پاکستانی تاریخ کا مشکل ترین خط
خط کے مسودے کا فیصلہ کرنے میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
ساڑھے تین چار سال سے ایک ہی قصہ چل رہا ہے۔ کلائمکس کے بعد اینٹی کلائمکس آتا ہے اور پھر لگتا ہے کہ کہانی میں ٹوسٹ آ گیا لیکن جلد ہی یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے۔
اس لیے کہ پہلے والا کلائمکس پھر آ جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ وہی اینٹی کلائمکس' پھر ٹوسٹ' پھر اینٹی کلائمکس، یوں لگتا ہے جیسے سرکس کا جھولا ہے جس میں رنگ برنگی کرسیاں لگی ہیں اور وہ ایک دائرے میں گھومے چلا جا رہا ہے۔ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ سیکڑوں کرسیاں گھوم رہی ہیں، پھر جلد ہی پتہ چل جاتا ہے کہ صرف چار پانچ کرسیاں ہیں جو بار بار سامنے آتی ہیں اور دوبارہ سامنے آنے کیلیے آگے بڑھ جاتی ہیں۔
سوئس حکومت کو خط لکھنے کا کیس ساڑھے تین چار سال سے چل رہا ہے۔ عدالت کے پاس اختیار ہے، وہ چاہے تو نہ صرف خط ڈکٹیٹ کرا سکتی ہے بلکہ آئین میں صدر کے استثنیٰ کی شق بھی خارج کر سکتی ہے لیکن وہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنا رہی۔ اس سارے معاملے میں دو میں سے ایک بات سچ ہے یا تو صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یا پھر نہیں ہے۔
اگر ہے تو عدالت اس کا اقرار کرے، خط لکھوانے کا اصرار خود بخود ختم ہو جائے گا اور اگر نہیں ہے تو عدالت کو یہ مسئلہ بھی فوراً ہی حل کر دینا چاہیے تھا لیکن وہ استثنیٰ ختم ہونے کا فیصلہ دینا تو کجا اس کا ذکر بھی نہیں کرتی۔ فیصلہ کرنے سے گریز کا نتیجہ یہ ہے کہ اب گیند ''کھدو'' بن گیا ہے۔کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ''کھدو'' پرزے پرزے ہو جائیگا اور گول کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
تازہ صورت حال ہی کو لے لیجئے۔ حکومت نے آخر کار مان لیاکہ وہ سوئس حکام کو خط لکھے گی۔ اس نے مقررہ تاریخ میں خط لکھا اور حکم کے مطابق مسودہ عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ عدالت نے اس پر اعتراض لگایا اور کہا کہ نیا مسودہ لائو۔ حکومت نے دوسرے روز نیا مسودہ پیش کیا۔ عدالت نے وہ بھی مسترد کر دیا۔ اب نیا اور حتمی مسودہ پیش کرنے کے لیے 5 اکتوبر کی تاریخ دی گئی ہے۔
جب حکومت نے خط لکھنے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا تو اس وقت یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ عدالت مسودے میں اپنی مرضی سے ترمیم اور اضافہ کر سکے گی۔ اس حکومتی مسودے میں اعتراض لگا کر حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ خط کا متن پھر سے لکھے۔ عدالت نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت اس میں کیا اضافہ کرے یا کیا ردوبدل کرے' اگلا مسودہ بھی مسترد ہو گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں کہاں کیا ترمیم اور اضافہ کیا جائے۔
دو صفحات کے خط میں اصلاح عالی دماغوں اور حکم سے تقدیریں بدلنے والوں کیلیے اتنی مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر اسے گفتگو سے حل کر سکتے ہیں نہ حکم سے ترمیم یا اصلاح کراکے معاملہ نبٹا سکتے ہیں۔ 5 اکتوبر کو پیش کیا جانے والا مسودہ بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ 5 اکتوبر کی ڈیڈ لائن پر بھی خط من و عن عدلیہ کی مرضی کے مطابق نہ ہوا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو جائے ،ایک اور آخری مہلت ملنے کا امکان بہت کم ہے۔اس ایک اور کا مطلب یہ ہوگا کہ جھولے کا نیا چکر شروع ہوجائے۔
لیکن اگر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو پرانا کھیل دوبارہ کھیلا جائے گا۔ ایک اور آخری مہلت دینے کا مطلب ایک نیا مسودہ بنایا جائے گا۔ نئے مسودے کو پھر سے مسترد کر کے توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو پیشی، فرد جرم' وکلا کے دلائل، جرح اور پھر فیصلے کی کہانی نئے سرے سے دہرائی جائے گی۔ خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں مزید کئی ہفتے اور لگیں گے۔
