ایڈمیشن اوپن نہیں چلے گا

آج ملک بھر میں اس کرپٹ اور ولی عہدی نظام کے خلاف جو ہلچل نظر آرہی ہے اس کی بڑی وجہ عمران اور قادری کی کوششیں ہیں۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

جب بھی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے لگتا ہے، سیاسی موقع پرست ان جماعتوں میں شمولیت کے لیے پر تولنے لگتے ہیں جن کے اقتدار میں آنے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ 14 اگست کے بعد دھرنوں کی سیاست میں جو نشیب و فراز آتے رہے اس کی وجہ سے موقع پرست سیاستدان چہ کنم کی حالت میں تھے لیکن جب تحریک انصاف کے کراچی اور لاہور کے جلسے توقع سے بہت زیادہ کامیاب ہوئے اور الیکشن کی صورت میں تحریک انصاف کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے امکانات نظر آنے لگے تو مختلف جماعتوں سے وابستہ موقع پرست عناصر تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے پر تولنے لگے ہیں اور حیرت اس بات پر ہے کہ نئے پاکستان کی تشکیل کے دعوے کرنے والی تحریک انصاف کے قائدین کی طرف سے ان موسمی پرندوں کی تحریک انصاف میں شمولیت کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے جو پرانے پاکستان کے داعی اور پلر ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کو عوام کی حمایت اس لیے حاصل ہو رہی ہے کہ وہ استحصالی طبقات اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے، کراچی، لاہور، میانوالی وغیرہ کے جلسوں میں عوام کی بصورت سیلاب شرکت کی وجہ بھی یہی ہے ۔ عوام موجودہ نام نہاد جمہوری نظام سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک پر 67 سال سے مسلط Status Quo توڑے بغیر انھیں اس استحصالی نظام سے نجات نہیں مل سکتی اور عمران خان اور طاہر القادری اس Status Quo کو توڑنے کا اعلان اور وعدے کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیا پاکستان پرانے پاپیوں کے ذریعے بنایا جائے گا؟ اگر ملک پر 67 سال سے مسلط سیاسی سیٹ اپ توڑنا ہو اور واقعی نیا پاکستان بنانا ہو تو روایتی جاگیردارانہ سیاست کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موقع پرست سیاستدانوں کے لیے ''ایڈمشن اوپن'' کی سیاست ترک کرکے نئے خون کو سیاسی زندگی میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ''اڑنے بھی نہ پائے کہ گرفتار ہوگئے'' والی صورت پیدا ہوجائے گی۔

تحریک انصاف کی قیادت نہ ماضی میں انقلابی رہی نہ اس نے انقلابی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے برخلاف دائیں بازو کی جماعتوں سے اس کی قربت کی وجہ سے اسے بھی دائیں بازو کی جماعتوں ہی میں شامل کیا جاتا رہا، اسی پس منظر میں ہم اور ہمارے دوستوں نے معراج محمد خان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی بھرپور مخالفت کی لیکن معراج محمد خان کا خیال تھا کہ عمران خان اپنے مڈل کلاس پس منظر اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں میں گزارنے کی وجہ سے کم ازکم لبرل کردار کا حامل سیاست دان ثابت ہوگا لیکن معراج محمد خان کو مایوسی کے عالم میں تحریک انصاف چھوڑنا پڑی۔

اس ملک کا پڑھا لکھا اور روشن خیال طبقہ بھی عمران خان کی سیاست سے مشکوک رہا کیونکہ عمران خان کا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ برقرار رہا۔ خاص طور پر عمران خان جب نواز شریف کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے جب دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کو ہی دہشت گردی سے نجات کا واحد راستہ بتانے لگے تو ان پر دائیں بازو کی چھاپ اور مضبوط ہوگئی۔


پاکستان پر 67 سال سے مسلط ٹرائیکا نے سیاست اور اقتدار پر اس قدر مضبوطی سے پنجے گاڑھے ہوئے تھی کہ اس سے نجات کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی، اس مایوسی کی ایک بڑی وجہ بائیں بازو کا انتشار اور جمود تھا۔ ماضی میں ہر محاذ پر فعال کردار ادا کرنے والا بایاں بازو اس قدر انتشار اور جمود کا شکار تھا کہ عوام کا اس سے مایوس ہونا ایک فطری امر تھا۔

