لیاری پیاری ایسے نہ تھے ہم
ایسی بستی جہاں دن رات یکساں تھے، گلی محلے کے چائے کے ہوٹل کھلے رہتے، بڑے بوڑھے فٹ پاتھوں پر لیڈو اورگوٹیاں کھیلتے۔
ہاں وہ عجیب بستی تھی، ایسی بستی جو بستے بستے بستی ہے۔ جہاں پیار تھا، محبت تھی، الفت تھی، ایکا تھا، انسانیت تھی۔ جہاں ہر مذہب و ملت کے انسان ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ مسلم، ہندو، مسیحی ہاں سکھ بھی۔
جہاں رقص تھا، موسیقی تھی اور موسیقی بھی ایسی جو سیدھی دلوں میں گھرکرتی تھی، جیون پر اکساتی تھی۔ جہاں شاذونادر ہی کوئی کسی کو اس کے اصل نام سے پکارتا تھا۔ ہر ایک کا نام پیار تھا، ہاں دادو، ہیرا، موتی، ہاں جیسے ہرجی باپو، واجہ کریم، گل لالہ، خان بھائی اور ایسے ہی پیار بھرے، دلوں کو چھولینے والے، اپنائیت کے رس میں ڈوبے ہوئے رس گلے جیسے میٹھے نام ۔
ہاں ایسی بستی جہاں '' یہی تو ہے وہ اپنا پن'' مجسم چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ جہاں سب کچھ سانجھا تھا،کھانا پینا، رونا دھونا، ہنسنا گانا۔ ہاں ایسی بستی جہاں اداسی بھی مسکرائے بنا نہیں رہ پاتی تھی۔ جہاں دکھ، سکھ میں بدل جاتا، اندیشہ دم توڑ دیتا ہاں ایسی بستی تھی وہ۔ جہاں ڈھول کی تاپ پرکائنات جھومنے لگتی۔ نوجوان، بچے، بوڑھے اور بڑی عمر کی خواتین بھی جو محلے بھر کی ماسی یعنی خالہ، اماں، تائی، بے بے تھیں اور ایسی زورآور کہ اگر وہ کسی کو بھی، ہاں کسی بھی نوجوان کو چانٹا مار دیتیں تو وہ نوجوان ہنس کر دوسرا گال بھی ان کے آگے کردیتا، ہاں ان کے پاؤں پکڑے معافی مانگتا ہوا، ہنستا ہوا۔ ہاں ایسی زور آور۔ وہ سب جب بے خود ہوکر ناچتے اور ایسا ناچتے کہ زمین کی گردش تھم سی جاتی، یوں لگتا جیسے زمین اپنے محور سے ہٹ کر ان رقاصوں، ہاں بے ریا رقاصوں کے ساتھ محو رقص ہے۔ ہاں وہ بے ریا بستی تھی اور اس کے باسی اس کا عکس تھے۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ بستی بہت خوش حال لوگوں کی بستی تھی، نہیں ایسا نہیں تھا۔ ایسی بستی جہاں کی پیاس پانی کو ترستی تھی، جہاں روزگار نہیں تھا، جہاں کی سڑکیں گندے پانی میں ڈوبی رہتیں، جہاں روز بھوک اگتی تھی، افلاس خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیلتا جاتا تھا۔ جہاں سیاسی بازی گر اپنے لفظوں کی مالاجپتے تھے، سہانے خواب بیچتے تھے، مکروہ چہروں پر خوب صورت عکس سجاتے تھے، ہاں ایسے تھے وہ۔ لیکن اس بستی کے بے ریا مکین ان بازی گروں کو بھی سر پر بٹھاتے، سینے سے لگاتے تھے، ان کے راگوں پر سر دھنتے تھے۔ عجیب عاشقین تھے کہ جسے دل دے دیا، بس دے دیا، سر تا پا بس اپنے محبوب کے گیت گائے چلے جاتے تھے،ان کا سب کچھ اپنے محبوب کے لیے تھا۔ لیکن ان کا محبوب ان بے ریا لوگوں کے دام لگاتا رہا اور اپنے کھیسے بھرتا رہا۔ عجیب بستی تھی وہ، جہاں کے باسی گلہ شکوہ کیا ہوتا ہے، جانتے ہی نہیں تھے۔
