’’حیدر‘‘ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر مبنی فلم
’’حیدر‘‘ نام کی ایک فلم بھارت میں چند ہی دن پہلے ریلیز ہوئی ہے۔۔۔
اسکول سے کالج تک پہنچتے ہوئے میرے جیسے لوگوں پر ''انقلاب'' کے ساتھ ہی ساتھ ہر نئی فلم کو ''پہلا ٹکٹ پہلاشو'' والی دیوانگی کے ساتھ دیکھنے کی علت بھی لگ چکی تھی۔ پاکستان کو مگر پھر ضیاء الحق مل گئے۔ ان کے دور میں اچھی فلمیں بننا بتدریج ختم ہوگئیں اور سینما ہاؤسز کمرشل پلازوں میں بدلنا شروع ہوگئے۔
VCRکی بدولت اگرچہ اچھی فلموں تک رسائی آخر کار آسان تر بھی ہونا شروع ہوگئی مگر میں ہمیشہ اس بات پر بضد رہا کہ فلم سینما کی اسکرین کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اسے اپنے گھر میں اکیلے بیٹھ کر ٹی وی اسکرین کی بدولت دیکھنا ایک نامناسب عمل ہے۔ کل وقتی صحافت کے لیے سیاسی رپورٹنگ نے بالآخر فرصت کے وہ لمحات بھی مجھ سے چھین لیے جنھیں کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے یا موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اب کچھ برسوں سے اچھی فلموں کے بارے میں کہیں کوئی بات ہو رہی ہو تو خود کو مریخ سے آئی کوئی مخلوق سمجھتا ہوں۔
''حیدر'' نام کی ایک فلم بھارت میں چند ہی دن پہلے ریلیز ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کا ذکر میں نے Boycott Haiderکے اس Hashtag کے ذریعے سنا جس کی بنیاد پر ہندو انتہاء پسندوں اور خاص کر کشمیر سے 1990ء کی دہائی میں جلاوطن ہوئے پنڈتوں کے ایک جنونی گروہ نے اس فلم کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کردی تھی۔ غصے اور نفرت سے بھری اس مہم نے مجھے اس فلم کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرنے پر مجبور کردیا۔
تھوڑا کھوجا تو خبر ملی کہ یہ فلم وشال بھردواج نے بنائی ہے۔ وہ شیکسپیئر کے چند معروف ومقبول ڈراموں کو بھارتی تناظر میں رکھ کر اس سے قبل بھی دو فلمیں بنا چکا ہے۔ گلزار جیسا مہا کلاکار اس ہدایت کار کو اپنا روحانی جانشین قرار دیتا ہے۔ موسیقی اس بندے کا اصل میدان ہے مگر اب وہ ہدایت کاری کی طرف مائل ہوچکا ہے۔
وشال بھردواج سے کہیں زیادہ اہم نام میرے لیے بشارت پیر کا تھا۔ کئی ماہ قبل اپنے اس کالم میں اس کے لکھے ہوئے ایک ناول "Curfewed Night" کا ذکر کرچکا ہوں۔ میں نے اس عنوان کا ترجمہ ''کرفیو زدہ راتیں'' کیا تھا۔ میرا آج بھی اصرار ہے کہ کشمیر کی اصل کہانی ابھی تک بشارت سے بہتر کوئی اور نہیں لکھ پایا۔ بشارت کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے ناول میں کوئی کہانی نہیں بُنی۔ ایک غیر جذباتی مگر انتہائی تجربہ کار ڈاکٹر کی طرح اس نے 1980ء کی دہائی سے مسلسل دُکھ میں مبتلا ہوئے پورے کشمیری معاشرے کو ایک حوالے سے بستر پر لٹا دیا اور مختلف قسم کے ٹیسٹوں، ایکسریز اور MRIsکے ذریعے اسے کھوکھلا بناتے امراض کی پوری کہانی یوں بیان کردی جیسے کوئی ماہر طبیب امراض کی تشخیص کیا کرتے ہیں۔
بشارت پیر کے نام نے مجھے اس فلم کی DVD ڈھونڈنے پر مجبور کیا اور اسی دوران خبر یہ بھی ملی کہ شاید حکومتِ پاکستان اس فلم کی ہمارے سینما ہاؤسز میں نمائش کی اجازت دینے سے ہچکچا رہی ہے۔ بھارتی فلم سنسربورڈ نے بھی اس فلم کو سینما ہاؤسز پر چلانے کی اجازت دینے سے پہلے اس میں سے 41کے قریب چھوٹے بڑے سین نکلوائے تھے۔