Status Quo کو توڑنے، طبقاتی استحصال کے خاتمے اور نام نہاد جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں بدلنے کا پروگرام بائیں بازو ہی کا رہا تھا اور بایاں بازو اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے عوام میں پہچانا جاتا تھا لیکن وقت بائیں بازو کے جاگنے کا انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں جب کہ حکومت مل کر کھربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کر رہے تھے، مہنگائی، بے روزگاری، دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی، عمران اور قادری نے اس گندے اور لوٹ مار پر مبنی سیٹ اپ کے خلاف آواز اٹھائی اور طبقاتی استحصال کے خلاف بلند آواز میں بولنے لگے تو عوام کا ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنا ایک فطری بات تھی۔

عمران اور قادری جس زور اور شدت سے اس لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے پاکستان کی موروثی اور روایتی سیاست میں یہ ایک نئی اور عوام کو متاثر کرنے والی آواز تھی۔ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں حکومت کی ایما پر عوام پر جو گولیاں چلائی گئیں جن میں 14 بے گناہ لوگ جاں بحق اور سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے، اس سانحے کی وجہ سے عمران اور قادری کی حمایت اور حکومت کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔ دھرنے کے شرکا نے انتہائی نامساعد حالات میں جس استقامت کا مظاہرہ کیا اس سے بھی عوام متاثر ہوئے لیکن ان جماعتوں کو عوام کی اصل حمایت اس لیے حاصل ہوئی کہ وہ کھل کر اس 67 سالہ لوٹ مار اور اجارہ دارانہ موروثی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔

عمران اور قادری کا تعلق بہرحال مڈل کلاس سے ہے، حکمرانوں کی بے لگام کرپشن، موروثی سیاست کو فروغ دینے کی کوششیں اور عوام کی حالت زار نے اگر عمران خان اور قادری کو ان قوتوں کے سامنے کھڑا کردیا ہے تو کوئی باشعور انسان محض ان کے ماضی کے حوالے سے ان کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ یہی وہ عوامل ہیں جو عمران خان اور ان کی جماعت کو عوام میں مقبولیت عطا کر رہے ہیں، وہ اہل علم اہل قلم جو اس حقیقت کا احساس کر رہے ہیں کہ تبدیلی کی داعی قوتوں کا کوئی وجود نظر نہیں آرہا ہے ایسے جمود کے سمندر میں کوئی کنکریاں مار کر ارتعاش پیدا کر رہا ہے تو اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہے۔

آج ملک بھر میں اس کرپٹ اور ولی عہدی نظام کے خلاف جو ہلچل نظر آرہی ہے اس کی بڑی وجہ عمران اور قادری کی کوششیں ہیں۔ جب تک یہ حضرات تبدیلی کے لیے غیر سیاسی اور غیر حقیقی قوتوں سے امید باندھے رہے یہ مایوسی کا شکار ہوتے رہے لیکن جب انھوں نے تبدیلی کی ان کوششوں کے لیے عوام سے رجوع کیا تو کامیابیاں ان کے قدم چومنے لگیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ سیاسی اشرافیہ عوام میں بڑھتے ہوئے طبقاتی شعور اور وی آئی پی کلچر کے خلاف عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت سے سخت خوفزدہ ہے، اگر عمران خان اور طاہر القادری اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو یہ حضرات نہ صرف عوام کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے بلکہ ان کا سیاسی کیریئر بھی ہمیشہ کے لیے داغدار ہوجائے گا۔

اس حوالے سے عوام کو پہلے ہی یہ شکایت ہے کہ ان کے دائیں بائیں اب بھی ماضی کے موقع پرست موجود ہیں تو ان سے نجات حاصل کرکے مڈل کلاس کے مخلص اور اہل لوگوں کو آگے لانے کے بجائے پرانے موقع پرستوں کے لیے ''ایڈمشن اوپن'' کا بورڈ لگا دیا جائے تو یہ عمل نہ صرف تحریک انصاف کے لیے تباہی کا باعث بنے گا بلکہ عوام ایسی مایوسی کا شکار ہوجائیں گے جو انھیں عرب بہار کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔ اس صورت حال سے بچنے اور تبدیلیوں کے عمل کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنا اور موقع پرست سیاستدانوں کے لیے اپنی جماعتوں کے دروازے بند کرنا ضروری ہے۔
Load Next Story