حکومت ڈھاک کے تین پات
انقلابی اقدامات کے لیے کسی حلف کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بنیادی فیصلے تھے جو وزیراعظم نواز شریف کرسکتے تھے
دھرنا عملاً13 اگست سے شروع ہوا۔ آج 6 اکتوبر بروز عید ہے۔اگر پہلے 2ہفتے یا اس سے کچھ زائد دن آپ حکومت کے اس خوف کے کھاتے میں ڈال کر بھول بھی جائیںکہ اُس کے خلاف سازش ہورہی تھی تو بھی 30 یا 31دن باقی بچتے ہیں۔اگر حکومت دانا افراد پر مبنی ہوتی تو وہ اور کچھ نہ کرتے صرف ہر روز ایک اہم فیصلے کرکے اس سے متعلق پالیسی کا اجراء کر دیتے۔ابھی تک وہ اس تمام نظام کی جڑوں کو درست کرنے کے کام کا آغاز کرچکے ہوتے۔
انقلابی اقدامات کے لیے کسی حلف کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بنیادی فیصلے تھے جو وزیراعظم نواز شریف کرسکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیے۔ کیا ہرروز صرف ایک فیصلہ کرنا اتنے بڑے نظام کے لیے مشکل ہے؟ یقینا نہیں۔ تو پھر کیوں نہیں کیے؟ صلاحیت نہیں ہے یا نیت خراب ہے؟کچھ بھی ہو نتیجہ وہی ہے نوازشریف حکومت ڈھاک کے تین پات ہے۔تخیلاتی غربت اور سوچ وعمل کی مفلسی کا شکار۔اگر کابینہ ہر روز ایک فیصلہ کرتی تو 31دنوں میں کیا کرسکتی تھی؟مثال ملاحظ فرمائے۔
5ستمبر:پولیس کے محکمے کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ابھی تک ہونے والی تمام کاوشوں(قانون سازی سمیت) میں سے بہترین تجاویز کا انتخاب کرکے اس محکمے کے بجٹ میں پہلے انقلابی اور پھر بتدریج اضافے کے علاوہ تربیتی انتظامات کی بہتری کے اقدامات کے ساتھ مربوط پالیسی کا اجراء۔اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے خاص گروپ کی تشکیل جو پارلیمانی جماعتوں کے نمایندگان کے علاوہ شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہو۔اہداف کے حصول کے لیے وقت چھ ماہ۔
6ستمبر:قانون کے ساتھ کچہریوں کو مکمل طور پر جدید خطوط پر چلانے کے لیے سارے ملک میں 30بڑے اضلاع کا انتخاب۔یہا ں پر موجود بڑے مافیا کی کمر توڑنے کے لیے قانون سازی۔عدلیہ اور شہریوں پر مبنی کمیٹیوں کی تشکیل۔ مقامی،صوبائی اور قومی میڈیا کے ساتھ مل کر یہ کمیٹیاں ان رکاوٹوں کی نشا ندہی کریں گی جو اس عمل کی راہ میں کھڑی کی جاسکتی ہے۔
7ستمبر: جائیداد (ذاتی، خاندانی، زرعی اور کاروباری) کے تنازعوں کو جلد از ھلد نپٹانے کے لیے دوررس مگر برق رفتار اقدامات کا پیکیج جس پر عمل درآمد کا آغاز3ماہ کے اندر اور اگلے تین سال میں اکثریت مقدموں کو حتمی نتیجے پر لانے کا ہدف۔ وکلاء،جج صاحبا ن اور این جی اوز جو اس شعبے میں کام کررہے ہیں اس سلسلے میں 60دن کے اندر اپنی تجاویز سامنے لاسکتے ہیں۔
8ستمبر:عدالتوں میں لٹکے ہوئے مقدمات کے ڈھیرکو ختم کرنے کے لیے ان تمام موجودہ اور ممکنہ قانونی اور آئینی اور انتظامی تجاویز کا آغاز۔عدالت عظمی اس سلسلے کوکامیاب بنانے کے لیے جو کردار بھی ادا کرنا چاہیے اس کو اس پیکیج کا حصہ بنایا جائے گا۔اقدامات پر عمل درآمد کا آغاز 3ماہ کے اندر۔پرانے مقدمات کے فیصلوں کے لیے حتمی حد3سال۔
