ترقی سے پہلے

کلیسا اُس دور کے سماج کا ایک ترقی پسند اور زندہ جزو تھا، جس نے رومن تہذیب کی بڑی حد تک حفاظت کی نیزعلوم و فنون۔۔۔

shaikhjabir@gmail.com

اگر انسانی تاریخ کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کرنا ہو تو اُس کی درست ترین تقسیم صنعتی انفجار سے قبل و بعد کی جا سکتی ہے۔صنعتی ترقی سے پہلے یورپ کی اخلاقی حالت کیا تھی، کس قسم کی اقدار اور روایات معاشرے میں مقبول تھیں، اس کی تفصیلات ''لیو ہیوبرمین'' (17،اکتوبر 1903 تا 9نومبر1968)نے اپنی کتاب''مینز ورلڈلی گُڈز'' میں بیان کی ہیں۔آپ امریکی سوشلسٹ دانش ور تھے۔طویل عرصے سے جاری معروف جریدے ''منتھلی ریویو'' کے بانی اور مدیر معاون بھی رہے۔

کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ مثلاً ''وی ، دی پیپل '' وغیرہ ۔ متذکرہ کتاب اُن میں سے ایک ہے۔آپ اس کتاب میں لکھتے ہیں''جاگیر داری نظام کی ابتداء میں،کلیسا اُس دور کے سماج کا ایک ترقی پسند اور زندہ جزو تھا، جس نے رومن تہذیب کی بڑی حد تک حفاظت کی نیزعلوم و فنون کی ترقی اور اشاعت میں حصہ لیا۔ اس مقصد کے لیے درس گاہیں قائم کیں، اس نے غریبوں کی مدد کی، یتیم خانوں کا انتظام کیا اور بیماروں کے لیے شفاخانے کھولے۔

کلیسا کی ان خدمات پر نگاہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کلیسا نے اس دور میں اپنے زیرِ تصرف ریاست کا انتظام اس دور کے بہت سارے دنیاوی رئیسوں کے مقابلے میں بہت بہتر کیا۔لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے جس نے یورپ کے عیسائی سماج کو خاصا متاثر کیا۔ مثلاً جب کہ عام امراء اپنے حلقہ بگوشوں کی تعداد بڑھانے کے لیے اپنی مقبوضہ جاگیروں کو بانٹتے اور ٹکڑے ٹکڑے کرتے رہتے تھے، ان کے مقابلے میں کلیسا کی ریاست کا رقبہ دن بدن بڑھتا اور پھیلتا جاتا تھا۔''

صنعتی انفجار سے پہلے نفع کی نیت سے روپیہ کا استعمال درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عوام کی اکثریت سود کو حرام سمجھتی تھی۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں جب انگلستان میں سود خوری کے خلاف قانون پاس ہوا تھا۔ اُس کے الفاظ یہ تھے''سود خوری خدا کے حکم سے بالکل حرام قرار دی گئی ہے۔ خدا کے احکام اور مذہبی تعلیمات ایسے شخص کے دل میں، جو دولت کی ہوس سے خراب ہوچکا ہو، جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ ایسے شخص کے دل میں نیکی قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔

اس لیے اس سلطنت کے لیے قانون بنایا جاتا ہے کہ اس ریاست کا کوئی شخص یا اشخاص خواہ وہ کسی مرتبے کے ہوں، ان کا کوئی منصب ہو اور وہ کسی صفت اور حالت کے مالک ہوں، وہ کسی شعبے سے، کسی ذریعے، کسی قاعدے سے کوئی رقم یا رقمیں کسی قسم کے سود پر نہیں دے سکتے اور نہ سود لے سکتے ہیں اور نہ سود لینے کی امید بھی کرسکتے ہیں۔ اس رقم پر جو انھوں نے قرض دی ہے وہ کوئی اضافہ نہیں لے سکتے اگر وہ اس حکم کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کی رقم یا رقمیں اور ان کا سود سب ضبط کرلیا جائے گا۔''

اس حکم اور قانون سے ہمیں واضح طو رپر اس امر کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں عوام کی بڑی تعداد کا خیال سود خوری کے متعلق کیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس دور میں لوگ سود کے مخالف کیوں تھے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جاگیرداری نظام کے تانے بانے پر اچھی طرح نگاہ ڈالنی چاہیے۔ جاگیر داری زمانے میں تجارت بہت چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھی۔ اس زمانے میں نفع کی نیت سے کہیں روپیہ لگانا نہ تو ممکن ہی تھا اور نہ ہی اس امر کی کوئی ضرورت ہی درپیش تھی۔ اگر کوئی شخص قرض چاہتا بھی تو اسے یہ کبھی خیال نہ ہوتا تھاکہ وہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے قرض لے رہا ہے۔


اس کو صرف زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے قرض کی حاجت ہوتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں قرض کی ضرورت زیادہ تر نادار لوگوں کو ہی پڑتی تھی۔ ان کے مویشی مرجاتے یا کثرت باراں سے فصل تباہ ہو جاتی تو وہ قرض کے طالب ہوتے۔قرون وسطیٰ کے مروجہ اخلاق کا یہ تقاضا ہوتاتھا کہ اگر کوئی انسان یا ہمسایہ مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کی مدد انسانی فرض ہے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے نفع کی فکر نہ کرنی چاہیے۔ نیک عیسائی نفع کا خیال کیے بغیر اپنے پڑوسی کی مدد کرتا تھا۔