مجھے سمجھ نہ آئی کہ ایک ایسی فلم جس کے خلاف ہندو انتہاء پسند شدید نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں اور جسے وہاں کے سنسر بورڈ نے بڑی کانٹ چھانٹ کے بعد سینما پر دکھانے کی اجازت دی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے اتنی پریشان کن کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ عید کی رات اپنے گھر میں بیٹھ کر یہ فلم دیکھنے کے بعد تو میں اس خواہش میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ پاکستان کے تمام شہروں میں کوئی دیوانہ صاحبِ ثروت ''حیدر'' کے فری شوز کا اہتمام کرے اور ہمارے عوام کو مقبوضہ کشمیر کی حقیقتوں سے تھوڑا بہت روشناس کرواکر ثواب دارین حاصل کرے۔
''حیدر'' شیکسپیئر کے مشہور زمانہ کردار ہملٹ کو 1995ء کی وادیٔ کشمیر میں پہنچا کر آگے بڑھتی ہے۔ اس فلم میں بھی ایک ماں ہے اور ایک سازشی،لالچی اور ہوس کار چاچا۔ حیدر کا باپ ایک ڈاکٹر تھا۔ اپنے شعبے میں بہت کامیاب، ایک خوب صورت بیوی کا وفادار شوہر اور اپنے بیٹے سے روایتی محبت کے باوجود دل اس ڈاکٹر کا فیض احمد فیض کی شاعری میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ مزاحمت اور آزادی کی جنگ میں براہِ راست ملوث نہ ہونے کے باوجود وہ شدید زخمی ہوئے حریت پسندوں کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔
اس کا بیٹا اپنے تئیں آزادی کی تڑپ میں مبتلا نوجوانوں کے قریب ہوا تو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اسے علی گڑھ بھیج دیا۔ حیدر بھی علی گڑھ جاکر انگریزی شاعری کے رومانوی دور کو خود پر طاری کر بیٹھا۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کے اپنے چاچا نے قابض افواج کو مخبری کردی کہ اس کا بھائی اپنے گھر پر ایک مشہور جنگجو کو چھپا کر رکھے ہوئے ہے اور اسے شدید زخموں سے جانبر کرنے کی کاوشوں میں مبتلا۔ مخبری ہونے پر ڈاکٹر کے گھر کو بھارتی افواج نے مسمار کردیا۔ اس گھر کو مسمار کرنے سے پہلے مگر حیدر کے والد کو گرفتاری میں لے کر ''گم شدہ'' بنا دیا گیا۔ حیدر کے والد کی ''گمشدگی'' کے دوران اس کی ماں اپنے چاچا کے ہمراہ ایک چلبلی محبوبہ کے طور پر رہنا شروع ہوگئی۔
اس کے بعد کی ساری کہانی تقریباً ویسے ہی ہے جو ''ہملٹ'' پڑھنے والوں کو پوری طرح معلوم ہے۔ حیدر کا ناقابل علاج حزن ہے، پاگل پن کے دورے، شک وشبے میں مبتلا ہوا ذہن اور ماں کی شفقت کے اٹل مانے تصور کے بارے میں مسلسل سوالات۔ اس فلم میں ایک گانے کی صورت میں قبرستان کا وہ منظر بھی ہے جس کے ذریعے ہملٹ نے موت کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور بالآخر ایک ''رقصِ بسمل'' بھی جو اس کے چاچا اور ماں کی شادی کی تقریب میں برپا ہوتا ہے۔