9ستمبر:نئے جیلوں کی تعمیر اور موجودہ نظام کو مکمل طور پر فعال کرنے(یاتبدیل کرنے) کے کام کا فوری آغاز۔ابھی تک اس شعبے میں ہونے والی تحقیق یا انفرادی کام کی تمام اچھی مثالوں کو مربوط ضابطے میں ڈھال کر حتمی تبدیلی کے لیے کیلینڈر کا تعین۔پہلے چھ ماہ میں وہ تمام کام جو موجودہ مشینری کو درست کرکے کیا جاسکتا تھاہے شروع کردیا جائے۔بڑی اصلاحات اگلے اڑھائی سال میں ہوسکتی ہیں۔
10ستمبر:تھانوں کو معقول اور عوام دوست انداز میں چلانے کے لیے پہلے تین ماہ میں 40بڑے(اور بالخصوص جرائم کی زدمیں آئے ہوئے)اضلاع میں اصلاحات کا آغاز۔اس کے لیے خصوصی معاون یا مشیر کی تعیناتی جو پہلے ان معاملات پر پیش رفت کا ریکارڈ ترتیب دے جن کے لیے خاص سرمارنے کی ضرورت نہیں صرف احتساب کا خوف ہی کافی ہے ۔ اس کے بعد پیچیدہ مسائل کی فہرست ممکنہ حل کے ساتھ پیش کرے۔حدف حصول صرف ایک سال۔
11ستمبر:صحت کے مسائل سے دوچار 50اضلاع میں ہنگامی بنیادوں پر(دوسرے صوبوں کے ساتھ مل کر) صحت کے نظام کی پالیسی بحال کرنے کا فیصلہ۔صحت کی انشورنس سے لے کر مفت دوائیوں کی تقسیم اور ڈاکٹروں کی حاضری تک اس کام میں لگنے والی خطیر رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مہیا کی جائے گی۔کچھ حصہ صوبے ڈالیں گے۔تمام ضلعی اسپتالوں کی حالت زار کو فوری بہتر بنانے کے لیے حکومتی اور حزب اختلاف کے ممبران ونما یند گان پر مبنی کمیٹیاں قائم ہوں گی جو مسلسل ان اسپتالوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر مزید بہتری کے لیے انتظام کریںگی۔
12ستمبر:صاف پینے کو پانی کو مہیا کرنا ضلعی حکو متوں (جن کا قیام فوری عمل میں لانے کا اعلان ہو نا چاہیے)کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔وفاق اور صوبے مل کر بین الاقوامی اشتراک سے بالخصوص ان علا قوں میں جہاں یہ مسئلہ گھمبیر ہے فوری حل کے لیے کوششوں کا آغاز کریں۔اس منصوبے کی عملیت کو بڑھانے کے لیے دو ماہ تک مختلف حلقوں سے تجاویز حاصل کرکے قانون سازی کی جاے۔ صاف پینے کے پانی کی شرح کو بڑھانے کے اہداف کا تعین تین سال کی مدت پر محیط ہوگا۔
13ستمبر:تعلیم کے اہداف کے حصول کے لیے صوبوں کو فوری مراعات(گرانٹ)کے ذریعے ترغیب دی جائے گی۔تعلیم کے نصاب کو بامقصد بنانے کے لیے اور اسکولوں کی ملک بھر میں حالت کو بہتر بنانے کے لیے موجودہ تمام کوششوں کا جائزہ(2ماہ میں)لینے کے بعد یکساں اور اتفاق رائے سے طے شدہ مقاصد کا تعین ہوگا۔ان کو حاصل کرنے کے لیے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے والے ماہرین کو ذمے داریاں سونپی جائیں گی۔وہ اسکول جو صرف دن میں تعلیم کے لیے استعمال ہوتے ہیں شام کی کلاسوں کا آغاز کریں گے۔تعلیم سب کے لیے کا ہدف قومی تحریک کے طور پر لے کر آگے بڑھا جائے گا۔سب کو اس پر راضی کیا جائے گا۔ہدف کی مدت 5 سال۔
14ستمبر:خوراک کی فراہمی کے لیے اجناس کی تما م فصلوںاور کاشت والی زمینوں کو قومی اثاثے کی مانند جاناجائے گا۔''زیادہ اگاؤ،غربت مٹاؤ''کے ذریعے اضافی پیداوار کا ایک خاص حصہ غرباء کے لیے مختص ہوگا۔ زکوۃ کمیٹیاں،محکمہ مال،فلاح کے تمام اداروں کو خصوصی مشیران کمیٹی کے تابع کرکے ان میں سے بدعنوان اور غیر فعالیت کو دور کرنے کی فوری انتظامات کیے جائیں گے۔ غریب خاندانوں کی تعداد ست متعلق فوری سروے کروانے کا بندوبست کیا جائے گا جس کو قومی مردم شماری کا کلیدی حصہ قرار دایاجائے گا۔قومی مردم شماری کا فوری اعلان کیا جائے گا۔یہ انتہائی اہم اور ضروری کام ہیں اور انھیں کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے' اس حوالے سے مزید باتیں اگلے کالم میں ہوں گی۔
