بلوچستان کے مقتول صحافی
اس کی صلاحیت کے اعتراف میں ابھی ایک سینئر صحافی یوں رطب اللسان تھے ۔۔۔
''میں تمھیں چھوڑ سکتا ہوں، اپنا کام نہیں!'' کوئٹہ کے جواں مرگ صحافی نے بھلے کس سنگ دلی کے ساتھ اپنی جواں جیون ساتھی سے یہ بات کہی ہو، مگر دل پہ ہاتھ رکھ کے کہیے ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو آج اپنے کام کے ساتھ اس قدر کمٹمنٹ رکھتے ہوں۔ یہ اس کی اپنے کام سے جنون کی حد تک وابستگی ہی تھی کہ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ ہونے کے باوجود وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے اس پیشے کے ساتھ گزارتا، اور اس کے باوجود اپنے ایک دَہائی کے اس آبلہ پائی کے سفر کا حاصل یہ تھا کہ وہ اب بھی کرائے کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھا، اور گھریلو اخراجات کی چادر اتنی چھوٹی پڑ گئی تھی کہ سفید پوشی کے پاؤں ڈھانپنے کے لیے اسے دو، دو جگہ نوکری کرنا پڑتی... رسائل میں فری لانس لکھنا اس کے علاوہ تھا۔
اس کی صلاحیت کے اعتراف میں ابھی ایک سینئر صحافی یوں رطب اللسان تھے '' ایک گورنمنٹ آفیشل نے مجھے فون کر کے پوچھا کہ بلوچستان میں مارے جانے والے صحافیوں کی فہرست کہاں سے مل سکے گی؟ میں نے اس سے کہا کہ یہ فہرست صرف ایک جگہ اور ایک شخص سے ہی مل سکتی ہے، میں اس سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہوں، اور میں نے جب اس سے فہرست بھیجنے کو کہا تو اس نے کہا سر دس منٹ دے دیں میں آپ کو اپ ڈیٹ کر کے ابھی میل کرتا ہوں... اور اگلے دس منٹ میں 37 شہید صحافیوں کی یہ فہرست میرے ای میل پہ موجود تھی'' اور پھر اگلے چوبیس گھنٹوں میں اس کا اپنا نام، دو ساتھیوں سمیت اس میں شامل ہو کر اس فہرست کو چالیس کے ہندسے تک پہنچا چکا تھا۔
تو یہ ارشاد مستوئی تھا، جس کی کم عمری کی صلاحیتوں کے سبھی معترف تھے۔ محض پینتیس برس کی عمر میں بلوچستان کی صحافت میں جو مقام اس نے پیدا کیا تھا، اس کے باوصف ہم عصر ہی نہیں، کئی سینئرز بھی اس پہ رشک کرتے تھے۔ اسے نظر بد سے بچنے کی دعائیں دیتے تھے۔ مگر ان کی دعاؤں کو ہی نظر لگ گئی۔ ردِ بلا کی کوئی دعا کارگر ثابت نہ ہوئی، کہ بندوق کو ٹی بی نہیں ہوتی، گولی کو دیمک نہیں لگتی۔ 28 اگست کی شام وہ اپنے آفس میں معمول کی خبروں میں مگن تھا، کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں اس کا سفر تمام کر دیا گیا، اس کے خواب دفنا دیے گئے، اس کی آواز خاموش کر دی گئی۔ مگر کیا واقعی اس کی آواز خاموش ہو گئی؟ اس کے خواب دفن ہو گئے؟ اس کا سفر تمام ہو گیا؟ ... خواب بھی بھلا کبھی گولیوں سے مرے ہیں؟
ارشاد اگر اپنے ہم عصروں سے ممتاز تھا، تو محض اس لیے نہیں کہ وہ ایک اچھا صحافی تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ 'جانب دار' صحافی تھا۔ خبر کی حد تک وہ ضرور پروفیشنل تھا، لیکن اس کے علاوہ وہ ایک مکمل باشعور فرد تھا۔ ایک واضح نکتہ نظر رکھتا تھا اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا تھا۔ وہ جو عہد جوانی میں عشق کی چوٹ کھایا ہوا، سماجی نابرابری پہ تلملایا ہوا ایک 'بے بحر' و بے کراں شاعر بھی تھا۔ وہ جو سیاسی معاملات میں جمہوریت، روشن خیالی اور ترقی پسندی کی حمایت میں کھل کر لکھنے والا تبصرہ نگار بھی تھا۔ ادب ہو، سیاست ہو کہ صحافت، وہ سب کو سماجی انصاف کے حصول کے ذرایع سمجھتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان سب کے 'مناسب' استعمال پہ یقین رکھتا تھا۔ بائیں بازو کے نظریات اسے گھٹی میں پڑے ہوئے ملے تھے، لیکن ظلم یہ ہوا کہ اس کے سنِ شعور تک پہنچتے پہنچتے بائیں بازو کی سبھی تحریکیں دم توڑ چکی تھیں۔