''حیدر'' کی اہم بات مگر یہ نہیں کہ ہملٹ کو 1995ء کی وادیٔ کشمیر میں رکھ کر بشارت پیر نے شیکسپیئر کی بُنی کہانی سے کتنا انصاف کیا۔ مصنف اور ہدایت کار کا اصل کمال ''حیدر'' کے ذریعے پورے کشمیری معاشرے کا وہ اجتماعی المیہ بیان کرنا ہے جو اپنے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور سفاک قوتوں کی مسلسل مزاحمت نے اس پر مسلط کیا ہے۔ وادیٔ کشمیر میں فلمایا ہر منظر ایک مسحور ہوئے شاعر کی طرح وہاں کے قدرتی حسن کو پوری آن سے دکھاتا ہے۔ مگر یہ حسن اس وقت مزید زہر بھرا بن جاتا ہے جب اس وادی کی سفاک حقیقتوں میں قید ہوئے بوڑھے، بچے اور جوان۔ کنواری اور شادی شدہ اور ''گم شدہ'' افراد کی ''آدھی بیوائیں''۔ یہ سارے کے سارے انسان ایک ہمہ گیر ملال میں شدید بے بسی کے ساتھ مبتلا ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کسی پربھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
آپ کی اپنی ماں بھی مجرموں کے ساتھ سازشی کھیلوں کا باقاعدہ حصہ نظر آتی ہے۔ آپ کی محبوبہ پوری معصومیت کے ساتھ آپ کی مخبری کرسکتی ہے اور جن کے ساتھ آپ اسکول اور گلیوں میں پل کر جوان ہوئے بظاہر مسخرے بنے جدید ترین کیمروں میں مسلح ہوئے آپ کے ایک ایک لمحے پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ بلھے شاہ والے اس ''شک شبے'' کے ماحول میں ہر فرد خود کو بالکل تنہاء محسوس کرتا ہے۔ اس کی تنہائی برف سے ڈھکے پہاڑوں اور چناروں سے لدھی کھائیوں میں پوری شدت کے ساتھ عیاں ہوکر آپ کو ایک ایسے حزن کا نشانہ بناڈالتی ہے جس سے نجات شاید صرف آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو ہی دلاسکتے ہیں۔
مگر ظلم یہ بھی ہے کہ ''حیدر'' کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے۔ وادی میں قید ہوئے لوگوں کے چہروں پر تناؤ ہے اور لہجوں میں ایسی شدت کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود "Loved" جیسا آسان ترین انگریزی لفظ بھی اپنے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ملال کے ہمہ گیر آسیب کی دی اس تنہائی میں صرف وحشت پلتی ہے اور ہر فرد کے دل میں انتقام کی جھلستی آگ اور یہ آگ جب پوری طرح بھڑک اُٹھے تو تباہی ''غیروں'' کو نہیں بلکہ بہت ہی ''اپنوں'' کو بھسم کر ڈالتی ہے۔
VCRکی بدولت اگرچہ اچھی فلموں تک رسائی آخر کار آسان تر بھی ہونا شروع ہوگئی مگر میں ہمیشہ اس بات پر بضد رہا کہ فلم سینما کی اسکرین کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اسے اپنے گھر میں اکیلے بیٹھ کر ٹی وی اسکرین کی بدولت دیکھنا ایک نامناسب عمل ہے۔ کل وقتی صحافت کے لیے سیاسی رپورٹنگ نے بالآخر فرصت کے وہ لمحات بھی مجھ سے چھین لیے جنھیں کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے یا موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اب کچھ برسوں سے اچھی فلموں کے بارے میں کہیں کوئی بات ہو رہی ہو تو خود کو مریخ سے آئی کوئی مخلوق سمجھتا ہوں۔
''حیدر'' نام کی ایک فلم بھارت میں چند ہی دن پہلے ریلیز ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کا ذکر میں نے Boycott Haiderکے اس Hashtag کے ذریعے سنا جس کی بنیاد پر ہندو انتہاء پسندوں اور خاص کر کشمیر سے 1990ء کی دہائی میں جلاوطن ہوئے پنڈتوں کے ایک جنونی گروہ نے اس فلم کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کردی تھی۔ غصے اور نفرت سے بھری اس مہم نے مجھے اس فلم کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرنے پر مجبور کردیا۔