جہاں ساڑھے تین سال لگ گئے وہاں کچھ ہفتے اور سہی۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا تنازعہ تو طے ہو گا۔ قوم طویل عرصے سے بس سولی پر لٹکی ہوئی ہے' دم نہیں نکلا' دو چار ہفتے اور لٹکی رہے گی تو بھی دم اسی طرح اٹکا رہے گا۔ چار سال کی اس کشمکش میں معاشی سرگرمیوں کو جو بریک لگی، اس کا حساب لگانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ سارا نقصان صرف عوام کا ہوا۔
حکومت کو کچھ گھاٹا ہوا نہ دوسرے اداروں کو اور عوام کا کوئی کھاتہ ہے نہ عوام کسی کھاتے میں آتے ہیں، اس لیے نیٹ رزلٹ یہی نکلے گا کہ کسی کھاتے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ بیلنس شیٹ تھوڑا بہت منافع دکھا رہی ہو۔ خسارہ نہیں۔ خط کے مسودے کا فیصلہ کرنے میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سماعت اور التوا کا یہ سلسلہ ٹی 20 ورلڈ کپ سے زیادہ دلچسپ ہے، وہ اس لیے کہ سولی پر لٹکے رہنا ایسی اذیت ہے جس میں مزہ بھی ہے اور جسے نشاط کرب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس نشاط کی مہلت جلد ختم ہو گئی تو سولی پر لٹکی قوم بے مزہ ہو جائے گی جو اس نوعیت کی لذتوں کا عادی ہو چکی ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ یہ التجا شرف قبولیت سے محروم نہیں رہے گی اور ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں' عالی دماغوں اور حکم سے تقدیریں لکھنے والوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہو گی کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر بحث و مباحثہ کر کے دو صفحے کے ایک خط کا متفقہ مسودہ تیار نہیں کر سکے۔ معاملے کا تعلق براہ راست سپریم کورٹ سے ہے ورنہ یہ تجویز بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ مجوزہ خط لکھنے کیلیے اقوام متحدہ سے مدد مانگ لی جائے۔
اس لیے کہ پہلے والا کلائمکس پھر آ جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ وہی اینٹی کلائمکس' پھر ٹوسٹ' پھر اینٹی کلائمکس، یوں لگتا ہے جیسے سرکس کا جھولا ہے جس میں رنگ برنگی کرسیاں لگی ہیں اور وہ ایک دائرے میں گھومے چلا جا رہا ہے۔ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ سیکڑوں کرسیاں گھوم رہی ہیں، پھر جلد ہی پتہ چل جاتا ہے کہ صرف چار پانچ کرسیاں ہیں جو بار بار سامنے آتی ہیں اور دوبارہ سامنے آنے کیلیے آگے بڑھ جاتی ہیں۔
سوئس حکومت کو خط لکھنے کا کیس ساڑھے تین چار سال سے چل رہا ہے۔ عدالت کے پاس اختیار ہے، وہ چاہے تو نہ صرف خط ڈکٹیٹ کرا سکتی ہے بلکہ آئین میں صدر کے استثنیٰ کی شق بھی خارج کر سکتی ہے لیکن وہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنا رہی۔ اس سارے معاملے میں دو میں سے ایک بات سچ ہے یا تو صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یا پھر نہیں ہے۔
اگر ہے تو عدالت اس کا اقرار کرے، خط لکھوانے کا اصرار خود بخود ختم ہو جائے گا اور اگر نہیں ہے تو عدالت کو یہ مسئلہ بھی فوراً ہی حل کر دینا چاہیے تھا لیکن وہ استثنیٰ ختم ہونے کا فیصلہ دینا تو کجا اس کا ذکر بھی نہیں کرتی۔ فیصلہ کرنے سے گریز کا نتیجہ یہ ہے کہ اب گیند ''کھدو'' بن گیا ہے۔کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ''کھدو'' پرزے پرزے ہو جائیگا اور گول کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
تازہ صورت حال ہی کو لے لیجئے۔ حکومت نے آخر کار مان لیاکہ وہ سوئس حکام کو خط لکھے گی۔ اس نے مقررہ تاریخ میں خط لکھا اور حکم کے مطابق مسودہ عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ عدالت نے اس پر اعتراض لگایا اور کہا کہ نیا مسودہ لائو۔ حکومت نے دوسرے روز نیا مسودہ پیش کیا۔ عدالت نے وہ بھی مسترد کر دیا۔ اب نیا اور حتمی مسودہ پیش کرنے کے لیے 5 اکتوبر کی تاریخ دی گئی ہے۔