انقلابی اقدامات کے لیے کسی حلف کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بنیادی فیصلے تھے جو وزیراعظم نواز شریف کرسکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیے۔ کیا ہرروز صرف ایک فیصلہ کرنا اتنے بڑے نظام کے لیے مشکل ہے؟ یقینا نہیں۔ تو پھر کیوں نہیں کیے؟ صلاحیت نہیں ہے یا نیت خراب ہے؟کچھ بھی ہو نتیجہ وہی ہے نوازشریف حکومت ڈھاک کے تین پات ہے۔تخیلاتی غربت اور سوچ وعمل کی مفلسی کا شکار۔اگر کابینہ ہر روز ایک فیصلہ کرتی تو 31دنوں میں کیا کرسکتی تھی؟مثال ملاحظ فرمائے۔
5ستمبر:پولیس کے محکمے کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ابھی تک ہونے والی تمام کاوشوں(قانون سازی سمیت) میں سے بہترین تجاویز کا انتخاب کرکے اس محکمے کے بجٹ میں پہلے انقلابی اور پھر بتدریج اضافے کے علاوہ تربیتی انتظامات کی بہتری کے اقدامات کے ساتھ مربوط پالیسی کا اجراء۔اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے خاص گروپ کی تشکیل جو پارلیمانی جماعتوں کے نمایندگان کے علاوہ شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہو۔اہداف کے حصول کے لیے وقت چھ ماہ۔
6ستمبر:قانون کے ساتھ کچہریوں کو مکمل طور پر جدید خطوط پر چلانے کے لیے سارے ملک میں 30بڑے اضلاع کا انتخاب۔یہا ں پر موجود بڑے مافیا کی کمر توڑنے کے لیے قانون سازی۔عدلیہ اور شہریوں پر مبنی کمیٹیوں کی تشکیل۔ مقامی،صوبائی اور قومی میڈیا کے ساتھ مل کر یہ کمیٹیاں ان رکاوٹوں کی نشا ندہی کریں گی جو اس عمل کی راہ میں کھڑی کی جاسکتی ہے۔
7ستمبر: جائیداد (ذاتی، خاندانی، زرعی اور کاروباری) کے تنازعوں کو جلد از ھلد نپٹانے کے لیے دوررس مگر برق رفتار اقدامات کا پیکیج جس پر عمل درآمد کا آغاز3ماہ کے اندر اور اگلے تین سال میں اکثریت مقدموں کو حتمی نتیجے پر لانے کا ہدف۔ وکلاء،جج صاحبا ن اور این جی اوز جو اس شعبے میں کام کررہے ہیں اس سلسلے میں 60دن کے اندر اپنی تجاویز سامنے لاسکتے ہیں۔
8ستمبر:عدالتوں میں لٹکے ہوئے مقدمات کے ڈھیرکو ختم کرنے کے لیے ان تمام موجودہ اور ممکنہ قانونی اور آئینی اور انتظامی تجاویز کا آغاز۔عدالت عظمی اس سلسلے کوکامیاب بنانے کے لیے جو کردار بھی ادا کرنا چاہیے اس کو اس پیکیج کا حصہ بنایا جائے گا۔اقدامات پر عمل درآمد کا آغاز 3ماہ کے اندر۔پرانے مقدمات کے فیصلوں کے لیے حتمی حد3سال۔
9ستمبر:نئے جیلوں کی تعمیر اور موجودہ نظام کو مکمل طور پر فعال کرنے(یاتبدیل کرنے) کے کام کا فوری آغاز۔ابھی تک اس شعبے میں ہونے والی تحقیق یا انفرادی کام کی تمام اچھی مثالوں کو مربوط ضابطے میں ڈھال کر حتمی تبدیلی کے لیے کیلینڈر کا تعین۔پہلے چھ ماہ میں وہ تمام کام جو موجودہ مشینری کو درست کرکے کیا جاسکتا تھاہے شروع کردیا جائے۔بڑی اصلاحات اگلے اڑھائی سال میں ہوسکتی ہیں۔
