جمہوریت کا فروغ
وزیراعظم نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ انھوں نے آرمی سے کسی مصالحت کے لیے کہا ہے ۔۔۔
زیادہ تر سیاستدان سچائی کا بہت کم سے کم استعمال کرتے ہیں۔ خورشید شاہ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں مگرمچھ کے آنسو بہا رہے تھے جب کہ وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ اور جمہوریت کو خطرے کا ذکر کر رہے تھے۔ میاں صاحب نے پبلک کو جگانے کی کوشش کی ہے لیکن اب عوام سچ اور جھوٹ کی آمیزش کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وزیراعظم نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ انھوں نے آرمی سے کسی مصالحت کے لیے کہا ہے اور ایوان کو یقین دلایا کہ وہ آئین پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عملدرآمد کریں گے۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن اصولوں کو ہر گز قربان نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر بھی انھی کے جذبات کی عکاسی کر رہی تھی۔ ''آخر کوئی مجھ سے یہ توقع کس طرح کر سکتا ہے کہ میں یوٹرن لے لوں گا جس نے کہ جمہوریت کی خاطر گرفتاری اور جلا وطنی برداشت کی ہے۔''
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انھیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی موجودگی میں ٹیلی فون پر یہ اطلاع دی گئی کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے لیڈرز جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی درخواست کر رہے ہیں تو میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اگر وہ آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ بے شک ملاقات کر سکتے ہیں۔ فوج کو مصالحتی کردار ادا کرنے کا ہرگز نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی انھیں کسی کو ایسا کہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن دوسری طرف آئی ایس پی آر کے بیان میں میاں نواز شریف کے بیان کی تردید کی گئی ہے۔ دونوں دھرنوں کے لیڈروں نے بھی بڑی شد و مد سے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے آرمی سے اس جمود کو توڑنے کی درخواست کی تھی اور یہ الزام بھی لگایا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں دروغ بیانی کرتے رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کے ٹوئیٹر کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کو حکومت کی طرف سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ رابطہ کار کا کردار ادا کریں تا کہ موجودہ سیاسی بحران حل ہو سکے۔ رائیونڈ میں گزشتہ روز ہونے والی ملاقات اس کا ثبوت ہے۔ مولانا طاہر القادری نے کہا کہ بحران کو حل کرنے کی درخواست وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی۔
میاں نواز شریف کی ساکھ کے خلاف برسرعام یہ بات کہے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں دروغ بیانی کی تھی۔ اس بات کا اعلان کہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف میں سے کس نے کیا کہا سپریم کورٹ نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی پوزیشن کو سامنے رکھ لیا ہے۔ بظاہر حقائق واضح ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے انصاف کیا راستہ اختیار کرے گا۔
میاں نواز شریف پرائم ٹائم ٹیلی ویژن پر جیو جیو کہہ رہے تھے تا کہ وفاقی وزیر داخلہ بھی یہی الفاظ ادا کریں۔ لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایسا کہنا درست نہیں تھا۔ ان کی سرگوشی لاکھوں لوگوں نے سنی اور دیکھی جس سے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ریمارکس طشت ازبام ہو گئے جو کہ انھوں نے میڈیا کے سامنے آئی ایس آئی کو ہدف بناتے ہوئے کہے تھے ''اب آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم کس کی طرف ہیں'' یہ الفاظ انھوں نے وزیر اعظم کی حامد میر سے ملاقات کے موقع پر ان کے بستر کے پاس کہے۔
اس کے بعد جمہوریت پسندوں کی طرف سے اسکرپٹ رائٹنگ کے الزامات ایوان کے اندر اور باہر دہرائے گئے اس معاملے میں ٹی وی کے بعض اینکرز پیش پیش تھے چنانچہ فوج کو بار بار یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ کسی کی طرف داری نہیں کر رہے۔ 1938ء میں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا تھا جب یہ ثابت ہوا تھا کہ کسی کی تشفی کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کرنا بالعموم غیر پیداواری نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ کیا یہ جاننے کے لیے شرلاک ہومز جیسے کسی ماہر سراغ رساں کی ضرورت ہو گی کہ اس طرح کی گمراہ کن خبر کسی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی طرف سے جاری کی گئی ہے جس نے کہ حساس ادارے میں تقسیم کی بے بنیاد بات کی اور کابینہ کے ایک مخصوص وزیر اس سے غیر آگاہ رہے۔