ہاں یہ بستی مزدوروں کی بستی تھی، ہاں وہ مزدور جن کے ماتھے پر ہی نہیں پورے بدن پر محنت کا پسینہ تھا، محنت کی سوندھی خوش بو میں بسا ہوا، بہتا ہوا پسینہ، جس کا ہر قطرہ موتی تھا۔ جو دن بھر خلق خدا کا بوجھ ڈھوتے تھے۔ جن کی گاڑیوں کو ان کے گدھے جوتتے تھے، ایسے گدھے جوانھیں کسی کماؤ پوت سے کم پیارے نہیں تھے، انسانوں کی طرح وہ اپنے گدھوں کو بھی پیار کی چاشنی میں بسے ہوئے ناموں سے پکارتے تھے، وہ انھیں سجاتے تھے انھیں مہندی لگاتے تھے ہاں مہندی، ایسا پیار کرتے تھے وہ ان کے ساتھ، مجال ہے کوئی ان کے گدھے کو چھو بھی لے۔ وہ دن بھر مشقت کرتے اور جب سورج ڈھلتا تو اپنے گھروندوں، تنگ و تاریک گھروندوں کو لوٹتے تھے، اپنے بچوں سے پہلے وہ اپنے گدھوں کا پیٹ بھرتے انھیں چارا دیتے اور پیار اور تشکر میں ان کی پیٹھ سہلاتے۔ ہاں ایسے تھے وہ۔ ایک گدھا گاڑی تو پوری کی پوری چاندی کا ملبوس پہنے گھوما کرتی تھی، صوبائی حکومت سے اسے ہر سال ایوارڈ ملتا تھا۔
ایسی بستی جہاں دن رات یکساں تھے، گلی محلے کے چائے کے ہوٹل کھلے رہتے، بڑے بوڑھے فٹ پاتھوں پر لیڈو اورگوٹیاں کھیلتے۔ جہاں نوجوانوں کو یکسر بھلا دیا گیا تھا، جہاں کھیل کود کی کوئی سہولت نہیں تھی، پھر بھی یہاں کے نوجوان فٹ بال اور باکسنگ کو اپنائے ہوئے تھے اور ایسے ہی نہیں، انھوں نے کئی مرتبہ بیرون ملک پاکستان کا نام بلند کیا تھا۔ جہاں سب ایک تھے، جہاں تعصب کی لعنت کا داخلہ بند تھا۔ جہاں کے لکھے پڑھے نوجوان اپنی بستی کے معصوم بچوں اور نوجوانوں کو سڑکوں پر چٹائیاں بچھا کر علم کے نور سے منور کرتے تھے، جہاں پیار سمندر رہتا تھا ، ہاں ایسی بستی تھی وہ۔
یہ سچ ہے کہ وہاں بھی کچھ لوگ منشیات کا زہر بیچتے تھے اور کوئی دوسرا ان کی طرح کا ان کی راہ روکتا تو وہ اسے خون کا غسل دے کر خاک میں ملادیتے تھے، ہاں ایسا تھا وہاں، لیکن کتنے تھے ایسے۔۔۔؟ انگلیوں پر گنے جاسکیں، اور اس بستی کا ایسا کون تھا جو انھیں اچھا سمجھتا تھا، کوئی بھی نہیں، ہاں ایک بھی نہیں، ایسے سارے موت کے سوداگر ملعون تھے اس بستی میں۔ لیکن کیا یہ واحد بستی تھی جہاں ایسے بھی کچھ لوگ بستے تھے۔۔؟ نہیں ایسے لوگ ہر جگہ، ہر بستی میں ہوتے ہیں، پھر آخر وہ بستی ہی کیوں معتوب ٹہری، آخر کیوں۔۔۔۔؟
پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اس بستی، محبت بھری بستی پر شب خون مارا گیا، موت کے سوداگروں کی پشت پناہی کی گئی اور مظلوموں پر بارود برسایا گیا۔ ان بے کسوں کے در و بام جلائے گئے، اس بستی کے مظلوم اور معصوم چاروں اطراف سے انسانیت کے دشمنوں کے نرغے میں تھے۔ لیکن جی داروں کی یہ سخت جان بستی پھر بھی جیتی رہی، سانس لیتی رہی۔
کچھ نوجوانوں نے اس کا چہرہ پھر سے اجالنا شروع کیا ہے۔ عمران ثاقب ، احسان شاہ ، ولی رئیس ، اور عادل حسین بزنجو نے لیاری فلم فسٹیول سجا کر اور اس میں شرکت کرکے لیاری کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ دن اب دور نہیں جب لیاری پھر سے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا اور میں نے جو ہر جگہ'' تھی'' لکھا ہے وہ '' ہے'' میں بدل جائے گا۔