تھوڑا کھوجا تو خبر ملی کہ یہ فلم وشال بھردواج نے بنائی ہے۔ وہ شیکسپیئر کے چند معروف ومقبول ڈراموں کو بھارتی تناظر میں رکھ کر اس سے قبل بھی دو فلمیں بنا چکا ہے۔ گلزار جیسا مہا کلاکار اس ہدایت کار کو اپنا روحانی جانشین قرار دیتا ہے۔ موسیقی اس بندے کا اصل میدان ہے مگر اب وہ ہدایت کاری کی طرف مائل ہوچکا ہے۔
وشال بھردواج سے کہیں زیادہ اہم نام میرے لیے بشارت پیر کا تھا۔ کئی ماہ قبل اپنے اس کالم میں اس کے لکھے ہوئے ایک ناول "Curfewed Night" کا ذکر کرچکا ہوں۔ میں نے اس عنوان کا ترجمہ ''کرفیو زدہ راتیں'' کیا تھا۔ میرا آج بھی اصرار ہے کہ کشمیر کی اصل کہانی ابھی تک بشارت سے بہتر کوئی اور نہیں لکھ پایا۔ بشارت کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے ناول میں کوئی کہانی نہیں بُنی۔ ایک غیر جذباتی مگر انتہائی تجربہ کار ڈاکٹر کی طرح اس نے 1980ء کی دہائی سے مسلسل دُکھ میں مبتلا ہوئے پورے کشمیری معاشرے کو ایک حوالے سے بستر پر لٹا دیا اور مختلف قسم کے ٹیسٹوں، ایکسریز اور MRIsکے ذریعے اسے کھوکھلا بناتے امراض کی پوری کہانی یوں بیان کردی جیسے کوئی ماہر طبیب امراض کی تشخیص کیا کرتے ہیں۔
بشارت پیر کے نام نے مجھے اس فلم کی DVD ڈھونڈنے پر مجبور کیا اور اسی دوران خبر یہ بھی ملی کہ شاید حکومتِ پاکستان اس فلم کی ہمارے سینما ہاؤسز میں نمائش کی اجازت دینے سے ہچکچا رہی ہے۔ بھارتی فلم سنسربورڈ نے بھی اس فلم کو سینما ہاؤسز پر چلانے کی اجازت دینے سے پہلے اس میں سے 41کے قریب چھوٹے بڑے سین نکلوائے تھے۔
مجھے سمجھ نہ آئی کہ ایک ایسی فلم جس کے خلاف ہندو انتہاء پسند شدید نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں اور جسے وہاں کے سنسر بورڈ نے بڑی کانٹ چھانٹ کے بعد سینما پر دکھانے کی اجازت دی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے اتنی پریشان کن کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ عید کی رات اپنے گھر میں بیٹھ کر یہ فلم دیکھنے کے بعد تو میں اس خواہش میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ پاکستان کے تمام شہروں میں کوئی دیوانہ صاحبِ ثروت ''حیدر'' کے فری شوز کا اہتمام کرے اور ہمارے عوام کو مقبوضہ کشمیر کی حقیقتوں سے تھوڑا بہت روشناس کرواکر ثواب دارین حاصل کرے۔
''حیدر'' شیکسپیئر کے مشہور زمانہ کردار ہملٹ کو 1995ء کی وادیٔ کشمیر میں پہنچا کر آگے بڑھتی ہے۔ اس فلم میں بھی ایک ماں ہے اور ایک سازشی،لالچی اور ہوس کار چاچا۔ حیدر کا باپ ایک ڈاکٹر تھا۔ اپنے شعبے میں بہت کامیاب، ایک خوب صورت بیوی کا وفادار شوہر اور اپنے بیٹے سے روایتی محبت کے باوجود دل اس ڈاکٹر کا فیض احمد فیض کی شاعری میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ مزاحمت اور آزادی کی جنگ میں براہِ راست ملوث نہ ہونے کے باوجود وہ شدید زخمی ہوئے حریت پسندوں کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔
اس کا بیٹا اپنے تئیں آزادی کی تڑپ میں مبتلا نوجوانوں کے قریب ہوا تو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اسے علی گڑھ بھیج دیا۔ حیدر بھی علی گڑھ جاکر انگریزی شاعری کے رومانوی دور کو خود پر طاری کر بیٹھا۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کے اپنے چاچا نے قابض افواج کو مخبری کردی کہ اس کا بھائی اپنے گھر پر ایک مشہور جنگجو کو چھپا کر رکھے ہوئے ہے اور اسے شدید زخموں سے جانبر کرنے کی کاوشوں میں مبتلا۔ مخبری ہونے پر ڈاکٹر کے گھر کو بھارتی افواج نے مسمار کردیا۔ اس گھر کو مسمار کرنے سے پہلے مگر حیدر کے والد کو گرفتاری میں لے کر ''گم شدہ'' بنا دیا گیا۔ حیدر کے والد کی ''گمشدگی'' کے دوران اس کی ماں اپنے چاچا کے ہمراہ ایک چلبلی محبوبہ کے طور پر رہنا شروع ہوگئی۔