10ستمبر:تھانوں کو معقول اور عوام دوست انداز میں چلانے کے لیے پہلے تین ماہ میں 40بڑے(اور بالخصوص جرائم کی زدمیں آئے ہوئے)اضلاع میں اصلاحات کا آغاز۔اس کے لیے خصوصی معاون یا مشیر کی تعیناتی جو پہلے ان معاملات پر پیش رفت کا ریکارڈ ترتیب دے جن کے لیے خاص سرمارنے کی ضرورت نہیں صرف احتساب کا خوف ہی کافی ہے ۔ اس کے بعد پیچیدہ مسائل کی فہرست ممکنہ حل کے ساتھ پیش کرے۔حدف حصول صرف ایک سال۔
11ستمبر:صحت کے مسائل سے دوچار 50اضلاع میں ہنگامی بنیادوں پر(دوسرے صوبوں کے ساتھ مل کر) صحت کے نظام کی پالیسی بحال کرنے کا فیصلہ۔صحت کی انشورنس سے لے کر مفت دوائیوں کی تقسیم اور ڈاکٹروں کی حاضری تک اس کام میں لگنے والی خطیر رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مہیا کی جائے گی۔کچھ حصہ صوبے ڈالیں گے۔تمام ضلعی اسپتالوں کی حالت زار کو فوری بہتر بنانے کے لیے حکومتی اور حزب اختلاف کے ممبران ونما یند گان پر مبنی کمیٹیاں قائم ہوں گی جو مسلسل ان اسپتالوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر مزید بہتری کے لیے انتظام کریںگی۔
12ستمبر:صاف پینے کو پانی کو مہیا کرنا ضلعی حکو متوں (جن کا قیام فوری عمل میں لانے کا اعلان ہو نا چاہیے)کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔وفاق اور صوبے مل کر بین الاقوامی اشتراک سے بالخصوص ان علا قوں میں جہاں یہ مسئلہ گھمبیر ہے فوری حل کے لیے کوششوں کا آغاز کریں۔اس منصوبے کی عملیت کو بڑھانے کے لیے دو ماہ تک مختلف حلقوں سے تجاویز حاصل کرکے قانون سازی کی جاے۔ صاف پینے کے پانی کی شرح کو بڑھانے کے اہداف کا تعین تین سال کی مدت پر محیط ہوگا۔
13ستمبر:تعلیم کے اہداف کے حصول کے لیے صوبوں کو فوری مراعات(گرانٹ)کے ذریعے ترغیب دی جائے گی۔تعلیم کے نصاب کو بامقصد بنانے کے لیے اور اسکولوں کی ملک بھر میں حالت کو بہتر بنانے کے لیے موجودہ تمام کوششوں کا جائزہ(2ماہ میں)لینے کے بعد یکساں اور اتفاق رائے سے طے شدہ مقاصد کا تعین ہوگا۔ان کو حاصل کرنے کے لیے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے والے ماہرین کو ذمے داریاں سونپی جائیں گی۔وہ اسکول جو صرف دن میں تعلیم کے لیے استعمال ہوتے ہیں شام کی کلاسوں کا آغاز کریں گے۔تعلیم سب کے لیے کا ہدف قومی تحریک کے طور پر لے کر آگے بڑھا جائے گا۔سب کو اس پر راضی کیا جائے گا۔ہدف کی مدت 5 سال۔
14ستمبر:خوراک کی فراہمی کے لیے اجناس کی تما م فصلوںاور کاشت والی زمینوں کو قومی اثاثے کی مانند جاناجائے گا۔''زیادہ اگاؤ،غربت مٹاؤ''کے ذریعے اضافی پیداوار کا ایک خاص حصہ غرباء کے لیے مختص ہوگا۔ زکوۃ کمیٹیاں،محکمہ مال،فلاح کے تمام اداروں کو خصوصی مشیران کمیٹی کے تابع کرکے ان میں سے بدعنوان اور غیر فعالیت کو دور کرنے کی فوری انتظامات کیے جائیں گے۔ غریب خاندانوں کی تعداد ست متعلق فوری سروے کروانے کا بندوبست کیا جائے گا جس کو قومی مردم شماری کا کلیدی حصہ قرار دایاجائے گا۔قومی مردم شماری کا فوری اعلان کیا جائے گا۔یہ انتہائی اہم اور ضروری کام ہیں اور انھیں کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے' اس حوالے سے مزید باتیں اگلے کالم میں ہوں گی۔