میری سماعت میں ایک گیت گونج رہا ہے اور میری آنکھیں برس رہی ہیں۔
ایسے نہ تھے ہم جیسی ہماری،
کی رسوائی لوگوں نے
کچھ تم نے بدنام کیا،
کچھ آگ لگائی لوگوں نے
جہاں رقص تھا، موسیقی تھی اور موسیقی بھی ایسی جو سیدھی دلوں میں گھرکرتی تھی، جیون پر اکساتی تھی۔ جہاں شاذونادر ہی کوئی کسی کو اس کے اصل نام سے پکارتا تھا۔ ہر ایک کا نام پیار تھا، ہاں دادو، ہیرا، موتی، ہاں جیسے ہرجی باپو، واجہ کریم، گل لالہ، خان بھائی اور ایسے ہی پیار بھرے، دلوں کو چھولینے والے، اپنائیت کے رس میں ڈوبے ہوئے رس گلے جیسے میٹھے نام ۔
ہاں ایسی بستی جہاں '' یہی تو ہے وہ اپنا پن'' مجسم چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ جہاں سب کچھ سانجھا تھا،کھانا پینا، رونا دھونا، ہنسنا گانا۔ ہاں ایسی بستی جہاں اداسی بھی مسکرائے بنا نہیں رہ پاتی تھی۔ جہاں دکھ، سکھ میں بدل جاتا، اندیشہ دم توڑ دیتا ہاں ایسی بستی تھی وہ۔ جہاں ڈھول کی تاپ پرکائنات جھومنے لگتی۔ نوجوان، بچے، بوڑھے اور بڑی عمر کی خواتین بھی جو محلے بھر کی ماسی یعنی خالہ، اماں، تائی، بے بے تھیں اور ایسی زورآور کہ اگر وہ کسی کو بھی، ہاں کسی بھی نوجوان کو چانٹا مار دیتیں تو وہ نوجوان ہنس کر دوسرا گال بھی ان کے آگے کردیتا، ہاں ان کے پاؤں پکڑے معافی مانگتا ہوا، ہنستا ہوا۔ ہاں ایسی زور آور۔ وہ سب جب بے خود ہوکر ناچتے اور ایسا ناچتے کہ زمین کی گردش تھم سی جاتی، یوں لگتا جیسے زمین اپنے محور سے ہٹ کر ان رقاصوں، ہاں بے ریا رقاصوں کے ساتھ محو رقص ہے۔ ہاں وہ بے ریا بستی تھی اور اس کے باسی اس کا عکس تھے۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ بستی بہت خوش حال لوگوں کی بستی تھی، نہیں ایسا نہیں تھا۔ ایسی بستی جہاں کی پیاس پانی کو ترستی تھی، جہاں روزگار نہیں تھا، جہاں کی سڑکیں گندے پانی میں ڈوبی رہتیں، جہاں روز بھوک اگتی تھی، افلاس خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیلتا جاتا تھا۔ جہاں سیاسی بازی گر اپنے لفظوں کی مالاجپتے تھے، سہانے خواب بیچتے تھے، مکروہ چہروں پر خوب صورت عکس سجاتے تھے، ہاں ایسے تھے وہ۔ لیکن اس بستی کے بے ریا مکین ان بازی گروں کو بھی سر پر بٹھاتے، سینے سے لگاتے تھے، ان کے راگوں پر سر دھنتے تھے۔ عجیب عاشقین تھے کہ جسے دل دے دیا، بس دے دیا، سر تا پا بس اپنے محبوب کے گیت گائے چلے جاتے تھے،ان کا سب کچھ اپنے محبوب کے لیے تھا۔ لیکن ان کا محبوب ان بے ریا لوگوں کے دام لگاتا رہا اور اپنے کھیسے بھرتا رہا۔ عجیب بستی تھی وہ، جہاں کے باسی گلہ شکوہ کیا ہوتا ہے، جانتے ہی نہیں تھے۔