آدم اسمتھ (5 جون 1723 تا 17 جولائی1790) کا جدید معاشیات میں جو مقام ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اگرچہ آپ کی کتاب ''دی ویلتھ اوف نیشنز''کو عمومی طور پر زیادہ وقیع گردانا جاتا ہے لیکن خود آدم اسمتھ اپنی کتاب ''دی تھیوری اوف مورل سینٹیمنٹس'' کو اپنا بہ ترین کام سمجھتے تھے۔ اولاً یہ کتاب 1759میںشائع ہوئی تھی لیکن آدم اسمتھ اس میں تمام عمر اضافے کرتے رہے۔اس کتاب میں آپ نے اپنے دور کے فرد کی اخلاقی اقدار کا محاکمہ کیا ہے۔ آدم اسمتھ کے مطابق قدرومنزلت اُس فرد کی ہوا کرتی تھی جو فقیرانہ طرزِ زندگی اپناتا تھا۔ آئیڈیل وہ ہوا کرتے تھے جو دنیا سے کم سے کم تمتع کرتے ہوں اور کسبِ معاش کی آلائشوں سے خود کو بچائے رکھتے ہوں، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام، جیسے پوپ، جیسے سقراط وغیرہ آدم اسمتھ اور تحریکِ تنویر کے متبئین کے تئیں یہ ایک نامطلوب وصف ہے۔دوسری خصوصیت فرد کا ''پبلک مین'' ہونا تھی۔ اُس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کسی بھی تضاد سے عاری ہوا کرتی تھی۔

پبلک اور پرائیوٹ لائف میں کوئی فرق نہ تھا۔ اس دور میں کلیسا کا خیال تھا کہ انسان کی عملی زندگی کے نیک اور بد دو پہلو ہوتے ہیں۔ انسان کے مذہبی اعمال بھی اچھے برے پہلوؤں سے خالی نہیں، لیکن کلیسا نے ان پہلوؤں کے تعین کے لیے اپنے علیحدہ اصول نہیں بنائے تھے، بلکہ سماجی زندگی کی اچھائی برائی کے معیار اور معاشی زندگی کے اچھے اور برے پہلو جانچنے کے جو پیمانے عام طور سے تسلیم کیے جاتے تھے کلیسا نے بھی ان ھی کو اپنا لیا تھا۔ اس طریقۂ کار کا اگر آپ آج کی زندگی سے مقابلہ کریں تو بڑا فرق نظر آئے گا۔ تاجر کسی اجنبی کے ساتھ تجارتی معاملات میں کچھ ایسی باتیں کرسکتا ہے جو وہ اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ روا نہیں رکھ سکتا۔

دوسرے الفاظ میں ،اب ہم نے تجارت اور زندگی کے دوسرے معاملات کے لیے علیحدہ علیحدہ دو معیار بنا رکھے ہیں۔ ایک کارخانہ دار اپنے حریف کارخانہ دارکو میدان سے ہٹانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ وہ چیزیں کم قیمت پر فروخت کرے گا اور ہر قسم کے ایسے داؤ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا جن سے وہ اپنے مد مقابل صنعت کار یا تاجر کو میدان سے ہٹنے پر مجبور کرسکے۔

اب تاجر کا ایک تجارتی اخلاق وضع ہوگیا ہے جس کا بنیادی اصول ہی یہ بن گیا ہے کہ ''کاروبار کاروبار ہے'' جس کے دائرے میں وہ اپنی جارحانہ حرکات کو بالکل جائز سمجھتا ہے۔ اس کو اپنے مد مقابل صنعت کار کی تباہی سے قطعاً رنج نہیں ہوگا حالانکہ یہی شخص اپنے پڑوسی یا دوست کی ایک وقت کے فاقے کی مصیبت بھی نہ دیکھ سکے گا۔ اس طرح سے تاجر اور صنعت پیشہ لوگوں نے اپنی کاروباری زندگی کے لیے کچھ اور اصول بنالیے ہیں اور غیرکاروباری زندگی کے لیے کچھ اور۔ لیکن قرون وسطیٰ میں اہل کلیسا کے نزدیک زندگی کے یہ دوسرے اصول جو آپس میں ایک دوسرے سے متضاد ہوں درست نہیں تھے۔

اُس زمانے میں چرچ جو سوچتا تھا سماج کی اکثریت بھی وہی سوچتی تھی لیکن پھرمغربی فکر و فلسفے کے فروغ کے نتیجے میں اخلاق کے پیمانے تبدیل ہوئے ۔ سرمایہ داری نے حرص و حسد کو عالم گیر جذبہ بنادیا اس جذبے کے نتیجے میں سرمایہ کا پہیہ بہت تیزی سے گردش کرنے لگا۔ مختلف براعظموں میں لوٹ مار کے مال سے یورپ میں ایجادات کا سیلاب آگیا اور صنعتی ترقی کے لیے انسانوںپر مظالم کی آزادی عطا کردی گئی۔
Load Next Story