سجدے آوارہ ہو چکے تھے۔ کسی منظم تحریک کی باضابطہ تربیت کے بغیر محض نظریات سے وابستگی، وہ خاردار شجر ثابت ہوتی ہے، جسے آپ خونِ جگر سے سینچتے رہیں، یہ بارآور نہیں ہوتا۔ لیکن جس شجر کو آپ نے خونِ جگر سے سینچا ہو، Thron Bird کی طرح آپ اس کے کانٹوں کو گلے سے لگا کر گیت گاتے ہوئے موت تو قبول کر لیتے ہیں، لیکن سے اس دوری نہیں۔ ارشاد وہ Thron Bird تھا، جس نے کمٹمنٹ کے خاردار پودے کو سینے سے لگا لیا تھا۔ اس لیے ارشاد کا قاتل محض وہ نہیں جس نے اس پر گولیاں برسائیں، اس کے قتل میں وہ سب شریک ہیں جنھوں نے اسے خالی خولی نظریات کا خاردار پودا تو دے دیا، لیکن اسے تحریک کی چھاؤں سے محروم رکھا۔
حتیٰ کہ اسے اس پودے کے ساتھ 'مصلحت سازی' سے گزارا کرنا تک نہ سکھایا۔ اس کے قاتلوں میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے اسے نظریات کی تاریک راہ پہ تو دھکیل دیا لیکن تحریک کی مشعل کی روشنی سے محروم رکھا۔ اس کے قتل میں ان کا سب کا ہاتھ ہے، جو اسے ایک جھوٹ کی دیوار سے سچائی کا سر پھوڑنے کا درس دیتے رہے۔ ارشاد کے قتل کی ایف آئی آر ان کے خلاف بھی درج ہونی چاہیے جنھوں نے ایک نسل کو نظریات سے وابستگی کا درس دے کر، خود نظریے کو ترقی کی سیڑھی بنا لیا۔ ان سب کو شامل تفتیش ہونا چاہیے جو جوانوں کو جبر کے خلاف لڑنے کا درس تو دیتے ہیں، لیکن اس لڑائی میں طاقت کے دیو سے اپنے دفاع کا طریقہ نہیں بتاتے۔ ارشاد سے یہی چوک ہوئی، اس نے جبر کے خلاف ڈٹ جانا تو سیکھا لیکن اپنا دفاع کرنا بھول گیا... اور یہی بھول اس کی 'شکست' کا باعث ہوئی۔
آپ شہادت کو کتنا ہی اعلیٰ رتبہ کیوں نہ قرار دیں، لیکن سچ یہ ہے کہ جبر کے خلاف جنگ ایک طویل استقامت مانگتی ہے۔ اس لڑائی میں شامل لوگ کرائے کے ٹٹو نہیں ہوتے کہ ایک گیا تو تنخواہ پہ دوسرا رکھ لیں گے۔ برسوں لگتے ہیں کہ جب ایک نظریاتی کارکن اس جنگ کا خودکار طور پر حصہ بنتا ہے۔ اس لیے وقت سے پہلے کسی بھی ساتھی کی جدائی، اس لڑائی کو کمزور کر دیتی ہے۔ مورچہ ، اپنی طاقت اور تسلسل کھو دیتا ہے۔ اسے اپنی سانسیں اور رفتار بحال کرنے میں ایک وقت لگ جاتا ہے۔ اور یہ سب 'مخالفین' کے لیے سودمند ثابت ہوتا ہے۔
بارے کچھ بیاں اس کی برادری کا بھی ہو جائے۔ شہادت کے سفر میں ارشاد کا ساتھ دینے والے دیگر دو ساتھیوں میں سے محمد یونس، اس خبررساں ادارے میں اکاؤنٹنٹ تھے، جہاں ارشاد بیورو چیف تھا، جب کہ دوسرا نوجوان عبدالرسول بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کا طالب علم تھا، اور یہاں زیر تربیت (ٹرینی) رپورٹر تھا۔ ارشاد چونکہ بیک وقت دو اداروں میں ملازمت کرتا تھا، اس لیے صحافت کے 'معیاری' اصولوں پہ پورا نہیں اترتا تھا۔ اکاؤنٹنٹ محمد یونس سرکاری ملازم بھی تھے، اس لیے وہ تو صحافت کے دائرے سے ہی خارج ہو جاتے ہیں، اور عبدالرسول ٹرینی رپورٹر ہونے کے باعث 'باقاعدہ صحافی' نہیں کہلا سکتا، نتیجتاً ملکی میڈیا پہ بلوچستان کے ان تین مقتول صحافیوں کا تذکرہ برائے نام ہی رہا۔ رہی سہی کسر ان دنوں میں ٹی وی اسکرینوں پہ چھائے رنگین دھرنوں نے پوری کر دی۔