ہاں یہ بستی مزدوروں کی بستی تھی، ہاں وہ مزدور جن کے ماتھے پر ہی نہیں پورے بدن پر محنت کا پسینہ تھا، محنت کی سوندھی خوش بو میں بسا ہوا، بہتا ہوا پسینہ، جس کا ہر قطرہ موتی تھا۔ جو دن بھر خلق خدا کا بوجھ ڈھوتے تھے۔ جن کی گاڑیوں کو ان کے گدھے جوتتے تھے، ایسے گدھے جوانھیں کسی کماؤ پوت سے کم پیارے نہیں تھے، انسانوں کی طرح وہ اپنے گدھوں کو بھی پیار کی چاشنی میں بسے ہوئے ناموں سے پکارتے تھے، وہ انھیں سجاتے تھے انھیں مہندی لگاتے تھے ہاں مہندی، ایسا پیار کرتے تھے وہ ان کے ساتھ، مجال ہے کوئی ان کے گدھے کو چھو بھی لے۔ وہ دن بھر مشقت کرتے اور جب سورج ڈھلتا تو اپنے گھروندوں، تنگ و تاریک گھروندوں کو لوٹتے تھے، اپنے بچوں سے پہلے وہ اپنے گدھوں کا پیٹ بھرتے انھیں چارا دیتے اور پیار اور تشکر میں ان کی پیٹھ سہلاتے۔ ہاں ایسے تھے وہ۔ ایک گدھا گاڑی تو پوری کی پوری چاندی کا ملبوس پہنے گھوما کرتی تھی، صوبائی حکومت سے اسے ہر سال ایوارڈ ملتا تھا۔
ایسی بستی جہاں دن رات یکساں تھے، گلی محلے کے چائے کے ہوٹل کھلے رہتے، بڑے بوڑھے فٹ پاتھوں پر لیڈو اورگوٹیاں کھیلتے۔ جہاں نوجوانوں کو یکسر بھلا دیا گیا تھا، جہاں کھیل کود کی کوئی سہولت نہیں تھی، پھر بھی یہاں کے نوجوان فٹ بال اور باکسنگ کو اپنائے ہوئے تھے اور ایسے ہی نہیں، انھوں نے کئی مرتبہ بیرون ملک پاکستان کا نام بلند کیا تھا۔ جہاں سب ایک تھے، جہاں تعصب کی لعنت کا داخلہ بند تھا۔ جہاں کے لکھے پڑھے نوجوان اپنی بستی کے معصوم بچوں اور نوجوانوں کو سڑکوں پر چٹائیاں بچھا کر علم کے نور سے منور کرتے تھے، جہاں پیار سمندر رہتا تھا ، ہاں ایسی بستی تھی وہ۔
یہ سچ ہے کہ وہاں بھی کچھ لوگ منشیات کا زہر بیچتے تھے اور کوئی دوسرا ان کی طرح کا ان کی راہ روکتا تو وہ اسے خون کا غسل دے کر خاک میں ملادیتے تھے، ہاں ایسا تھا وہاں، لیکن کتنے تھے ایسے۔۔۔؟ انگلیوں پر گنے جاسکیں، اور اس بستی کا ایسا کون تھا جو انھیں اچھا سمجھتا تھا، کوئی بھی نہیں، ہاں ایک بھی نہیں، ایسے سارے موت کے سوداگر ملعون تھے اس بستی میں۔ لیکن کیا یہ واحد بستی تھی جہاں ایسے بھی کچھ لوگ بستے تھے۔۔؟ نہیں ایسے لوگ ہر جگہ، ہر بستی میں ہوتے ہیں، پھر آخر وہ بستی ہی کیوں معتوب ٹہری، آخر کیوں۔۔۔۔؟
پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اس بستی، محبت بھری بستی پر شب خون مارا گیا، موت کے سوداگروں کی پشت پناہی کی گئی اور مظلوموں پر بارود برسایا گیا۔ ان بے کسوں کے در و بام جلائے گئے، اس بستی کے مظلوم اور معصوم چاروں اطراف سے انسانیت کے دشمنوں کے نرغے میں تھے۔ لیکن جی داروں کی یہ سخت جان بستی پھر بھی جیتی رہی، سانس لیتی رہی۔
کچھ نوجوانوں نے اس کا چہرہ پھر سے اجالنا شروع کیا ہے۔ عمران ثاقب ، احسان شاہ ، ولی رئیس ، اور عادل حسین بزنجو نے لیاری فلم فسٹیول سجا کر اور اس میں شرکت کرکے لیاری کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ دن اب دور نہیں جب لیاری پھر سے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا اور میں نے جو ہر جگہ'' تھی'' لکھا ہے وہ '' ہے'' میں بدل جائے گا۔
میری سماعت میں ایک گیت گونج رہا ہے اور میری آنکھیں برس رہی ہیں۔
ایسے نہ تھے ہم جیسی ہماری،
کی رسوائی لوگوں نے
کچھ تم نے بدنام کیا،
کچھ آگ لگائی لوگوں نے