اس طرح کی ساتھ ساتھ چلنے والی باتیں اصل میں پاکستانی عوام کی توجہ بٹانے کے لیے کی جاتی ہیں کہ وہ حالات میں کس قسم کی تبدیلی کے خواہاں ہیں (اور اس کے حقدار بھی ہیں)۔ عمران خان کو اپنی ترجیحات درست رکھنی چاہئیں کیونکہ انتخابات سے ان کی جماعت کماحقہ استفادہ نہیں کر سکی لہٰذا وہ اب اپنی حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں تا کہ لوگوں کی قسمت میں تبدیلی پیدا ہو سکے۔ انھوں نے انتخابی نظام کو درست کرنے کو اپنا اولین مقصد قرار دیا ہے۔ لہٰذا حکمت عملی تیار کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کا پہلا اصول ہدف کا انتخاب اور اس کو قائم رکھنا ہے۔
2013ء کے انتخابات کے جائزے کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ ان کے اصل ہدف سے انحراف کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ لامحالہ تاریخ کے کوڑے دان کا مقام حاصل کرے گا۔ کیا آج تک پاکستان میں کسی کمیشن کی رپورٹ کا کوئی نتیجہ نکل سکا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جاگیرداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جن کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔ ان کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوکل باڈیز کے انتخاب میں مسلسل ایک رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کا فوارہ لوکل گورننس سے پھوٹتا ہے اس کے بغیر جمہوریت بے معنی ہے۔
موجودہ جمہوری نظام سے جو خرابیاں وابستہ ہیں ان کو دور کیا جانا ہی غربت اور امتیازی سلوک کے مارے ملک کے عوام کے لیے سب سے عظیم تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جاگیرداری نظام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو کیا ایسا موقع آگیا ہے کہ جب پاکستان میں جمہوریت اور جاگیردارانہ نظام کو الگ الگ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے مخصوص ہدف سے انحراف کریں گے تو تاریخ میں ہمیں بدقسمت گردانا جائے گا۔ آپ ان سے انصاف کی کبھی توقع نہیں رکھ سکتے جنہوں نے کہ آپ پر نا انصافی طاری کر رکھی ہے۔ ہمارا یہ آئینی فرض نہیں ہے کہ ہم ایوان میں اور ایوان کے باہر دروغ گوئی کر سکیں۔ جمہوریت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی جانی چاہیے۔
وزیراعظم نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ انھوں نے آرمی سے کسی مصالحت کے لیے کہا ہے اور ایوان کو یقین دلایا کہ وہ آئین پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عملدرآمد کریں گے۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن اصولوں کو ہر گز قربان نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر بھی انھی کے جذبات کی عکاسی کر رہی تھی۔ ''آخر کوئی مجھ سے یہ توقع کس طرح کر سکتا ہے کہ میں یوٹرن لے لوں گا جس نے کہ جمہوریت کی خاطر گرفتاری اور جلا وطنی برداشت کی ہے۔''
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انھیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی موجودگی میں ٹیلی فون پر یہ اطلاع دی گئی کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے لیڈرز جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی درخواست کر رہے ہیں تو میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اگر وہ آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ بے شک ملاقات کر سکتے ہیں۔ فوج کو مصالحتی کردار ادا کرنے کا ہرگز نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی انھیں کسی کو ایسا کہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن دوسری طرف آئی ایس پی آر کے بیان میں میاں نواز شریف کے بیان کی تردید کی گئی ہے۔ دونوں دھرنوں کے لیڈروں نے بھی بڑی شد و مد سے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے آرمی سے اس جمود کو توڑنے کی درخواست کی تھی اور یہ الزام بھی لگایا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں دروغ بیانی کرتے رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کے ٹوئیٹر کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کو حکومت کی طرف سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ رابطہ کار کا کردار ادا کریں تا کہ موجودہ سیاسی بحران حل ہو سکے۔ رائیونڈ میں گزشتہ روز ہونے والی ملاقات اس کا ثبوت ہے۔ مولانا طاہر القادری نے کہا کہ بحران کو حل کرنے کی درخواست وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی۔