یوں حسبِ سابق، بلوچستان کے مقتول صحافیوں کا قتل رزق خاک ہوا... مدعی نہ منصف، حساب پاک ہوا۔ ان صحافیوں کا حقیقی مقدمہ اگر کسی نے لڑا، تو انھی کی برادری کے احباب تھے۔ بلوچستان کی صحافی برادری نے اس معاملے میں اپنا آپ منوایا۔ جس قدر ممکن تھا، اپنی آواز بلند کی اور اپنے ساتھیوں کو تسلسل کے ساتھ یاد رکھا۔ ریلیوں، مظاہروں، ہڑتالوں اور تعزیتوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ گو کہ کوئٹہ پریس کلب کے تعزیتی ریفرنس میں یہ دہائی بھی سنی گئی کہ اگر بلوچستان میں قتل ہونے والے اولین صحافی کے قتل کے خلاف صحافی متحد ہو جاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یہ خیال تو اچھا ہے، لیکن اسے دوستوں کا حسنِ ظن ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض صحافیو ں کا اتحاد انھیں طاقت ور قوتوں کے عتاب سے بچا سکتا ہے، تو اسے معصومیت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چالیس صحافیوں کے قتل کے بعد اگر اب بھی آپ متحد ہو جاتے ہیں تو آیندہ کوئی صحافی قتل نہیں ہو گا، تو یہ بھی محض خوش فہمی ہی ہو گی۔ پاکستان میں 'نادیدہ قوتوں' کی طاقت سے بھلا کون ذی شعور واقف نہیں۔ وہ جب بھی، جسے اپنی راہ میں 'رکاوٹ' سمجھیں گی، اسے بلاتامل راہ سے ہٹا دیں گی۔ انفرادی سطح کا کوئی بھی اتحاد ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ماسوائے وسیع پیمانے پر عوامی طبقات کا ہر سطح پر اتفاق۔ وہ اتحاد جو خالص عوامی ہو، نہ کہ عوام کے نام پر چند 'خواص' کے مفادات کے تحفظ کے لیے۔ وہ اتحاد جو کہ لاطبقاتی ہو، نہ کہ محض کسی مخصوص طبقے کی نگہبانی کے لیے۔ ارشاد اور اس کے ساتھیوں کا قتل اگر ایسے کسی اتحاد کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے، تو ان کے لہو کا خراج کسی طور ضایع نہیں۔
اس کی صلاحیت کے اعتراف میں ابھی ایک سینئر صحافی یوں رطب اللسان تھے '' ایک گورنمنٹ آفیشل نے مجھے فون کر کے پوچھا کہ بلوچستان میں مارے جانے والے صحافیوں کی فہرست کہاں سے مل سکے گی؟ میں نے اس سے کہا کہ یہ فہرست صرف ایک جگہ اور ایک شخص سے ہی مل سکتی ہے، میں اس سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہوں، اور میں نے جب اس سے فہرست بھیجنے کو کہا تو اس نے کہا سر دس منٹ دے دیں میں آپ کو اپ ڈیٹ کر کے ابھی میل کرتا ہوں... اور اگلے دس منٹ میں 37 شہید صحافیوں کی یہ فہرست میرے ای میل پہ موجود تھی'' اور پھر اگلے چوبیس گھنٹوں میں اس کا اپنا نام، دو ساتھیوں سمیت اس میں شامل ہو کر اس فہرست کو چالیس کے ہندسے تک پہنچا چکا تھا۔