اس کے بعد کی ساری کہانی تقریباً ویسے ہی ہے جو ''ہملٹ'' پڑھنے والوں کو پوری طرح معلوم ہے۔ حیدر کا ناقابل علاج حزن ہے، پاگل پن کے دورے، شک وشبے میں مبتلا ہوا ذہن اور ماں کی شفقت کے اٹل مانے تصور کے بارے میں مسلسل سوالات۔ اس فلم میں ایک گانے کی صورت میں قبرستان کا وہ منظر بھی ہے جس کے ذریعے ہملٹ نے موت کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور بالآخر ایک ''رقصِ بسمل'' بھی جو اس کے چاچا اور ماں کی شادی کی تقریب میں برپا ہوتا ہے۔
''حیدر'' کی اہم بات مگر یہ نہیں کہ ہملٹ کو 1995ء کی وادیٔ کشمیر میں رکھ کر بشارت پیر نے شیکسپیئر کی بُنی کہانی سے کتنا انصاف کیا۔ مصنف اور ہدایت کار کا اصل کمال ''حیدر'' کے ذریعے پورے کشمیری معاشرے کا وہ اجتماعی المیہ بیان کرنا ہے جو اپنے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور سفاک قوتوں کی مسلسل مزاحمت نے اس پر مسلط کیا ہے۔ وادیٔ کشمیر میں فلمایا ہر منظر ایک مسحور ہوئے شاعر کی طرح وہاں کے قدرتی حسن کو پوری آن سے دکھاتا ہے۔ مگر یہ حسن اس وقت مزید زہر بھرا بن جاتا ہے جب اس وادی کی سفاک حقیقتوں میں قید ہوئے بوڑھے، بچے اور جوان۔ کنواری اور شادی شدہ اور ''گم شدہ'' افراد کی ''آدھی بیوائیں''۔ یہ سارے کے سارے انسان ایک ہمہ گیر ملال میں شدید بے بسی کے ساتھ مبتلا ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کسی پربھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
آپ کی اپنی ماں بھی مجرموں کے ساتھ سازشی کھیلوں کا باقاعدہ حصہ نظر آتی ہے۔ آپ کی محبوبہ پوری معصومیت کے ساتھ آپ کی مخبری کرسکتی ہے اور جن کے ساتھ آپ اسکول اور گلیوں میں پل کر جوان ہوئے بظاہر مسخرے بنے جدید ترین کیمروں میں مسلح ہوئے آپ کے ایک ایک لمحے پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ بلھے شاہ والے اس ''شک شبے'' کے ماحول میں ہر فرد خود کو بالکل تنہاء محسوس کرتا ہے۔ اس کی تنہائی برف سے ڈھکے پہاڑوں اور چناروں سے لدھی کھائیوں میں پوری شدت کے ساتھ عیاں ہوکر آپ کو ایک ایسے حزن کا نشانہ بناڈالتی ہے جس سے نجات شاید صرف آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو ہی دلاسکتے ہیں۔
مگر ظلم یہ بھی ہے کہ ''حیدر'' کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے۔ وادی میں قید ہوئے لوگوں کے چہروں پر تناؤ ہے اور لہجوں میں ایسی شدت کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود "Loved" جیسا آسان ترین انگریزی لفظ بھی اپنے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ملال کے ہمہ گیر آسیب کی دی اس تنہائی میں صرف وحشت پلتی ہے اور ہر فرد کے دل میں انتقام کی جھلستی آگ اور یہ آگ جب پوری طرح بھڑک اُٹھے تو تباہی ''غیروں'' کو نہیں بلکہ بہت ہی ''اپنوں'' کو بھسم کر ڈالتی ہے۔