میاں نواز شریف کی ساکھ کے خلاف برسرعام یہ بات کہے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں دروغ بیانی کی تھی۔ اس بات کا اعلان کہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف میں سے کس نے کیا کہا سپریم کورٹ نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی پوزیشن کو سامنے رکھ لیا ہے۔ بظاہر حقائق واضح ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے انصاف کیا راستہ اختیار کرے گا۔
میاں نواز شریف پرائم ٹائم ٹیلی ویژن پر جیو جیو کہہ رہے تھے تا کہ وفاقی وزیر داخلہ بھی یہی الفاظ ادا کریں۔ لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایسا کہنا درست نہیں تھا۔ ان کی سرگوشی لاکھوں لوگوں نے سنی اور دیکھی جس سے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ریمارکس طشت ازبام ہو گئے جو کہ انھوں نے میڈیا کے سامنے آئی ایس آئی کو ہدف بناتے ہوئے کہے تھے ''اب آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم کس کی طرف ہیں'' یہ الفاظ انھوں نے وزیر اعظم کی حامد میر سے ملاقات کے موقع پر ان کے بستر کے پاس کہے۔
اس کے بعد جمہوریت پسندوں کی طرف سے اسکرپٹ رائٹنگ کے الزامات ایوان کے اندر اور باہر دہرائے گئے اس معاملے میں ٹی وی کے بعض اینکرز پیش پیش تھے چنانچہ فوج کو بار بار یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ کسی کی طرف داری نہیں کر رہے۔ 1938ء میں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا تھا جب یہ ثابت ہوا تھا کہ کسی کی تشفی کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کرنا بالعموم غیر پیداواری نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ کیا یہ جاننے کے لیے شرلاک ہومز جیسے کسی ماہر سراغ رساں کی ضرورت ہو گی کہ اس طرح کی گمراہ کن خبر کسی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی طرف سے جاری کی گئی ہے جس نے کہ حساس ادارے میں تقسیم کی بے بنیاد بات کی اور کابینہ کے ایک مخصوص وزیر اس سے غیر آگاہ رہے۔
اس طرح کی ساتھ ساتھ چلنے والی باتیں اصل میں پاکستانی عوام کی توجہ بٹانے کے لیے کی جاتی ہیں کہ وہ حالات میں کس قسم کی تبدیلی کے خواہاں ہیں (اور اس کے حقدار بھی ہیں)۔ عمران خان کو اپنی ترجیحات درست رکھنی چاہئیں کیونکہ انتخابات سے ان کی جماعت کماحقہ استفادہ نہیں کر سکی لہٰذا وہ اب اپنی حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں تا کہ لوگوں کی قسمت میں تبدیلی پیدا ہو سکے۔ انھوں نے انتخابی نظام کو درست کرنے کو اپنا اولین مقصد قرار دیا ہے۔ لہٰذا حکمت عملی تیار کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کا پہلا اصول ہدف کا انتخاب اور اس کو قائم رکھنا ہے۔
2013ء کے انتخابات کے جائزے کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ ان کے اصل ہدف سے انحراف کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ لامحالہ تاریخ کے کوڑے دان کا مقام حاصل کرے گا۔ کیا آج تک پاکستان میں کسی کمیشن کی رپورٹ کا کوئی نتیجہ نکل سکا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جاگیرداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جن کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔ ان کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوکل باڈیز کے انتخاب میں مسلسل ایک رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کا فوارہ لوکل گورننس سے پھوٹتا ہے اس کے بغیر جمہوریت بے معنی ہے۔
موجودہ جمہوری نظام سے جو خرابیاں وابستہ ہیں ان کو دور کیا جانا ہی غربت اور امتیازی سلوک کے مارے ملک کے عوام کے لیے سب سے عظیم تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جاگیرداری نظام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو کیا ایسا موقع آگیا ہے کہ جب پاکستان میں جمہوریت اور جاگیردارانہ نظام کو الگ الگ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے مخصوص ہدف سے انحراف کریں گے تو تاریخ میں ہمیں بدقسمت گردانا جائے گا۔ آپ ان سے انصاف کی کبھی توقع نہیں رکھ سکتے جنہوں نے کہ آپ پر نا انصافی طاری کر رکھی ہے۔ ہمارا یہ آئینی فرض نہیں ہے کہ ہم ایوان میں اور ایوان کے باہر دروغ گوئی کر سکیں۔ جمہوریت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی جانی چاہیے۔