ہی کافی ہے پھر قائدین کی لگائی ہی آگ اُن کے ہاتھ سے بھی نکل جاتی ہے اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو لوگ چاہتے ہیں یعنی خود کی بات ٹھیک اور دوسرے کی بات غلط اور اُس کی غلطی کی سزا کا تعین بھی پھر وہی خود کرتے ہیں۔
اِس لیے میں قائدین سے التجا کرتا ہوں پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو کہ معاملات کو سنبھالیے ۔۔۔ اب بھی کھیل آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن نہیں جانتا کہ یہ کب تک آپ کے ہاتھ میں ہی رہے گا ۔۔۔ لیکن جب تک ہے اُ س وقت تک سب اچھا ہونے کے امکانات ہیں لیکن اگر وقت نکل گیا تو نقصان محض سیاسی جماعتوں کو نہیں پاکستان کو بھی ہوسکتا ہے اور اللہ نہ کرے کہ ایسا کبھی ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لاہور میں 17 جون 2014 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آتا ہے جو پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک ''انقلاب سا'' برپا کر دیتا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری نیا پاکستان اور انقلاب کا ایجنڈا لے کر اسلام آباد پہنج جاتے ہیں، حکومت کی جانب سے ابتدا میں تو دھرنوں کے حوالے سے انتہائی سخت موقف اختیار کیا جاتا ہے لیکن کپتان اور قادری کے کارکنوں کی مستقل مزاجی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کرتی ہے پھر دونوں جماعتوں سے مذاکرات کے لئے ٹیمیں تشکیل پاتی ہیں، کبھی مذاکرات کی گاڑی آگے چلتی تو کبھی اسے رستے میں بریک لگ جاتی لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کی جانب سے مسلسل سخت موقف کے باعث مذاکرات منجمد ہو کر رہے جاتے ہیں اور پھر اور ہر طرف تبدیلی کے اور گو نواز گو کے نعرے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری نے عوام کو تھوڑا بہت ہی سہی مگر سیاسی شعور ضرور دیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر دونوں حضرات پہلے اپنی اور اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کر لیتے اور پھر میدان میں آتے۔ اس وقت کپتان اور اور قادری صاحب نے ملک میں ''گو نواز گو'' کی مہم شروع کر رکھی ہے جس نے نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء، مشیروں اور رہنماؤں کو بلکہ (ن) لیگ کے ''شیروں'' کا بھی جینا محال کر رکھا ہے۔ اب سرکاری و غیر سرکاری تقریبات کے علاوہ گو نواز گو کی تحریک اسکول، کالجز، جامعات اور گلی محلوں میں بھی جا پہنچی ہے جو ماڈل ٹاؤن کی طرز کے یا اس سے بھی کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ٹائیگرز نے گو نواز گو کے حوالے سے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اگر یہی طرز جاری رہا تو صورت حال عمران خان کے قابو سے باہر نکل جائے گی اور پھر اب تو وزیراعظم نواز شریف کی حمایت میں مریم نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر حکومتی اراکین کے خطرناک بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس سے نکلنے والی چنگاری پورے ملک کو آناً فاناً اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
چند روز قبل وزیراعظم نواز شریف وزیرآباد میں سیلاب متاثرین سے خطاب کر کے گئے تو کچھ لوگوں نے وہاں بھی گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کر دیئے جس پر مسلم لیگ ن کے ایم پی اے توفیق بٹ غصے میں آ گئے اور مظاہرین کی پٹائی کرنا شروع کردی اور پھر میڈیا میں آکر جوشیلہ بیان بھی دے دیا کہ اگر آئندہ ان دہشت گردوں نے کسی جلسے میں اس قسم کی حرکت کی تو ہم انھیں ٹھڈے ماریں گے۔ جس پر مریم نواز کے ٹویٹ نے جلتی کا کام کیااور کہہ ڈالا کہ ''شیروں سے پنگا لینے والوں کے لئے یہ پہلا ٹریلر ہے''۔
پھر کچھ ہی دنوں بعد پشاور کے اسلامیہ کالج میں بھی ایک تقریب کے دوران گو نواز گو کا نعرہ لگانے پر 2 طلبہ تنظیمیں آمنے سامنے آ گئیں اور بات صرف ہاتھا پائی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نوبت فائرنگ تک آ پہنچی جس کی زد میں آ کر طالب علم زخمی بھی ہو گیا۔
یہ تووہ واقعات ہیں جو اب تک رونما ہوچکے ہیں جسے ہم آٹے میں نمک کے مترادف قرار دے کر نظر انداز کرسکتے ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ چند واقعات ہیں مگر چنگاری کا آغاز ہے۔ آج بات صرف ہاتھا پائی تک پہنچی ہے مگر یہ سلسلہ کسی بھی بڑے تصادم کی وجہ بن سکتاہے ۔ ابھی تو ایک گروہ اپنی من مانی کررہا ہے لیکن اگر دوسرے گروہ نے بھی جواب دینے کا فیصلہ کرلیا تو پھر قائدین کے لڑائی گلی محلوں میں پہنچ سکتی ہے جسے عام حرفوں میں خانہ جنگی کہا جاسکتاہے ۔۔۔۔ اور اگر آپ تاریخ کو پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو پڑھیے کہ قوموں کی تباہی کے لیے محض صرف خانہ جنگی ہی کافی ہے پھر قائدین کی لگائی ہی آگ اُن کے ہاتھ سے بھی نکل جاتی ہے اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو لوگ چاہتے ہیں یعنی خود کی بات ٹھیک اور دوسرے کی بات غلط اور اُس کی غلطی کی سزا کا تعین بھی پھر وہی خود کرتے ہیں۔
اِس لیے میں قائدین سے التجا کرتا ہوں پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو کہ معاملات کو سنبھالیے ۔۔۔ اب بھی کھیل آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن نہیں جانتا کہ یہ کب تک آپ کے ہاتھ میں ہی رہے گا ۔۔۔ لیکن جب تک ہے اُ س وقت تک سب اچھا ہونے کے امکانات ہیں لیکن اگر وقت نکل گیا تو نقصان محض سیاسی جماعتوں کو نہیں پاکستان کو بھی ہوسکتا ہے اور اللہ نہ کرے کہ ایسا کبھی ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