تو یہ ارشاد مستوئی تھا، جس کی کم عمری کی صلاحیتوں کے سبھی معترف تھے۔ محض پینتیس برس کی عمر میں بلوچستان کی صحافت میں جو مقام اس نے پیدا کیا تھا، اس کے باوصف ہم عصر ہی نہیں، کئی سینئرز بھی اس پہ رشک کرتے تھے۔ اسے نظر بد سے بچنے کی دعائیں دیتے تھے۔ مگر ان کی دعاؤں کو ہی نظر لگ گئی۔ ردِ بلا کی کوئی دعا کارگر ثابت نہ ہوئی، کہ بندوق کو ٹی بی نہیں ہوتی، گولی کو دیمک نہیں لگتی۔ 28 اگست کی شام وہ اپنے آفس میں معمول کی خبروں میں مگن تھا، کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں اس کا سفر تمام کر دیا گیا، اس کے خواب دفنا دیے گئے، اس کی آواز خاموش کر دی گئی۔ مگر کیا واقعی اس کی آواز خاموش ہو گئی؟ اس کے خواب دفن ہو گئے؟ اس کا سفر تمام ہو گیا؟ ... خواب بھی بھلا کبھی گولیوں سے مرے ہیں؟
ارشاد اگر اپنے ہم عصروں سے ممتاز تھا، تو محض اس لیے نہیں کہ وہ ایک اچھا صحافی تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ 'جانب دار' صحافی تھا۔ خبر کی حد تک وہ ضرور پروفیشنل تھا، لیکن اس کے علاوہ وہ ایک مکمل باشعور فرد تھا۔ ایک واضح نکتہ نظر رکھتا تھا اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا تھا۔ وہ جو عہد جوانی میں عشق کی چوٹ کھایا ہوا، سماجی نابرابری پہ تلملایا ہوا ایک 'بے بحر' و بے کراں شاعر بھی تھا۔ وہ جو سیاسی معاملات میں جمہوریت، روشن خیالی اور ترقی پسندی کی حمایت میں کھل کر لکھنے والا تبصرہ نگار بھی تھا۔ ادب ہو، سیاست ہو کہ صحافت، وہ سب کو سماجی انصاف کے حصول کے ذرایع سمجھتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان سب کے 'مناسب' استعمال پہ یقین رکھتا تھا۔ بائیں بازو کے نظریات اسے گھٹی میں پڑے ہوئے ملے تھے، لیکن ظلم یہ ہوا کہ اس کے سنِ شعور تک پہنچتے پہنچتے بائیں بازو کی سبھی تحریکیں دم توڑ چکی تھیں۔
سجدے آوارہ ہو چکے تھے۔ کسی منظم تحریک کی باضابطہ تربیت کے بغیر محض نظریات سے وابستگی، وہ خاردار شجر ثابت ہوتی ہے، جسے آپ خونِ جگر سے سینچتے رہیں، یہ بارآور نہیں ہوتا۔ لیکن جس شجر کو آپ نے خونِ جگر سے سینچا ہو، Thron Bird کی طرح آپ اس کے کانٹوں کو گلے سے لگا کر گیت گاتے ہوئے موت تو قبول کر لیتے ہیں، لیکن سے اس دوری نہیں۔ ارشاد وہ Thron Bird تھا، جس نے کمٹمنٹ کے خاردار پودے کو سینے سے لگا لیا تھا۔ اس لیے ارشاد کا قاتل محض وہ نہیں جس نے اس پر گولیاں برسائیں، اس کے قتل میں وہ سب شریک ہیں جنھوں نے اسے خالی خولی نظریات کا خاردار پودا تو دے دیا، لیکن اسے تحریک کی چھاؤں سے محروم رکھا۔
حتیٰ کہ اسے اس پودے کے ساتھ 'مصلحت سازی' سے گزارا کرنا تک نہ سکھایا۔ اس کے قاتلوں میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے اسے نظریات کی تاریک راہ پہ تو دھکیل دیا لیکن تحریک کی مشعل کی روشنی سے محروم رکھا۔ اس کے قتل میں ان کا سب کا ہاتھ ہے، جو اسے ایک جھوٹ کی دیوار سے سچائی کا سر پھوڑنے کا درس دیتے رہے۔ ارشاد کے قتل کی ایف آئی آر ان کے خلاف بھی درج ہونی چاہیے جنھوں نے ایک نسل کو نظریات سے وابستگی کا درس دے کر، خود نظریے کو ترقی کی سیڑھی بنا لیا۔ ان سب کو شامل تفتیش ہونا چاہیے جو جوانوں کو جبر کے خلاف لڑنے کا درس تو دیتے ہیں، لیکن اس لڑائی میں طاقت کے دیو سے اپنے دفاع کا طریقہ نہیں بتاتے۔ ارشاد سے یہی چوک ہوئی، اس نے جبر کے خلاف ڈٹ جانا تو سیکھا لیکن اپنا دفاع کرنا بھول گیا... اور یہی بھول اس کی 'شکست' کا باعث ہوئی۔