جب حکومت نے خط لکھنے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا تو اس وقت یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ عدالت مسودے میں اپنی مرضی سے ترمیم اور اضافہ کر سکے گی۔ اس حکومتی مسودے میں اعتراض لگا کر حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ خط کا متن پھر سے لکھے۔ عدالت نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت اس میں کیا اضافہ کرے یا کیا ردوبدل کرے' اگلا مسودہ بھی مسترد ہو گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں کہاں کیا ترمیم اور اضافہ کیا جائے۔
دو صفحات کے خط میں اصلاح عالی دماغوں اور حکم سے تقدیریں بدلنے والوں کیلیے اتنی مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر اسے گفتگو سے حل کر سکتے ہیں نہ حکم سے ترمیم یا اصلاح کراکے معاملہ نبٹا سکتے ہیں۔ 5 اکتوبر کو پیش کیا جانے والا مسودہ بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ 5 اکتوبر کی ڈیڈ لائن پر بھی خط من و عن عدلیہ کی مرضی کے مطابق نہ ہوا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو جائے ،ایک اور آخری مہلت ملنے کا امکان بہت کم ہے۔اس ایک اور کا مطلب یہ ہوگا کہ جھولے کا نیا چکر شروع ہوجائے۔
لیکن اگر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو پرانا کھیل دوبارہ کھیلا جائے گا۔ ایک اور آخری مہلت دینے کا مطلب ایک نیا مسودہ بنایا جائے گا۔ نئے مسودے کو پھر سے مسترد کر کے توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو پیشی، فرد جرم' وکلا کے دلائل، جرح اور پھر فیصلے کی کہانی نئے سرے سے دہرائی جائے گی۔ خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں مزید کئی ہفتے اور لگیں گے۔
جہاں ساڑھے تین سال لگ گئے وہاں کچھ ہفتے اور سہی۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا تنازعہ تو طے ہو گا۔ قوم طویل عرصے سے بس سولی پر لٹکی ہوئی ہے' دم نہیں نکلا' دو چار ہفتے اور لٹکی رہے گی تو بھی دم اسی طرح اٹکا رہے گا۔ چار سال کی اس کشمکش میں معاشی سرگرمیوں کو جو بریک لگی، اس کا حساب لگانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ سارا نقصان صرف عوام کا ہوا۔
حکومت کو کچھ گھاٹا ہوا نہ دوسرے اداروں کو اور عوام کا کوئی کھاتہ ہے نہ عوام کسی کھاتے میں آتے ہیں، اس لیے نیٹ رزلٹ یہی نکلے گا کہ کسی کھاتے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ بیلنس شیٹ تھوڑا بہت منافع دکھا رہی ہو۔ خسارہ نہیں۔ خط کے مسودے کا فیصلہ کرنے میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سماعت اور التوا کا یہ سلسلہ ٹی 20 ورلڈ کپ سے زیادہ دلچسپ ہے، وہ اس لیے کہ سولی پر لٹکے رہنا ایسی اذیت ہے جس میں مزہ بھی ہے اور جسے نشاط کرب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس نشاط کی مہلت جلد ختم ہو گئی تو سولی پر لٹکی قوم بے مزہ ہو جائے گی جو اس نوعیت کی لذتوں کا عادی ہو چکی ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ یہ التجا شرف قبولیت سے محروم نہیں رہے گی اور ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں' عالی دماغوں اور حکم سے تقدیریں لکھنے والوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہو گی کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر بحث و مباحثہ کر کے دو صفحے کے ایک خط کا متفقہ مسودہ تیار نہیں کر سکے۔ معاملے کا تعلق براہ راست سپریم کورٹ سے ہے ورنہ یہ تجویز بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ مجوزہ خط لکھنے کیلیے اقوام متحدہ سے مدد مانگ لی جائے۔