آپ شہادت کو کتنا ہی اعلیٰ رتبہ کیوں نہ قرار دیں، لیکن سچ یہ ہے کہ جبر کے خلاف جنگ ایک طویل استقامت مانگتی ہے۔ اس لڑائی میں شامل لوگ کرائے کے ٹٹو نہیں ہوتے کہ ایک گیا تو تنخواہ پہ دوسرا رکھ لیں گے۔ برسوں لگتے ہیں کہ جب ایک نظریاتی کارکن اس جنگ کا خودکار طور پر حصہ بنتا ہے۔ اس لیے وقت سے پہلے کسی بھی ساتھی کی جدائی، اس لڑائی کو کمزور کر دیتی ہے۔ مورچہ ، اپنی طاقت اور تسلسل کھو دیتا ہے۔ اسے اپنی سانسیں اور رفتار بحال کرنے میں ایک وقت لگ جاتا ہے۔ اور یہ سب 'مخالفین' کے لیے سودمند ثابت ہوتا ہے۔
بارے کچھ بیاں اس کی برادری کا بھی ہو جائے۔ شہادت کے سفر میں ارشاد کا ساتھ دینے والے دیگر دو ساتھیوں میں سے محمد یونس، اس خبررساں ادارے میں اکاؤنٹنٹ تھے، جہاں ارشاد بیورو چیف تھا، جب کہ دوسرا نوجوان عبدالرسول بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کا طالب علم تھا، اور یہاں زیر تربیت (ٹرینی) رپورٹر تھا۔ ارشاد چونکہ بیک وقت دو اداروں میں ملازمت کرتا تھا، اس لیے صحافت کے 'معیاری' اصولوں پہ پورا نہیں اترتا تھا۔ اکاؤنٹنٹ محمد یونس سرکاری ملازم بھی تھے، اس لیے وہ تو صحافت کے دائرے سے ہی خارج ہو جاتے ہیں، اور عبدالرسول ٹرینی رپورٹر ہونے کے باعث 'باقاعدہ صحافی' نہیں کہلا سکتا، نتیجتاً ملکی میڈیا پہ بلوچستان کے ان تین مقتول صحافیوں کا تذکرہ برائے نام ہی رہا۔ رہی سہی کسر ان دنوں میں ٹی وی اسکرینوں پہ چھائے رنگین دھرنوں نے پوری کر دی۔
یوں حسبِ سابق، بلوچستان کے مقتول صحافیوں کا قتل رزق خاک ہوا... مدعی نہ منصف، حساب پاک ہوا۔ ان صحافیوں کا حقیقی مقدمہ اگر کسی نے لڑا، تو انھی کی برادری کے احباب تھے۔ بلوچستان کی صحافی برادری نے اس معاملے میں اپنا آپ منوایا۔ جس قدر ممکن تھا، اپنی آواز بلند کی اور اپنے ساتھیوں کو تسلسل کے ساتھ یاد رکھا۔ ریلیوں، مظاہروں، ہڑتالوں اور تعزیتوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ گو کہ کوئٹہ پریس کلب کے تعزیتی ریفرنس میں یہ دہائی بھی سنی گئی کہ اگر بلوچستان میں قتل ہونے والے اولین صحافی کے قتل کے خلاف صحافی متحد ہو جاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یہ خیال تو اچھا ہے، لیکن اسے دوستوں کا حسنِ ظن ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض صحافیو ں کا اتحاد انھیں طاقت ور قوتوں کے عتاب سے بچا سکتا ہے، تو اسے معصومیت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چالیس صحافیوں کے قتل کے بعد اگر اب بھی آپ متحد ہو جاتے ہیں تو آیندہ کوئی صحافی قتل نہیں ہو گا، تو یہ بھی محض خوش فہمی ہی ہو گی۔ پاکستان میں 'نادیدہ قوتوں' کی طاقت سے بھلا کون ذی شعور واقف نہیں۔ وہ جب بھی، جسے اپنی راہ میں 'رکاوٹ' سمجھیں گی، اسے بلاتامل راہ سے ہٹا دیں گی۔ انفرادی سطح کا کوئی بھی اتحاد ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ماسوائے وسیع پیمانے پر عوامی طبقات کا ہر سطح پر اتفاق۔ وہ اتحاد جو خالص عوامی ہو، نہ کہ عوام کے نام پر چند 'خواص' کے مفادات کے تحفظ کے لیے۔ وہ اتحاد جو کہ لاطبقاتی ہو، نہ کہ محض کسی مخصوص طبقے کی نگہبانی کے لیے۔ ارشاد اور اس کے ساتھیوں کا قتل اگر ایسے کسی اتحاد کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے، تو ان کے لہو کا خراج کسی طور ضایع نہیں۔